پہلا منظر: — بوڑھے بچے جوان مرد عورتیں جمع ہیں، لوگ نعرے لگا رہے ہیں، لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان، مقرر تقریر کر رہا ہے۔ ”ہم مسلمانوں کو ہندوﺅں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، ہندو بنیے کے پاس دولت ہے، متحدہ ہندستان میں ہندو بنیا اپنی دولت کی بنیاد پر مسلمانوں کا جینا حرام کر دے گا۔ ہمیں ہندو بنیے سے انصاف کی توقع نہیں، مسلمانوں کو انصاف چاہیے، عزت کی زندگی چاہیے، مسلمانوں کو مناصب وزارتیں اور اسمبلیوں کی ممبریاں اہلیت کی بنیاد پر چاہئیں، دولت کی بنیاد پر نہیں“۔
لوگ مقرر کو داد دے رہے ہیں، نعرے ایک بار پھر لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔
دوسرا منظر: – قافلہ جا رہا ہے سامان بیل گاڑیوں پر لدا ہے لوگوں نے سروں پر بھی گٹھڑیاں صندوق اور بستر اٹھائے ہوئے ہیں۔ عورتوں سے چلا نہیں جا رہا، بوڑھے تھک تھک کر گر رہے ہیں بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں لوگ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں:
”سرحد کتنی دور ہے“۔
”پاکستان کس وقت پہنچیں گے؟“
”قائد اعظم کا پاکستان ہمیں اپنی پناہ میں کب لے گا“۔
اچانک ایک طرف سے شور برپا ہوتا ہے، نعرے لگتے ہیں بھارت کی جے بھارت کی جے، کرپانیں چمکتی ہیں حملہ ہو گیا ہے۔ مرد لاٹھیوں سے کرپانوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور شہید ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو کرپانوں کی نوک پر اچھالا جاتا ہے۔ عورتیں رات کے اندھیرے میں بھاگ اٹھتی ہیں لیکن تعاقب کرکے انہیں پکڑ لیا جاتا ہے ۔لاکھوں مسلمان ٹرینوں میں قتل ہو جاتے ہیں۔ قافلے لٹتے ہیں۔ لاشیں روندی جاتی ہیں۔ دوشیزائیں کنوﺅں میں چھلانگیں لگاتی ہیں۔ محتاط اندازے کےمطابق ایک لاکھ سے کہیں زیادہ مسلمان عورتیں مشرقی پنجاب میں روک لی جاتی ہیں۔ انہیں زبردست سکھ بنا کر بیویوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ بہت سی چھپ چھپ کر نمازیں پڑھتی ہیں۔ انہیں اذیتیں دی جاتی ہیں۔ انکے پیٹ سے سکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کے طول و عرض میں مہاجر کیمپ بنتے ہیں۔ لوگ اپنے خاندانوں کے گمشدہ افراد کو ڈھونڈتے ہیں۔ بیٹا کراچی میں ہے تو ماں لاہور میں، باپ راستے میں قتل ہو گیا ، بہن کا سراغ ہی نہیں مل رہا۔
تیسرا منظر:
زمانہ ۔ سنیچر۔ چار فروری 2012ئ
مقام ۔ رائے ونڈ
ہمایوں اختر اور سینیٹر ہارون خان رائے ونڈ جاتے ہیں اور مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف کو اپنی وفاداریاں پیش کرتے ہیں اور مطالبات بھی۔ میاں محمد نواز شریف ہمایوں اختر کو لاہور سے ٹکٹ دینے کے بجائے فیصل آباد سے الیکشن لڑنے کا کہتے ہیں جہاں سمندری میں ہمایوں اختر کی شوگر مل ہے۔ ہمایوں اختر مان جاتے ہیں لیکن مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف انکے نئے انتخابی حلقے کیلئے ترقیاتی سکیم منظور کریں۔ ہارون اختر خان۔ ذرائع کے مطابق سینٹ کے ٹکٹ کی فرمائش کرتے ہیں۔ یہ ٹکٹ وہ ٹیکنو کریٹ کے طور پر چاہتے ہیں۔
جس معروف ویب سائٹ نے پانچ فروری ۲۰۱۲ ء کو یہ خبر دی ہے اس کے مطابق گنے کی فصل کے آغاز میں دونوں بھائیوں نے پانچ کروڑ روپے کا " عطیہ " نون لیگ کو دیا ہے۔ ویب سائٹ کا دعوا ہے کہ کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک نے خود بتایا ہے کہ اس نے شہباز شریف کو سیلاب فنڈ میں دس کروڑ روپے اس کےعلاوہ دیے ہیں۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اسحاق ڈار اس حق میں ہیں کہ ہارون خان کو ٹیکنو کریٹ کے طور پر سینٹ کی نشست دی جائے۔ معاملہ کچھ عرصے کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ التوا کی وجہ یہ ہے کہ اختر برادران کے ماموں فاروق خان کو سینٹ کی عمومی نشستوں (جنرل کیڈر) کیلئے زیر غور رکھا جا رہا ہے جو فیصل آباد ڈویژن کے امیر ترین صنعت کار ہیں، ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ذرائع کےمطابق مسلم لیگ نون، سینٹ کے انتخابات کے موقع پر، اپنی نشستیں مہنگے داموں بیچنے پر تیار ہے۔ اس پارٹی کی چار عمومی نشستوں میں سے دو نشستیں سینیٹر اسحاق ڈار اور سردار ذوالفقار خان کھوسہ کو دیئے جانے کا امکان ہے۔ باقی نشستیں "" فروخت کی جائیں گی۔"""
چوتھا منظر:
فرشتے سر بسجود ہیں، گریہ و زاری کر رہے ہیں۔ بارِ الٰہا! وہ لاکھوں مسلمان عورتیں جو مشرقی پنجاب میں سکھوں نے رکھ لیں، وہ بچے جو کرپانوں کی نوک پر اچھالے گئے، وہ لاکھوں مسلمان مرد جو کٹ مرے، وہ کنوﺅں میں چھلانگیں مارنے والی دوشیزائیں جو تیرے حبیب کی نام لیوا تھیں۔ وہ بوڑھے جن کے ہاتھوں میں تسبیحیں تھیں اور جو ٹرینوں میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے۔ وہ مائیں جو بیٹیوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ رحم کر ِ الٰہی، تو بستیاں انڈیل دینے کا حکم دے سکتا ہے۔
!
فرشتے حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو شخص بھی یہ کالم پڑھے ازراہ کرم۔ کم از کم پانچ دوستوں کو ضرور بھیجے تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ سینیٹ کے انتخابات میں کیا ہو رہا ہے ۔