فینٹسی فکشن …فکشن کی ایک ایسی صنف ہے جس میں غیر حقیقی واقع یا کہانی کو اس انداز سے بیاں یا پیش کیا جاتا ہے کہ قاری مانوس زندگی کے بجائے تصورات کے ایک ایسے جادوئی عالم میں پہنچ جائے جہاں کے کردار چرندوں و پرندوں'پیڑ پودوں'دیووں پریوں یا مافوق الفطرت مخلوق کی صورت میں انسانوں کی طرح سوچتے اور باتیں کرتے محسوس ہوں اور کبھی خیر وشر کی کشمکش میں اور کبھی طلسم ہوش ربا جیسے کام کرتے نظر آتے ہوں۔اس میں مافوق الفطرت کرداروں کے ساتھ ساتھ انسانی کردار بھی شامل ہوسکتے ہیں لیکن کہانی کا ماحول بہرحال جادوئی فضا کا حامل ہو۔عام فکشن میں حقیقت کے امکانات موجود ہوتے ہیں جبکہ فینٹسی فکشن میں تخیل کے گھوڑے دوڑاتے دوڑاتے غیر حقیقی واقعات کو کہانی کا روپ دیا جاتا ہے جو کہ سائنسی نقط نگاہ سے قابل قبول نہیں بھی ہوسکتے ہیں‘جیسے جانوروں 'پرندوں وغیرہ کو سوچنے سمجھنے یا بول چال کی صلاحیت میں دکھانا۔اسی لیے فینٹسی فکشن کے لئے تین خصوصیات بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں:
عالم تخئیل (Imaginary world)
قوت جادوئی (Magical Power)
مافوق الفطرت مخلوقات (Supernatural Creature)
فینٹسی فکشن کی پلاٹ سازی عموما جادوئی حقیقت نگاری اور مافوق الفطرت مخلوقات پر استوار ہوتی ہے۔اسی لئے اسے تخئیل کی فرضی عکاسی یا Fanciful mental Image کے زمرے میں رکھاجاتا ہے۔فینٹسی کہانی میں ایسی تصوراتی کشش ہونی چاہئے جیسے خواب دیکھنے یا سننے والے کے دماغ میں تجسس آمیز کشش پیدا ہوجاتی ہے یا کوئی تصوراتی قصہ سن کر ذہن پر سحر طاری ہوجاتاہے۔
فینٹسی کہانیاں لوک ادب کا بھی اہم حصہ رہی ہیں اور اردو مثنویوں کے کئی کردار بھی فینٹسی کے حامل ہوتے ہیں۔اب تو فکشن اور ڈراموں میں فینٹسی تکنیک کا استعمال کرکے انسانی کرداروں کو جادوئی شکتی کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے اور ٹی وی سیریلز میں بھی بچوں کے لئے ایسے کردار نظر آتے ہیں۔یہ تو فینٹسی فکشن کی مختصر توضیح ہوئی۔اب نمونے کے طور پر ایک فینٹسی فکشن بھی پیش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جشنِ روشنی کی صدائیں
ڈاکٹر ریاض توحیدی ؔ
وہ گھنے جنگل سے گزر رہی تھی۔سفر کے دوران ایک تو اس کے دل پرخوفناک جنگلی جانوروں کا ڈر ہتھوڑے برسا رہا تھا اوراوپر سے دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ رات کی اندھیری ہیبت بھی حواس کو منتشر کررہی تھی اور اب جنگل کے متعلق کئی عجیب وغریب سنی سنائی کہانیاں بھی لا شعور سے نکل کر شعور کا حصہ بن رہی تھیں۔وہ کبھی خوف کے عالم میں چہارجانب نظر گھماتی اور کبھی بچے کے چہرے کودیکھتی۔تیزرفتاری میں اچانک اسے محسوس ہوا کہ گردوپیش کی جھاڑیوں سے بھی قدموں کی چاپ سنائی دی رہی ہے۔اس کا دل بیٹھنے لگا لیکن وہ ذہن کو منتشر ہونے سے بچانے کی کوشش بار بار کرتی رہی کہ شام کے دھندلے سائے پھیلنے کے ساتھ ہی جھاڑیوں سے درازقد ہیولے نمودار ہونے لگے اور سر کے اوپر کئی چیلیں پرواز کرنے لگیں۔اس نے جب گھبراہٹ میں چیلوں کی طرف نظر دوڑائی تو اچانک ایک چیل نزدیکی درخت پر بیٹھ گئی اور اس کا سر انسانی چہرے میں تبدیل ہوگیا۔تھوڑی سی روشنی کے باوجود' اس کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔وہ تیز تیزقدم بڑھاتے ہوئے اس امید کے ساتھ آگے بڑھنے لگی کہ اب جنگل کا آخری حصہ بھی ختم ہوکر آبادی شروع ہوجائے گی ‘لیکن وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ جھاڑیوں کے ہیولے اب دیوؤں کی صورت اختیار کرگئے اور زور دار قہقہے لگاتے ہوئے رقص کرنے لگے۔رقص کے ساتھ ہی پیڑ پر بیٹھی انسانی چہرے والی چیل نے جھپٹا مارا اور بچے کو پلک جھپکتے ہی لے اڑی۔یہ وحشت ناک منظر دیکھ کر وہ بے ہوش ہوکر بائیں جانب والی کھائی میں گر گئی۔
