فقیر مصطفیٰ امیرؔ ۔۔۔ سچے عاشق رسول ﷺ اور فنا فی النعت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیر مصطفیٰ امیرؔ کا لگایا ہوا نعتیہ پودا آج بھی انجمن فقیران مصطفیٰ کے نام سے تروتازہ اور شاداب و آباد ہے اور ان کا نعتیہ فیضان جاری ہے۔
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
میں تو محشر میں بھی امیر نواز
نعت پڑھتا لحد سے اٹھوں گا
سچے عاشق رسول ﷺ اور فنا فی النعت جناب فقیر مصطفیٰ امیرؔ نے 22 ستمبر 2018ء کو کُوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔اُردو نعت کا وہ آفتاب جو 20 نومبر 1942ء میں میانوالی پاکستان کے ایک محلہ (گاؤ شالہ) میں ملک کریم نواز اعوان کے گھر طلوع ہوا، وہ عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔اُردو ادب کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہء اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی۔ چوہڑ ماجرا، نزد کلیم شہید پارک فیصل آباد کے شہرخموشاں کی زمین نے اُردو نعت کے اِس خورشید جہاں تاب کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔اِس شہر خموشاں کی زمین نے اُردو زبان و ادب کے اُس آسمان کو نِگل لیا جو گزشتہ چھ عشروں سے علم و ادب سے وابستہ افراد کے سر پر سایا فگن تھا ۔ نعتیہ ادب کا کوئی بھی عکس ہو، اُسی کے خدو خال دل و نگاہ کو مسخر کرلیتے ہیں ۔ اِس مرد درویش کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکنافِ عالم کا گوشہ گوشہ بُقعہ ء نور بن گیا۔ فقیر مصطفیٰ امیر ایک دبستان علم و ادب کا نام ہے ،وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی تھے ۔ان کی وفات سے اردو نعت کا ایک زریں عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ایسی نابغہء روزگار ہستیاں اور یگانہء روزگار فاضل کبھی پیدا نہیں ہو سکتے ۔
ان کے والد ملک کریم نواز عوان بھی ایک وجیہہ انسان، بہادر سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قادر الکلام شاعر تھے ۔۔وہ ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔تہجد گزار پانچ وقت کے نمازی ، کردار کے غازی اور نہایت خود دار انسان تھے۔ان کے سامنے اگر کوئی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لیتا تو ان کی انکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔وہ اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ عربی اور انگریزی زبان میں بھی دسترس رکھتے تھے۔وہ قرآن پاک کا انگلش میں ترجمہ لکھ رہے تھے یہ مبارک اور متبرک کام ابھی نامکمل ہی تھا کہ فرشتہ اجل کو لبیک کہا۔
فقیر مصطفی امیر کے والد اپنی پینشن کا نصف حصہ فلاحی کاموں میں لگا دیتے تھے ۔وہ یتیم خانوں کو باقاعدگی سے ہر ماہ رقم بھجواتے ۔انہوں نے قران پاک شائع کرنے والی معروف ” تاج کمپنی ” کی بہت زیادہ مالی امداد کی تھی ۔جب کمپنی نے خوب پھلنا پھولنا شروع کر دیا تو ایک دفعہ تاج کمپنی کی طرف سے انہیں ایک خط وصول ہوا کہ انہوں نے اب تک کمپنی کو جو رقم دی ہے ، اس سے کمپنی نے خوب ترقی کی منازل طے کر لی ہیں وہ اگر منافع لینا چاہیں تو ہم منافع دینے کو تیار ہیں۔انہوں نے تاج کمپنی کو جو جواب لکھا اس کے متعلق ان کے بیٹے اللہ نواز منصور بیان کرتے ہیں۔
کہ انہوں نے لکھ بھیجا
“میں نے یہ رقم راہ خدا میں صرف کی ہے نہ کہ کاروبار کے لیے”اور یوں انہوں نے منافع لینے سے انکار کر دیا ۔
فقیر مصطفی امیر چھ فٹ سے زائد کے
