کورش اعظم کی بیٹی آتوسا چھٹی صدی قبلِ مسیح میں فارس کی ملکہ تھیں، جن کو چھاتی کا کینسر ہوا تھا۔ انہیں ایک فرضی ٹائم مشین میں بٹھا کر وقت کا سفر کرواتے ہیں، جس میں ان کی بیماری ویسی ہی رہے۔
سب سے پہلا سٹاپ قدیم مصر میں امہوٹپ کا مطب۔ 2500 قبلِ مسیح میں۔ امہوٹپ کے پاس ان کی بیماری کا نام تو تھا اور اس کے لئے قدیم مصری زبان میں ایک علامت بھی تھی، جس کا تلفظ ہمیں معلوم نہیں۔ امہوٹپ ان کی بیماری کی تشخیص کر لیتے اور بتا دیتے کہ اس کا کوئی علاج نہیں۔
اب آتوسا کے اپنے وقت میں۔ یہاں پر انہوں نے خود تجویز کیا تھا کہ متاثرہ حصے کو کاٹ دیا جائے اور یونانی غلام نے ان پر یہ کام کیا تھا۔ یہ سب سے پرانی میسکٹومی تھی۔
اگر اس وقت سے دو سو سال آگے چلے جائیں تو بقراط ملیں گے۔ وہ اس ٹیومر کو دیکھ کر کارکیونوس کہیں گے۔ کارکینوس یونانی دیومالائی کہانیوں کا عظیم کیکڑا تھا۔ بقراط کے دئے ہوئے اس نام کی وجہ سے اس کو کینسر کہا جاتا ہے۔
اب اگلا پڑاوٗ میں ہم 168 میں ہے، جہاں پر جالینوس پائے جاتے ہیں۔ وہ اس کی ایک یونیورسل وجہ بتا رہے ہیں کہ جسم میں سیاہ سیال زیادہ ہونا ہے۔ اس سیاہ بائل کے مالیخولیا کی وجہ سے یہ ٹیومر ابل پڑا ہےے۔
اگلے ہزار سال کے سفر میں آتوسا کا یہ سیاہ سیال نکالنے کے طریقوں کے تجربے کئے جاتے رہے۔ قرونِ وسطیٰ میں سرجن اس بیماری کے بارے میں تو نہیں جانتے تھے لیکن چاقو اور اوزاروں سے کوشش کرتے رہے۔ اس کے علاوہ کچھ نے مینڈک کا خون تجویز کیا، کچھ نے سیسے کی پلیٹیں، کسی نے بکری کی مینگنیاں، کہیں مقدس پانی، کبھی کیکڑے کا پیسٹ اور کہیں کاسٹک کیمیکل۔ کسی نے اثر نہیں کیا۔
اب آتوسا 1778 میں لندن میں جان ہنٹر کے مطب میں داخل ہوئی ہیں۔ یہاں پر کینسر کے ساتھ سٹیج کی شناخت کی گئی۔ ابتدائی اور لوکل ہے یا پھر ایڈوانس ہو چکا ہے اور پھیل چکا ہے۔ اگر یہ پہلی طرح کا ہے تو ہنٹر نے کاٹ دینے کو کہا اور اگر دوسری طرح کا تو ہمدردی کا اظہار کیا۔
آتوسا انیسویں صدی میں آ گئیں۔ یہاں پر سرجری کی نئی دنیا ہے۔ بالٹی مور میں 1890 میں ہالسٹیڈ کے کلینک میں اگر علاج کروائیں تو ریڈیکل میسکٹومی کی جائے گی۔ جس میں نہ صرف ٹیومر بلکہ چھاتی کے اندر تک کے مسلز اور بغل اور ہنسلی کی ہڈی کے نیچے سے لمف نوڈ بھی نکال دئے جائیں گے۔
بیسویں صدی کی ابتدا میں ریڈی ایشن اونکولوجی سے ان کے ٹیومر کو ایکسریز کی مدد سے جلانے کی کوشش کی جائے گی۔
اب 1950 کی دہائی ہے۔ یہاں پر اگلی نسل کے سرجن ان دونوں علاجوں کو ملا کر آتوسا کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ ٹیومر کو سرجری سے نکال کر ریڈی ایشن سے علاج کریں گے۔
آتوسا اس سے بھی بیس سال آگے آ گئیں۔ 1970 کی دہائی میں طریقہ بدل گیا ہے۔ آپریشن کے بعد کیمیوتھراپی ہو گی۔ اس کے لئے ٹیومر کا تجزیہ کیا جائے گا کہ یہ ایسٹروجن سے مثبت ری ایکٹ کرتا ہے یا نہیں۔ اگر اس نے کیا تو اینٹی ایسٹروجن دوائی، ٹیموکسیفین بھی کیمیوتھراپی کے ساتھ دی جائے گی۔
جب وہ 1986 میں پہنچیں تو معلوم ہوا کہ ان کا ٹیومر ایچ ای آر ٹو ایمپلیفائیڈ تھا۔ اس وجہ سے سرجری، ریڈی ایشن تھراپی، کیمیوتھراپی اور ٹیموکسیفین کے ساتھ ٹارگٹ تھراپی ہرسپٹن کے ساتھ ہو گی۔
سرجری، کیمیوتھراپی، ریڈی ایشن، ہارمون تھراپی اور ٹارگٹڈ تھراپی کی مدد سے 500 قبلِ مسیح سے 1989 تک ان پر کیا فرق پڑا؟ اس کا ٹھیک حساب لگانا تو مشکل ہے لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے زندگی کے سالوں میں سترہ سے تیس سال کا فرق پڑ سکتا ہے۔ جب ان کو کینسر ہوا تھا تو ان کی عمر چالیس برس تھی۔ وہ ساٹھویں سالگرہ منانے کی توقع رکھ سکتی ہیں۔
