زینب کا قتل، بے بس ریاست اور سماج
زینب کے قتل نے اس ریاست کے ساتھ ساتھ سماج کی اصلیت کو جس طرح بے نقاب کیا ہے، اس نے یقینا لوگوں کو اس حقیقت کے مزید قریب کردیا ہوگا کہ اگر ایک طرف یہ ریاست عالمی اور اندرونی سیاسی معاملات میں خودمختار فیصلے کرنے کی حتمی طاقت نہیں رکھتی تو اسی کے ساتھ اس ریاست کے پاس قاتلوں اور مجرموں کو اپنی گرفت میں لینے کی طاقت بھی ماند پڑتی جا رہی ہے۔ زینب کا قاتل اس سے پہلے اسی طرح آٹھ بچیوں کے ساتھ بربریت اور ان کا قتل کرچکا ہے۔ اس کی گرفتاری کے بعد زینب کے والد کے ہمراہ وزیراعلیٰ پنجاب کی پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ پنجاب، پنجاب پولیس اور دیگر حکومتی انتظامیہ نے جس طرح فخر اور خوشی کا اظہار کیا، اس پر حیرانی اور دکھ کے علاوہ کیا ردِعمل ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ تسلسل سے معصوم بچیوں کے قتل کے بعد جب ساتویں بچی کا قتل ہوتا ہے اور یہ قتل دنیا بھر کی خبروں میں سرفہرست جگہ لیتا ہے اور جب قاتل درندہ گرفتار کر لیا جاتا ہے تو ہمارے ریاستی ڈھانچے کو اس کی گرفتاری میں تاخیر پر اپنی نااہلی پر افسوس کرنا چاہیے تھا کہ نو معصوم بچیوں کے قتل کے بعد کہیں جاکر ریاستی گرفت اس کے گریبان تک پہنچ سکی۔ اس نااہلی پر افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ ہر ناکامی، نااہلی اور بربادی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا اور اسے یہود وہنود کی سازش قرار دینا اب ہمارے قومی کردار کا حصہ بن چکا ہے۔ اسی طرح ملک کے اندر ہربربریت، جہالت، تباہی، سفاکی، بے حسی اور مجرمانہ واقعات کی ذمہ داری، حکمرانوں اور سیاست دانوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ ایسے واقعات درحقیقت اس سماج کی بھی ناکامی ہیں، جہاں عمران علی جیسے قاتل جنم لینے لگے ہیں جو تاریکی میں بربریت اور قتل اور دیگر مجرمانہ فعل کرتے ہیں تو دن کی روشنی میں اپنے اوپر مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ ناکامی جہاں ریاست کی ناکامی ہے، وہیں سماج کی ناکامی بھی ہے۔ ایک ایسی ریاست جو ہر لمحہ ایٹمی طاقت ہونے کے زعم میں مبتلا ہے۔ ایک ایسا سماج جو تاریخ کی اس کہانی پر کھڑا کیا گیا کہ ایک بچی کی فریاد پر ایک عرب سپہ سالار محمد بن قاسم آیا اور اس نے اس خطے کی کایا پلٹ دی۔ اس تاریخی بیان کی حقیقت اور پس منظر چاہے متنازع ہے، مگر اس سماج کا فخر ہے یہ کہانی۔ ایک ایسے سماج میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کا قتل۔ کہاں ہیں پھر ’’محمد بن قاسم‘‘! دراصل ہم نے مغالطوں پر اپنے فکری مینار کھڑے کررکھے ہیں۔ ہمیں یہ بھی زعم ہے کہ دنیا ہم سے ڈرتی ہے، اور یہ بھی ’’یقین کامل‘‘ ہے کہ ہم امت مسلمہ کی قیادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ مگر ذرا غور کریں، امریکہ والے جب چاہیں اس قوم کے پیادوں کو استعمال کریں اور جب چاہیں عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا کر ایبٹ آباد آکر اپنے قرار دئیے دہشت گرد اسامہ بن لادن جو اسّی کی دہائی میں اُنہی کی طرف سے ہیرو قرار دیا گیا تھا، اس کو قتل کرکے اس کی لاش اپنے ہمراہ لے جائیں۔ اور اسی طرح زینب کا قاتل اسے قتل کرکے زینب کی تلاش میں اہل خانہ کے ساتھ شریک تھا اور زینب کے جنازے میں بھی شامل تھا۔ یہ ہے ریاست اور سماج کی طاقت۔۔۔۔۔۔