قدو قامت ، سڈول اور پختہ جسم کی سرخی مائل سفید رنگت کے ساتھ چوڑا چکلا سینہ ،مناسب مونچھوں کے ساتھ خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔اپنی ریٹائرمنٹ کے دور میں مناسب سفید ریش کے ساتھ انہوں نے جو اپنے چہرے کو حسن بخشا تو وہ اور بھی پرنور ہو گیا ۔موسم گرم میں عموما کروشیہ کی بنائی ہوئی سفید ٹوپی سر پر رکھتے لیکن موسم سرما میں مختلف نمونوں کی ٹوپیاں پہنتے جن میں چترالی اور سواتی ٹوپیوں کو فوقیت دیتے ۔کبھی انہیں جناح کیپ میں بھی دیکھا جاتا تھا۔لباس عموما سادہ پہنتے تھے جن میں قمیض اور شلوار نمایاں مقام رکھتے تھے لیکن سفاری سوٹ شاید انہیں زیادہ مرغوب تھا وہ جب کبھی ایسا لباس پہنتے اس میں ان کا انداز مختلف ہوتا اور وہ اس لباس میں بڑے بھلے لگتے تھے ۔
انہوں نے 1957ء میں گورنمنٹ ہائی سکول منٹگمری ساہیوال کی جماعت نہم میں داخلہ لیا اور یہیں سے 1958ء میں میٹرک کا ہی امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ۔منٹگمری ساہیوال کا یہ ادارہ ان کے لیے بڑا کارگر ثابت ہوا۔یہیں سے انہوں نے ادبی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا شروع کی۔ بیت بازی اور تقریری مقابلہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے ۔ان کی ادبی شغف اور علمی جنون کے پیش نظر ان کے اساتذہ بھی ان پر مہربان ہونے لگے۔۔ساہیوال کالج کے ادبی مجلہ میں ان کا ابتدائی کلام چھپنے لگا۔ یوں گلشن ادب کا یہ نوخیز پھول پنپ کر اپنی خوشبو سے ارد گرد کے ماحول کو بھی معطر کرنے لگا ۔دو سال کے توقف کی بعد 1961 میں انہوں نے گورنمنٹ کالج جھنگ کی انٹر کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔جھنگ نہایت زرخیز خطہ ہے۔ہیر رانجھا کی عشق و محبت کی داستان اس سرزمین کے ماتھے کا جھومر ہے اس سرزمین نے بے شمار قادر الکلام شعراء کو جنم دیا ہے جو فن شاعری میں یکتائے روزگار ہیں یہ حضرات مقامی بھی تھے اور مہاجر بھی ۔۔ان میں چند اہم ناموں میں شیر افضل جعفری ، طاہر سردھنوی ،بیدل پانی پتی اور مجید امجد شامل ہیں۔۔فقیر مصطفی امیر جو کہ شعر و ادب کے راہی تھے، جھنگ کے اس ادبی ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان دنوں جھنگ میں مشاعرے عام تھے۔ فقیر مصطفی امیر کی گورنمنٹ کالج جھنگ کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے میاں محمد مرغوب لکھتے ہیں ۔
“ادباء اور شعرا ء کالج کی تقریبات میں بھی شرکت کرتے تھے ذہین طلبہ کو ان سے براہ راست استفادہ کا موقع ملتا تھا یہ وہ اولین ادبی تربیت گاہ تھی جو محمد امیر نواز کو گورنمنٹ کالج جھنگ میں میسر آئی۔”
اس کالج کے ادبی ماحول نے فقیر مصطفی امیر کو پروان چڑھایا۔ یوں ان کے ذوق ادب کو مہمیز ملتی گئی۔۔۔ان کی نگارشات کالج میگزین “کاروان” میں شائع ہوتی رہیں”فقیر مصطفی امیر انہی ادبی شعری محفلوں میں مگن تھے کہ 1966 میں ان کا بی اے کا نتیجہ آگیا اور وہ بی اے کے امتحان میں نمایاں نمبروں سے کامیاب ہو گئے۔اس کے بعد انہوں نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں 1965ء میں ایم اے اردو کی کلاس میں داخلہ لے لیا لیکن اسے مکمل نہ کر سکے۔
1966ء میں انہوں نے اے ایس پی کے طور پر محکمہ پولیس میں ملازمت شروع کی۔
پروفیسر ریاض احمد قادری رقم طراز ہیں کہ فقیر مصطفی امیر نے اپنا روزگار محکمہ پولیس میں تلاش کیا یوں بی اے کرنے کے بعد وہ 1966ء میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے طور پر محکمہ پولیس میں شامل ہو گئے۔”
وہ تھانہ گلبرگ فیصل آباد میں بطور ٹرینی رہے ۔امیر نواز امیر نے اپنے متفرق مگر انتہائی مشکل منصبی مصروفیت کے باوصف اپنا شعری سفر جاری رکھا۔اس حوالے سے ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی بیان کرتے ہیں۔
” گشت و تفتیش کے جانگسل مراحل میں ادبی میلان استوار نہیں رہتا مگر یہ امیر نواز صاحب کی ہمت ہے کہ وہ باوردی ہو کر حاضر دربار ہو گئے ہیں ۔ہتھکڑیاں لگانے والے نے اپنے ہاتھوں میں محبت کی ہتھکڑی لگا لی ہے ۔اور بلند قامتی کے باوجود نیازمندی کو وصف حیات بنا لیا ہے”
