بلا کا رش تھا۔ ٹریفک اندھادھند تھی اور بے ہنگم گاڑیوں کا دھواں‘ پیں پیں کی آوازیں‘ چلتی رکتی بسوں کے کنڈکٹروں کی مسافروں کو بلاتی صدائیں‘ پیدل چلنے والوں کا ازدحام‘ سب کچھ بھیڑ میں اضافہ کرنے والا تھا۔ گاڑیاں اِنچوںکے حساب سے رینگ رہی تھیں۔ ایسے میں زور کی دھماکہ نما آواز آئی۔ ہماری گاڑی کو پچھلی گاڑی نے ٹکر ماری تھی۔ میں نے گاڑی ایک طرف کرلی۔ پیچھے والی گاڑی بھی ایک طرف ہو کر رک گئی۔ جتنی دیر میں‘ میں گاڑی سے نکل کر چند قدم پیچھے کی طرف چلا اور جتنی دیر میں پچھلی گاڑی کا ڈرائیور باہر نکل کر چند قدم آگے کی طرف چلا کم از کم چھ افراد جمع ہو چکے تھے۔ ابھی میں نے اور پچھلی گاڑی والے نے آپس میں کوئی بات ہی نہیں کی تھی کہ یہ تعداد چھ سے آٹھ اور پھر بارہ ہوگئی۔ دو سفید ریش اشخاص بار بار کہے جا رہے تھے: ’’چھوڑیں جی‘ جانے دیں‘‘۔ ایک نوجوان بلند آواز سے بولا: ’’غلطی پچھلی گاڑی کی ہے‘‘۔ ایک اور آواز آئی: ’’اگلی گاڑی والے نے بھی تو کچھ کیا ہی ہوگا نا‘‘۔ خوش قسمی سے پچھلی گاڑی والا شریف آدمی تھا۔ اس نے اپنا کارڈ مجھے دیا اور کہا کہ غلطی اُس کی تھی۔ گاڑی کی مرمت پر جتنا خرچ آئے گا‘ وہ ادا کرے گا۔ قیامت کے ہنگامے میں ایسا شریف انسان نعمت سے کم نہ تھا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ لیکن جمع ہو جانے والے آدمیوں کے (جن کی تعداد اب بیس سے کیا کم ہوگی) چہروں پر جو ناامیدی تھی‘ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جس تماشے کی امید میں وہ دوڑ کر آئے تھے‘ ہوا ہی نہیں! ہم نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے‘ نہ چیخے‘ نہ گالیاں دیں‘ نہ گریباں پکڑے‘ نہ پولیس آئی نہ ٹریفک بلاک ہوئی!
یہ وہ منظر ہے جو ہم اور آپ ہر روز دیکھتے ہیں‘ جیسے ہی دو گاڑیاں ٹکراتی ہیں۔ جیسے ہی دو افراد میں توتو میں میں کی ابتدا ہوتی ہے‘ ایک ’’سرگرمی‘‘ شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی ویگن چلا رہا ہے یا کار‘ گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کرتا ہے اور پھر بھاگ کر جائے واردات پر پہنچتا ہے۔ نوٹ کرنے کی خصوصی بات یہ ہے کہ بھاگ کر پہنچ جانے کے بعد اُس نے وہاں صرف کھڑا ہونا ہے۔ نزدیک سے نزدیک کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہے اور پھر دیکھنا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ اگر آپ دو گھنٹوں کے بعد بھی وہاں سے گزریں گے تو منظر یہی ہوگا۔
اس صورتِ حال کی وجہ کیا ہے؟ فراغت اور صرف فراغت! فراغت ایک جامع لفظ ہے جس کا گھیرا وسیع ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اِن لوگوں کے پاس کام کوئی نہیں۔ اس کا مطلب بے روزگاری بھی نہیں! اس کا مطلب یہ رویہّ ہے۔ ایسا رویہ جس میں ڈیوٹی کا احساس ہے نہ ذمہ داری کا۔ جس شخص نے حادثہ یا لڑائی دیکھ کر ویگن یا کار ایک طرف کھڑی کردی اور دوڑ کر جائے حادثہ پر پہنچا‘ ایسا نہیں کہ وہ بے کار ہے۔ اُس نے ایک جگہ پہنچنا ہے‘ مگر اُسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ تاخیر کا مرتکب ہو رہا ہے اور کہیں کوئی اس کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ جتنی دیر چاہے گا‘ ’’تماشے‘‘ سے لطف اندوز ہوگا۔ پھر وہ اپنی مرضی سے‘ جب بھی دل اکتا جائے گا‘ گاڑی میں بیٹھ کر منزل کا رُخ کرے گا۔ دو یا تین گھنٹے کی تاخیر ہمارے ملک میں کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں! انتظار کرنے والے پوچھیں گے نہ تاخیر سے پہنچنے والے کو کچھ بتانے کی یا معذرت کرنے کی ضرورت ہے! یہی فراغت ہے!