یہ دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے جس کے ہر قسم کے سٹیج پر سیاسی، مذہبی، عسکری، سماجی حتیٰ کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کارندے اپنی گفتگو کا آغاز اکثر اس بات سے کرتے ہیں یا اپنی تقریروں میں یہ دعویٰ کرکے سینہ پھلاتے ہیں کہ ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔ مجھے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور بھارت جوکہ ایٹمی طاقتیں ہیں، وہاں متعدد بار سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے وہاں کے مفکروں، ادیبوں، دانشوروں، سیاست دانوں، جرنیلوں، سیاسی اور سماجی راہبروں کو کبھی اپنی گفتگو اور تقریروں میں یہ دعویٰ کرتے نہیں سنا کہ ہم دنیا کی ایٹمی طاقت ہیں۔ کمزور اور نااہل لوگ ہی اپنی طاقت کا اظہار اپنی گفتگو میں کرتے ہیں۔ کاش ہم اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اعتراف اور ادراک کرنا بھی سیکھ لیں، وہیں سے کامیابی کے سفر کا آغاز ہوگا۔ اس جملے کی صرف ایک جذباتی حیثیت ہے کہ ’’پاکستان تاقیامت قائم رہنے کے لیے بنا۔‘‘ تو پھر 1971ء میں پاکستان کی اکثریتی آبادی کیوں اس ریاست سے علیحدہ ہوگئی اور یہ بھی آسان اور ذمہ داری خود اٹھانے سے فرار کے مترادف ہے کہ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری دوچارا فراد پر ڈال دیں۔ اگر ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی اپنے آپ اور پورے مغربی پاکستان پر ڈالتے تو بہادری تھی۔ ایک ناکام سماج اور قوم دوسرے رہبروں میں اپنی امیدیں ڈھونڈتی ہے۔ مائوزے تنگ، امام خمینی، مہاتیر محمد، اردوآن، اور جو بھی نظر آئے۔
زینب کا قتل ہو یا مشال کا قتل، ایسے واقعات اورسانحات کی ذمہ داری صرف سیاست دانوں، حکمرانوں پر ڈال دینا آسان بات ہے۔ ایسے قتال کا ذمہ دار سماج ہے جو عمران علی جیسے قاتلوں کو جنم دے رہا ہے جن کی زبان پر مختلف کلام اور سروں پر مختلف رنگوں کی پگڑیاں ہیں۔ وہ سماج جو یونیورسٹی کے طلبا کو اپنے ہی ساتھی طالب علم کا قاتل بنا رہا ہے۔ ہم بحیثیت قوم اپنے مغالطوں پر سر فخر سے بلند کرتے اور پھولے نہیں سماتے۔ دراصل وہ ہماری جہالت کی بنیاد ہیں۔ جو سماج ناخواندہ اور ناانصافی پر کھڑا ہو، آپ اس پر کیسے فخر کرسکتے ہیں۔ اور جو ریاست دنیا کے کونے کونے تک عسکری ٹارگٹ حاصل کرنے کی طاقت لے لے مگر سماج کے اندر قاتلوں اور درندوں کی تلاش میں کمزور ثابت ہو، آپ اسے کیسی ریاست قرار دیں گے۔ ہم نے سازشی تھیوریاں گھڑنے میں بھی کمال حاصل کرلیا ہے۔ زینب کے قاتل کے پیچھے ’’بیرونی دنیا کے لمبے ہاتھ‘‘۔ خدارا، اپنے گناہوں، اپنے کرتوتوں، اپنی جہالت، درندگی اور بربریت پر پردے ڈالنا چھوڑ دو۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ عمران علی اور ایسے درندے اس سماج کے اندر جنم لے رہے ہیں۔ ان درندوں کے پیچھے شیطانی فکر ہے جس کی آبیاری یہیں پر ہورہی ہے۔ یہ درندے، ہنود ویہود کے پیداکردہ نہیں بلکہ انہوں نے یہیں پر جنم لیا ہے۔ ان کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ نہیں، بلکہ ان کے پیچھے اس شیطانی اور جہالت پر مبنی خیالات اور شیطانی فکر کا ہاتھ ہے جو یہیں پر پلی بڑھی۔ ہمیں اپنے قومی گریبان کے اندر جھانکنے کی جرأت پیدا کرنا ہوگی۔