فرشتے کبھی نہیں مرتے —
ہم چلتے پھرتے مردے ہیں .اور خدا آسمان میں سو گیا ہے .ہم ابھی ہیں ..مگر ممکن ہے ،وقت کے کسی دوسرے ہی لمحے میں ،ہم ایک بھولی بسری کہانی ہوں ..ہم خواب میں کتنا کچھ سوچ لیتے ہیں ..ایک بڑی دنیا ہمارے حوالوں کا حصّہ بن جاتی ہے ..کیا تب سوچتے ہیں کہ خوابوں اور وعدوں سے الگ کہیں کویی ماورایی حقیقت ہے جو ہم پر ہنس رہی ہے ..ایک لمحہ سے بھی کم کے وقفہ میں زیست کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ….کویی ہے ..؟میں چیخنا چاہتا ہوں ..کیا تم مجھے سن رہے ہو ڈاکٹر رحمان ؟ کیا آپکو فون کیا جا سکتا ہے ؟ بہت سے مسلے ہیں ڈاکٹر رحمان ….میرے بیٹے کی طبیعت خراب ہے ..اس کے بارے میں پوچھنا ہے ..کیا تبسّم کی دوا بدلی جا سکتی ہے ..؟ اور ہاں ..آپ نے بلڈ پریشر کے لئے جو دوا تجویز کی تھی ،اس کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے …کیا موبائل لگاؤں ؟ آپ ہسپتال میں ہیں یا گھر ؟یا کسی مریض کے آپریشن میں مصروف ..ہیلو …ہیلو ….
اکیس تاریخ رات کے آٹھ بجے ..
میں یقین کرنے کو تیار نہیں کہ کوئی رات اس قدر خوفناک بھی ہو سکتی ہے ..کوئی روشن ستارہ ہنستا مسکراتا ،باتیں کرتا ، ایک لمحے میں کسی انجانے سیارے میں گم ہو سکتا ہے .مسٹرا سٹیفن ہاکنگ ..آپ نے غلط کھا کہ سو برس بعد ہم کسی انجانے سیارے پر ہونگے .یہ دنیا ختم ہو چکی ہوگی …اکیس تاریخ رات کے آٹھ بجے ..یہ دنیا ختم ہو چکی ہے …گھڑی کی چیختی چنگھاڑتی سوئیوں نے وقت کے کیلنڈر پر آج ٢٣ تاریخ کی مہر لگا دی ہے ..مسٹر ہاکنگ ،ہم نے روح کو آواز دی اور اس انجانے سیارے پر ایک پیارے گمشدہ چہرے کی تلاش میں نکلے ..مگر وہ چہرہ کہیں نہیں تھا …پھر اس مسکراتے چہرے کو ایک نہ ختم ہونے والی چیخ کے ساتھ ہم نے اپنے اپنے دلوں میں چھپا لیا ..ایک غصّہ ہے ..ایک ناراضگی ہے ..امبانیوں کے خدا ..ادانیوں ،مودیوں ،نوازوں ،برلاؤں کے خدا ..تو کبھی ہمارا نہیں تھا ..یہ حقیقت کہ سفّاک اور جابر دولتمندوں سے تمہاری دوستی ہوئی اور تم نےمعصوم انسانوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ..
سینتیس . اڑتیس کی عمر ..معصوم شہزادہ ..چھوٹے چھوٹے بچے ..غریبوں کی مدد کرنے والا .. ،جس نے کویی دولت جمع نہ کی .بھائیوں کو آگے بڑھایا ..بہنوں پر قربان ہوا ..ایک ہسپتال کھولا ..نیپال کے ایک چھوٹے سے شہر میں کیا یہ سب آسان تھا ؟وہ سب کے لئے تھا .بس اپنے لئے نہیں تھا ..وہ کہتا بھی تھا ،مجھے کچھ ہوا تو میری مدد کے لئے کویی نہیں اے گا ..میں اکیلا سب کو سنبھالنے کا حوصلہ رکھتا ہوں .اس دن بھی بات ہوتی رہی ..وہ خوش تھا .ایک غریب کی شادی ہو رہی تھی ..سارے انتظام اس نے کیے ..ہمیں خبر دیتا رہا …آٹھ ..نو ..دس ..گیارہ …یہاں تک سب ٹھیک تھا …بارہ بجے موبائل کی گھنٹی بجی ..فون پر دوسری طرف ڈاکٹر رحمان کی اہلیہ تھی …وہ چیخ ابھی بھی نسوں میں تیزاب بھر رہی ہے …سب ختم ہو گیا ….