رات کا پتہ نہیں کونسا پہر تھا کہ ایک جادوگر وہاں سے گزررہاتھا۔اسے چاند کی مدھم روشنی میں ایک ناگ دکھائی دیا۔ وہ ناگ کے تعاقب میں کھائی میں اتر گیا۔کھائی میں اترتے ہی اسے اچانک بے ہوش عورت پر نظرپڑی۔تھوڑی دیر تک وہ اسے حیران ہوکر دیکھتا رہا۔پھر نبض ٹٹول کر جب اسے یقین ہوگیا کہ عورت مری نہیں بلکہ بے ہوش ہے تو اس نے جھولی سے پانی کی بوتل نکالی اور عورت کے چہرے پر چھڑکاؤ کیا۔پانی کے چھینٹے چہرے پر پڑتے ہی عورت کے حواس بحال ہوئے اور وہ کھڑی ہوگئی۔اس نے پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں اور مایوس ہوکر رونے لگی۔جادو گر نے یہ حال دیکھ کر رونے کی وجہ پوچھی تو عورت نے سارا قصہ سنایا۔جادوگر تھوڑی دیر تک سوچنے کے بعد اسے دلاسہ دیتے ہوئے بین بجانے لگا۔بین کی سریلی آواز کے ساتھ ہی کئی ناگ کھائی کے غاروں سے نکل آئے اور جادو گر کے اردگرد رینگنے لگے۔جادو گرنے آنکھیں بند کرکے کچھ منتر پڑے اور ناگوں کے راجا کے تعاقب میں عورت کو ساتھ لیکر ایک بڑے غار میں
گھس گیا۔ چلتے چلتے وہ ایک ویران کھنڈر میں پہنچ گئے۔ کھنڈر کے اندر پہنچتے ہی انہیں ایک چھوٹی سی گھاٹی نظر آئی۔گھاٹی کی جانب بڑھتے ہوئے انہیں جشن کا سماں دکھائی دیا۔جشن میں کئی دیو اور پریاں رقص کررہے تھے اور عورت کے بچے کوایک دوسرے کی طرف اچھال رہے تھے۔سامنے تخت پر براجمان جنوں کے بادشاہ اور ملکہ رقص سے محظوظ ہورہے تھے۔عورت یہ دہشت ناک منظر دیکھ کرہوش کھونے لگی۔ لیکن جادو گر اسے سنھبالتے ہوئے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوکر زور دار آوازمیں گرج پڑاکہ اس مجبور عورت کے معصوم بچے کو کیوں چھین کرلایاگیا اور اب یہ ظلم کیوں ڈھایا جارہا ہے۔جادوگر کی گرج دار آواز سے ساری گھاٹی گونج اٹھی اور جشن کی محفل میں خاموشی چھاگئی۔بادشاہ کے ساتھ ساتھ سبھی دیو آگ بگولا ہوگئے اور جادو گر کی طرف آگ کے شعلے پھینکنے لگے۔جادو گر نے منترپھونک کر بین بجانا شروع کردی اور سارے دیو بے خود ہوکر رقص کرنے لگے۔بادشاہ یہ صورتحال دیکھ کر پریشان ہوگیا اور ملکہ آہ وزاری کرتے ہوئے بول پڑی کہ بادشاہ سلامت اس آدم زاد نے ہمارے سارے ارمانوں کا خون کردیا اب کیسے ہم اس بچے کی بلی چڑھائیں گے تاکہ ان آدم زادوں کی وادی پر حکومت کرتے رہیں گے۔ملکہ کی دل خراش گریہ سن کر بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا کہ آدم زاد کے سب سے بڑے دشمن جن کو بلایا جائے اور اس جادوگر کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی جلادیاجائے۔چند لمحوں کے اندراندر ایک بلند قامت جن منہ سے آگ کے شعلے برساتے ہوئے جادوگر پر حملہ آور ہوا لیکن جادو گر کے منتر نے اسے خود اپنی ہی آگ میں بھسم کر ڈالا۔سارے دیو یہ خوفناک منظر دیکھ کر سہم گئے اور جادو گرنے دوبارہ بین بجانی شروع کردی۔سبھی دیو بین کے مسحورکن سرسے مست ہوگئے اور ایک دیو نے مستی کے عالم میں بچے کو عورت کی طرف اچھال دیا۔عورت کی بانہیں خودبخود کھل گئیں اور بچہ ماں کی گود میں آگرا۔جادو گر بین بجاتے بجاتے عورت کے ساتھ الٹے پاؤں غار سے نکل گیا اور باہر نکلتے ہی وہ دونوں برق رفتاری سے جنگل کو پار کرنے لگے۔عورت بچے کو سینے سے لگا کرآنسوبہاتے بہاتے بار بارچومتی رہی ۔سویرا ہونے کے ساتھ ہی جونہی وہ بستی میں پہنچ گئی توبستی میں ہرطرف اندھیرے سے آزاد ہونے کی خوشی میں جشنِ روشنی کی صدا ئیں گونجنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Wadipora Handwara Kashmir193221
7006544358
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...