فرحت نواز میرے جنوبی پنجاب سے نمایاں ہونے والی اہم شاعرہ ہیں۔ایم اے اکنامکس اور ایم اے انگریزی کرنے کے بعد ایک گورنمنٹ کالج میں انگریزی کی لیکچرارہو گئیں۔اب گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین رحیم یار خان میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔انگریزی کے شعبہ کی سربراہ ہیں اور کالج کی وائس پرنسپل بھی ہیں۔فرحت ۱۹۷۸ء میں ادبی دنیا میں وارد ہوئی تھیں۔۱۹۹۰ء کے عرصہ تک وہ شعروادب کی دنیا میں متحرک رہیں لیکن شادی کے بعد ان کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں اور انہوں نے پوری توجہ اپنے گھر پر مرکوز کر دی۔اب وہ ایک وقفہ کے بعد ادبی دنیا میں آئی ہیں اور اپنا شعری مجموعہ پیش کرکے اپنی واپسی کا اعلان کیا ہے۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ان کے شعری مجموعہ’’استعارہ مِری ذات کا‘‘کو ادبی دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔بہت سارے ادیبوں نے فرحت کی شاعری پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس دوران مجھے یہ احساس ہوا کہ فرحت کے فن اور شخصیت کی بعض اور جہتیں بھی ہیں۔اپنے متحرک دور میں وہ کئی دوسری ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہی ہیں۔اس لیے میں فرحت کی شاعری پر تو لازماََ بات کروں گا لیکن چاہوں گا کہ شاعری کے علاوہ ان کی دوسری جہتوں کا بھی ذکر کردوں۔اس سے ان کی ادبی شخصیت کا ایک مجموعی تاثر قائم کرنے میں آسانی ہو سکے گی۔
فرحت کی پہلی اور بنیادی پہچان ایک شاعرہ کی ہے۔ان کی شاعری میں غزلیں،نظمیں اور ماہیے تینوں شعری اصناف کی تخلیقات مل جاتی ہیں۔ان کے شعری موضوعات میں حمد،نعت،دعا،ماں،باپ،شوہر،بہن بھائی سے ہوتے ہوئے بیٹی،بیٹے تک کا ذکرشامل ہے۔اس سلسلہ کی ساری نظمیں اپنے عنوان سے ہی پہچانی جا سکتی ہیں۔مثلاََ حمدیہ،نعتیہ،دعائیہ،دعا،بابل،بابل تیری یاد آئے،چلو میں مان لیتی ہوں،ویمن ڈے پر لکھی گئی دو نظمیں ، ابریز کے لیے ایک نظم،غزنہ کے لیے ایک نظم۔پھر یہ سارے موضوعات نظم سے ہٹ کر غزل اور ماہیے بھی کہیں کہیں اپنی چھب دکھلاتے ہیں۔ ’’استعار مِری ذات کا‘‘کے شروع میں جو ماہیے ملتے ہیں حمدونعت کے بعد وہ سارے ماہیے انہیں رشتوں کے ذکر پرمشتمل ہیں۔غزل میں بھی بعض رشتوں کا ذکر مل جاتاہے۔
میں دنیا کی گرمی،سردی بھول گئی
ماں کی گود میں ٹھنڈک ہے گرمائی ہے
دکھ نہ میرا سمجھ سکیں دونوں
اک سہیلی تھی،ایک ماں جائی
موضوعات کے حوالے سے سماجی اور سیاسی طور پر قومی اور بین الاقوامی صورتِ حال بھی فرحت کے ہاں تخلیقی توازن کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔اس سلسلہ میں قومی نوعیت کی نظموں میں ایک روشن دیا، ایک چیک پوسٹ پر،اعلان فرمادو،انوکھی تاجپوشی اور فرعون کی کرسی جیسی نظمیں بالکل سامنے دکھائی دیتی ہیں۔بین الاقوامی حوالے سے امن کی فاختہ کے نام ان کی تین نظمیں بے حد اہم ہیں۔
