فریدپربتی کی شخصی اور ادبی جہات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مطالعہ۔۔۔۔۔۔۔
میری عجلت پسندی نے ہی پل پل رْخ بدل ڈالا
اسی راستے پہ ورنہ ساتھ میں اکثر گئی دنیا
(فرید پربتی)
یہ بات بلا ترددکہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر فرید پربتی ؔ ؔ کے تخلیقی اظہار اور تصنیفی نگارشات کی شگفتگی باذوق قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب رہیں۔اس کا بین ثبوت پیش نظرکتاب’’فرید پربتی ؔ کے شخصی اور ادبی جہات‘‘کی گراں قدر تحریریں ہیں۔یہ کتاب محمد اقبال لون (کپوارہ کشمیر) نے مرتب کی ہے۔۲۹۱ صفحات پر مشتمل یہ کتاب میزان پبلشرزسرینگر نے۲۰۱۴ ء میں شائع کی ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر فرید پربتی کے فن اور شخصیت پر تحریر شدہ تحریرات کی فہرست یوں ہے:
اشارات و کنایات(محمد یوسف مشہورؔ )‘فرید پربتی اور محمد اقبال لون(ڈاکٹر راشد عزیز)‘حرف آغاز( محمد اقبال لون)‘مقّدمہ(محمد اقبال لون)‘خوش خلقی کا پیکر۔ فرید پربتی(پروفیسر مجید بیدار)‘فلسفیانہ بصیرت اور احساس کا شاعر۔فرید(ڈاکٹر عقیل احمد)‘فریدپربتی۔ رباعیات کے حوالے سے(رو ف خیر)‘کوئی دیوار گری ہو جیسے۔فرید پربتی(پروفیسر قدوس جاوید)‘ضمیر متکلم کا شاعر(محمد یوسف مشہور)‘فرید پربتی کی رباعیوں کی چند جہتیں(سید یحییٰ نشیط)‘ترے نام کے ساتھ مرحوم کیسے جوڑوں۔فرید(دیپک بْدکی)‘فرید پربتی۔شخصیت کے بعض منفرد پہلو(منظر اعجاز)‘فرید پربتی۔چند ملاقاتوں کے آئینے میں(عبدالغنی شیخ)‘فرید۔فنی اکتسابات کے آئینے میں(پروفیسر محمد انوارالدین )‘جدید اور منفرد لب و لہجے کے شاعر(پروفیسراحمد صغیر)‘فرید۔ہزار امکان کے آئینے میں(پروفیسر توقیر احمد خان)‘فریدپربتی۔شخصیت کے بعض گوشے (پروفیسر اسداللہ وانی)‘صنفِ رباعی اور فرید پربتی کا فکری اور فنی ارتفاع(منشور بانہالی)‘فرید پربتی کی غزل گوئی کے امتیازات(اشرف عادل)‘فرید پربتی بحیثیت قطعہ 191 نگار(ارشاد علی غوری)‘فرید پربتی کا شعری روّیہ(ڈاکٹر عزیزہ بانو)‘ایسا کہاںں سے لاو ں کہ تجھ سا کہیں جسے(سلم سالک)‘فرید پربتی کا شعری تشخّص(اکٹر گلزار احمد وانی)‘فرید پربتی کے تخلیقی شعور کی انفرادیت(فلک فیروز)‘شعری روایت کے نبض شناس۔فرید پربتی(محمد امتیاز احمد)‘ہجوم آئینہ۔ ایک سرسری جائزہ(محمد اقبال لون)۔
مذکورہ تحقیقی ‘تنقیدی‘تاثراتی اور تجزیاتی نگارشات میں ڈاکٹر فرید پربتی کے فکر و فن اور شخصیت پر فیض معلومات افزا روشنی ڈالی گئی ہے۔ جموں وکشمیر میں اردو شعر و ادب کے تواریخی پس منظر پر کئی کتابیں اور مضامین تحریر ہوئے ہیں۔محمد اقبال لون نے کتاب کے مقدمہ کے تحت اس تواریخی پس منظرکا اجمالی خاکہ پیش کرتے ہوئے فرید پربتی کی شخصیت اور فن پر ایک مبسوط مقالہ پیش کیا ہے۔بائیس صفحات پر مشتمل اس مقالے میں فرید پربتی کی حیات ‘تالیف و تصنیف اورشاعری پر تحقیقی وتجزیاتی نقط نگاہ سے اظہار خیال کیا گیا ہے۔موصوف فرید پربتی صاحب کے شخصی خصائص کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر فرید پربتی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔وہ بیک وقت شاعر ‘نقاد‘دانشور‘ایک رفیق و شفیق استاد اور ایک باصلاحیت
منتظم بھی تھے۔ان کی شخصیت ہمہ جہت پہلوو ں اور نمایاں خصوصیات کی حامل ہیں۔‘‘
(فرید پربتی کے شخصی اور ادبی جہات :ص۔۲۳)