نعت گوئی ان کا اوڑھنا بچھونا رہی ۔پولیس میں ملازمت کے دوران انہوں نے کامل یکسوئی اور بہترین انہماک کے ساتھ نعت نگاری کو حرز جاں بنائے رکھا۔جرائم کی سراغ رسانی کی مصروفیت کے باوجود انہوں نے نعت خوانی کی روانی میں کمی نہ آنے دی ۔وہ تسلسل کے ساتھ اپنے جذبہ کے رچاؤ اور لہجے کے سوز سے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلوں کو گرماتے رہے۔
۔۔۔۔۔
یہ 2012ء کی بات ہے جب راقم اپنے اہل خانہ اپنی والدہ محترمہ، اپنی اہلیہ اور اپنی بیٹی کے ساتھ عمرہ کی سعادت کے لیے مدینہ منورہ پہنچا تو وہیں میرے چھوٹے بھائی عزیزم محمد عامر گلزار بھی اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے ساتھ مل کر عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے آ پہنچے۔۔۔۔مدینہ منورہ میں اپنا سامان ہوٹل میں رکھنے کے بعد جب میں مسجد نبوی سے گزر کر روضتہ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک میں اپنا عاجزانہ غلامانہ سلام پیش کرنے کے لیے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کی طرف کھڑے ہو کر میں نے اپنا عاجزانہ غلامانہ سلام پیش کیا۔سلام پیش کرنے کے بعد اچانک میری نظر اٹھی تو میں نے فقیر مصطفی امیر کو ایک سٹول پر آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ آقا دو جہان سردار انبیاء سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اطہر پر درود و سلام بھیجتے ہوئے دیکھا. ان کے وجود میں کپکپی طاری اور آنکھیں نم تھیں۔۔وہ لوگوں کے رش میں بیٹھے تھے۔میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن لوگوں کے کندھوں سے گزرنا میں نے اچھا نہ جانا۔اچانک ان کی نظر میرے اوپر پڑ گئی اور انہوں نے اپنے ارد گرد کچھ لوگوں کو کہہ کر انہیں مجھے راستہ دینے کی درخواست کی۔۔۔یوں ہی میں ان کے قریب گیا تو انہوں نے اپنے محبت بھرے گرم بازوؤں کی مضبوطی میں لے کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔آدھا منٹ مجھے سینے سے لگائے رکھنے کے بعد میری پیشانی کو بوسہ دیا اور اپنی نم آنکھوں اور لرزتی زبان کے ساتھ کہا کہ “تم بہت خوش نصیب ہو جو در حبیب پر آن پہنچے ہو” ۔۔۔۔۔اللہ اللہ کیا انداز تھا ان کا ۔۔۔۔۔دل و دماغ اور روح کھل اٹھے ۔۔مجھے محسوس ہوا کہ مسجد نبوی میں ہمارے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے قدمین مبارک میں مجھ گناہگار کو مبارک باد کہنے کے لیے فقیر مصطفی امیر جیسے اپنے پسندیدہ امتی کو پہلے سے بٹھا رکھا ہے۔۔سبحان اللہ سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ پھر ہمارے مسجد نبوی میں قیام کے دوران میں جب بھی وہاں حاضری کے دوران پوری کوشش کر کے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارک کی طرف پہنچتا تو فقیر مصطفی امیر کو وہاں پہلے سے موجود اسٹول پر بیٹھے گریہ زاری اور رقت میں مشغول پاتا ۔۔۔۔۔پھر یہ ہمارا روزانہ کا معمول بن گیا ۔۔مدینہ منورہ میں قیام کے دوران وہ میرے ساتھ جنّت البقیع کے قریب ہی ہمارے ہوٹل میں بھی تشریف لائے اور میری فیملی کے تمام افراد کو پیار دیا ۔۔جن میں میری بیگم ، میری بیٹی، میرے چھوٹے بھائی عامر گلزار سمیت اس کی اہلیہ اور اس کے بچے شامل تھے۔ سب کے سروں پر بابا جی نے شفقت بھرا پیار دیا اور دعائیں دیں ۔۔۔۔۔پھر دو دفعہ’ عزیزم عامر گلزار اپنی گاڑی میں مجھے اور فقیر مصطفیٰ امیر صاحب کو لمبی ڈرائیو سے مدینہ پاک کی نورانی اور تابانی گلیوں میں رات کے آخری پہر میں مدینہ منورہ کی جنّتی ساعتوں اور نعتوں کی پر کیف اور روح پرور فضاؤں میں رات کا ڈنر کروانے لے کر گئے ۔۔۔بابا جی فقیر مصطفیٰ امیر پر نعتیں سنتے ہوۓ کپکپی طاری ہو جاتی ۔۔آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ بار بار برادرم عامر گلزار کو گاڑی میں نعتیں لگائے رکھنے کی فرمائش کرتے۔
وہ لمحے آج بھی آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو آنکھیں نم نم ہو جاتی ہیں ۔۔۔
خالق سے دل کی لو ہے لگائی امیرؒ نے