ان موضوعات علاوہ وہ موضوعات بھی فرحت کی شاعری میں کثرت سے ملتے ہیں جو ہماری اردو شاعری کا خاصہ ہیں۔محبت کے مرکزی موضوع سے جڑے ہوئے متعددذیلی موضوعات فرحت کی شاعری میں رنگوں اور خوشبوکی بہار لیے ہوئے ہیں۔فرحت کی شاعری کے بارے میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس میں نہ تو شاعری کے نام پر غیر ضروری دانش وری بگھاری گئی ہے اور نہ ہی نسائیت یا تانیثیت کے نام پر مطالبات یا الزامات کا طومار باندھا گیا ہے۔فرحت کی شاعری میں اپنے حق کی بات کی گئی ہے لیکن کسی دھمکی آمیز لہجے میں نہیں بلکہ محبت میں کیے جانے والے شکوے شکایت کے انداز میں بات کی گئی ہے۔اس بات کو سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ فرحت نے کسی تحریک کے زیرِ اثر ایسی شاعری نہیں کی بلکہ اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں اپنے دکھ بیان کیے ہیں۔کہیں شکوہ کرتے ہوئے اور کہیں صرف دکھی ہوتے ہوئے۔ محبت میں خوشی کے لمحات بھی فرحت کی شاعری میں سرشاری کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔لیکن ایسے ہر اظہار میں سلیقے سے کام لیا گیا ہے۔اس طرح فرحت کی شاعری کسی نام نہاد دانشوری کا اظہار بننے کی بجائے خالصتاََ ان کی ذاتی زندگی میں آنے والی مختلف کیفیات کا اظہاربن جاتی ہے۔اپنی سادگی کے باوجود یہ شاعری خواتین کی عمومی شاعری سے بالکل الگ ہے۔
فرحت نے ترجمے کا تھوڑا سا کام بھی کیا ہے۔اردو افسانوں کا ایک انتخاب کرکے اسے سرائیکی میں ترجمہ کیا۔یہ کتاب ستمبر ۱۹۸۰ میں شائع ہوئی۔۱۵۹صفحات کی اس کتاب میں نئے پرانے ملا کر بائیس افسانہ نگاروں کے افسانے شامل کیے گئے ہیں۔انمیں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی۔سعادت حسن منٹو، غلام عباس سے لے کر جوگندر پال،انتظار حسین،رشید امجد،منشا یاد،حیدرقریشی اور متعدد دیگر افسانہ نگاروں تک کو شامل کیا گیا ہے۔اس کتاب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے معروف سرائیکی دانش ور صدیق طاہر لکھتے ہیں۔
’’نثری تحریروں میں افسانہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی صنفِ ادب ہے۔منتخب کردہ افسانوں کے سرائیکی ترجمے کا مجموعہ’’منزلاں تے پندھیڑے‘‘(منزلیں اور مسافتیں)عصری ادب پر نگاہ رکھنے کے لیے کی جانے والی کوشش کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ منتخب افسانے اردو نثری ادب کی انمول دولت ہیں۔چونکہ سرائیکی ادیب اور قاری دونوں کو نثری ادب کے موجودہ رجحانات اردو کے واسطے سے ملے ہیں اس لیے یہ مجموعہ سرائیکی ادیبوں اور سرائیکی پڑھنے والوں،دونوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگا۔
مجھے یقین ہے کہ فرحت نواز کی اس محنت کا جو دوہری افادیت کی حامل ہے،سارے ادبی حلقوں میں دلی طور پر خیر مقدم کیا جائے گا۔‘‘(’’منزلاں تے پندھیڑے‘‘کے فلیپ پر درج رائے کا اردو ترجمہ)