فرید پربتی کی خوش خلقی اور دوستانہ مراسم کا اعتراف بیشتر لوگ کرتے آئے ہیں ‘اس تعلق سے پروفیسر مجید بیدار بھی اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فرید پربتیکی خوش اخلاقی اورخوش خلقی اردو والوں کے دلوں میں اس قدر گھر کرچکی ہے کہ ہمیشہ فرید پربتی کے اردوزبان وادب
کے احسانات کی یاد اسے جاوداں رکھے گی۔‘‘
(ص۔۱۴)
اردو میں فرید پربتی کی شعری شناخت کے حوالے سے ڈاکٹر شیخ عقیل احمد اپنے مضمون’’فلسفیانہ بصیرت اور عصری احساس کا شاعر۔ فرید پربتی‘‘میں لکھتے ہیں:
’’یوں تو فرید پربتی نے تنقید و تحقیق میں بھی اپنا ایک مقام پیدا کرلیا تھالیکن بنیادی طور پر وہ ایک فطری شاعر تھے۔فریدپربتی
کاتعلق بھلے ہی وادی کشمیر سے ہے لیکن انہوں نے اپنے آپ کو علاقائیت کے حصار سے باہر نکال کر خود کو آفاقی شعراء کی صف
میں لاکھڑا کردیا تھا۔یہی وہ جذبہ ہے جس کی بدولت ان کی شاعری میں آفاقیت پیدا ہوئی اور انہیں آفاقی شہرت ملی۔‘‘ (ص:۲۴)
پروفیسر قدوس جاویدنے اپنے مضمون’’کوئی دیوار گری ہو جیسے۔فرید پربتی‘‘میں فرید پربتیکی شخصیت کا مشاہداتی اور شاعری کابھر پور تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔موصوف فرید پربتی کی شاعری کامجموعی طور پر جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ویسے جوتجربات اور محسوسات(شاعری میں) فرید پربتی نے بیان کئے ہیں انہیں فن کارانہ استعارہ سازی اور ابہام
سے کام لے کر اور زیادہ معنی خیز ‘حسین اور پْرکشش بنایا جاسکتا تھا۔۔۔۔۔پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ فرید پربتیکی شاعری
بحیثیت مجموعی ایک طرف تو کلاسیکی اردو شاعری کے لسانی و اظہاری امتیازات کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھتی ہے دوسری جانب فکرو خیال کے حوالے سے جدید اْردو شعراء کے رجحانات اور ریّوں سے بھی مماثلت پیدا کرتی ہے۔‘‘
(ص:۲۴۔۳۴)
شعر میں جب ضمیر متکلم کا دخل ہوتا ہے تو وہ ابہامی صورت اختیار کرجاتا ہے اورقاری کے لئے کسی ایک معنی پر حتمی فیصلہ لینا تھوڑا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ فرید پربتی کے کلام میں واحد متکلم کی کیا صورت حال ہے ‘اس پر محمد یوسف مشہوراپنے مضمون’’ضمیر متکلم کا شاعرفرید پربتی‘‘ میں لسانی تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فریدکے کلام میں جو ذخیرہ الفاظ ہے ‘اس میں بیشتر حصّہ اسی ضمیر متکلم سے وابستہ ہے۔اکثر افعال کا یہی صیغہ کام میں
لایا گیا ہے۔میں ‘مجھے مجھ کو‘مجھ سے‘مجھی سے‘مجھی کو‘میرا ‘میری‘میرے‘میں نے‘ہوں کروں‘کہوں‘مجھ میں‘جاو ں‘بنوں
وغیرہ کی تکرار ہر غزل اور اکثر رباعیات میں نمایاں ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ یہی فریدکی شاعری کی پہچان اور خصوصیت
ہے تو لسانیاتی اعتبار سے غلط نہیں ہوگا۔‘‘
(ص:۲۷)
صنفِ رباعی مشکل صنف سخن کے دائرے میں آتی ہے۔فنی اعتبار سے رباعی سخت ریاض کی متقاضی ہے کیونکہ چار مصرعوں میں ہی شاعر کو اپنا فنی جوہر دکھانا پڑتا ہے۔فرید پربتی نے فن رباعی میں جو کمال حاصل کیا تھا‘اس کا اعتراف کتاب کے چند مضامین میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس تعلق سے منشوربانہالی اپنے مضمون’’صنّفِ رباعی اور فرید پربتی کا فکری اور فنی ارتفاع‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فرید پربتی کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔وہ رباعی کے فن سے پوری طرح سے آشنا ہیں اور اس کے ہی 191تی اور اسلوبیاتی تاروپود کا بھرپور التزام کرتے ہیں فریدپربتیکے ہاں رباعی کی فنی نزاکت کا پورا ادراک اور اہتمام دیکھا جاسکتا ہے اور وہ اسے پوری کامیابی کے ساتھ برتنے کا ہنر اورسلیقہ رکھتے ہیں۔‘‘
