(ایم فل کی ریسرچر نازیہ خلیل عباسی
کے سوال اور حیدرقریشی کے جواب )
نازیہ: فرحت نواز کی فنی خدمات کی مختلف جہات ہیں، آپ کے نزدیک وہ کس صنف میں سب سے زیادہ کامیاب رہیں؟
ح۔ق: میرا خیال ہے کہ فرحت شاعری میں کافی حد تک کامیاب رہی ہیں۔اگر ان کی اختیار کردہ شعری اصناف کو ترتیب دیا جائے تو پہلے نمبر پر نظم،دوسرے نمبر پر ماہیا اور تیسرے نمبر پر غزل کو رکھ سکتے ہیں۔
نازیہ: فرحت نواز کی نظموں کو جدید نظم نگاری کے رجحانات کے حوالے سے آپ کس مقام پر دیکھتے ہیں؟
ح۔ق: جدید نظم کے مختلف عصری رجحانات کا کہیں کچھ ہلکا،کہیں کچھ گہرا عکس ان کی نظموں میں ملتا ہے۔نسائی ادب کے زیرِ بحث موضوعات میں سے بعض کا متوازن اظہار،کچے پکے خواب،زندگی کے تلخ و شیریں حقائق،معاشرتی مسائل اور پیش آمدہ صورتِ حال،یہ سب کچھ عصری رجحانات کی شکل میں فرحت کے ہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ان کے کسی مقام کا تعین کرنا بے حد مشکل ہے۔ان کے سارے شعری امکانات کھل کر سامنے آتے تو پھر اس بارے میں کوئی رائے دی جا سکتی تھی۔لیکن موجودہ حیثیت میں بھی وہ جس مقام پر ہیں وہ خوش آئند ہے۔
نازیہ: فرحت نواز کے مجموعۂ کلام ’’ استعارہ مری ذات کا‘‘ کے فنی و فکری ارتقاء کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ح۔ق: میں اپنے مختلف مضامین میں جو رائے پہلے سے لکھ چکا ہوں۔اب بھی میری وہی رائے ہے۔
نازیہ: فرحت نواز کی شخصیت کا عکس کس تخلیقی صنف میں زیادہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے؟
ح۔ق: ویسے تو فرحت کی ہر تخلیق میں ان کی شخصیت کا عکس کسی نہ کسی طور دیکھا جا سکتا ہے،تاہم ان کی نظموں اور ماہیوں میں یہ عکس زیادہ بھرپور دکھائی دیتا ہے۔
نازیہ: فرحت نواز کے لکھے گئے تنقیدی مضامین کی روشنی میں آپ نے اُن کو بطور نقاد کس قدر کامیاب پایا اور کیا اُن کو اِس صنف میں مزید آگے بڑھنا چاہئیے تھا؟
ح۔ق: تنقید میں فرحت کا کام بہت کم ہے۔جتنا ہے،ٹھیک ہے۔اپنے اپنے حالات میں اپنی اپنی توفیق کے مطابق مختلف کام کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔فرحت نے اپنی توفیق کے مطابق جتنا لکھنا تھا بس اتنا لکھ لیا۔
نازیہ: آپ فرحت نواز کی ماہیا نگاری کو تکنیکی اور موضوعاتی اعتبار سے کیسا پاتے ہیں؟
ح۔ق: فرحت کی ماہیا نگاری تیکنیکی اعتبار سے تو بہت درست اور چست ہے۔موضوعات میں فرحت نے حمد،نعت،مناجات،نجی زندگی سے لے کر ماہیے کے عمومی موضوعات تک کو عمدگی سے نبھایا ہے۔تھوڑے سے ماہیے کہنے کے باوجود ان کے ہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔
نازیہ: فرحت نواز کے مجموعۂ کلام میں بہت سی غزلیات شامل ہیں کیا اُن کی غزل کو جدید غزل قرار دیا جا سکتا ہے؟
ح۔ق: فرحت کی غزل کوپڑھتے ہوئے اس میں میں روایتی انداز کے ساتھ جدید غزل کی طرف پیش قدمی کا احساس ہوتا ہے۔
نازیہ: آپ کے نزدیک جنوبی پنجاب کی ادبی روایت میں فرحت نواز کا کیا حصہ ہے؟