ایک اور کتاب’’وزیر آغا دیاں چونڑویاں نظماں‘‘(وزیر آغا کی منتخب نظمیں)ہے۔اسے فرحت نے مرتب کیا ہے۔اس میں وزیر آغا کی تیس نظموں کے ترجمے فرحت سمیت بارہ ادیبوں نے کیے ہیں۔ترجمہ نگاروں کا تعارف فرحت نے تحریر کیا ہے اور کتاب کا پیش لفظ بھی فرحت ہی کا تحریر کردہ ہے۔
یہ دونوں کتابیں جدیدادب پبلی کیشنز خانپور اور ممتاز اکیڈمی بھٹہ واہن کے تعاون سے ستمبر ۱۹۸۰ میں شائع ہوئیں۔
ترجمہ کا ایک اور کام فرحت نے اردو سے انگریزی میں کیا ہے۔اکبر حمیدی کی غزلوں کا انگریزی ترجمہ کتابی صورت میں The Day Shall Dawn کے نام سے شائع ہوا تھا۔اس کے ترجمہ نگاروں میں جمیل آذر،حامد برگی اور فرحت نوازکے نام شامل ہیں۔فرحت نے اکبر حمیدی کی بارہ غزلوں کا ترجمہ کیا ہے۔یہاں ان غزلوں کا پہلا مصرعہ اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش ہے۔اس سے فرحت کے ترجمے کے معیار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
صبا کاہاتھ لے ہاتھوں میں چل آہستہ آہستہ
Walk softly, hand in hand with cool breeze
ذرے کو خورشید،قطرے کو سمندر دیکھنا
See the sun in a ray, ocean in a drop
فرازِ کوہ سے پیہم صدائیں آتی ہیں
From The heights of mountain Ihear voices strange
اچھے موسم جب آئیں گے
Sure the good days will come
ہر سانس،ہر قدم پہ اگر ڈر رہا ہوں میں
If my panic is augmented at every step, every moment
فن میں سارے دکھوں کو شامل کر
Your art must hem all the pain
شکست ہوگی اسے فتح یاب ہم ہوں گے
We will emerge victorious, defeated he
کہیں بھی رہ درودیوار جگمگا کے رکھ
Wherever you are keep your abode well lit
گفتگو جب نہ کام کرنے لگے
When conversation proves futile
تمام عالمِ امکاں مِرے گمان میں ہے
All the world is in the ken of my insight
اسے کیسے میں کہتا راستہ دے
How could I ask him to give way
لفظ وہ جو زبان میں بولے
That is the word which speaks even if not uttered
اذانوں پر اذانیں ہو رہی ہیں
Repeated calls for prayer are being heard
جدید ادب کی مجلس ادارت کاحصہ ہونافرحت کی ادبی شخصیت کی ایک اور اہم جہت ہے۔جدید ادب کی ادارت میں فرحت کی شمولیت برائے نام نہ تھی بلکہ رسالہ کی ترتیب و تدوین میں وہ پوری دلچسپی لیتی تھیں۔۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۶ء کے دور تک جدیدادب کی ادارتی ٹیم میں کئی لوگ آئے اور گئے۔فرحت واحد فرد تھیں جنہوں نے آخر وقت تک جدیدادب کی ادارت میں حیدرقریشی کا ساتھ دیا۔ادبی ساتھ نبھانے کا یہ کردار بھی فرحت کی ادبی شخصیت کا حصہ ہے۔
جرمنی سے جدید ادب کے اجرا کے پہلے دور(۱۹۹۹ء) میں حیدرقریشی نے فرحت کو ادارت میں شرکت کی پیش کش کی تھی لیکن فرحت نے صرف اس وجہ سے معذرت کی کہ نمائشی شرکت کا کیا فائدہ؟۔ تب فرحت انٹرنیٹ سے بالکل نابلد تھیں۔البتہ اب اگر حیدرقریشی نے جدید ادب کے ایک بار پھر اجرا کی نیت کی تواس بار فرحت کی ادارت میں شمولیت یقینی ہے کیونکہ اب وہ انٹرنیٹ کے اسرار و رموز سے اپنی ضرورت کی حد تک واقفیت بنا چکی ہیں۔جدید ادب کی مجلس ادارت میں شمولیت کا تجربہ فرحت کے لیے کالج کی عملی زندگی میں کام آیا۔اپنے کالج کے میگزین ’’لمعہ‘‘ کے انگریزی حصہ کی نگران ہونے کی حیثیت میں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی۔