(ص:۳۳۱)
اسی طرح پروفیسر محمدا نورالدین اپنے مضمون’’ڈاکٹر فرید پربتی ‘فنی اکتسابات کے آئینے میں‘‘میں فرید پربتی کے نثری اور شعری خدمات کا جائزہ لینے کے بعد ان کی رعبایات کے حوالے سے رقمطراز ہیں:
’’فرید پربتی کی رباعیات ان کی بے پناہ تخلیقی صلاحیت‘جدّت طبع‘جودتِ فکر‘مشاہدے کی درّاکی‘زبان وبیان کے پیرائیوں
پر ان کی ماہرانہ قدرت اور فنی وجمالیاتی بصیرت کی مظہر ہیں۔‘‘
(ص:۴۱۱)
فرید صاحب کے قابل ترین شاگردوں میں سلیم سالک بھی شامل ہیں۔اس حیثیت سے وہ اپنے مشاہدات اور تاثرات کا اظہار اپنے مضمون’’ایسا کہاں سے لاو ں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فرید صاحب کا زندگی کا نظریہ اور لوگوں سے بہت مختلف تھا۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اختلاف رنگ وبو سے بات بنتی ہے۔۔۔۔وہ ہر کام میں عجلت آمیز مستعدی سے کام لیتے تھے۔ان کے روابط اردو دنیا سے بہت زیادہ استوار تھے۔وہ ہر
سال ایک یا دوکتابیں شائع کرتے جیسے انہیں پہلے ہی معلوم تھا کہ زندگی زیادہ دیر وفا نہیں کرے گی۔’’ابر کرم‘‘سے ’’ ہجوم آئینہ‘ تک کا تخلیقی سفر آٹھ شعری مجموعوں میں مکمل کیا۔‘‘
(ص:۶۱۰)
کسی بھی فنکار کی تخلیقی توانائی ہی اس کے ادبی مقام کی شناخت قائم کرنے میں بنیادی رول ادا کرتی ہے۔فریدپربتی کے تخلیقی منظر نامے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر گلزار احمد وانی اپنے مضمون ’’فریدپربتی کا شعری تشخص ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’فریدپربتی کے اشعار میں معنوی سطحیں بھی ہیں اور معنوی جہتیں بھی اور یہی ان کے کلام کا انفراد بھی ہے کہ چاہئے نزدیک سے
دیکھیں یا مناسب فاصلے سے ‘ہر ایک شعراپنے اندر ایک عالم سموئے ہوئے نظر آتا ہے۔خواب ‘تعاقب‘لمحات گریزاں‘ عصر رواں‘ریت اور شمع جیسے الفاظ ان کے یہاں وہ احساس دلاتے ہیں جو انسان کے باطن میں حشر بپا کردیتے ہیں۔ان کے اشعار میں موسیقیت و نغمگی رچی بسی ہوئی ہے۔‘‘
(ص:۶۶۱)
مجموعی طور پر کتاب کے مشمو لات فیض بخش محسوس ہورہے ہیں کیونکہ سبھی نگارشات میں فرید پربتی کے فکروفن اور شخصیت کو ہی موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔کتاب کے مرتب جناب محمد اقبال لون کی سلیقہ شعاری ‘خلوص اور علم دوستی کی داد لازمی ہے کیونکہ بقول ڈاکٹر راشد عزیز: ’’محمد اقبال لون نے اپنی علمی لگن اور ادب دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک اہم کتاب ’’فریدپربتی کے شخصی اور ادبی جہات‘‘ مرتّب کی ہے اور وادی کشمیر کے بڑے فنکار اور اردو دنیا کے جانے مانے شاعر و ادیب ڈاکٹر فرید پربتی کو ایسا خراج عقیدت پیش کیا ہے جو فرید کے فن اور شخصیت تک رسائی کا ایک یادگار وسیلہ ثابت رہے گا۔‘‘
(ص :۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
پتہ :وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر19322
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