لطیفہ پامال ہو چکا ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ صورت احوال پر اطلاق اسی کا ہو رہا ہے۔میرا سی کا لڑکا شہر سے پڑھ لکھ کر آیا تو اعلان کر دیا کہ شادی چودھری کی بیٹی ہی سے کرے گا ورنہ نہیں کرے گا۔مرتا کیا نہ کرتا‘میراسی چودھری کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹے کو فرزندی کے لیے پیش کر دیا۔چودھری غصے سے لال بھبوکا ہو گیا۔خاص کارندوں کو بلایا اور حکم دیا کہ میراسی کا دماغ ٹھکانے لگایا جائے۔مکے‘ٹھڈے اور چانٹے پڑ رہے تھے تو میراسی کی پگڑی گر کر کھل گئی ۔مار پیٹ ختم ہوئی تو میراسی اٹھا اور پگڑی لپیٹتے ہوئے بولا ’’تو پھر چودھری صاحب!آپ کی طرف سے میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘
پیپلز پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی تو چند دن کے بعد ہی اس کا بائیں بازو سے تعلق ٹوٹ گیا؛ تاہم ہماری ایک سینئر بی بی کو‘ کہ لکھاری ہیں‘ اس کے بارے میں اب معلوم ہوا ہے۔پیپلز پارٹی‘ کے فیصلہ سازوں نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اب پارٹی بائیں بازو کی سیاست نہیں کرے گی‘ تو بی بی نے پگڑی باندھتے ہوئے پوچھا ہے کہ کیا اسے انکار ہی سمجھا جائے؟
معصوم عوام کو جن بہت سی فریب کاریوں میں الجھایا گیا ہے‘ ان میں دائیں اور بائیں بازو کی تفریق بھی سرفہرست ہے۔سچ یہ ہے کہ کائیاں حضرات کو شروع ہی سے معلوم ہے کہ دایاں اور بایاں بازو سب کہنے کی باتیں ہیں۔کمٹ منٹ کسی کی کسی بازو کے ساتھ بھی نہیں!اصل وابستگی اقتدار اور اختیار کے ساتھ ہے ؎
کوئی ہرجائی نہیں‘کوئی وفادار نہیں
سب گرفتار ہیں ہر لحظہ دھڑکتے دل کے
پیپلز پارٹی نے بائیں بازو کو سرکاری طور پر طلاق دی ہے تو جو سیاپا کرنے بیٹھ گئے ہیں‘ یا تو وہ بچے ہیں یا دوسروں کو بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔پیپلز پارٹی بائیں بازو سے اس وقت ہی نکل گئی تھی جب وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ساتھ ملا کر ایسی حکومت بنائی جو دائیں بازو سے زیادہ دائیں بازو کی تھی۔کراچی میں مشاعرہ ہو رہا تھا تو جمال احسانی مرحوم نے کمپیئر کو ایک شاعر کے بارے میں تجویز پیش کی کہ اسے سب سے پہلے پڑھوایا جائے۔کمپیئر نے کہا کہ سب سے پہلے ہی پڑھ رہا ہے۔جمال احسانی کہنے لگے‘اسے مزید پہلے پڑھوائیں۔
تو پیپلز پارٹی کی حکومتیں دائیں بازو سے کہیں زیادہ دائیں بازو کی رہی ہیں۔یہ جو بھٹو صاحب نے ایئر مارشل اصغر خان کا دل لبھانے کی کوشش کی تھی کہ آئو تم اور میں اس……قوم پر بیس سال تک حکومت کریں تو کیا یہ بائیں بازو کی سیاست تھی؟دلائی کیمپ بنا‘سیاست دانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا‘ ولی خان لیاقت باغ سے لاشیں لے کر واپس پشاور گئے۔بلوچستان کے سرداری نظام اور سندھ اور جنوبی پنجاب کے ظالمانہ جاگیرداری سسٹم کو ہاتھ تک نہ لگایا گیا۔پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں مولانا فضل الرحمن جیسے سیاست دانوں نے عروج حاصل کیا۔کیا یہ بایاں بازو تھا؟جیل کے ساتھیوں کے سامنے ملک یوں پھینکا گیا جیسے درندوں کے سامنے مردار بھیڑ بکریاں ڈالی جاتی ہیں۔ کیا راجہ پرویز اشرف اور ضیاء الحق کی شوریٰ میں بیٹھنے والے یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ بائیں بازو کی سیاست تھی؟اور انگلستان اور فرانس کے محلات اور سوئٹزر لینڈ میں رکھی ہوئی دولت اور بے نظیر بھٹو کا دبئی میں پرستانوں جیسا محل ۔کیا یہ سب بائیں بازو کے کرشمے تھے؟