ہم سب کو راہِ عشق دکھائی امیرؒ نے
آج ہی کے دن آج سے چھ سال قبل 22 ستمبر2017 یکم محرم الحرام 1439ھ کو شہرِ نعت کے ادبی افق سے ایک ایسا تابندہ ستارہ غروب ہو گیا جسے دنیا ملک محمد امیرنواز اعوان المعروف فقیر مصطفیٰ امیرؔ کے نام سے جانتی ہے ۔جن کا لگایا ہوا نعتیہ پودہ آج بھی انجمن فقیران مصطفیٰ کے نام سے تروتازہ اور شاداب و آباد ہے اور ان کا نعتیہ فیضان جاری ہے۔ آج ان کا چھٹا سالانہ عرس مبارک اعوان نعت محل 951 بی سول کوارٹرز اسلامی چوک غلام محمد آباد فیصل آبا میں منایا جاتا ہے ان کا دنیاوی عہدہ تو ایس ایس پی ( ریٹائرڈ) پولیس تھا لیکن جب نومبر 2003 میں ریٹائر ہوئے تو وہ فنا فی النعت ہو گئے اور فقیر مصطفیٰ امیر کا نام اختیار کر لیا اور تا حیات اسی نام سے جانے پہچانے جاتے رہے ۔ان کی قائم کردہ انجمن فقیرانِ مصطفیٰ فیصل آباد فروغِ نعت کا بہت بڑا ادارہ اور دبستان ثابت ہوئی جس نے بہت سے غزل گو شعرائے کرام کو نعت گو اور بہت سے نعت گو شاعروں کو صاحبِ کتاب بنا دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔حضرت فقیر مصطفٰی امیر کا یہ کارنامہ کبھی بھولا نہیں جاسکتا جو آپ نے انجمن فقیران مصطفٰی فیصل آباد کے نام سے یہ ادارہ قائم کیا جو فروغ نعت کا روشن ستارہ ہے۔اس بزم میں روحانیت ہے۔ نورانیت ہے۔یہاں ایک انوکھا کیف و سرور محسوس ہوتا ہے۔ایک گداز ہے وارفتگی ہے جو کہیں اور نہیں ہے۔۔۔۔
فقیر مصطفیٰ امیرؔ ۲۰نومبر ۱۹۴۲ میں میانوالی شہر میں پیدا ہوئے ۱۹۵۹ء میں میٹرک گورنمنٹ ہائی سکو ل منٹگمری سے کیا اور پھر ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج جھنگ سے کیا،۱۹۶۵ء میں ایم اے اُردو میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں داخلہ لیا ۱۹۶۶ء میں پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہوگئے ،راولپنڈی ،جہلم، گجرات،گوجرانوالہ،لاہور ،ملتان ،بہاولنگر،
خانیوال،جھنگ اور فیصل آباد میں ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں ڈیوٹی کے سرانجام دہی کیلئے مشرقی پاکستان گئے اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ۱۹۷۴ء تک ہندوستان میں جنگی قیدی رہے سال ۲۰۰۲ میں جبکہ سپیشل برانچ گوجرانوالہ ریجن گوجرانوالہ میں بطور ایس ایس پی تعینات تھے اور اسی عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔
جوانی میں شاہین قلمی نام سے لکھتے رہے ہیں ان کی نگارشات ـ’’لیل ونہار‘‘لاہور اور’’قندیل‘‘لاہور میں شائع ہوتی رہیں ہیں بعد میں امیر نواز امیرؔ کے ادبی نام سے لکھتے رہے اور اب فقیرِ مصطفی امیرؔ کے قلمی نام سے لکھتے ہیں ۱۹۹۹ء سے صرف توصیفِ مصطفی ﷺ ہی اپنائی ہے اور تب سے صرف نعت ہی لکھ رہے ہیں اب تک ان کے نعتیہ مجموعے ۱: تو ہی تو چار سو ۲: نعت کروں تحریر ۳: میں غلام مصطفی کا ۴: صدقے حضور ﷺ کے ۵: منزلِ مراد ۶: ثنا ہے زندگی میری شائع ہوچکے ہیںاور ۱: شہرِ جمال نور ۲: میں ہوں فقیرِ مصطفی ﷺ ۳: آنسوئوں کے گلاب ۴: سدا ہو سامنے تیرا نظارہ گنبدِ خضرا ۵: مجھے لے چلو مدینے ۶: سب آپ ﷺ کا کرم ہے ۷: زرِ توصیف اشاعت کے مراحل میں ہیں اور شاعری میں بھی دو کتابیں ۱: جنت جس کے پائوں تلے اور ۲: کھو گیا شب کی تیرگی میں تو قریب الشاعت ہیں۔
یہ ایک تنظیم انجمن ِ فقیران مصطفی ﷺ فیصل آباد کے بانی و صدر بھی ہیں جس کا بنیادی مقصد ترویج و ترقی توصیف مصطفی ﷺ اور سیرت مصطفی ﷺ ہے اسی سلسلہ میں اپنی رہائش گاہ ’’اعوان نعت محل‘‘اسلامی چوک غلام محمد آباد فیصل آباد میں ہر انگریزی ماہ کی آخری تاریخ کو نماز مغرب کے بعد باقاعدگی سے مسلسل چار سال سے نعتیہ ماہانہ مشاعرہ منعقد کروا رہے ہیں جو مورخہ ۳۰ ستمبر ۲۰۰۷ء کو پچاواں ماہانہ نعتیہ مشاعرہ ہوا اور اسی سلسلہ میں نعتیہ مشاعروں کی گولڈن جوبلی بھی منائی گئی۔ان کی زندگی میں ۱۷۲ نعتیہ مشاعر منعقد ہوئے ۔ توصیف ِ مصطفی ﷺ اُن کی زندگی کا مشن بن چکا تھا ۔ ۔۲۲ ستمبر۲۰۱۷ کو اللہ کو پیارے ہو گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔گزشتہ دنوں انجمن فقیران مصطفیٰ فیصل آباد کا 247 واں ماہانہ طرحی نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا۔۔یہ انجمن ایک ادارہ ہے۔ یہ ایک تربیت گاہ ہے یہاں نعت گو شعرائے کرام تخلیق ہو رہے ہیں۔ اس ادارہ کا فیضان ہے کہ آج کتنے احباب صاحب دیوان نعت گو شعرائے کرام بن گئے ہیں۔ فقیر مصطفیٰ امیر کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے آنے والا مورخ انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔۔۔۔۔۔۔
فقیر مصطفی امیر کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ ان کی نسبت خاص ایسے قبیلے سے ہے جو صدیوں سے دعوت و تبلیغ اسلام کی انجام دہی میں مشغول رہا ہے۔ وہ اسی اعوان قبیلے کے چشم و چراغ تھے۔ مبشرحسن کامل لکھتے ہیں “اعوان عربی النسل ہیں اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی غیر فاطمی اولاد ہیں۔حضرت غازی عباس سے آگے اعوانوں کی نسل چلی”۔
فقیر مصطفیٰ امیرؔ نےخود بھی اپنے خاندان ” اعوان”اور اپنے پرکھوں کا تعارف یوں پیش کیا ہے ۔
خدا کو جاتا ہے جو راستہ حسین کا ہے نظام زندگی بخشتا ہوا حسین کا ہے
مرے بھی دادا تھے کربل میں ساتھ مولا کے
خدا کا شکر کہ کنبہ میرا حسین کا ہے
اعوان خون ہوں علوی ہوں اس لیے اے امیر
لہو بدن میں مرے بھی پڑا حسین کا ہے
اعوان قبیلہ کے مورث اعلی حضرت سید علی قطب شاہ غازی ہیں۔سید عون قطب شاہ ایک درویش منش اور مجاہد انسان تھے۔سید عون قطب شاہ کے حوالے سے محمد کریم خان اعوان رقم طراز ہیں۔
“سید عون کتب شاہ عرب سے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ حضرت عبدالقادر جیلانی کے حکم سے تقریبا چھ سو سال قبل بسلسلہ تبلیغ اور جہاد سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ وارد ہند ہوئے۔”
“اعوان پرجوش اور جنگجو خصائل کی مالک قوم ہے۔اعوان عربی کا لفظ ہے اور عون کی جمع ہے۔اردو میں اس کے معنی ہمی اور مددگار کے ہیں ۔چونکہ اعوانوں نے جنگ میں سلطان محمود غزنوی کی مدد کی۔ اللہ تعالی نے انہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا تو سلطان محمود غزنوی نے اس قوم کو اعوان کا خطاب دیا۔”
مدینہ پاک میں ہمارے عمرہ کی سعادت کے دوران حضرت فقیر مصطفیٰ امیر کی معیت میں میرا چھوٹا بھائی مدینہ منورہ کی گلیوں میں بغیر کسی منزل کے تعین کے اپنی کار مسلسل ڈرائیو کر رہا ہے اور راقم بھی ساتھ بیٹھا ہے ۔۔۔اور مدینہ پاک کے بازاروں میں گاڑی میں بیٹھے ہوۓ وجد آفرین نعتیں دل و روح کو تقویت دے رہی ہیں ۔۔اللّه اللّه ۔۔۔کیا روح پرور لمحات ۔۔۔۔ایک مرد درویش عاشق مدینہ ،عشق نعت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مستغرق فقیر مصطفیٰ امیر ایک ایک نعت سن کر بخود ہوئے جا رہے ہیں اور آنکھیں ہیں کہ نم ہو رہی ہیں ۔ گلو گیر آواز میں ۔۔۔ ایک نعت ختم ہونے پر دوسری کی فرمائش ۔۔۔۔۔۔۔مدینہ منورہ کی معطر فضائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
روزِ اول سے شمع رسالت ﷺ کے پروانوں میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ اِسی طرح روزِ محشر تک جاری و ساری رہے گا۔۔ عاشقانِ رسول ﷺ کے اِس گلدستے میں ہر پھول کی خوشبو، تازگی اور خوبصورتی نرالی ہے۔۔ اِس گلدستے میں ایک پھول ایسا ہے جس کی معطر خوشبو سےنہ صرف میرے شہر فیصل آباد بلکہ یہاں یہاں نعت خوانی اور نعت گوئی سے وابستہ افراد موجود ہیں وہیں وہیں ان کی خوشبو سے ان علاقوں کا کونہ کونہ مہک رہا ہے ۔یہ وہ آفتاب ہے کہ جس کی روشنی سے شہر نعت کے عمیق ترین اور بعید ترین گوشے چمک رہے ہیں۔۔ اِس آفتاب کی روشنی کے سامنے سورج کی روشنی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔
ازل سے ابد تک ہر روز عشقِ رسول ﷺ کی ایسی ایسی داستانیں منظر عام پر آتی رہیں گی جن سے اہل ایمان کے ایمان تازہ اور زندہ ہوتے رہیں گے ۔ہر دور میں عاشقان رسول ﷺ اپنی والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار اِسی طرح کرتے رہے گے ۔لیکن اس عاشقِ رسول ﷺ پر قیامت تک عاشقانِ رسول ﷺ اور اہلِ ایمان اُس کے مقام و مرتبہ پر رشک کرتے رہیں گے جو مقام اِ س عاشقِ رسول ﷺ کو نصیب ہوا ہے وہ کم کم افراد کا مقدر بنتا ہے ۔۔یہ ہیں شہر نعت کے درویش منش شاعر فقیر مصطفیٰ امیر جنہوں نے آنکھ کھولی تو لوگ انہیں امیر نواز امیر کے نام سے پہچانتے تھے ۔اپنی زندگی کا بھر پور حصہ اسی نام کی مالا الاپتے رہے ۔مگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تڑپ لگی تو دل کی دنیا ہی بدل گئی ۔۔۔پھر سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مصطفی کا فقیر بنا دیا ۔۔پھر ان کی پہچان فقیر مصطفی کے نام سے ہوئی ۔۔۔اور یہ ایسی پہچان بنی کہ وہ ہر جگہ اپنے اسی نام کا فخر کرتے دکھائی دیتے تھے ۔۔۔مصطفی کے نام مبارک کے ساتھ سابقہ کے طور پر فقیر کو استعمال کرتے ۔۔ اس نام “فقیر مصطفی امیر” کو جب وہ دل و زبان سے ادا کرتے ہیں تو ان کی ہچکیاں بندھ جاتیں ، دل آبدیدہ ہوجاتا ۔آنکھیں نم نم ہو جاتیں، رقت طاری ہو جاتی ۔۔۔۔۔۔۔ایک ایک شعر سناتے ہوۓ وہ کئی بار رو پڑتے ۔۔بار بار اپنی آستینوں سے نم آنکھوں کو صاف کرتے دکھائی دیتے ۔۔پورے ماحول اور مشاعرے پر رقت طاری ہو جاتی ۔۔۔خاموشی ہر طرف پھیل جاتی ۔۔۔۔۔فقیر مصطفی امیر کی بندھی ہچکی جب سنبلھتی تو وہ پھر اپنا وہی نعتیہ کلام سنانے کی کوشش کرتے مگر سنا نہ پاتے اور اپنا بقیہ کلام سنائے بغیر اپنی نشست پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔۔اللّه اللّه ۔۔۔۔سبحان اللّه ۔۔سبحان اللّه ۔۔۔۔۔۔۔کیا عشق محمدی ہے ۔۔۔۔
راقم نے فقیر مصطفیٰ امیر کے اوپر یہ کیفیت ایک نہیں ‘ متعدد بار دیکھی ۔۔۔۔۔۔۔ان کو دیکھ کر ، ان کو سن کر ، ان کے پاس بیٹھ کر ساتھ بیٹھنے والے کے قلب و نظر میں بھی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع فروزاں ہو ہو جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقوق میں ایک اہم حق آپ سے محبت کرنا ہے اور ایسی محبت مطلوب ہے جو مال و دولت سے، آل اولاد سے بلکہ خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو۔ یہ کمال ایمان کی لازمی شرط ہے۔ آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ماں باپ سے، بیوی بچوں سے اور خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ بن جائے۔ یہ حبِ نبویؐ دین کی بنیاد اور اس کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
” آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” (التوبہ 24 ) ۔
والدین، بیوی بچے، مال و دولت اور خاندان و قبیلہ وغیرہ ان سب کی محبت فطری ہے اور اللہ کی طرف سے انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔ان سب چیزوں کی محبت سے زیادہ اللہ و رسول سے اور اللہ کے دین سے محبت ہونی چاہئے اور یہ ایسی لازمی و ضروری چیز ہے کہ اس کے نہ ہونے کی صورت میں سخت وعید ہے کہ اللہ کا عذاب بھی آسکتا ہے نیز آیت کے اخیر میں یہ کہہ کر کہ ” اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔” اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ایسے لوگ جو اللہ و رسول کو سب سے زیادہ محبوب نہیں رکھتے وہ فسق و گناہ میں مبتلا، راہِ حق سے ہٹے ہوئے اور ہدایتِ الٰہی سے محروم ہیں۔ ۔۔
