پاکستان کن کا ہے!
آج سے چالیس برس پہلے میری چڑھتی جوانی میں جو لاہور تھا، وہ آج کہاں۔ نہ اُس وقت میٹرو بس تھی اور نہ ہی اورنج لائن جیسی جدید زیرتعمیر ٹرانسپورٹ کا نظام، نہ ہی اتنی کاریں اور نہ ہی اس قدر موٹرسائیکل، نہ ہی اتنے سارے سینکڑوں کی تعداد میں ریستوران اور نہ ہی غیرملکی برانڈزکا ایک بھی ریستوران ، نہ اس قدر فلائی اوور اور انڈر پاس۔ بس دو فلائی اوور تھے، ایک میاں میر اور دوسرا بھٹو دور میں بننے والا شیرپائو پُل۔ نہ ہی اس قدر جدید آبادیاں، اب تو جس طرف جائیں، جدید سے جدید بستیاں آباد ہوچکی ہیں اور تیزرفتاری سے یہ عمل بڑھتا جا رہا ہے۔ نہ ہی اس قدر لاہور میں ایئرکنڈیشنر تھے اور نہ ہی فریج، مائیکرو ویوز اور بھانت بھانت کی الیکٹرانکس مصنوعات۔ ٹیلی فون بھی ہر گھر میںموجود نہیں تھا۔ نہ ہی اس قدر بازار اور دکانوںمیں خریداروں کا رش۔ نہ ہی اس قدر سکول کالجز اور یونیورسٹیاں، اب تو گلی گلی ، نگر نگر سکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھل چکی ہیں۔ نہ ہی اس قدر اخبارات، ٹیلی ویژن تو بس ایک ہی تھا، پاکستان ٹیلی ویژن اور اب درجنوں ٹیلی ویژن ادارے اور اخبارات، نہ ہی اس قدر صحافی اور صحافی فوٹوگرافرز، اور اب ہزاروں کی تعداد میں صحافی، پرنٹ اور میڈیا کے صحافی اور ایسے ہی سینکڑوں کی تعداد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے فوٹوگرافرز اور نہ ہی صحافیوں کی اس قدر تنخواہیں، چند سو روپے یا زیادہ سے زیادہ دو چار ہزار تنخواہ ہوتی تھی، آج لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے لینے والے صحافی عام دستیاب ہیں۔ برگر کی ایک دکان تھی منی مارکیٹ میں جو شامی کباب اور انڈا فرائی کرکے بن میں رکھ کر برگر بنا کر بیچتا تھا، آج ملکی اور غیرملکی برانڈ کے برگروں کے لاتعداد Patent ریستوران ہیں۔ جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں بھی محدود تھیں۔ چند ایک بیکریاں تھیں، گنتی کی چند ایک اب صرف ایک بیکری کمپنی کی شاخوں کی تعداد دوسو سے زائد ہے۔ تب لاہور چالیس لاکھ کے قریب آبادی پالتا تھا، آج ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ۔ اور یہی حال پاکستان کے ہر شہر کا ہے۔ جہاں کبھی ٹیلی فون بھی وزیر کی سفارش سے برسوں بعد لگتا تھا، آج سیل کمپنیوں والے سڑکوں پر کھڑے ہوکر مفت سیل فون سِم فراہم کرتے نظرآتے ہیں۔ 2017ء کے اعداد وشمار کے مطابق آج پونے چودہ کروڑ لوگوں کے پاس سیل فون کی سہولت ہے۔ ایک سروے کے مطابق 2004ء میں پاکستانیوں نے 151ارب ایس ایم ایس بھیجے۔ 2010ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، دنیا میں ایس ایم ایس بھیجنے کے حولالے سے پاکستانی تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہ کمیونیکیشن، جدید بسیں، گلی گلی سکول کالجز یونیورسٹیاں، Branded کپڑے اور خوراک، الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے جدید در کھلے اور صحافت کا پیشہ ایک کمائو پیشہ بن جانے، ریاست ایٹمی طاقت اور حکومتی نظام جمہوری نظام ہو جانے کے بعد یہاں ایک بڑا شہری طبقہ بشمول پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے برزجمہر اور خصوصاً متعدد کالم نگار جن کے گھروں میں کبھی بھوکے بچے خود منتظر ہوتے، آج اُن کے ہاں پانچ چھے ڈرائیوروں سمیت سات آٹھ قیمتی گاڑیاں موجود ہیں۔ وہ اس سارے ’’ منظر نامے‘‘ پر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں خوش حالی آگئی ہے۔ اِن ’’لکھنے اور بولنے والے دانشوروں‘‘ کی بات پر یقین کیا جائے کہ زمینی حقائق پرکہ جنہوں نے اپنے حالات حلال یا حرام طور طریقوں سے اپنے حالات بدل لیے، اُن کے بیان کو مانا جائے یا سرزمین پر رلتے غریبوں کے پیٹ اور غربت کے دکھ سے اٹے چہروں کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے؟
آئیں ذرا حقائق دیکھیں، پاکستان کے پہلے 10فیصد لوگوں کے پاس ملک کے 30فیصد وسائل اور آمدنی ہے۔ نیچے سے 10فیصد کے پاس صرف 4فیصد آمدن۔ ہر دس میں سے چار پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں۔ وہ دہقان جن کے سرپہ سارا نظامِ سلطنت چل رہا ہے، جو آج بھی آبادی کا 67فیصد ہیں، جن کے سر پر ایٹم بم بنانے کے قابل ہوئی یہ ریاست، جن کی پیداوار سے سڑکوں پر فروٹ اور اجناس، اوپری اور درمیانے طبقات کے لیے جگہ جگہ فروخت کے لیے نظر آرہی ہیں، جن کے سر پر ایٹم بم سے لے کر پارلیمانی عمارتیں کھڑی کردی گئی ہیں، اُن کا 55فیصد سے زیادہ حصہ آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہا ہے۔ جدید الیکٹرانکس سہولیات، ٹرانسپورٹ، سیل فون، برانڈڈ کپڑے اور برانڈڈ خوراک کو دیکھنے، چکھنے اور کھانے والوں نے جو ترقی کے جزیروں میں آباد ہوگئے، کبھی انہوں نے اردگرد ایسے غربت کے سمندر کی طرف دیکھنا گوارا کیا؟ اسی غربت کے سمندر کے اندر جہاں انہوں نے مصنوعی جزیرے آباد کرلیے ہیں۔ لاہور کی جدید آبادیوں میں رہنے والے وہ دانشور جو اپنے خطابات، تقریروں اور تحریروں کو ’’حُسن‘‘ دینے کے لیے کبھی کبھی بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان میں محرومیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں، کبھی انہوں نے گوارا کیا کہ شمالی لاہور، جنوبی لاہور بلکہ لاہور کی کسی بھی پست آبادی میں ایک دن گزارا جائے؟ جہاں نہ پینے کا پانی دستیاب ہے اور نہ گندے پانی کا نکاس، بلکہ ان سہولیات کا تصور تک نہیں۔ اگر پاکستان کے اس خوش حال صوبے کے دارالحکومت کے بطن میں پلنے والی آبادیوں کا یہ حال ہے تو ملک کے محروم قرار دئیے گئے خطوں کا کیا حال ہوگا۔ جس ملک میں ہر دسویں انسان کی موت کو وادی میں پہنچانے والی بیماری ہیپا ٹائٹس ہواور ستر لاکھ ذیابیطس کے مریض ہوں، اسے آپ اسلام کا قلعہ قرار دے دیں۔ کیاخطابات اپنا لینے سے ہم حقائق چھپا لیں گے ۔ ہمارے ہاں ایک وہ دانشور ہیں جو موجود کا علم رکھتے ہیں اور زیادہ تر وہ ہیں جو غیر موجود یعنی غیب کا علم۔ وہ اس ساری غربت اور مسائل کے امتحان سے گزر جانے کی تلقین کرتے ہیں۔ تو پھر دنیا کا وجود کیوںکر ضروری ہے؟ جو یہاں اِس جہان کو جنت بنانے پر یقین نہیں رکھتے، وہ دوسرے جہان میں جنت پا لینے پر کامل یقین کیے بیٹھے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری نے بھی انہی دھوکہ باز دانشوروں کی وساطت سے سرد جنگ کے بعد یہ دعوے کیے کہ اب دنیا ’’جمہوری جنت‘‘ میں بدل جائے گی۔ انہوں نے گلوبلائزیشن (عالمگیریت) یعنی منڈیوں تک رسائی کو دنیا بھر میں دولت کی تقسیم کا سراب دکھلایا۔ ذرا دیکھیں آج کا جہان کہاں کھڑا ہے کہ جہاں دنیا کو گلوبل ویلج قرار دے کر ملک ملک پھیلی مڈل کلاس (سرمایہ داری کا ہراول دستہ ہوتی ہے مڈل کلاس) کے ذریعے یہ کہہ رہے ہیں، انسان ترقی کی معراج پر پہنچ گیا۔ جبکہ حقیقت ایسی نہیں۔ دنیا کی کُل آبادی 7.6ارب ہے جس میں 3.7 ارب انسانوں نے پچھلے سال 2017ء میں ایک دمڑی بھی نہیں کمائی، یعنی 2017ء تک دنیا کی کُل آبادی کا نصف کچھ بھی کمانے کے قابل نہیں ہوسکی۔ یہ ہے گلوبل ویلج اور سرمایہ دار جمہوریت کی جنت۔ 7.6 ارب انسانوں میں سے صرف ایک فیصد امیر ترین انسانوں نے 2017ء میں کُل دولت کا 82فیصد کمایا۔ سبحان اللہ، یہ ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت۔ اور ذرا دیکھیں، دنیا بھر کے ان امیر ترین انسانوں میں سے 2017ء میں صرف ایشیا میں 122 نئے ارب پتیوں نے جنم لیا۔ دنیا کی تیزرفتار ترقی کرتی ریاستیں، بھارت اور چین دولت کے ارتکاز میں بھی سرفہرست جا رہی ہیں۔ اور اسی طرح 2017ء میں پاکستان کے 20فیصد امیر ترین لوگوں کے مقابلے میں پاکستان کے 20فیصد غریب لوگوں نے 7گنا وسائل استعمال کیے۔ ہماری ریاست میں جہاں تیرہ کروڑ انسانوں کے ہاتھوں میں سیل فون پکڑا دئیے گئے، کیا ان تیرہ کروڑ انسانوں کے ہاتھوں میں اسی قدر وسائل بھی آگئے؟ ان تیرہ کروڑ انسانوں کے کانوں کو لگے سیل فون بھی دراصل ان کی روزانہ آمدن چوسنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں جس میں عالمی سرمایہ دار، مقامی سرمایہ دار سے جڑے خون چوسنے کے اس گلیمرس دھندے میں ملوث ہیں۔ گلی گلی کھلے سکول کالج یونیورسٹی، مگر ناخواندگی پھر بھی عام اور اسی کا راج ہے۔ مغربی دنیا کے برانڈڈ برگر، عام مگر تندور کی روٹی سے محروم کروڑوں انسان، جہاں پانی کا نل تک نہیں پہنچ سکا، مگر ہر پسماندہ گلی کی نکڑ پر کوکا کولا سمیت دیگر عالمی مشروبات دستیاب ہیں۔ خون چوسنے کے تمام ذرائع موجود مگر انسانوں کو زندگی اور ترقی کا خون فراہم کرنے کے ذرائع معدوم۔ چند لکھنے اور بولنے والے ’’دانشوروں‘‘ کا موقف عالمی سرمایہ داری کے سرخیلوں سے کہیں گھنائونا ہے۔ ان کے قلم اور زبان، دہقان، کسان، مزدور، بھٹہ مزدور اور غربت سے مرنے والے پاکستانیوں کے لیے کس قدر ہِل جُل کرتے ہیں۔ مگر یہ دانشور حکمران طبقات کے ’’چشم وچراغ‘‘ کے قصیدے لکھنے اور بولنے سے تھکتے نہیں۔ جیسے یہ ’’آزادیٔ موہوم‘‘ ہے اسی طرح ترقی کے دعوے داروں کے برعکس یہ ترقی کا سراب ہے، اور کچھ نہیں۔
“