پھر دونوں طرف سے فون کی گھنٹی لگاتار بجتی رہی ..باتیں ہوتی رہیں ..شادی کا ماحول ..وہاں بھی ڈاکٹر کی زندہ دلی اپنے شباب پر تھی ..کھانے میں تاخیر تھی .گھر قریب تھا ..وہ بولے ،ذرا گھر کی خبر لے کر آتا ہوں ..گھر اہے ..دروازے پر قدم رکھا ..ملک الموت انتظار میں تھا ..گرے ..روح قبض ..ایک دنیا ویران ….کیا کوئی ایسے جاتا ہے خدا ؟ ظالموں ،سفاک رہنماؤں کو لمبی عمر دینے والے ،مصلحت کا نام دے کر اپنے نظام کی کمزوریوں کو نہ چھپا ..ایک سیکنڈ ..ننھے بچے یتیم …ایک دنیا وہاں ویران ہوئی ..ایک دنیا یہاں ہمیں نہ ختم ہونے والے سکوت میں دفن کر گیی ..
. .میری رات سو گیی ہے کسی جاگتے بدن میں .ڈاکٹر رحمان ..تم نے جس دن اس دنیا کو الوداع کہا ،اسی دن میری دو برس تین ماہ کی بیٹی صحیفہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوئی تھی …یہ تاریخ ہم نہیں بھولے ..یہ تاریخ آگے بھی نہیں بھولینگے .. …..میں ..میرا بیٹا ساشا ..تبسّم …چہروں پر خوفناک دھند کے سایے میں بس ایک چہرہ فریز ہو گیا ہے ..وہ چہرہ اس زمین پر نہیں ہے ..سیارے پر نہیں ہے …ابھی کچھ دیر پہلے ،بس کچھ دیر پہلے ہم اس کی سرگوشیاں سن رہے تھے …..تم فون کیوں نہیں اٹھاتے ڈاکٹر رحمان …ابھی تو لمبا سفر باقی تھا ..الجھنوں اور پریشانیوں کی جب بھی کویی نیی کتاب ہمارے گھر میں کھلتی ،ہم تمہیں آواز دیا کرتے تھے ….کیا دنیا تمہیں جانتی ہے ڈاکٹر رحمان …؟کیا جانتی ہے ،کہ عشق ، محبّت ،قلبی واردات کا سلسلہ صرف خون کے رشتوں تک محدود نہیں …ایک گلوبل دنیا بانہیں پسارے آج بھی ہماری منتظر ہے ..بے غرض ،بے لوث محبّت کرنے والوں کی بستی ہماری زمین پر آج بھی آباد ہے …ہم اس چھوٹی سی بستی کو دیکھتے ہیں تو زمانے بھر کی نفرتیں بھول جاتے ہیں ..ٹرمپ ،مودی ،یوگی ،نواز ،مزایلیں ، اسلحے ، دہشت گردی …کچھ بھی یاد نہیں رکھتے ..
ڈاکٹر رحمان ..اہ ..بتاؤ اس دنیا کو کہ تم سے کیا رشتہ تھا ہمارا .. ؟ اس لئے بتاؤ کہ زخموں سے کراہتی دنیا اور ظلم و جبر سے سسکتے لوگوں کو اس بات کا احساس ہو کہ محبّت گھر کی چہار دیواری سے الگ بھی ہے …
ہم فیس بک پر ملے — سولہ سترہ برس گزر گئے ..یا زیادہ یا کم ..وقت کا حساب رکھا جا سکتا ہے ،محبّت کا حساب نہیں رکھا جاتا ..ہم ملے اور اپنوں سے زیادہ قریب آ گئے ..سکھ میں ..دکھ میں ..زندگی کے ایک ایک لمحے کے سفر میں تم ہمارے گھر کا حصّہ تھے …سوچتا ہوں ..کیا ہم سچ مچ فیس بک پر ملے ؟ کیا انجان سوشل ویب سائٹ کے پر فریب جزیروں میں محبّت کے ایسے رشتے بھی ملتے ہیں …؟اس جزیرے میں ابھی وہ آواز ٹھہر گیی ہے ..ذوقی صاحب ..میں آ رہا ہوں .آپکو اپنے ساتھ لے کر نیپال چلونگا ..وہاں اپنے ہاتھوں سے آپ کا ہیر ٹرانسپلانٹ کرونگا ..پھر خود کو دیکھئے گا ..آواز کا ارتعاش کم ہوتا ہے تو ایک دوسری آواز ابھرتی ہے ..ساشا کے لئے کیوں پریشان ہیں ..میں آ رہا ہوں ..
اکیس تاریخ رات کے آٹھ بجے …وقت کی سوئیاں ٹھہر گیی ہیں ..ہم تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے خوف محسوس کر رہے ہیں ..ڈاکٹر رحمان نہیں آ سکے .اب کبھی نہیں آیینگے ..ہم نیپال جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں …لیکن وہاں کون ملے گا ؟ ایک سوگوار بیوہ ..ننھے بچے …ایک اداس گھر …فرشتے نہیں مرتے ..رشتے ختم نہیں ہوتے ..محبّت کی انجانی بستیاں آباد رہتی ہیں …
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“