فقیر مصطفی فقیر کا دل عشق رسول سے ہر لمحہ مہکتا رہتا تھا ۔۔۔۔یہ انمول دولت اللہ تعالی نے ان کو وافر مقدار میں عطا کر دی تھی ۔۔۔ہر لمحہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں تڑپتے رہتے، نعت گوئی کرتے اور ان کو گنگنا کر پڑھتے رہتے تھے ۔۔اپنے گھر پر نعتیہ مشاعرہ ہرمہینے باقاعدگی سے کرواتے ۔نعت گو شعرا کا حوصلہ بڑھاتے ، ان سے محبت بڑھاتے ، حوصلہ افزائی کے لئے ان کو ایوارڈز اور دیگر انعامات دے کر ان کے حوصلوں کو تقویت دیتے ۔۔۔اور یہ سلسلہ تا دم مرگ جاری رکھا ۔۔۔سبحان اللّه ۔۔۔۔
سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر آنکھوں کا نور اور دِلوں کا سرور ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکرِ خیر سے عُشّاق کے دل اطمینان پاتے اور لذّتِ عشق محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اسلاف رحمہمُ اللہ السَّلام سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کس طرح کیا کرتےتھے ، اس کی ایک مثال جو ہم نے اپنے عہد میں دیکھی ۔وہ فقیر مصطفی امیر کا فروغ نعت میں ان کا عشق اور کاوشیں ، مدینہ المنورہ کا عشق جو راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام پڑھنے کا عشق اور وارفتگی ۔۔۔۔دل اور روح کی کیفیت ۔۔۔سب اپنے سامنے دیکھی ہیں ۔۔۔۔۔اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیوانے ، شمع رسالت کے پروانے ایسے ہی ہوتے ہیں ۔۔جن کو ہم آج تک اسلامی کتب میں پڑھتے آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔شہر فیصل آباد کا یہ درویش شاعر فقیر مصطفی امیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی دنیا وآخرت کا خوش قسمت ترین انسان نکلا ۔۔۔۔جو امیری کو چھوڑ کر فقیری کی طرف آیا تھا ۔۔۔۔اور پھر یہی فقیری اسے آخرت کا کامیاب انسان بنا کر چلتی بنی ۔۔۔۔۔ان کی زندگی کا یہی حاصل رہا ۔۔۔
سدا حمد و ثنا کرتا رہے ،جب تک کہ زندہ ہے
جو دنیا کو سمجھ لے اک سرائے،وہ بہشتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ یہ کشت نعت ٹھہری ہے
آنکھ میں نعت بو گیا آنسو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسرت طیبہ جانے کی اور لوٹ کے پھر نہ آنے کی
ٹھہری وہ بے تاب بڑی ہے، آ کر میری پلکوں پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیر مصطفیٰ فقیر نے جس جرات مومنانہ کے ساتھ نعت کو ایک نیا آہنگ دینے کی جسارت کی ہے یہ سلسلہ اور آگے بڑھے گا ۔۔۔ ان کا کلام ایک عاشقِ صادق کے دل کی آواز، سچے جذبوں کا اظہار اور حرمِ طیبہ کی محبت میں گرفتار ایک وارفتہ انسان کی بے ساختہ پکار ہے جس سے صرف وہی شخص تسکین قلب حاصل کر سکتا ہے جس کے دل میں محبوبِ دو جہاںؐ کی محبت موءجزن ہے۔ ان کی کتاب “مجھے آقاؐ نے قدموں میں بلایا” سے چند اشعار آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ؛
🌹سب جہاں کی لاج ہے سرکارؐ کے قدموں تلے
دو جہاں کا راج ہے سرکارؐ کے قدموں تلے
خاکِ پائے مصطفیٰؐ ہی میرے سر کا تاج ہے
میرے سر کا تاج ہے سرکارؐ کے قدموں تلے
🌹ذرے بھی ستارے ہیں آقاؐ تیرے قدموں میں
جنت کے نظارے ہیں آقاؐ تیرے قدموں میں
جو مانگا ملا مجھ کو جو چاہا وہ پایا ہے
کیا وارے نیارے ہیں سرکارؐ کے قدموں میں
🌹رحمتوں کا کیا سماں ہے آپ کے قدمین میں
بخششوں کا سائباں ہے آپ کے قدمین میں
ہر طرف جشنِ بہاراں ہے امیر اب دیکھ لو
اب کہاں کوئی خزاں ہے آپ کے قدمین میں
🌹دن بہت اچھا لگا واں رات بھی اچھی لگی
ہاں مدینے کی مجھے ہر بات بھی اچھی لگی
بن کے سائل میں گیا روضہ کے حب بھی روبرو
نعت کی صورت مجھے خیرات بھی اچھی لگی
🌹الفت سے چمکتے ہوئے سرشار وہ قطرے
آنکھوں کو بنا دیتے ہیں شہکار وہ قطرے
چھلکے ہیں جو آنکھوں سے تو الفظ بنے ہیں
اور پھر یوں بنے نعت کے اشعار وہ قطرے
یہ اشعار شاعر کے جذبات دروں کے آئینہ دار ہیں۔ خیال میں پاکیزگی اور تقدّس ہے اور جذبات میں گہرائی وگیرائی بھی۔فقیر مصطفیٰ امیر کا نعتیہ کلام پڑھنے سے قارئین کے دلوں میں ایمان و آگہی کے نور کا چشمہ اُبل پڑتا ہے اور روحانی کیف و سرور حاصل ہوتا ہے۔ عقیدت کے اس والہانہ پن میں بھی ادب و احترام کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
