سن 1946 کے وسط کی بات ہے امرتسر کے جلیانوالا باغ میں چالیس ہزار سے زائد پُرجوش ہندوستانی جمع ہیں۔ یہ وہی جلیانوالا باغ ہے جس میں آج سے چھبیس سال پہلے جنرل ڈائر کے حکم پر نہتے ہندوستانیوں پر بے دریغ گولیاں بر سائی گئیں تھیں لیکن آج کا مجمع خوشی سے جھومتے ہوئے پُرجوش نعرے لگا رہا تھا "چالیس کروڑ کی ایک ہی آواز سهگل، ڈھلون اور شاہنواز"۔
اس وقت ہندوستان کی کُل آبادی چالیس کروڑ تھی اور کرنل پریم سهگل، کرنل گوربخش سنگھ ڈھلون اور میجر جنرل شاہنواز، انڈین نیشنل آرمی کے سابق جنرل تھے جن کے استقبال کے لئے یہ مجمع اکھٹا ہوا ہے۔ انڈین نیشنل آرمی سبھاش چندر بوس نے قائم کی تھی جو دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریزی فوج کے اُن ہندوستانی فوجی جوانوں پر مشتمل تھی جو تاجِ برطانیہ سے باغی ہو گئے تھے۔ بدقسمتی سے دوسری جنگِ عظیم میں تاجِ برتانیہ فاتح بن گیا اور انڈین نیشنل آرمی کے تقریباً 43 ہزار سپاہی فاتح انگریز فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔ مندرجہ بالا تین افراد انڈین نیشنل آرمی کے علاقائی کمانڈر تھے۔ ان کے خلاف پانچ اکتوبر 1945 کو کورٹ مارشل کا مقدمہ دہلی کے لال قلعہ میں شروع کیا گیا۔ جس میں ان افراد کو موت کی سزا کا مستحق ٹھرایا گیا لیکن پھر اُس وقت کی ہندوستانی افواج کے انگریز کمانڈر انچیف نے ان افسران کی سزا معاف کر دی۔ سزا معاف کرنے کی وجہ ہندوستانی عوامی رائے عامہ کا دباؤ اور انگریز سامراج کا معاشی طور پر دیوالیہ ہو جانا تھا۔
یہ تینوں قومی ہیرو اُس وقت اسٹیج پر تشریف فرما ہیں۔ جلسے کی کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے پروگرام کے میزبان کی جانب سے ایک نوجوان کا نام پکارا جاتا ہے کہ وہ اسٹیج پر آکر اپنی نظمیں سنائے۔ یہ نوجوان زندگی میں پہلی دفعہ کسی اسٹیج پر جلوہ گر ہو رہا ہے۔ اسٹیج پر آتے ہی وہ اپنی گونج دار آواز میں یہ مصرعہ پڑھتا ہے؛
ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن
اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو
نوجوان کی آواز میں بلا کا جادو تھا۔
یہ مصرعہ سنتے ہی ہزاروں ہندوستانیوں کے اُس مجمع پر سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ نوجوان شاعر مجمع پر ایک نگاہ ڈالتا ہے اور دوسرا مصرعہ پڑھتا ہے؛
تہذیب نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو
یہ سنتے ہی مجمع کی جانب سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
یہ نوجوان ساغر صدیقی تھا، جن کا اصل نام محمد اختر تھا۔ ان کی پیدائش ہندوستان کے صوبہ "یو پی" کے شہر سہارنپور میں ہوئی۔ حالانکہ یہ اپنے والدین کی اكلوتی اولاد تھے لیکن ان کا بچپن انبالہ میں نہایت غربت میں گزرا۔ غربت کی وجہ سے انہوں نے اسکول یا مدرسے میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ انہوں نے اردو کی تعلیم حبیب حسن نامی استاد سے گھر میں حاصل کی۔ آپ نے اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں اپنا تخلص "ناصر حجازی" رکھا تھا لیکن جلد ہی اسے بدل کر "ساغر صدیقی" رکھ لیا۔ ساغر دس سال کی عمر سے اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہنے لگے۔
