فرید پربتی ،اردوغزل و رباعی کے ناقابل فراموش شاعر
اشعار تابدار
خفا ہیں مجھ سے سارے سونے والے
خطا میری یہی ہے جاگتا ہوں
بنے بنائے سے رستے مٹا گئی ہے ہوا
تمام نقشِ کفِ پا مٹا گئی ہے ہوا
کہیں نہ سبزہ نہ کوئی نشان باقی
نجانے لےکے کہاں مجھ کو آگئی ہے ہوا
یہ نہیں پہچان سکتا ہوں میں اب
تھا کہاں پر شہر میں میرا مکان
یہ کیاکہ فتنہ کوئی راستوں میں ساتھ لئے
تمام شہر کو پاگل جھنجھوڑنے نکلا
پھر وہی مرحلہ ہے پیشِ نظر
پھر وہی اضطراب ہے بابا
وہ کریدے ہے راکھ چولہے کی
اور نگاہوں میں خواب ہے بابا
چھوڑ جاتے ہیں دل میں گہرا غار
چھب دکھا کر گزر رہے ہیں لوگ
برسا تو سارا شہر ہی بہا کر لے گیا
کہنے کوتھا وہ چھوٹاسا ٹکڑا سحاب کا
آو کھیلیں ہم بھی مل کر دھمال
مرگئی ہے آج دیوانوں کی ماں
گھٹتے بڑھتے منظروں کے درمیاں میں رکھ کر گیا
دست و پا شل تانظر تا نظر آسانیاں رکھ کر گیا
سلگتے خواب خریدے ہیں نیند کے بدلے
یہ کاروبار پرانا، نیا نیا سا لگے
ہم کہ محروم ہیں چراغ سے بھی
وہ کہ سورج کے بادشاہ ہوئے
اقبال کا شعر دیکھیں
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا روشن ہوا بجلی کے چراغوں سے
فرید پربتی کہتے ہیں
یہ حادثہ ہوا ہے چمن میں یقیں نہ تھا
پھولوں کا رنگ اوس کا سیلاب لے گیا
کرایے دار سے ہُشْیَار رہنا
کہیں مکاں پر قابض نہ جائے
نکلا تھا گھر سے ڈھونڈنے وہ اپنے آپ کو
شاید یہی گناہ گناہِ کبیر تھا
میں دیا ہوں تیرے کام کام آوں گا رستے میں ضرور
تیز آندھی میں مجھے رکھ تہہِ داماں پنہاں
فرید پربتی کا مزاج کلاسیکی اور تہزیبی عناصر سے متاثر تھا مگر انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی اجتہادی فکر کے باعث انہوں نے اردو غزل میں استعاراتی لب و لہجہ بھی اپنایا ہے انکی لفظیات محض رٹی رٹائی نہیں وہ محتاط اور سنجیدہ شاعر ہے بعض زندہ نوٹنکیوں کی طرح بزلہ سنجی پر نہیں اتر آتا وہ علم عروض پر دسترس رکھتے تھے مجھے یاد ہے ایکبار جموں میں وہ عتیق اللہ سے ملنے گئے ڈاکٹر منظور ہاشمی اور وہ اکٹھے ٹھہرے تھے دوسرے دن جموں میں کل ہند مشاعرہ پڑھنا تھا ۔ میرے ساتھ ڈاکٹر شہنواز بھی تھے۔ عتیق اللہ نے ایک چھوٹی سی ڈبیہ نکالی میں سوچ رہا تھا اس میں کیا سوغات ہوسکتی ہے. جلد ہی انہوں نے وہ کھولی اور مجھے ڈاکٹر شہنواز فرید پربتی اور فرید پربتی کو ایک ایک الائچی دی۔ ہم نے اسے تحفۂ گراں سمجھ کر دانتوں تلے رکھ لیا فرید پربتی نے الائچی کا دانہ منہ میں نہ ڈالا بلکہ اپنی بیاض سے کوئی شعر پڑھا اور عتیق اللہ سے رائے مانگی ۔۔عتیق اللہ نے کہا بھائی آپ تو اچھے شعر کہتے ہو۔ اس اثنا میں منظور ہاشمی اپنی پتلی سی کتاب بار بار اوپر اٹھا کر دکھا رہے تھے
موقع ملا تو کہہ اٹھے "میں نہیں کہتا ۔۔لوگ کہتے ہیں کہ میں اچھے شعر کہتا ہوں ۔ خیر الائچیاں تو بہت چبھائی لیکن عتیق اللہ صاحب کی الائچی اب بھی یاد ہے۔
