قائداعظمؒ پر قیوم نظامی کی کتاب
ہمارے ہاں اردو میں لکھی جانے والی سیاست اور سیاسی تاریخ پر زیادہ تر کتابیں تحقیق کم اور خطابت کے پُرجوش الفاظ پر زیادہ مبنی ہوتی ہیں۔ حوالہ جات سے محروم ایسی کتابیں کسی طرح بھی آج کی جدید دنیا میں کتاب کے زمرے میں نہیں آتیں۔ کاغذ پر پرنٹنگ اور جلدسازی کو کتاب تصور کرلینا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ پچھلے ستر سال میں ہمارے ہاں تاریخ، سیاست اور ایسے دیگر موضوعات پر زیادہ تر مواد تحقیق سے مبرا اور بیان، خواہش، تصور، خواب اور تاریخ کو مسخ کرکے قارئین کے سامنے آیا ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں تاریخ مسخ بھی ہوئی اور حقائق دھندلا دئیے گئے اور ہم ایک گمشدہ گروہ کی حیثیت اختیار کرگئے۔ پاکستان، تحریک پاکستان، علامہ اقبالؒ اور بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ پر شائع ہونے والا مواد بھی زیادہ تر تحقیق کی بجائے تاریخ کو مسخ کرنے، حقائق کو چھپانے اور اپنی گھنائونی خواہشات تھوپنے پر مبنی ہے۔ حتیٰ کہ علامہ اقبالؒ کی شاعری کی تشریح کو بھی مسخ کرکے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ شاعری ایک شان دار تخلیقی عمل ہے لیکن اس کو سیاسی فلسفے کے طور پر اپنا لینا جذباتیت اور دھوکا دہی ہے۔ دنیا کی کون سی کامیاب ریاست ہے جہاں اشعار سے اپنی سیاست،طرزِحکمرانی، سیاسی نظام کو بیان کیا جاتا ہے۔ سیاست اور ریاستیں، آئین، قانون اور سیاسی فکر کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اشعار کی بنیاد پر سیاست اور ریاست کے معاملات زیربحث لائے جاتے ہیں۔ ایسے ہی قائداعظم محمد علی جناحؒ پر تحقیق کی بجاے جذباتیت اور خواہش تھوپی جاتی ہے۔
قائداعظم کا مقدمہ لڑنے والے کچھ سطحی دانشوروں نے درحقیقت اس عظیم رہبر کی فکر اور اس کی قائم کی گئی ریاست کو نقصان پہنچایا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ، برصغیر کے اُن سیاسی رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے وقت میں سب سے جدید افکا رکے مالک تھے۔ بھاپ کے انجن پر ولایت سفر کرنے والے اس رہبر نے علم وفکر کے اُن سرچشموں سے فیض یابی حاصل کی جن سے اس وقت کے بڑے بڑے مفکر ناواقف تھے جیسے علامہ اقبالؒ، برطانیہ اور جرمنی کی جدید یونیورسٹیوں سے علم کے خزانوں سے مستفید ہونے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا سیاسی سفر مرحلہ وار تھا۔ اُن کا فکری سفر بھی کانگرس کے پلیٹ فارم سے آل انڈیا مسلم لیگ تک ہندو مسلم اتحاد کے بڑے حامی بعد میں مسلمانوں کے حقوق کے لیڈر بنتے بنتے ایک نئی ریاست کے معمار بنے۔ اس سیاسی فکر کو یہاں کے تنگ نظر اور لغو تاریخ بیان کرنے والوں نے مجرمانہ انداز میں آزادی کے بعد کی نسلوں کو اپنی مجرمانہ تحریروں سے متعارف کروایا، اور سمجھا کہ بغیر حوالہ جات کے، بس بیا ن کردیا کافی ہے۔ تاریخ کو قتل کرنے والے ان نام نہاد دانشوروں اور مؤرخوں نے اس لحاظ سے اس عظیم رہنما اور پاکستان کے ساتھ زیادتی کی ہے، خدمت نہیں۔