ساغر کا بچپن انتہائی کسمپرسی میں گزرا۔ معاشی تنگدستی کی وجہ سے آپ ایک دوکاندار کے ہاں ملازم ہو گئے جو لکڑی کی کنگھیاں بنا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ انہوں نے دوکاندار کے ساتھ رہ کر یہ کام سیکھا اور پھر آپ دن بھر کنگھیاں بناتے اور رات کو اسی دکان کے کسی گوشے میں سو جاتے۔ آپ 14، 15 سال کی عمر سے ہی شعر کہنے لگے تھے۔ نوجوانی کے دنوں میں ساغر مردانہ وجاہت کا شاہکار تھے۔ انتہائی خوبصورت شخص ہوا کرتے تھے۔ لمبا قد، چھریرا بدن، بڑی بڑی آنکھیں، گھنے اور لمبے سنہری مائل سیاہ گھنگریالے بال اور پھر ان کا لب و لہجہ دیکھنے والوں کو فوراً ہی اپنی طرف متوجہ کر لیتا تھا۔ اپنی پرکشش شخصیت کے ساتھ جب وہ کسی مشاعرے میں شرکت کرتے تو شائقین انہیں سُننے اور دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے۔ چالیس کی دہائی ہندوستان کی ادبی دنیا میں دھواں دھار مشاعروں کی دہائی تھی۔ 1944 میں ہی امرتسر کی مشرقی علوم کی مشہور درسگاه "جامعہ السنه شرقیہ" میں ماہانه طرحی مشاعرہ ہوتا تھا جس میں ساغر پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ اس وقت کے مشہور ادبا اور شاعر ان کے کلام کو سرہاتے تھے۔ 1944 میں اردو زبان کی ترویج اور ترقی کے لیے علامہ احسان اللّه خان تاجور نجیب آبادی اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے ایک ادارہ "اردو مجلس" کے نام سے قائم کیا۔ اس ادارے کے تحت ہونے والے مشاعروں میں بھی ساغر صدیقی باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے۔
ربیع الاول کی پہلی تاریخ سے چودہ تک جناب مخدوم علاؤالدین علی احمد صابر کلیئر شریف کا عرس سرزمینِ کلیئر، ضلع سہارنپور میں نہرِ گنگ کے کنارے بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ جس میں دو لاکھ کے قریب مجمع ہوتا ہے۔ صابریہ سلسلے کے تمام مشائخ اور ان کی خانقاہوں کے سجادہ نشین اس میں شریک ہوتے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل اس عُرس میں تمام ہندوستان کے اہل و فن بھی شریک ہوتے تھے اور کاشانہ احباب سہارنپور یہاں پر ایک محفل "شعر و سخن" کا انعقاد بھی کرتی تھی۔ سن 1945 میں ساغر صدیقی بھی اس عُرس میں پہلی بار شریک ہوئے۔ اُس زمانے میں انور صابری جو اپنے وقت کے مشہور عالم، دانشور، مجاہد آزادی اورخطیب تھے۔ جن كی شاعری مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے معروف ہے۔ انہوں نے ساغر صدیقی کا تعارف اس محفل کے منتظمین سے کروا دیا اور پھر ساغر صدیقی نے اپنا کلام سنا کر اُس محفل کو بھی لوٹ لیا۔
كلیئر شریف اور امرتسر کے مشاعروں نے ساغر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی آمدنی ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ انہوں نے اپنے کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔ سن 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور ہجرت کر گئے۔ اس وقت وہ انیس سال کے جوانِ رعنا تھے. ساغر کا گھر بار اور خاندان تو تھا نہیں۔ یہاں صبح و شام دوستوں کی محفلیں جمی رہتیں۔ لاہور شہر خاص طور پر ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں، فنکاروں اور فلم سازوں کا مرکز بن گیا تھا۔ پورے ہندوستان سے مسلمان فنکار ہجرت کر کے لاہور سکونت پذیر ہو رہے تھے۔ سعادت حسن منٹو، حفیظ جالندھری، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، انتظار حسین، ناصر کاظمی، حمید اختر، احمد ندیم قاسمی، محمد طفیل، نور جہاں، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، اے حمید، شوکت تھانوی، ظہیر کاشمیری، بیگم خورشید شاہد، فیض احمد فیض، قتیل شفائی وغیرہ۔ لاہور اُن دنوں فنون و ثقافت کا گڑھ بن چکا تھا۔ جدید فلمی اسٹوڈیو کی وجہ سے فلمیں بن کر سینما گھروں کی زینت بن رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی نئے نئے ادبی جرائد و اخبارات بھی شائع ہو رہے تھے۔ ان ادبی پرچوں میں دوسرے شاعروں کی مانند ساغر کا کلام بھی چھپنے لگا جنہیں پڑھنے والے قبولیت بخش رہے تھے۔ فلمسازوں نے ساغر کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان سے فلموں کے لیے گیت تخلیق کرنے کی فرمائش کی اور یوں آپ کا نام گیت نگار کے طور پر فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔ اسی زمانے میں ساغر نے بھی اپنا ایک فلمی ہفت روزہ "فلمی اخبار" کے نام سے نکالا۔ جو زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا اور جلد ہی بند ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ ساغر نے "انقلابِ کشمیر" کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی جو کبھی ریلیز نہ ہو سکی۔ قیامِ پاکستان سے لے کر سن 1952 تک کا عرصہ ساغر کی زندگی کا سنہری دور تھا۔ علمی و ادبی افق پر ساغر کا نام چمک رہا تھا۔