فرید پربتی کی لفظیات میں صوت و صدا کا اک جہاں آباد ہےانکی شاعری کو آپ کلاسیکیت اور جدید کا حسین امتزاج یا Blending کہہ سکتے ہیں۔ع
جنکی زنبیل میں ہیں شمس و قمر
ساتھ ہم انکے گاہ گاہ ہوئے
بگولا بن کے اڑا خواہشوں کے شہر میں
ٹھہر گیا تو فقط تھا غبار میری طرح
۶اگست ۱۹۶۱ ، سرینگر میں پیدا ہوئے وانہ بل راول میں رہتے تھے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک تھے حسین و جمیل نوجوان تھے سلیقہ شعار اور باوضع انکی دلخراش مرگ کا بہت دکھ ہے میں کل ہند مشاعرے میم مرحوم منظور ہاشمی اور عتیق اللہ کے ساتھ انہیں جموں میں ملا تھا۔ پچاس سال کی عمر میں ہی معدہ کے کینسر سے جنگ ہار بیٹھے ..کشمیر یونیوسٹی کے اقبال انسٹی چیوٹ میں ریڈر تھے انکے شعری مجموعے یہ ہیں
ابرِ تر ۱۹۸۷
آبِ نیساں ۱۹۹۲
شہزور کاشمیری ۱۹۹۲
اثبات ۱۹۹۸
فرید نامہ ۲۰۰۳
گفتگو چاند سے ۲۰۰۵
انتقاد اور اصلاح ۲۰۰۵
ہزار امکاں ۲۰۱۰
ہجومِ آئینہ ۲۰۱۰
ابر تر میں ابتدائی دور کی غزلیات ہیں آب نیساں اچھی کتاب ہے اس مےں ساٹھ غزلیں چند نظمیں اور کچھ رباعیاں شامل ہیں اثبات مجموعہ میں رباعیات ،غزلیں اور تضمینات شامل ہیں اسی طرح انکی کتاب انتقاد اور اصلاح میں شاہ حاتم کی شاعری پر زبردست کام کیا گیا ہے.
داغ بحییت مثنوی نگار بھی اہم مقالہ ہے فرید نامہ انکی مثنویات کی مشہور کتاب ہے،
میں نے کتاب کو پڑھا اور لطف اندوز ہوا فرید پربتی نے رباعی کی صنف پر اہم کاکیا ہے رباعی فارسی کی مشہور صنف ہے ہزج مربع و اخرم و اخرب ، اخرب و مکفوف چار رکنی بحر میں کہی جاتی ہے اردو میں میر انیس وغیرہ کی رباعیاں اپنی مثال آپ ہیں فرید پربتی کی چند
چند رباعیاں
پُر ہوا۔ مناظر سے گزرنا بھی پڑا
نادیدہ مقاموں پہ ٹھرنا بھی پڑا
اے روشنئ جاں تجھے پانے کے لئے
جینا بھی پڑا، مرنا بھی پڑا
میں کھیت نہ کھلیان پہ مرنے کا نہیں
ہاں بارِدِگر یاں سے گزرنے کا نہیں
میں ابر ہوں آوں گا ،چلا جاوں گا
رکنے کا نہیں میں ٹھہرنے کا نہیں
ٹوٹی ہوئی دیوار نظر آتی ہے
سائے سے یہ بیزار نظر آتی ہے
اے زیست کے سایہ میں اچھلنے والو
کاندھوں پہ مجھے بار، نظر آتی ہے
فریاد کی لے داد کی معیار بدل
بازار اتر جائے ، بازار بدل
ہاں قید کی معیاد اگر کم بھی نہ ہو
پھر حلقۂ زنجیر ِ گرفتار بدل
انکی رباعیوں میں بلا کی روانی ہے جہاں کہں مستعار مضامین لئے ہیں وہں یہ ندرت خیال متاثر ہوئی ویل ڈیورانٹ نے سٹوری آف دی فلاسفی میں لکھا ہے
No translation can produce beauty of its original