ہمارے پاس فراغت ہی فراغت ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم ایک فارغ قوم ہیں! سب کچھ اپنی رفتار سے چل رہا ہے۔ فکر کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی کی پروا! دکان نو بجے کھلنی ہے تو دس بجے کھلے گی۔ دفتر آٹھ بجے لگنا ہے تو ساڑھے نو پہنچیں گے۔ اور تو اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس وقت پر نہیں شروع ہو سکتے۔ ڈاک خانے میں جس بابو نے آپ کے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کرنی ہے‘ وہ کھڑکی پر ہاتھ سے لکھا ہوا اعلان لٹکا گیا ہے: ’’وقفہ نماز ڈیڑھ بجے‘‘۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ وقفہ جو ڈیڑھ بجے شروع ہوا‘ ختم کب ہوگا۔ تین بجنے کو ہیں‘ کھڑکی کے سامنے لوگ جمع ہیں‘ جب بابو آ کر کھڑکی کھولے گا‘ اُس سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔ اگر کسی سر پھرے نے پوچھ بھی لیا تو اُسی کے ساتھ کھڑا شخص اُسے سمجھانے لگے گا کہ چھوڑو بھائی! کام کرائو اور چلتے بنو!
فراغت کا مضحکہ خیز مظاہرہ شادیوں کی تقاریب میں آئے دن کیا جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ مظاہرے مضحکہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ دردناک بھی ہیں۔ ولیمے کی تقریب ہے۔ بہترین ملبوسات زیب تن کیے‘ خوشبوئوں میں لپٹے معزز مہمان چار گھنٹوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کیوں؟ ایک پلیٹ چاول‘ آدھے نان اور گوشت کے چند ٹکڑوں کی خاطر! دیر کس بات کی ہے؟ لڑکی والے ابھی نہیں پہنچے‘ پہنچیں گے تو کھانا شروع ہوگا! لڑکی والے کب پہنچیں گے؟ اس آسمان کے نیچے اور اس زمین کے اوپر کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کب پہنچیں گے! وقت کے تعین کا کوئی عمل دخل اس سارے کھیل میں کہیں ہے ہی نہیں!
سرکاری تقاریب کا بھی یہی عالم ہے۔ کہیں وزیر صاحب کا انتظار ہو رہا ہے تو کہیں وزیراعظم کا اور کہیں صدر صاحب کا! چند دن پہلے کراچی کی ایک تقریب میں سینیٹ کے چیئرمین تاخیر سے پہنچے۔ اُس وقت ایک نوجوان تقریر کر رہا تھا‘ اس کی تقریر میں آمد اور استقبال کی وجہ سے رخنہ ڈالا گیا تو اس نے احتجاج بھی کیا! لیکن ایسے احتجاج کرنے والے اس معاشرے میں پاگل کہلاتے ہیں اور انہیں اس پاگل پن کی باقاعدہ سزا دی جاتی ہے!