اسی زمانے میں ساغر سے منصوب ایک جملہ زبان زدِ عام تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ
"تقسیم کے بعد صرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں"
ساغر کی شاعری میں انسانی احساسات کی خوب ترجمانی ہو رہی تھی۔ زندگی کے دکھ، اردگرد پھیلی ہوئی معاشرتی ناہمواریاں، وصال و ہجر کی کیفیات، ٹھکرائے جانے کے صدمے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اردو شاعری میں 'درد کے سفیر' کہلانے والے فقیر منش شاعر ساغر صدیقی نے جب "لعل میری پت" جیسے دھمال کو تحریر کیا اور وہ اس کی دھن بنانے کے لئے جب اسے "عاشق حسین' کے پاس لے کر آئے تو عاشق حسین نے منٹوں میں اس شاعری کو موسیقی کا رنگ دے دیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کلام کو امیر خسرو نے حضرت لعل شہباز قلندؒرکی شان میں دعائیہ انداز میں لکھا اور بعد میں حضرت بابا بلھے شاہؒ نے اس میں ترامیم کیں اور اس دعائیہ کلام کو ایک نیا رنگ دیا۔
ساغر صدیقی نے ایک مرتبہ کہا تھا:
"میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا"
ساغر نے لکھا تھا کہ
"تقسیم کے بعد صرف شعر لکھتا ہوں، شعر پڑھتا ہوں، شعر کھاتا ہوں، شعر پیتا ہوں"۔
ساغر نے بہت سے فلمی گیت تخلیق کیے اور یہی وہ سہانے دن تھے جب انور کمال پاشا کی فلم سرفروش ریلیز ہوئی۔ اس فلم کا ایک مکالمہ بہت ہی مشہور ہوا جسے فلم کے ہیرو "سنتوش کمار" نے ادا کیا تھا۔ یہ مکالمہ ساغر نے لکھا تھا جو کچھ یوں تھا؛
"چوری میرا پیشہ ہے، نماز میرا فرض"۔ ہر لحاظ سے یہ ایک کامیاب فلم تھی۔
سرفروش کے گیتوں نے بھی مقبولیت کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ اس کے دو گیت جو شوخ و چنچل "مینا شوری" پر فلم بند کیے گئے تھے آج کئی دہائیوں بعد بھی شوق سے سُنے جاتے ہیں۔ ان گیتوں کے بول تھے؛
"میرا نشانہ دیکھے زمانہ"، "میری مست نظر کرے زخمی جگر"۔ ان گیتوں کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی تھی جنہیں زبیدہ خانم نے گایا تھا۔ عجب اتفاق ہے کہ اپنے وقت کی مشہور اداکارہ مینا شوری نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام انتہائی کسمپرسی اور تنہائی میں گزارے۔ مینا شوری 13 ستمبر 1926 کو پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ہندوستانی سنیما سے کیا اور بعدازاں پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئیں۔ وہ ہندی/اردو اور پنجابی زبان کی فلموں میں بھی نظر آئیں۔ "مینا" کا اصلی نام خورشید جہاں تھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1941 میں سہراب مودی کی فلم سکندر سے کیا تھا۔ مینا نے 1940 کی دہائی کے وسط میں "روپ کے شوری" سے شادی کی، یاد رہے کہ یہ مینا کی تیسری شادی تھی۔ انہوں نے 1949 میں روپ کے شوری کی فلم "ایک تھی لڑکی" میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس فلم کے ایک گیت "لارا لپّہ لارا لپّہ" نے مینا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ 1950 کی دہائی میں "روپ کے شوری" سے علیحدگی کے بعد آپ پاکستان آگئیں اور یہاں پر فلموں میں کام شروع کر دیا۔ پاکستان میں آپ نے "سرفروش" کے علاوہ کئی فلموں میں کام اور پھر آپ رفتہ رفتہ سلور اسکرین سے دور ہو کر گوشہ گمنامی میں چلی گئیں۔ مینا کی زندگی کے آخری پندرہ برس انتہائی تنگ دستی اور غربت میں گزرے۔ تین ستمبر 1989 کو لاہور میں آپ انتقال کر گئیں۔ آپ کی تدفین خیرات کی رقم سے کی گئی۔