فرحت نے ایک دو افسانے بھی لکھے تھے۔ایک افسانہ کسی ڈائجسٹ طرز کے رسالے’’گھرانہ‘‘ کراچی کے ۱۹۸۲ء کے کسی شمارے میں شائع ہواتھا اور اس پر فرحت کو پہلا انعام ملا تھا۔یہ فرحت کا یونیورسٹی میں فائنل ائیر کا زمانہ تھا۔افسوس افسانے کا نام اب کسی کو یاد نہیں۔ممکن ہے رسالے کا نام لکھ دینے کی وجہ سے کبھی یہ افسانہ تلاش کر لیا جائے۔سو یہ بھی فرحت کی ایک تخلیقی جہت شمار کی جا سکتی ہے۔
ادبی تقریبات میں ایک زمانے تک فرحت نے بھر پور شرکت کی۔سو تقریباتی جہت بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے۔بھاول پور کی مقامی تقریبات سے لے کر وہاں کی کانفرنسوں میں شریک ہونے تک، اور پھر ملتان کی ادبی تقریبات سے اسلام آباد کی ادیبوں کی سالانہ کانفرنس میں شرکت تک فرحت نے فعال کردار ادا کیا۔اس سلسلہ میں بہت ساری خبروں اور رپورٹس میں سے ایک خبر یہاں درج کرتا ہوں۔
’’فرحت نواز اور حیدرقریشی کی آمد:جدید ادب خان پور کے مدیران مس فرحت نواز اور جناب حیدرقریشی گزشتہ روز خیرسگالی کے دورے پر ملتان آئے،یہاں انہوں نے دوستوں اور اپنے قلمی معاونین سے ملاقاتوں کے علاوہ ایک تقریب میں بھی شرکت کی جو ان کے اعزاز میں ملتان یونیورسٹی کے شعبۂ اردو نے دی تھی۔‘‘ ۱
اس خبرکا ذکر حیدرقریشی کی یادوں میں کچھ یوں مذکور ہے۔
’’خانپور میں جدید ادب کے سات آٹھ برس ہم نے مل کر رسالہ نکالا تھا۔فرحت کی شاعری میں ایک انوکھی چمک تھی۔میرا خیال ہے شعر کہنے کے لئے جس انسپائریشن کی ضرورت ہوتی ہے ،ہم ایک دوسرے کے لئے ویسی انسپائریشن رہے ہیں۔اس کا اندازہ پہلی بار تب ہوا جب ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے ہم دونوں کے ساتھ ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ہمیں باری باری بلایا جا رہا تھا۔میں کچھ غزلیں سنا کر جاتا،پھر فرحت سے کچھ سنا جاتا۔دو تین بار ایسا ہوا تو لگا کچھ سوال جواب جیسی صورت خوامخواہ بن رہی ہے۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب فرحت نے میرے بعد آتے ہی اپنی نظم شروع کر دی’’مجھ کو اوور ٹیک نہ کرنا‘‘۔اور ان کی نظم کے بعد ڈاکٹر انوار احمد نے کچھ دلچسپ سے جملے کہہ دئیے۔‘‘۲
تقریبات میں فرحت کی شرکت کے ساتھ ان کی شخصیت کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کے دور سے وہ فرقہ پرست طالب علم تنظیموں کے مدِ مقابل رہیں۔انتخابی سرگرمیوں میں پُرجوش حصہ لیتی رہیں۔درس و تدریس سے وابستہ ہوجانے کے بعد بھی وہ ہمیشہ ’’شاہین‘‘کی پُرزور حامی رہیں۔اساتذہ کی انتخابی سرگرمی میں آج بھی یونیورسٹی کے زمانے جیسے جوش کے ساتھ حصہ لے رہی ہیں۔ادب میں کسی نظریاتی تحریک سے الگ رہنے کے باوجود،پھر نسائیت یا تانیثیت کی معروف لہروں سے بیزاری کے باوجود اور بنیادی طور پر مذہبی شخصیت ہونے کے باوجود فرحت کا فرقہ پرست تنظیموں کے مقابلہ میں لبرل تنظیم کا حامی ہوناان کی شخصیت میں توازن پیدا کرتا ہے۔
فرحت کی ادبی شخصیت کی ایک جہت نقاد کی ہے۔ انہوں نے اسی کی دہائی میں مختلف موضوعات پر تنقیدی مضامین لکھے تھے۔یہ سب مختلف رسائل میں بکھرے ہوئے ہیں۔سارے یک جا ہوں تو زیادہ واضح بات کی جا سکتی ہے۔ویسے اس وقت میرے پاس فرحت کے سات مضامین موجود ہیں۔ان کے عنوان یہ ہیں۔
۱۔گفتگو (۱۹۸۰ء کے بہترین افسانے) یہ اس کتاب کا پیش لفظ ہے۔مطبوعہ ۱۹۸۱ء
۲۔ اہلِ قلم کانفرنس مطبوعہ جدید ادب خانپور۔فروری ۱۹۸۲ء
۳۔ذکر اس پری وش کا مطبوعہ اوراق لاہور۔نومبر،دسمبر۱۹۸۲ء ؍ جدید ادب خان پور۔مارچ ۱۹۸۳ء ۔
۴۔طاہر تونسوی کی فرمائش پر ۔مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت ملتان، ۲ فروری ۱۹۸۶ء
۵۔اکبر حمیدی کے انشائیے مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت ملتان۔۱۶؍فروری ۱۹۸۶ء۔
۶۔طارق محمود ایک نیا افسانہ نگار ۔مطبوعہ جدید ادب خان پور۔ستمبر ۱۹۸۶ء
۷۔اکبر حمیدی کی کتاب’’ ریڈیو کالم ‘‘کا پیش لفظ۔۲۔کتاب مطبوعہ ۱۹۸۷ء
’’گفتگو ‘‘کواگر کبھی دوبارہ شائع کیا جائے تو اس کا عنوان ’’۱۹۸۰ء کے بہترین افسانے‘‘ہونا چاہیے۔اسی طرح اکبر حمیدی کے ریڈیو کالموں کے مجموعہ کا پیش لفظ جو صرف۔ ۲۔ کے طور پر شائع کیاگیا ہے ، اس کا عنوان ’’اکبر حمیدی کے ریڈیو کالم‘‘ کیا جا سکتا ہے۔باقی مضامین کے عنوان نفسِ مضمون کے اعتبار سے مناسب ہیں۔
فرحت نواز کا مضمون ’’طاہر تونسوی کی فرمائش پر‘‘ہنگامہ خیز مضمون تھا۔ڈاکٹر سلیم اخترکے بارے میں طاہر تونسوی کی کتاب شائع ہوئی۔انہوں نے نہ صرف کتاب فرحت کو پریزنٹ کی بلکہ ان سے اس پر مضمون لکھنے کی فرمائش بھی کر دی۔پھر مضمون لکھنے کا بار بار تقاضا کیا۔اس کے بعد فرحت نے جوفرمائشی مضمون لکھا اس میں ڈاکٹر سلیم اختر اور طاہر تونسوی کی علمی لحاظ سے اور مدلل طور پردھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔استاد وشاگردکے منفی ادبی کردارکو ظاہر کرنے کے ساتھ خودطاہر تونسوی کے سرقات کو ظاہر کردیا۔اور پھر سرقات بھی وزیر آغا کی تحریروں سے۔یہ پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔یہاں اس کے ایک آدھ اقتباس پر اکتفا کرنا اس مضمون کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔بعض دوسرے مضامین سے تین اقتباس یہاں پیش کردیتا ہوں۔
’’ڈاکٹر انور سدید کی انشائیہ نگاری پر بات کرنے سے پہلے میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ یوں تو میں نے ادب کی جن اصناف کو بھی تجسس کی آنکھ سے دیکھا ہے،ان میں میری حیثیت طالب علم کی سی ہوتی ہے لیکن انشائیے کے معاملے میں تو میری حیثیت ایک بالکل نوآموز طالب علم کی سی ہے۔میں یہ اعتراف بھی کر لوں کہ جب مجھے انشائیے میں زیر لب تبسم کیفیت کی شگفتگی کا احساس دلایا گیا تو انشائیے پڑھ کر مجھے سردرد قسم کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘۳
’’مختلف رسائل میں متعدد افسانہ نگاروں کے ہجوم میں طارق محمود کے مختلف افسانے بھی میری نظروں سے گزرے ہیں۔ان افسانوں میں تین چیزیں مجھے شدت سے محسوس ہوئی تھیں۔
۱۔طبقاتی آویزش میں نچلے طبقے سے ہمدردی کے باوجوداونچے طبقے کے رکھ رکھاؤ سے پوری طرح آگہی۔
۲۔کہانی میں سنسنی پیدا کرنے والی خبر کا انداز
۳۔کہانی کی پیش کش میں لفظوں کوتصویر کی طرح پیش کرنے کا اسلوب
اب ان کی کہانیوں کا مجموعہ میرے مطالعہ کی میزپر آیا ہے تو میرے تینوں تاثر نہ صرف مجھے سچ لگے بلکہ مجھے ان کا جواز بھی مل گیا۔‘‘ ۴
’’طنزو مزاح کے برمحل برتاؤ سے اکبر حمیدی نے اپنی تخلیقیت کو مجروح کیے بغیراصلاحِ معاشرہ کا فرض بھی ادا کیا ہے اور اپنے کالموں کو کسی ’’انجمن اصلاحِ معاشرہ‘‘کا منشور بننے سے بھی بچایا ہے۔میں سمجھتی ہوں اکبر حمیدی نے ان کالموں کے ذریعے پل صراط کا سفر کیا ہے۔ایک دو جگہوں پر لڑکھڑانے کے باوجودخود کو گرنے سے بھی بچایا ہے اور پل کو بھی عبور کر لیاہے۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘۵
ان اقتباسات کے اندازِ تحریر سے فرحت کے تنقیدی تیوربخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔فرحت کے ہاں تنقیدی بصیرت اوربصارت دونوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔وہ کسی فن پارے،کتاب یا زیرِ گفتگو موضوع کو اس کے اندر تک جھانک کردیکھتی ہیں اور پھر انہیں جو کچھ سمجھ میں آتا ہے،اسے ادبی رکھ رکھاؤ کے باوجودایمانداری کے ساتھ بیان کر دیتی ہیں۔
اس مضمون میں فرحت کی علمی و ادبی شخصیت کی بیشتر جہات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔یہ ساری جہات فرحت کی شخصیت کا مجموعی تاثر ظاہر کرتی ہیں۔بے شک وہ اپنی ان جہتوں پر مسلسل سفر نہیں کرسکیں۔وہ جس حد تک ادبی طور پر آگے تک جا سکتی تھیں،اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے ویسا نہیں کر سکیں۔ان سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فرحت میں کتنی اچھی صلاحیتیں تھیں جو اپنا پورا اظہار نہیں کر سکیں۔اس سب کچھ کے باوجودیہ خوشی کی بات ہے کہ وہ اپنی ادبی شخصیت کی اہم ترین جہت شاعری کو نسبتاََ بہتر طور پر منظرِ عام پر لے آئی ہیں۔ان کے شعری مجموعہ’’استعارہ مِری ذات کا‘‘پر ادبی حلقوں سے اچھے ردِ عمل کی خبریں آرہی ہیں۔مجھے وقت ملا تو اس شعری مجموعہ پر بھی اپنے طور پرکچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱ روزنامہ امروز ملتان مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۸۲ء کے ادبی صفحہ پر’’خبر یہ ہے‘‘کے تحت یہ خبر دی گئی ۔
۲ کھٹی میٹھی یادیں از حیدر قریشی۔ص ۱۴۷ ۔ ْمطبوعہ ۔عکاس،اسلام آباد۔۲۰۱۳ء
۳’’ذکر اس پری وش کا‘‘مطبوعہ اوراق لاہور۔نومبر،دسمبر۱۹۸۲ء ؍ جدید ادب خان پور۔مارچ ۱۹۸۳ء ۔ص ۱۲۷
۴ طارق محمود ایک نیا افسانہ نگار ۔مطبوعہ جدید ادب خان پور۔ستمبر ۱۹۸۶ء۔ص ۱۱۶
۵ اکبر حمیدی کی کتاب’’ ریڈیو کالم ‘‘کا پیش لفظ۔۲۔کتاب مطبوعہ ۱۹۸۷ء۔ص۱۱