کسی دفتر چلے جائیے۔ جاڑا ہے تو ملازمین گروہوں میں کھڑے دھوپ سینکتے پائے جائیں گے‘ گرمی کا موسم ہو تو درختوں کے سائے میں کھڑے ہوں گے۔ کینٹین بھری ہوئی اور ڈیوٹی والے کمرے خالی ہوں گے۔ کالجوں میں اساتذہ کی اکثریت کے نزدیک پیریڈ نہ پڑھانا کوئی بڑی بات نہیں! ہسپتالوں میں مریض گھنٹوں نہیں پہروں انتظار کرتے ہیں‘ ڈاکٹر کے بارے میں اُس کے نائب قاصد سمیت کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا! وفاقی دارالحکومت میں ایک اہم وزارت کے انچارج وزیر صاحب صرف بدھ کے دن دفتر تشریف لاتے ہیں! جہاں پوری قوم فارغ ہو‘ وہاں یہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں! یہ کوئی سنگاپور یا ہالینڈ تھوڑی ہی ہے کہ وزیراعظم سمیت سارے وزرا مقررہ وقت پر دفتروں میں پہنچیں۔ پورا ملک قبائلی طرز پر چل رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے بھی یہ ملک نویں دسویں صدی میں زندہ ہے۔ ہر شخص قبیلے کا سردار ہے۔ وزیر ہے یا افسر‘ دکاندار ہے یا اہلکار‘ ٹرین چلانے والا ہے یا جہاز اڑانے والا‘ کالج کا استاد ہے یا منتخب ایوان کا رکن! اس پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا! بالکل اس طرح جیسے قبائلی سردار پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا! وہ چاہے تو دربار لگائے‘ چاہے تو شکار کو نکل جائے‘ چاہے تو حویلی سے باہر ہی نہ آئے!
قومیں منصوبہ بندی ڈویژن یا آئی ایم ایف کے عطا کردہ اعدادوشمار سے ترقی نہیں پاتیں‘ نہ سر بفلک عمارتوں‘ ایئرپورٹوں اور ٹرینوں اور بسوں کے منصوبوں سے! ہمارے وزیراعظم ایک نہیں‘ چار جہاز لے کر ہزاروں ساتھیوں سمیت امریکہ کا دورہ کرلیں‘ ہم پھر بھی ترقی یافتہ کہلائیں گے نہ مہذب! مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کے جہازوں میں سونے چاندی کے پلنگ نصب ہیں‘ پھر بھی ان کے ملک ترقی یافتہ ملکوں میں شمار نہیں ہوتے‘ اس لیے کہ ترقی کا دارومدار رویے پر ہے۔ خواہ وہ دکاندار کا رویہ ہے یا دفتری کلرک کا یا وزیر کا یا حکمرانِ اعلیٰ کا! دکاندار یا دفتری ملازم حکومت سے کیا شکوہ کر سکتا ہے! کیا وہ خود اپنے دائرے کا کام کر رہا ہے؟
شفیق الرحمن نے ایک جگہ ایک واقعاتی لطیفہ لکھا ہے۔ ایک شخص مصروف شاہراہ کے کنارے کھڑا ہوگیا اور اُوپر بالکونی کو دیکھنے لگ گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور صاحب بھی اس کے ساتھ آ کھڑے ہوئے‘ پھر ایک اور‘ پھر ایک اور۔ تھوڑی دیر میں اچھا خاصا مجمع اُوپر بالکونی کو دیکھ رہا تھا۔ بالکونی میں کھڑے صاحب نیچے دیکھ رہے تھے کہ کیا بات ہے؟ اصل بات یہ تھی کہ سب فارغ تھے!
ہم ایک فارغ قوم ہیں۔ مکمل طور پر فارغ۔ سب کھڑے ہیں
اوراوپر بالکونی کو دیکھے جا رہے ہیں
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“