ساغر نے اپنی شاعری میں مختلف اندازِ سخن کو اپنایا۔ انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم‘ قطعہ‘ رباعی‘ نعت اور گیت بھی تخلیق کیے۔
ساغر کی زندگی میں ہی ان کی شاعری کے پانچ مجموعے شائع ہوئے۔ جن کے نام یہ ہیں؛ زہر آرزو، غم بہار، شب آگہی، تیشۂ دل، لوحِ جنوں، سبز گنبد اور مقتلِ گل۔ ان پانچوں مجموعوں کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے مگر افسوس کہ معاوضے/رائیلٹی کے طور پر کوئی بھی رقم آپ کے حصے میں نہیں آئی۔ ساغر کی موت کے بعد ان کی شاعری کے سارے مجموعوں کو ایک ساتھ "کلیاتِ ساغر" کے نام سے شائع کیا گیا اور 1990 میں ان ہی مجموعوں کو ملا کر "دیوانِ ساغر" کے نام سے بھی شائع کیا جا چکا ہے۔
ساغر کی المناک موت کے کچھ برس بعد جناب یونس ادیب نے ان کی زندگی پر "شکستِ ساغر" کے نام سے ایک اہم کتاب لکھی۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ساغر کی پُراسرار اور دکھوں میں غوطہ زن زندگی کی بہت سی گھتیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ افسانوی طرز پر لکھی گئی یہ گرانقدر کتاب پڑھنے والوں کو چونکا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ یونس ادیب نے "ساغر صدیقی: شخصیت اور فن" کے عنوان سے ایک کتاب بھی مرتب کی ہے جس میں ساغر پر مختلف ادیبوں کی طرف سے لکھے گئے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے۔ ساغر کی زندگی پر اردو زبان میں ایک ناولٹ بھی لکھا جا چکا ہے جسے فرانسیسی کے ادیب ژولیاں نے تخلیق کیا۔
ساغر صدیقی لاہور جیسے پرہجوم شہر میں خاموشی سے دم توڑ گئے۔ ابتدا میں کسی نے بھی ان کی موت کا نوٹس نہیں لیا۔ کیونکہ سب ہی ان کے جانے سے لاعلم تھے۔ انہیں کن لوگوں نے قبر میں اتارا یہ بھی ایک سربستہ راز ہے۔ موت سے قبل ساغر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے تھے۔ لمبے لمبے بالوں کی گرد آلود الجھی ہوئی لٹھیں ایک عجب ہی انداز اختیار کر چکی تھیں جنہیں سنوارنا شاید کسی کنگھی کے بس میں بھی نہ تھا۔۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امرتسر، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان، پشاور اور دوسرے شہروں میں ہونے والے مشاعروں میں اپنا کلام پڑھ کر ہزاروں شائقین کو اپنا گرویدہ بنانے والا ساغر آہستہ آہستہ محفلوں اور لوگوں سے دور ہوتا گیا اور ایک وقت وہ بھی آیا جب اسے فُٹ پاتھ پر ایک کُتّے کے ساتھ راہگیروں نے دیکھا۔ وہ لاہور جیسے پرہجوم شہر میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو تنہائی کی دلدل میں اتار چکا تھا۔ فکروفن اور غوروتفکر نے زندگی کی کئی تلخ حقیقتوں سے آشنائی کے بعد ساغر کو کسی اور ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا جہاں سے واپسی شاید اب ممکن نہ تھی۔ ساغر اپنی موت سے کئی برس قبل ہی گھٹا ٹوپ اندھیرے دیکھ رہا تھا۔ دراصل یہ اندھیرے معاشرے پہ رائج اُن اقدار کے تھے جنہیں لوگوں نے سچ سمجھ کر اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔ ساغر کے لیے ان اندھیروں کو روشنی ماننا ممکن نہ تھا۔ وہ تو اپنی ذات کے اندر علم و بصیرت کے چراخ جلا چکا تھا۔ اسی لیے تو اُس نے کہا تھا کہ
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے،
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے!
اور اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ٹھیک اسی مقام پر جہاں ساغر نے اپنی آخری سانسیں لی کچھ عرصے بعد وہ کُتّا بھی مردہ پایا گیا جو ساغر کے ساتھ ہمہ وقت رہتا تھا۔
“