آج – 27/دسمبر 1977
منفرد لب و لہجہ کا غزل گو اور خوش بیان شاعر” فرید جاویدؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام فرید الدین اور تخلص جاویدؔ تھا۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۲۷ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہم راہ کراچی آبسے۔ ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔طالب علمی کے زمانے سے انھیں شاعری سے ایک والہانہ مناسبت رہی ہے۔ خرابئ صحت اور پیسے کی کمی کے باعث بہت پریشان رہے۔ ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۷ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ ان کے شعری مجموعہ کا نام ’’سلسلہ تکلّم کا‘‘ ہے جو ان کی وفات کے بعد ان کے قدر دانوں اور پرستاروں کی بدولت شائع ہوا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:202
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
خوش بیان شاعر فرید جاویدؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ اظہارِ عقیدت…
یہ دیارِ شوق ہے ہم نشیں یہاں لغزشوں میں بھی حسن ہے
جو مٹے وہ اور ابھر گئے جو گرے وہ اور سنبھل گئے
—
کیا بدل دو گے تم اک نظر سے
بے قراری تو ہے عمر بھر سے
—
طرب کا رنگ محبت کی لو نہیں دیتا
طرب کے رنگ میں کچھ درد بھی سمو لیں آج
—
ابھی مکاں میں ابھی سوئے لامکاں ہوں میں
ترے خیال تری دھن میں ہوں جہاں ہوں میں
—
گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلّم کا
—
پہنچ کے ہم سرِ منزل جنہیں بھلا نہ سکے
وہ ہم سفر تھے جو کچھ دور ساتھ آ نہ سکے
—
ہمیں بھی اپنی تباہی پہ رنج ہوتا ہے
ہمارے حال پریشاں پہ مسکراؤ نہیں
—
ہم جو شعلئہ جاں کی لو نہ تیز کر دیتے
آج غم کی راہوں میں کتنی تیرگی ہوتی
—
نہ بت کدے میں نہ کعبے میں سر جھکانے سے
سکوں ملا ہے تری انجمن میں آنے سے
—
نہ غرور ہے خرد کو نہ جنوں میں بانکپن ہے
یہ مزاجِ زندگی تو بڑا حوصلہ شکن ہے
—
کس سے وفا کی امید ہے امید کون وفا شعار ہے
اے مرے بے قرار دل کس لیے بے قرار ہے
—
ناشگفتہ کلیوں میں شوق ہے تبسّم کا
بار سہہ نہیں سکتیں دیر تک تلاطم کا
—
غبار دل پہ آ گیا ہے دھولیں آج
کھلی فضا میں کہیں دور جا کے رو لیں آج
—
ہم جسے سمجھتے تھے سعئِ رائیگاں یارو
اب اسی سے ملنا ہے اپنا کچھ نشاں یارو
—
تلخ گزرے کہ شادماں گزرے
زندگی ہو تو کیوں گراں گزرے
—
تم ہو شاعر مری جان جیتے رہو
شعر کہتے رہو زہر پیتے رہو
—
یہ کون دیکھ رہا ہے مجھے حقارت سے
غبارِ راہ نہیں میرِ کارواں ہوں میں
—
سکوتِ نیم شبی ہے کہ ڈھل رہی ہے شراب
یہ چاندنی ہے کہ تیرے خیال کا سایہ
—
مجھے خیال اُن دل گرفتہ کلیوں کا
جنھیں نسیمِ سحر چھیڑ دے کھلا نہ سکے
—
وہ ہاتھ کسی اور کی قسمت میں ہیں شاید
آ برگِ حِنا تجھ کو ہی آنکھوں سے لگا لیں
—
سحر انگیز چاند کی کرنیں کہہ رہی ہیں کہ تم یہاں ہوتے
صبح کا نور ہے ان آنکھوں میں کیسے ہم اُن سے بدگماں ہوتے
—
حسرت و محبت سے دیکھتے رہو جاویدؔ
ہاتھ آ نہیں سکتا حسن ماہ و انجم کا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
فرید جاویدؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