ح۔ق: جنوبی پنجاب اور بالخصوص بھاول پور ڈویژن سے ایک ہی وقت میں تین شاعرات سامنے آئیں۔نوشی گیلانی،ثمینہ راجہ اور فرحت نواز ۔۔۔نوشی گیلانی اور ثمینہ راجہ کے سنگین نوعیت کے اسکینڈلز سامنے آئے۔اخبارات سے لے کر سوشل میڈیا تک اس حوالے سے ایک طوفانِ بد تمیزی برپا رہا۔ان دونوں خواتین کے بر عکس فرحت کا سب سے اہم حصہ یہ رہا کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کی قدروں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے اسکینڈلزسے خود کو دور رکھا۔جو لکھا،جو قدم اٹھایا،وقار کے ساتھ اٹھایا۔اسکینڈلز سے شہرت کمانے کی بجائے فرحت نے نسبتاََ گم نام رہنے کو ترجیح دی۔ان کا یہ طرزِ عمل ان کی ادبی زندگی میں جنوبی پنجاب کی قدروں اور ادبی روایت کا اظہار ہے۔
نازیہ: آزاد نظم کے حوالے سے فرحت نواز کی انفرادیت اور اہمیت کیا ہے؟
ح۔ق: فرحت نے اپنے تجربات و مشاہدات کے ساتھ اپنے عہد کی شاعرات کے مقبول موضوعات کوبھی پڑھا،ان میں سے جو اچھا لگا اسے اپنے زاویے سے دیکھنے کی کاوش بھی کی۔کچی محبت سے لے کر جنسی جذبات تک ساری کیفیات سے گزریں لیکن کہیں بھی جذبات کا بے محابا اظہار نہیں کیا۔ان کے شدید تر جذبات بھی دریا کے کناروں کے اندر ہی رہے۔اسے ان کی انفرادیت کہہ سکتے ہیں۔
نازیہ: آپ کے نزدیک فرحت نواز بطور مترجم کس حد تک کامیاب ہوئیں؟
ح۔ق: فرحت نے اردو افسانوں اور چند نظموں کو سرائیکی میں ترجمہ کیا ہے۔اکبر حمیدی کی چند غزلوں کا انگریزی ترجمہ بھی کیا ہے۔لیکن یہ سارا کام اتنا تھوڑا ہے کہ اس حوالے سے کوئی حتمی بات کرنا مشکل ہے۔بس جس وقت میں جو ترجمہ کیا لگن کے ساتھ کیا۔محنت کے ساتھ کیا،یہ ان کی خوبی ہے۔
نازیہ: رضینہ خان کے مطابق ’’ فرحت کی شاعری اُن کی شخصیت اور ذاتی زندگی کی آئینہ دار ہے‘‘ آپ اِس سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟
ح۔ق: رضینہ خان نے فرحت کی شاعری کے بارے میں بہت درست اور مناسب بات کی ہے۔بے شک شاعری کے دوسرے بہت سارے موضوعات کو نبھانے کے باوجود ’’ فرحت کی شاعری اُن کی شخصیت اور ذاتی زندگی کی آئینہ دار ہے‘‘ ۔
نازیہ: جانِ عالم کے بقول ’’ فرحت نواز کی نظموں میں شعریت کم اور Statementsزیادہ ہیں‘‘ آپ کی اِس حوالے سے کیا رائے ہے؟
ح۔ق: ڈاکٹر رشید امجد نے لگ بھگ۳۹ سال پہلے ۱۹۸۰ء میں فرحت کی نظموں کے حوالے سے یہ رائے دی تھی۔
’’ایک عجیب بات یہ ہے کہ فوری طور پر اس کی نظمیں سادہ سی محسوس ہوتی ہیں۔لیکن ایک مصرعہ یا لفظ کو وہ اس طرح تخلیقی حرکت دیتی ہے کہ نظم کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔‘‘
جان عالم نے دراصل رشیدامجد کے پہلے جملہ’’ فوری طور پر اس کی نظمیں سادہ سی محسوس ہوتی ہیں‘‘ کو اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔باقی رشید امجد کی تنقیدی بصیرت نے فرحت کی نظموں میں جو’’ تخلیقی حرکت‘‘ ۳۹ سال پہلے دیکھ کر بیان کر دی تھی،جان عالم اس تک نہیں پہنچ سکے تو یہ ان کی اپنی تنقیدی سوجھ بوجھ اور بصیرت کا معاملہ ہے۔فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