نعت گو ہوں کہیں بھی دفن کرو شہر طیبہ کی حد سے اٹھوں گا
میں تو محشر میں بھی امیر نواز نعت پڑھتا لحد سے اٹھوں گا
“مجھے آقا نے قدموں میں بلایا” پڑھ کر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ بلاشبہ ایک فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فنا فی النعت اور حقیقت میں “فقیر مصطفےٰ” تھے ۔۔
اس نعتیہ مجموعہ سے ایک خوبصورت نعت پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔اس کے کچھ اشعار ۔۔۔
وہ دن میرے گزرے ہیں ، فردوس کے باغوں میں
کر دن جو بسر آیا ، سرکار کے قدموں میں
جھولی بھی دریدہ تھی ، حالت نم دیدہ تھی
جھولی کو میں بھر لایا ، سرکار کے قدموں میں
اس دن سے عجب مجھ پر اک نور سا چھایا ہے
جب سے میں ادھر آیا ، سرکار کے قدموں میں
لکھیں یوں ثنائیں ہیں، خود جھوم اٹھا میں بھی
لکھنے کا ہنر آیا ، سرکار کے قدموں میں
فقیر مصطفیٰ امیر ایک منفرد لب و لہجہ کے عمدہ نعت گو تھے۔وہ عہد حاضر کے اعلی پائے کے نعت گو شاعر ہی نہیں بلکہ منکسر المزاج ، ہمدرد اور نیک طینت انسان بھی تھے۔ان کی گہری داخلیت اور سوزو گداز نے انہیں اس مقام تک پہنچایا جہاں سے عظمتوں اور رفعتوں کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ ان کی ہمہ گیر شخصیت کا ہر پہلو بذات خود ایک مکتبہ فکر کی حیثیت رکھتا تھا انہوں نے ادب کی آبیاری کرنے کے لیے اردو ادب کا انتخاب کیا اور اس میں سے نعت کی ترویج و ترقی اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا اور نعتیہ شاعری کو اپنا عظیم مشن بنایا انہوں نے اپنی شاعری میں عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم کی فکر کے چراغ روشن کیے۔ انہوں نےامیر ہوتے ہوئے بھی فقیر بننا پسند کیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو اس در کا فقیر بنایا جس کی گدائی کے لیے تاجواران زمانہ حسرت رکھتے ہیں اس فقیری میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اس قدر پسند کیا کہ فقیری میں بھی نام کما گئے اور امیری میں فقیر مصطفیٰ بن کر اور بھی امیر ہو گئے ان پر حضور کی اتنی کرم نوازی ہوئی کہ جب وہ نعت پڑھتے تو ان کی آنکھیں آنسوؤں کی صورت میں خود انہیں داد دینے لگتیں۔ ان کا نعتیہ کلام وطن عزیز کے نامور ادبی مجلوں،رسالوں،اور میگزینوں کی زینت بنتا رہا۔ جن میں ساہیوال، کاروان، نعت گو، متاعِ امیر، کاروان نعت، اوراق القمر، انجم اور نعت رنگ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ شہر نعت فیصل آباد میں فقیر مصطفیٰ امیر کو ایک دبستان کی حیثیت حاصل تھی وہ درویش منش اور ملنسار انسان تھے وہ چھوٹے بڑے کی تفریق کے قائل نہیں تھے انہوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی وہ یہاں 23سال سے (انجمن فقیران مصطفیٰ) کے تحت لکھنے والوں کی تربیت کا بیڑا اٹھانے میں مصروفِ کار رہے۔
خادم نعت معروف محقق و نقاد پروفیسر ریاض احمد قادری لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
:” فقیر مصطفیٰ امیر فیصل آباد میں
“شہر نعت” کے افق کے درخشندہ ستارے تھے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جتنی پزیرائی ان کی زندگی میں ہی انہیں میسر آئی، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کو اتنی مقبولیت اور دوام حاصل ہوتا ہے ۔ یہ محض سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت سے وابستگی کا ثمر ہے۔ مختصر طور پر ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ جتنے اچھے شاعر ہیں اس سے کہیں زیادہ اچھے انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حسنِ اخلاق کی بدولت دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے :”
💥خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔۔!