فرشتہ صفت پادری اور شیطان عورت کی کہانی
بہت پہلے ایک انگریزی ناول کا ترجمہ پڑھا تھا۔ ایک نوجوان پادری اپنے والد کا منتظر ہے، جو کبھی خزانے کی تلاش میں نکلا تھا، تا کہ خزانے کو مسیحی مذہب کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ باپ نے وصیت کی تھی کہ وہ متعین وقت تک نہ لوٹا، تو بیٹے پر فرض ہے وہ خزانے کی تلاش میں نکلے اور باپ کی وصیت کے مطابق اس مال و دولت کو مسیحیت جیسے عظیم مذہب کی تبلیغی ادروں پر صرف کرے۔ باپ نے بچے کی تربیت کچھ یوں کی تھی کہ عورت کی صحبت سے بچ کے رہے کیوں کہ عورت شیطان کا رُوپ ہے، ابلیس کی مدد گار ہے۔
تابع فرماں بیٹا چھبیس سال کا ہوا، تو باپ کی وصیت پر عمل کرنے چلا؛ دُور دیس کا سفر تھا، بحری جہاز میں سوار ہوا، عرشے پر کھڑی عورت کو دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیا، کیوں کہ عورت شیطان کا روپ ہے، شیطان سے نفرت بھلی۔ جس صحرا میں خزانہ مدفون تھا، وہاں گائیڈ کی رہ نمائی کے سوا جانا، اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ پادری کو سرائے کے مالک نے بتایا، کہ اس صحرا کا بہترین گائیڈ اس وقت ایک ڈکیتی کے جرم میں جیل میں سزا کاٹ رہا ہے، چند روز میں بری ہو جائے گا، میرا مشورہ ہے اسے رہ نما کریں۔ نوجوان پادری جزبز ہوتا ہے، کہ ایک ڈاکو کیوں کر اچھا گائیڈ ہوسکتا ہے۔ سرائے کا مالک جواب دیتا ہے، یہ وہ جوہر ہے جو خرابوں میں ملے۔
نوجوان پادری ادھر اُدھر سے معلومات لیتا ہے، تو سبھی کو سرائے کے مالک سے متفق پاتا ہے، کہ وہی گائیڈ بہترین ہے، جو اس وقت جیل میں ہے۔ بہ امر مجبوری پادری، ڈاکو کی رہائی کا انتظار کرتا ہے۔ ان چند راتوں میں نوجوان پادری یہ مشاہدہ کرتا ہے، کہ سرائے میں کسبیاں گھومتی پھرتی ہیں، فحش حرکتیں کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ سرائے میں ٹھیرے مسافر ان طوائفوں کو اپنے کمروں میں لے جاتے ہیں۔ پادری کو عورت سے نفرت ہے، کیوں کہ عورت شیطان کا رُوپ ہے، اور یہ وہ اس سرائے میں دیکھ بھی لیتا ہے، کہ شیطان کی بیٹیاں کیسے یسوع کی بھیڑوں کو بھٹکا رہی ہیں۔ نوجوان کے لیے باپ کی سکھائی بات سچ ثابت ہوتی ہے۔
انھی راتوں ایک کسبی پادری کو پیش کش کرتی ہے، کہ میں تمھارے لیے خصوصی رعایت کرلوں گی، کیوں کہ تم دین کی خدمت کر رہے ہو، اور تمھارے پاس زیادہ جمع پونجی نہیں ہوگی؛ پادری حقارت سے اس فاحشہ کو دھتکار دیتا ہے۔ ایسے میں رات گئے اسے خیال آتا ہے کہ جتنے روز گائیڈ کا انتظار کر رہا ہے، کیوں نہ یسوع کے پیغام کی دعوت دی جائے، تا کہ گم راہی میں پڑی دنیا کا کچھ بھلا ہو۔ پادری کے زاد راہ میں کثیر رقم نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ گھٹیا درجے کے سرائے کا مکین ہے۔ وہ خصوصی رعائت کا فائدہ اٹھاتے اس کسبی کو اپنے کمرے میں لے آتا ہے، اور بتاتا ہے، مجھے تمھارا جسم نہیں، تمھاری رُوح چاہیے۔ طوائف ٹھٹھا اڑاتی ہے کہ تم کیسے مرد ہو، جسے عورت کا بدن نہیں محض رُوح چاہیے۔ الغرض! دو تین راتوں کے بعد وہ کسبی، پادری کی پارسائی اور تبلیغ سے متاثر ہو کر یہ دھندا چھوڑ دیتی ہے۔ اس دوران گائیڈ اپنی سزا کاٹ کر آ جاتا ہے۔ پتا یہ چلتا ہے، کہ کسبی اس گائیڈ کی محبوبہ بھی ہے۔ المختصر! یہ تینوں صحرا میں مطلوبہ مقام کی تلاش میں چل پڑتے ہیں۔ راہ میں کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں یہ طویل داستان ہے۔
پادری کو گائیڈ پر شک رہتا ہے چوں کہ یہ ڈاکو ہے، تو کہیں دغا نہ دے جائے، لیکن گائیڈ اپنا فرض بخوبی جانتا ہے۔ کسبی پادری کی عقیدت مند ہو چکی ہے، اس لیے وہ اپنے محبوب سے جسمانی تعلق نہیں رکھنا چاہتی کہ گناہ کی زندگی سے پھر چکی ہے۔ ایک دن صحرا میں طوفان آ جاتا ہے، پادری اور وہ عورت طوفان کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ باہر کا طوفان تھم جاتا ہے لیکن عورت کا لمس نوجوان پادری کے اندر طوفان بپا کردیتا ہے۔ پادری شیطان کے ارادوں سے خوب واقف ہے، اس کی برسوں کی تپسیا کام آتی ہے، وہ اپنے آپ کو عورت کی قربت سے بچائے رکھتا ہے۔ بالآخر یہ تینوں اس کھنڈر میں پہنج جاتے ہیں، جہاں شاہوں کا خزینہ مدفون ہے۔