اس سے آگے 1995 کے قریب ایک نیا موڑ آتا ہے۔ ان کے عارضے کا جلد پتا لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے جینوم کو سیکوئنس کر کے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی میوٹیشن کونسی جین میں ہے۔ بی آر سی آے ون اور بی آر سی آے ٹو میں میوٹیشن کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ان کی جو چھاتی ٹھیک ہے، اس کی سکریننگ کی جا سکتی ہے اور ساتھ ان کی بیٹیوں کی بھی۔ کہ ان میں تو یہ میوٹیشن نہیں پائی جاتی اور اگر ہے تو ان کی سکریننگ بھی کی جا سکتی ہے اور بچنے کی تجاویز دی جا سکتی ہیں۔
لیکن آتوسا کے لئے یہ کافی نہیں، وہ اس سے آگے جانا چاہتی ہیں اور 2050 میں پہنچ جاتی ہیں۔ اونکولوجسٹ کے کلینک میں ایک فلیش ڈرائیو لے کر جاتی ہیں جس میں کینسر جینوم کا سیکوئنس ہے، جس میں ہر جین کی ہر میوٹیشن ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس سے اہم پاتھ وے شناخت کئے گئے ہیں۔ ایک الگورتھم جو ان کے تجزیے سے اس کے بڑھنے کے پیٹرن اور سروائیول کے طریقے معلوم کر دیتا ہے۔ تا کہ سرجری کے بعد ان کو نشانہ بنایا جائے۔ ڈرگز ٹارگٹ کی گئی ہوں۔ پہلے ایک کمبی نیشن ہو، کینسر کی شکل بدلنے کے بعد ایک اور، شکل بدلنے کے بعد ایک اور۔ ہاں، تمام عمر کسی نے کسی شکل میں میڈیسن ضرور رہے گی۔ اس کو روکنے کے لئے، ٹھیک کرنے کے لئے یا پھر تکلیف رفع کرنے کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب پراگریس ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ آتوسا کی کہانی ہماری آنکھوں کو چکاچوند کرے، یہ سب ایک پرسپکٹو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان کو لبلبے کا میٹاسٹیٹک کینسر ہوتا تو اڑھائی ہزار سال کے بعد بھی زندگی میں چند ماہ سے زیادہ کا اضافہ نہ ہو سکتا۔ اگر پتے کا کینسر ہوتا جس کی سرجری نہ کی جا سکتی تو بھی کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔ چھاتی کے کینسر بھی علاج کی بہتری کے لحاظ سے یکساں نہیں۔ اگر یہ ٹیومر میٹاسٹیسائز ہو چکا ہو یا ایسٹروجن ریسپٹر نیگیٹو ہو، ایچ ای آر ٹو نیگیٹو ہو اور سٹینڈرڈ کیمیوتھراپی سے ریسپانس نہ دے تو اٹھارہویں صدی میں ہنٹر کے کلینک سے بہتر نتائج نہیں ہوں گے۔
جبکہ اگر یہ کینسر خون کے سفید خلیوں کا سی ایم ایل ہو یا پھر ہاجکن ڈزیز ہو تو ان کی متوقع عمر میں تیس سے چالیس سال کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
کینسر کے بارے میں مستقبل کیسا ہو گا؟ اس کو جاننے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ ہم ابھی یہ نہیں جانتے کہ مختلف قسم کے کینسر اتنا مختلف رویہ کیوں رکھتے ہیں۔ ہمیں اس کی بائیولوجیکل وجہ کا علم نہیں کہ لبلبے اور پتے کا کینسر، سی ایم ایل یا چھاتی کے کینسر سے اتنا فرق کیوں ہے۔ اور ہمیں اس چیز کا بھی یقین ہے کہ اس کی بائیولوجیکل وجہ کا پتا لگ بھی جائے تو بھی اس کو زندگیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بیماریوں کی دنیا کا بادشاہ تو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا، کیونکہ یہ ہماری اپنی ہی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ اس کے خلاف جنگ میں فتح، اس کے چنگل سے زندگی کے برس چھین لینا ہو گی۔
یہ اس کتاب سے
The Emperor of All Maladies by Siddharta Mukherjee