بس اور تو کچھ نہیں ہوا ،ایک مصروفیت تھی جس سے اُس نے مجھے فارغ کر دیا ،ورنہ اب بھی صبح اُٹھ کر چائے بناتا ہوں ، بالکونی میں چائے اور سگریٹ ساتھ ساتھ پیتا رہتا ہوں ،فیس بک پہ اپنی پوسٹ کو لائیک کرنے والوں کی تعداد گنتا رہتا ہوں ، بجلی فون اور بنک کے بل بھی ادا کرتا ہوں ، سب کام ویسے ہی کرنے میں مصروف ہوں ،مگر وہ جو ایک ،مصروفیت،، تھی وہ اس نے ختم کرا دی
وقت وقت کی بات ہے ایک دور تھا شہر مصروف رکھنے والوں سے بھرا پڑا تھا ،ایک نے مصروفیت سے فارغ کیا تو کسی اور نے مصروف رکھنے کا کام دے دیا ، ورنہ خود ہی اپنی مصروفیت کی سی وی لے کر کسی کے پاس چلے گئے اور اس نے ہنسی خوشی مصرفیت کا کام دے دیا ۔ مگر اب عمر کے اس حصہ میں آ چکا ہوں کہ میں نے سوچ رکھا تھا،، مسعود میاں اب کام روز روز نہیں ملنے والا، لہذا ایک ہی سے دل لگا کر مصروفیت والا کام کرنا، اور اسی کی مصروفیت میں باقی عمر گزار دینا، اب اگر چھٹی ہو گئی تو نئی مصروفیت نہیں ملے والی ،، اور ایسا ہی کیا۔۔ کھانا بھی یہیں لے آتا کہ کہیں میسج کا جواب دینے مین دیر نہ ہو جائے ، اس سے سکریں پہ ملنے کا خاص وقت ہوتا تھا اس عرصے میں اگر کسی کی شادی یا جنازے پہ جانا ہوتا تو گھر والوں کو بیھج دیتا ، کہ کہیں اس کا میسج مس نہ کر دوں ۔ کیونکہ کبھی کبھار وہ ایمر جنسی میں بھی مصروفیت کا کام دے دیتی تھی ،، اور میں ہنسی خوشی قبول کر لیتا ۔۔۔ پھر میں نے اس کا ایک حل نکالا سکائپ وائیبر کو اپنے فون پہ ڈون لوڈ کر لیا ، اب میں ہر وقت اس سے مصروفیت کا کام لتا رہتا ، بالکونی میں جاتا، وائین خریدنے کے لیے مارکیٹ جاتا تو اسے سکائپ میں ساتھ لے جاتا ، گھنٹون کافی ہاوس میں اس کی مصروفیت کے کام سر انجام دیتا رہتا ، ایک دفعہ اسے ایک شادی میں لے گیا اور وہاں جب لوگ اپنے اپنے کپل کے ساتھ ڈانس کر رہے تھے تو میں نے سکایئپ ان کر کے اس کے ساتھ ڈانس کیا ،، اور تو اور ایک دفعہ میں اسے ایک جنازے می بھی لے گیا حالنکہ مسلمانوں کے جنازوں میں عورت کو جانے کی اجازت نہیں ہے مگر میں نے پچھلی صف مین سکائپ ان کر کے اسے اپنے ساتھ کھڑا کر لیا
بس اسی طرح دن رات دل لگا کر مصروفیت کے کا کاموں میں مصروف ریتا ، رات سوتے ہوئے اس خیال کے ساتھ سوتا کہ صبح صبح مجھے اسے اُٹھانا ہے اور مصروفیت کا کام لینا ہے ویسے اگر مجھے دیر ہو جاتی تو وہ بھی کبھی کبھار صبح صبح اُٹھا کر مصروفیت کا کام دے جاتی ، وہ کوئی لمبا سا میسج دے کر سمجھتی کہ مین اسے پڑھنے اور اس کا جواب دینے مین کم از کم دو گھنٹے نہیں تو ایک گھنٹہ تو ضرور لوں گا مگر میں دس پندرہ منٹ میں جوابی پیغام لکھ کر دوسرے میسج کا تقاضا کرنے لگ جاتا ،
اور پھر یہی دن رات میرا کام کرنا میرے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ، میں اور کام اور کام اور کام کا دن رات تقاضا کرنے لگ گیا ، اور آخر تنگ آکر اس نے مجھے مصروفیت سے ہی فارغ کر دیا۔۔
بس اور تو کچھ نہیں ہوا اب بھی صبح اُٹھ کر چائے بناتا ہوں بالکونی مین چائے کے ساتھ ساتھ سگریٹ پیتا ہوں ، اب بھی فیس بک پہ اپنی پوسٹ کو لائیک کرنے والوں کی تعداد گنتا رہتا ہوں ، اب بھی بجلی فون اور بنک کے بل ادا کرتا ہوں ،اب بھی وائین شاپ سے جا کر وائیں خریدتا ہوں ، سب کام ویسے ہی کرتا ہوں ،،،،،، مگر ،،،،،، مگر وہ جو ایک مصروفیت تھی اس سے اس نے مجھے فارغ کر دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود قمر
“