نوجوان سے جنسی ذیادتی کا ایک واقعہ؛ والدین نے کیسے ڈیل کیا؛
منظور خان ایک سینئر سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ ضیاء آمریت کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش تھے۔ مختلف سماجی تحریکوں اور تنظیموں میں کام کرتے رھے، انکی پارٹنر بھی ایک سماجی راھنما ہے۔
اگست 2016 میں انکے 16 سالہ بیٹے کو اسکا ایک کلاس فیلو ورغلا کر دوسرے دو دوستوں کے ساتھ لاھور کے ایک علاقہ میں واقعہ ویران گھر میں لے گئے اور اس سے جنسی تشدد اور زیادتی کی اور بعد ازاں اسے اسکے گھر کے قریب ایک پارک میں بے ھوشی کے عالم میں پھینک گئے۔
کسی نے منظور خان کو اسکے بیٹے کو پہچان کر اطلاع دی اور وہ موقع پر پہنچے۔ انہوں نے فورآ پولیس کو 15 پر کال کی۔ پندرہ منٹوں کے اندر پولیس آ گئی۔ اسکے بیٹے نے ھوش میں آنے کے بعد والد کو اپنے اوپر بیتنے والی تفصیل بتائی۔ یہ بھی بتایا کہ ایک لڑکے کو جو اس کا کلاس فیلو ہے وہ جانتا ہے۔
منظور خان نے فوری طور پر پولیس کو ایف ائی آر کاٹنے کو کہا، گرین ٹاؤن تھانے کا ایس ایچ او پورا تعاون کر رھا تھا۔ پولیس کے اس افسر کا رویہ بہت اہم تھا۔ اس نے فوری ایف ائی آر کاٹی اور نوجوان کی نشاندھی پر ان تینوں نوجوانوں کو اسی روز ہی گرفتار کر لیا۔
منظور خان نے اس دوران ہم دوستوں سے رابطہ بھی کیا اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ ہم نے انہیں کہا کہ یہ کوئی ہمارے لئے شرمندگی کی بات نہیں۔ ان کے لئے شرمندگی کی بات ہونی چاھئیے جواس میں ملوث ہیں۔ انہوں نے اپنی دوست ڈاکٹر فرزانہ باری سے بھی رابطہ کر لیا، ہم سب نے انکا پورا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔
جب گرفتار نوجوان تھانے میں تھے تو پھر منظور خان پر پریشر آنا شروع ہوا۔ علاقہ میں جیتنے والے مسلم لیگی چئرمینوں کی انکو پریشر ڈالنے کی لائینیں لگ گئی۔ تحریک انصاف والے بھی یہی کہ رھے تھے۔ معاف کر دیں، غلطی ہو گئی، لے دے کر بات رفع دفع کر دیں۔ تھانے دار منظور خان کا ساتھ دے رھا تھا اس نے دفعہ 377 کے تحت ایف ائی آر کاٹ دی تھی، ریمانڈ لے لیا تھا۔
ایک ڈی ایس پی نے منظور خان کو کہا کہ تمہارا بیٹا اس کا عادی ہے اس کا اپنا قصور ہے۔ وہ victim کو مورد الزام ٹھرا رھا تھا۔ منظور خان نے اسے کہا کہ تم بچوں سے جنسی زیادتی کے عادی ہو میرا بیٹا نہیں۔ تو تو میں میں کے بعد اس ڈی ایس پی کو جان چھڑانا مشکل ہو گئی۔
پھر مقامی مسلم لیگی ایم این اے وحید عالم منظور خان سے ملے اور گرفتار نوجوانوں کو معاف کرنے کو کہا۔ منظور خان نے انہیں کہا کہ تمہیں تو مظلوم کے ساتھ ہونا چاھئے۔ ظالموں کے ساتھ نہیں۔ وہ بھی ناکام لوٹ گئے۔
اسی دوران ڈاکٹر فرزانہ باری نے ڈی آئ جی پنجاب سے بات کی اور کہا کہ کوئی معافی نہیں پولیس میرٹ پر کام کرے۔ اس سینئر لولیس آفیسر نے بھی مقامی پولیس کو ھدائیت کر دی کہ کوئی سفارش نہیں چلے گی۔ قانون کےمطابق کام کیا جائے۔
گرفتار نوجوانوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ ان کی درخواست ضمانت تمام عدالتوں سے ھائی کورٹ سمیت رد ہو گئی۔ اب پولیس شائید گرفتار نوجوانوں کے ورثا سے مل گئی تھی۔ چالان پیش کرنے میں انتہائی دیر کر دی۔ ایک سال گزرنے کے بعد نومبر 2017 میں تینوں گرفتار نوجوانوں کی ضمانتیں ماڈل ٹاؤن کی ایک عدالت نے منظور کر لیں۔ مقدمہ ابھی چل رھا ہے اور منظور خان اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پوری کوشش کر رھے ہیں۔ یہ تین نوجوان جنہوں نے یہ سنگین جرم کیا تھا اب جیل میں تیرہ ماہ کاٹنے کے بعد ضمانت پر باہر ہیں۔
نوجوان پر نفسیاتی اثرات
متاثرا نوجوان انتہائی ذھین بچہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد اس پر شدید منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے۔ چڑچڑا پن اس کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے۔ بات بات پر الجھ جاتا ہے۔ لڑتا ہے۔ تعلیم میں دلچسپی بلکل ختم ہے۔ پڑھائی میں دلچسپی ختم ہے۔ شائیداسے کسی ماھر نفسیات سےعلاج کرانے کی ضرورت ہے۔
ہم یہ واقعہ پہلے سوشل میڈیا پر نہیں لائے تھے۔ لیکن اب سوچا کہ ایک ماں باپ کا ایسے واقعہ کے بعد مثالی رویہ سامنے لایا جائے جو انصاف کے حصول کے لئے سرگرداں ہیں جو اسے اپنی شرمندگی کا باعث نہیں سمجھتے۔ جن کا اپنے بچوں سے ایسا دوستانہ تعلق تھا کہ بیٹے نے تمام تر واقعات جواس پر بیتے باپ کو فوری بتا دئیے اور نشان دھی بھی کر دی،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“