ہمارے ہاں ان دانشوروں نے کبھی نوجوان نسل کو یہ نہیں بتایا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ، برصغیر میں چلنے والی خلافت تحریک سے کیوں علیحدہ رہے۔ یہ ایک عیاں حقیقت ہے۔ انہی لوگوں نے قائداعظمؒ کی جدوجہد کو اپنے رجعت پسند خیالات میں لپیٹ کر پیش کیا جس کا حقائق سے رتی بھر بھی تعلق نہیں۔ اس حوالے سے چند ایک ہی کتابیں ہیں جنہوں نے تاریخ کو قتل کرنے کی بجائے تاریخ کو زندہ رکھنے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ اس حوالے سے جناب قیوم نظامی کی کتاب ’’قائداعظم کا نظریۂ ریاست‘‘ ایک شان دار تحقیقی اثاثہ ہے جو قائداعظمؒ کی جدوجہد، سیاست اور فکر کو قتل کرنے کی بجائے انہیں اکٹھا کرکے تاریخ کو زندہ رکھنے کی ایک شان دار کاوش ہے۔ یہ کتاب قیوم نظامی صاحب نے پورے حوالہ جات کے ساتھ تحریری کی ہے جسے کوئی بڑے سے بڑا مبلغ بھی نہیں جھٹلا سکتا۔ قیوم نظامی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف عوامی حقوق کی عملی جدوجہد میں اپنا قابلِ قدر حصہ ڈالا بلکہ فکری اور نظریاتی جدوجہد کا پرچم بھی آج تک بلند کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مکمل تحقیق کے ساتھ حقائق کا غیرجذباتی انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے انہیں اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ یہ کتاب اس حوالے سے سرفہرست ہے کہ یہ قائداعظمؒ کی سیاست کو آج کی نسل کو متعارف کروانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اور یوں ہم اس منزل کو حاصل کرسکتے ہیں جس کا خواب علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا اور عمل قائداعظمؒ محمد علی جناح نے کیا۔ اُن ملاّئوںجنہوں نے دونوں رہبروں کو کفر کے فتووں سے نوازا، اُن کا کوئی تعلق تحریک پاکستان سے تھا نہ ہی ان اکابرین کی فکر سے اور آج وہی ان اکابرین کی شخصیت کو مسخ کرنے کے درپے اور قائداعظمؒ کی ریاست کو اپنے رجعت پسندانہ خیالات سے گرفت کرنے میں سرگرم ہیں۔ قیوم نظامی، پاکستان کے اُن لوگوں میں سرفہرست ہیں جنہوں نے عملی سیاست کے میدان میں پاکستان میں قانون، آئین اور انصاف کی بالادستی کی جنگ اپنے بدن پر درّے برداشت کرکے لڑی۔ یہ کوئی مذاق نہیں جن صعوبتوں سے گزر کر وہ کندن بنے، اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے ، پاکستان کے حقیقی مالکوں کے لیے، یعنی پاکستان کے 95 فیصد عوام کے حقوق کی جدوجہد۔ جس جواںمردی اور دلیری سے انہوں نے عوامی حقوق کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا، اگر ان کو ضبط تحریر میں لایا جائے تو مغربی دنیا میں ایسی کتابیں بیسٹ سیلر کتب میں شمار ہوتی ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ خوش کن بات یہ ہے کہ علم کے میدان سے قلم کے میدان میں بھی انہوں نے کمال کر دکھایا اور ایسی کتابیں منظرعام پر لائے جن کے لیے یہ پیاسی دھرتی بے قرار ہے۔ فکری بنجرپن میں ایسی تحریریں سوچ کی سرزمین کو نخلستانوں میں بدل دیتی ہیں۔
قیوم نظامی صاحب کی یہ تصنیف ’’قائداعظم کا نظریۂ ریاست‘‘ پاکستان میں مستند ترین کتابوں میں سرفہرست شمار ہوگی کہ یہ تحقیق کی بنیاد پر لکھی گئی ہے، خواہش اور خطابت کی بنیاد پر نہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں ترقی ہوئی ہے، وہاں دو چیزیں بڑی اہم ثابت ہوئیں، سماجی علوم میں ترقی اور تحقیق، ان کے بغیر ترقی صرف خواب ہے۔ قیوم نظامی صاحب نے یہ کتاب لکھ کر آج کی نسل کو اس عظیم ہستی قائداعظمؒ سے متعارف کروانے میں جو کردار ادا کیاہے، اس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ ’’قائداعظم کا نظریۂ ریاست‘‘ ریاستِ پاکستان کے نوجوانوں کو ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ وہ مستند حقائق کی روشنی میں جان سکیں کہ پاکستان کی بانی ہستیاں قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبالؒ پاکستان اور اس کے مستقبل سے متعلق کیسا وژن رکھتے تھے۔ جناب قیوم نظامی کی اس کتاب کو جُمہوری پبلیکیشنز (2ایوان تجارت روڈ لاہور 042-36314140)نے شائع کیا ہے۔