ترجمہ اصل کی خوبصورتی پیش نہیں کرسکتا اسی طرح ڈپلیکشن سے ہم اصلی فنی نمونہ نہیں بنا سکتا ۔ مونالیز آج کوئی نہیں پینٹ کرسکتا غالب کا کلام غالب ہی کے تجربات کوئی نہیں کرسکتا ادب سے متعلق نقل کی بحث فرسودہ ہوچکی ہے۔ نقل اصل کا رتبہ نہیں حاصل کرسکتی لہزا حکیم عمر حیام اور سرمد کے مستعار خیالات کو انہوں کہیں بتکلف پیش کیا ہے جس سے انکی رباعیات کا معیار گر گیا ہے جہاں انہوں نے اپنے تجربہ سے رباعی کہی ہے بہت اچھی کہی ہے
انکی رباعیوں کے مجموعہ “فرید نامہ” کے بارہ میں عطا القاسمی نے خوب رائے دی ہے:
“رات اندھیروں میں الاو کی طرح روشن اور برف سے ڈھکے ہوئے پربتوں پر “لفظ چراغ “ جب روشن نظر آتے ہیں تو روح میں ایک سرشاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ مجھے پربتوں پر روشن قندیل ، فرید پربتی کے کے یہاں نظر آئی۔ انکی شاعری پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا۔ جیسے شبد،چنار کے درختوں میں سرخ سرخ پتے جھوم رہے ہیں، اور ڈل جھیل (منجمد)میں معانی کی کانگڑی کی چمٹی ہوئی ہے۔ لفظ اور کاغز بھیگتے نہیں۔ بلکہ پانیوں میں اور بھی روشن ہوجاتے ہیں۔”
ریختہ کی ای بکس میں عکس عکس آئینہ ۔ مجموعہ خطوط بنام فرید پربتی جو کہ شمیم شبنم نے مرتب کی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی ابولکلام قاسمی، کشمیری لعل ذاکر کرشن کمار طور زبیر رضوی وغیرہ کے ساتھ ساتھ امین بنجارہ اور پریمی رومانی پیارے ہتاش کے خطوط پڑھ کر احساس ہو ا کہ فرید پربتی مقبول خواص و عوام تھے ریاست اور ریسات کے باہر وہ ہر دلعزیز تھے
بقول حاتم
پست ہو چل مآل ِدریا کی طرح
خیمہ برپا نہ کر حباب کی طرح
فرید کی طبیعت میں صوفیانہ انکساری تھی وہ علم عروض اور فارسی ادب سے بھی رسم راہ رکھتے تھے۔۔انکی شاعری پر کلاسیکی شعرا حاتم اور داغ کا اثر بھی کہیں نہ کہں مرتسم ہوا معلوم ہوتا ہے۔وہ اسعد بدایونی کے بھی شیدائی تھے۔۔
اسعد بدایونی
خوف خدا میں عمر گزاری تو کیا ملا
کچھ دن جئیں گے خوف خدا کے بغیر بھی
چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں
بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی
اسی رنگ میں ڈوبا ہوا فرید پربتی کا ایک شعر
عجیب لطف دیا مجھ کو عشقِ تازہ نے
میرے وجود میں اب ناچتا ہے مور نیا
یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ فرید پربتی کی نظم و نثر کی صلاحیتیں غیر معمولی ہیں کاسیکی اصناف علمی اور ادبی مسائل پر وہ ید طولی رکھتے تھے۔ ہمدم کشمیری شجاع سلطان وغیرہ نے جزوقتی شاعری جبکہ فرید پربتی نے پیشہ وارانہ طور اور باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا عمر نے ان سے وفانہ کی اسکے باوجود وادی کشمیر کا معیاری چھ سات شعرا کی فہرست میں انکا نام جلی حروف سے لکھے جانے کا مستحق ہے۔ع
یہ کیا کہ فتنہ کوئی ساتھ لئے
تمام شہر کو پاگل جھنجھوڑنے نکلا
دیا جوتونے سبھی میں نے تجھ کو لوٹایا
مجھے یہ دوستی گندم نما نہ راس آئی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“