”یہ تصویر حرامی ہے۔۔۔“
وہ گائوں کی خاموش یخ بستہ رات کا سکوت توڑتے ہوئے بولا۔۔۔
میں نے اس کی طرف چونک کر دیکھا تو بابا بھوسے والا مسکرا دیا، ”اس میں سے تیرے نطفے کی خوشبو نہیں آرہی، یہ کسی اور کا قطرہ ہے“۔
”دیکھ! خیال گود لینے سے تصویر مصور کی نہیں ہو جاتی، تیرا حمل جب تک تیرے اپنے فکری نطفے سے نہ ٹھہرے، تیرا بچہ حرامی ہی کہلائے گا“
”مصور تو فینیکس ہوتا ہے۔۔۔ فینیکس۔۔۔ جو ہر نئی تصویر بناتے ہوئے خود جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ پھر اپنی ہی راکھ سے دوبارہ جنم لیتا ہے۔“
اس سے پہلے کہ بات پوری طرح میری سمجھ میں آتی، بابا بھوسے والا مجھے گہری سوچ میں غرق کر کے جا چکا تھا۔
اگرچہ میری پیدائش میں میرا کوئی عمل دخل بالکل بھی نہیں تھا، لیکن میرے ساتھ میرے ماں باپ کا سلوک ایسا تھا جیسے میں نے جنم لینے کے لئے زبردستی اپنے باپ کا نطفہ اپنی ماں کے رحم میں ڈالاہو۔
ان کے نزدیک میں حیض کے غلیظ مادے کی بدبو تھا جو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔
پورے خاندان کے لئے کلنک کا ٹیکا۔۔۔
اس کی اکلوتی وجہ شاید یہ تھی کہ میں ہندسوں کی بجائے رنگوں میں سوچتا تھا۔
میرا باپ تھا۔۔۔ جو ہندسوں کا پجاری تھا۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود اسے ہندسے تخلیق کرنے کا فن آتا تھا، سو کا ہزار، ہزار کا دس ہزار۔۔۔
اسے یہ فن میرے دادا سے ورثے میں ملا تھا۔ میرا دادا ۱۹۶۵ کے صدارتی انتخابات میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تھا، اور ایوب خان کا اہم مہرہ سمجھا جاتا تھا۔ دادا کے گزر جانے کے بعد میرا باپ اسکی حیثیت تو برقرار نہ رکھ سکا لیکن ہندسے بنانے میں میرے دادا کی بھی مات دے گیا۔
اس کے بر عکس میں۔۔۔ میں نیلے سے قرمزی، پیلے سے ہرا اور سرخ سے کھٹا رنگ کشید کرتا رہا کہ زندگی ہندسے نہیں رنگ ہے۔
انسان رنگوں سے جونسا ہندسہ چاہے بنا سکتا ہے مگر ہندسوں سے رنگ نہیں بنتے۔
اور کوئی نہ کوئی رنگ تو بابے کی تصویر میں بھی بھرنا پڑتا ہے اسے بینک دولت پاکستان بنانے کے لئے۔
میری یہ منطق میرے باپ کی سمجھ میں کہاں آنی تھی۔ گھر میں رنگوں اور ہندسوں کی سرد جنگ یوں چلتی رہی کہ روز مرہ ہوگئی۔
یہ میرے باپ کی محبت تھی کہ رفتہ رفتہ میں بابا بھوسے والا کے نام سے مشہور ہوگیا، گویا ان سب لوگوں کے نزدیک میرے دماغ میں بھوسا بھرا ہوا تھا۔
خیر یہ تو اس کا اپنا شعور تھا جو ہندسوں کے علاوہ کچھ اور دیکھنے اور سمجھنے سے عاری تھی ورنہ۔۔۔
ورنہ اناج تو بھس سے ہی اترتا ہے، جس کی تصویر کبھی پانچ کی کاغذ پر بھی چھپتی تھی کہ رزق حلال عین عبادت ہے۔
جب اناج سے لدے پودے کا غرور سوکھ جائے تو بھس ہی رہ جاتا ہے۔
میرا غرور سوکھ چکا تھا۔
اور سوکھ کر میرا شرک بن چکا تھا۔