کھنڈر میں سونے چاندی موتیوں کا ڈھیر ہے، جو آنکھوں کو چکا چوند کر رہا ہے۔ اسی ڈھیر پر تین ڈھانچے پڑے ہیں؛ ایک پنجر میں اٹکی صلیب پتا دیتی ہے کہ یہ نوجوان پادری کا باپ ہے، جس کی پسلیوں میں خنجر موجود ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ مرنے والے تینوں افراد ایک دوسرے کی جان کے در پے رہے ہوں گے، تینوں زخموں کی تاب نہ لا کے چل بسے۔ تین ڈھانچوں میں سے ایک تو گائیڈ رہا ہوگا، ان میں سے ایک ڈھانچا عورت کا ہے، جس کے ساتھ مرنے والا پادری کا ڈھانچا یوں پڑا ہے، جیسے مرتے سمے ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہوں۔ نوجوان پادری جو عورت سے بچتا چلا آیا ہے، اور اس نے کسبی کے لیے مردانہ خواہش جاگنے پر بھی اپنے جذبات کا خون کیا، وہ یہ منظر دیکھ کر دیوانہ ہو جاتا ہے، کہ اس کا باپ ساری عمر اس کو عورت سے دور رہنے کی تلقین کرتا رہا، اور خود عورت سے چپک کے مرا۔
اس رات نوجوان پادری، کسبی کو چھوتا ہے تو کسبی جو اب یسوع کی بھیڑ بن چکی ہے، پادر کو گناہ سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے۔ پادری گھگھیاتا ہے، کہ اس کے باپ نے غلط تعلیم دی تھی، وہ جھوٹا تھا، مجھے اس نعمت سے محروم مت رکھو۔ پادری جب زبردستی کرنا چاہتا ہے، تو گائیڈ جاگ جاتا ہے، اور کسبی کو پادری کے ارادوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایسے میں پادری گائیڈ پر فائر کرتا ہے، خوش قسمتی سے نشانہ چوک جاتا ہے، رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، گائیڈ اپنی محبوبہ کو لیے کھنڈر میں کہیں پناہ لیتا ہے۔ اندھیرے میں پادری للکارتا ہے، کہ سامنے آو کہاں چھپے ہو۔ ساتھ ہی ساتھ وہ خدا کا انکار کرتا جاتا ہے، کہ خدا کہیں نہیں ہے۔ اگر خدا ہوتا تو اس کے ساتھ یہ نا انصافی نہ ہوتی کہ عورت کے قرب سے محروم رہتا۔ وہ کسبی جو اب مسیح کی تعلیمات پر چل رہی ہے، وہ بلبلاتی ہے، کہ خدا کے برگزیدہ پادری کو مجھ گنہ گار کے جسم کی طلب نے بھٹکا دیا ہے۔ ایسے میں گائیڈ کہتا ہے، اس کا مذہب خدا کا مذہب نہیں تھا، اس کے باپ کا مذہب تھا؛ اس کو جو کچھ اس کے باپ نے سکھایا، یہ اسی کو مذہب سمجھتا رہا۔ جب باپ جھوٹا نکلا، تو خدا سے بھی انکار کر دیا۔ “
اس کہانی کا انت کیا ہوا، وہ آج کا موضوع نہیں۔ آپ مذہب پرست ہیں؟ اچھی بات ہے! آپ کسی ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے ہوں گے، جہاں کسی مذہب کے ماننے والے موجود ہوں گے، انھوں نے آپ کو سکھایا ہوگا، کہ خداوند، بھگوان، اللہ، آتش، یزداں یا کوئی ایسا ہے جو سارے جہانوں کا پالن ہار ہے۔ آپ نے سنا، آپ نے یقین کر لیا۔ اگر ایسا ہی ہے، تو یہ یقین بھی رکھیے آپ مذہب پرست ہیں، لیکن آپ اپنے اجداد کی پوجا کر رہے ہیں۔ آپ کا خدا آپ کے والدین ہیں، جنھوں نے جو کہا، آپ نے بنا تحقیق اس کو سچ مان لیا۔ اب کوئی آپ کو ایسی بات بتا دے جو آپ کے والدین کے بتائے ہوئے مذہب سے جدا ہو، تو آپ کو حیرت ہوتی ہے، آپ اس حیرت کا علاج یہ کرتے ہیں، کہ جھٹلا دیتے ہیں، کیوں کہ یہ بات آپ کو پہلے نہیں بتائی گئی، لہذا جو بات کچی عمر میں سنی نہیں، اب کیوں مانی جائے۔
ایسے ہی خدا کو اتنا ہی پہچانا، جتنا اپنے والدین کو پہچانا، تو جہاں والدین غلط دکھائی دیے، وہیں خدا بھی غلط نظر آیا۔ مشاہدہ بھی یہی ہے کہ جو جس مذہب میں پیدا ہوا، وہ اسی مذہب کا پیروکار کہلایا۔ جس فقہ، جس فرقے میں پیدا ہوا، اس فرقے کو سچ مانا، ان کی نگاہ میں باقی سب کا مذہب جھوٹ ہے۔ لہاذا اس کہانی کو ذہن میں رکھیں تو ایسے مذہبی جنھوں نے خدا کو اپنے والدین کی نظر سے دیکھا ہے، ان کا خدا ان کے اجداد ہیں۔ اکثر لوگوں کی حقیقت بس اتنی سی ہے۔
ستمبر 2017ء
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