اور کیا انجم نیاز نے جھوٹ لکھا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے نیو یارک مین ہٹن (524 EAST 72)میں ناقابل یقین قیمت پر سیما بوسکی سے پینٹ ہائوس خریدا تھا اور بدشگونی کو درست کرنے کے لیے اس میں داخل ہونے کے دروازوں کے رخ بدلوائے تھے اور پھر اس پینٹ ہائوس کے پہلے خریداروں کی طرح جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئیں‘ کیا یہ سب بائیں بازو کی سیاست تھی؟اور ’’کوثر نیازی اور مولویوں کی باتوں میں آ کر ‘‘ جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی بائیں بازو کا کرشمہ تھا یا بزدلی اور منافقت تھی؟
کوئی دایاں بازو ہے نہ یہاں بایاں بازو‘سب فریب ہے اور دجل ہے۔نوسر بازی ہے۔بائیں بازو والے بھی اتنے ہی اقتدار پرست اور خود غرض ہیں جتنے دائیں بازو کے علم بردار جو مذہب کو سیاست تجارت اور معاش کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔احمد ندیم قاسمی کے بقول ؎
ہنسی آتی ہے مجھ کو امتیاز دشت و گلشن پر
گھٹا کعبے سے اٹھتی ہے برستی ہے برہمن پر
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سب سے زیادہ فائدے اٹھانے والے بائیں بازو کے وہی ابن الوقت تھے جو ضیاء الحق سے پہلے بھی پیپلز پارٹی میں رہے اور اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی میں واپس آئے۔
یہ ملک چراگاہ ہے ۔عوام بھیڑ بکریاں ہیں اور ملکیت دائیں اور بائیں دونوں بازوئوں کے آہنی پنجوں میں ہے۔جن طالبان کو نام نہاد بائیں بازو کی پیپلز پارٹی کے جنرل نصیر اللہ بابر نے اپنے بچے کہا تھا اب انہی طالبان کے سرپرست‘دائیں بازو کا لبادہ اوڑھ کر عوام اور افواج پاکستان کے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔کوئی کہتا ہے پیس زون بنا کر تحفے میں پیش کرو اور کوئی نصیحت کرتا ہے کہ سو بار بھی مذاکرات ناکام ہو جائیں تو پھر بھی مذاکرات کرو۔ دوسرے لفظوں میں پچاس ہزار افراد مزید مار دیے جائیں تب بھی مذاکرات کرو!
کون سا دایاں بازو اور کون سا بایاں بازو؟مائی فٹ!بھارت کے ساتھ تجارت کا نام لیا جائے تو اہل مذہب آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن پکے پکے ملاّ صحافی امن کی آشا کے پھریرے لہرائیں تو بات بات پر بائیں بازو کا طعنہ دینے والے رائٹسٹ منقار زیرِ پَر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اصل میں سارے ایک ہیں۔بورژوا طرزِ زندگی گزارنے والے۔ ’’انقلابی‘‘ شاعروں کا کلام اقبال بانو ہزار سال بھی گاتی رہے تو انقلاب نہیں آتے۔ انقلاب اس وقت آتے ہیں جب دائیں بازو کا لبادہ اوڑھ کر مذہب کو مفادات کے لیے استعمال کرنے والے دغاباز ٹھکانے لگ جائیں اور بائیں بازو کا نعرہ لگانے والے شعبدہ باز عیار بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔
پیپلز پارٹی کے بانی کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ’’وراثت‘‘ بیگم صاحبہ کے حصے میں آئی۔پھر بیٹی وارث بنی۔وہ رخصت ہوئیں تو شوہر نے پارٹی
کی زمام سنبھالی اور عملی طور پر اختیارات بہنوں کے سپرد کر دیے۔اب صاحبزادے جوان ہو گئے ہیں تو و ہ مالک و مختار بن رہے ہیں۔کوئی بتائے کہ اس میں بایاں بازو کہاں سے آ گیا ہے ؟ ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
دھوپ نکلی ہوئی ہے‘چمگادڑوں کو دکھائی نہیں دیتا سورج کا کیا قصور ہے؟
لیکن ٹھہریے!کہیں بائیں بازو سے مراد وہ بازو تو نہیں جو دائیں کندھے کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟ ؎
لغت میں ہجر کا معنی بدل ڈالا کسی نے
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