انسان کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرا سکتا لیکن اسے اپنی ذات کا شریک کسی نہ کسی کو ٹھہرانا پڑتا ہے۔
بابا بھوسے والا میری ذات کا شرک تھا۔
نہ جانے وہ میرے اندر کون کون سے جہان پھرولتا رہتا تھا؟
ایک دن میرے اندر سے بولا، یہ شعر دیکھ وحیداخترواحدؔ کا
”
انگلیاں اپنی برش کی نبض پر رکھتا ہوں میں
رنگ ہیں اور انگلیوں میں بال جبرائیل ہے
وحیداخترواحدؔ
“
”کچھ سمجھ آیا؟“
گہری خاموشی۔۔۔
تخلیق کار بچہ کیسے جنتا ہے۔
یہ کائینات کا ایک سر بستہ راز ہے۔
اور یہ راز مجھ پر بابے بھوسے والے نے ہی آشکار کیا تھا۔
کہنے لگا، ”پتر۔۔۔ تخلیق تجربات کا گلقند ہوتی ہے۔“
”وہ زمین پر حوا کی طرح مادرزاد ننگی اترتی ہے۔ تخلیق کار کا تخلیل ہی اسے اول اول مبلوس کرتا ہے۔ اس کی تراش خراش اور زیبائش تو سماجی اقدار کے تحت بہت بعد میں ہوتی ہے۔“
”تخلیق تو بس 'کن فیکون' کا ایک لمحہ ہے، اس کے بعد چاہے وہ اپنی اصل ہیت میں آتے آتے کئی ہزار سال کے ارتقائی عمل سے گزرے۔“
”وہ لمحہ جس میں تخلیق جنم لیتی ہے۔۔۔ زچگی کے اس درد کا واحد گواہ تخلیق کار خود ہوتا ہے۔“
”ورنہ سمندر میں مچھلی کے آنسو کون پکڑے۔“
”روشنی، رنگ، روغن۔۔۔“
”دھواں۔۔۔“
”سب تجربہ ہیں۔۔۔“
”کبھی ان پر اپنی سانس چھڑک کر دیکھ۔“
معلوم نہیں کہ بابا کیا کیا کہتا رہتا تھا، مگر گھر میں ہر وقت کی خانہ جنگی کی سی کیفیت، مایوسی اور تازہ تازہ جوانی کا جوش۔ گائوں میں میرے صرف دو تین دوست ہی تھے اور بقول میرے باپ کے، وہ سب کے سب میری طرح حرامی تھے۔ نئی جوانی برسات کی طرح ہوتی ہے جس میں خواہشات کی ہری ہری کونپلیں پھوٹتی ہیں۔۔۔ انسان ایڈونچر کرنے کے سو بہانے ڈھونڈتا ہے چنانچہ ایک دن ہم چاروں حرامیوں نے مل کر چرس پینے کا پروگرام بنایا۔ ایک ایڈونچر ہی تو کرنا تھا بس۔۔۔
چرس کا بندوبست آسانی سے ہو گیا اور ہم چاروں اسی رات کماد کے کھیت میں چھپ کر سیگریٹ میں چرس بھر رہے تھے۔
چرس کا دوسرا یا تیسرا کش تھا۔۔۔۔ صحیح طرح یاد نہیں۔۔۔
چرس بھرا سیگریٹ ولایتی سگار معلوم ہونے لگا۔
اور پھر یوں ہوا کہ میں اپنے آپ سے اس شدت سے ٹکرایا کہ میری تمام حسیں پور پور میری تمام حسیں پور پور سے پسینہ بن کر پھوٹ پڑیں۔
عین اسی وقت میری ذات کا شرک میرے اندر سے لپک کر برش کی نوک میرے ماتھے کی ایک پور میں اٹکے پسینے کے قطرے پر رکھ دیتا ہے۔ برش نے میری پور سے احساس کا قطرہ پیا تو اس کے نوک پر لگا سرخ روغن کھل کر عروسی ہو گیا اور فرط جذبات میں میری روشن پور کے ساحل پر سرخ بوسے کا نشان چھوڑ گیا۔
اس ایک بوسے نے ساری جسمانی کثافتیں دھو ڈالیں اور میں ہلکا پھلکا ہو کر زمین کی زمانی قید سے آزاد تخلیل کے فلک پر ایک دہکتے ستارے کی مانند ظہور پزیر ہوا۔
میں نے ارد گرد دیکھا، سارے ستارے آدھی رات کا قیلولہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
بابے بھوسے والے سے ہی سنا تھا کہ آواز بصارت کو شدت بخشتی ہے اور مناظر میں زندگی بھرتی ہے سو میں نے منظر کو سننے کی کوشش کی مگر اس بے آواز فلک کی تاریکی میں دور دراز کے ستاروں سے اٹھتے ہزار ہا میل لمبے شعلے ایسے دکھ رہے تھے گویا کسی نے پانی میں سنہری روشنائی کے قطرے ڈال دئے ہوں اور وہ پانی کے کنیوس میں آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہے ہوں۔
میں اپنے ہونٹوں میں آتشیں سگار دبائے وقفے وقفے سے چرس کے کش بھر کر قرمزی اور سبز رنگ کا دھواں فلک میں بکھیر رہا تھا۔
ستارہ کسی کا غلام تھوڑا ہی ہوتا ہے سو میں بے پرواہی سے کش بھرتا جا رہا تھا۔ قرمزی اور سبز رنگ کے دھویں کے مرغولےوقتا" فوقتا" میرے ہونٹوں سے نکل کر فلک میں پھیلتے جا رہے تھے۔ میرے اندر ایک جوش تھا جیسے میں آ ج تمام فلک کو دھویں سے بھر دوں گا۔ ایک سرور تھا۔۔۔
میں اپنی ذات کے سرور میں مبتلا کب اپنے محور کے گرد گھومنے لگا، معلوم ہی نہ ہو سکا۔
یہ رقص تھا یا کسی ملنگ کی دھمال۔۔۔ بس بے خودی ہی بے خودی تھی۔
اپنی ذات کے گرد گھومتے گھومتے، اچانک میری ںظر اس پر پڑی۔ قرمزی دھویں کے مرغولے سے نمودار ہوتا اس کا کورا مگر سنہری وجود۔۔۔ بس۔۔۔۔
کن فیکون۔۔۔
کن فکیون کا لمحہ آن پہنچا تھا۔۔۔۔
میرا پہلا شاہکار اسی ایک ساعت میں تخلیق ہو چکا تھا، اب تو بس مجھے اس کے تقوش اجاگر کرنا تھے۔۔۔ اس میں رنگ بھرنا تھے۔
میرے سامنے زمین گول کورے کینوس کی طرح خلا میں معلق تھی ۔ اس کے گرد اودی اودی، نیلی نیلی بدلیاں پریوں کی طرح تیر رہی تھیں۔ ان کی معانی خیز مسکراہٹ میرے رنگوں کو دعوت دے رہی تھی۔
میں نے آگے بڑھ کر اپنا آتشیں برش اس گولہ کینوس پر رکھ دیا۔ برش کی نوک کے نیچے کینوس سلگ اٹھا۔ لگا جیسے کینوس نے ہیجان بھری سسکی بھری ہو۔
یقینا" گولہ کینوس اپنی پیدائش سے لے کر آج تک رنگوں کے لئے پیاسا تھا۔
کینوس پر برش کا شہوت میں ڈوبا ہوا رقص اور سیاہ و شوخ رنگوں کے درمیان بوس و کنار، عالمِ بالا سے وحی اتررہی تھی۔
اے تخیل، تو الہام میں ڈھل تاکہ صاحب خیال زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو اور عرشِ معلی کو چھونے کی خواہش کا پہلا جنم ہو سکے، ورنہ قلندر خدا کی جیب میں ایک کھوٹے سکے سوا کچھ نہیں۔۔۔
رنگ جب رنگوں سے مباشرت کریں تو حمل ٹھہرتا ہے۔
ستاروں سے اٹھتے شعلے اور انکی شدت کا اتارچڑھائو۔۔۔ گویا ایکوالائیزر پر رنگوں کا سپیکٹرم ہیوی میٹل کا راگ الاپ رہا ہو۔
میں گولہ کینوس کو مکانی حیثیت میں چھ منطقی حصوں میں تقسیم کر چکا تھا بالائی، زیریں، آگے، پیچھے اور دائیں، بائیں۔۔۔
یعنی، اس چھ رخے کینوس پر ہر زمانی کیفیت میں چھ تصاویر بنائی جا سکتی تھیں۔
برش کی دھونکنی کی طرح چلتی سانس۔۔۔
اور میں اپنی دھن میں مگن کینوس پر رنگوں سے زندگی تراشتا ہوا۔۔۔
برش چلتا رہا اور کینوس سلگتا رہا۔ رفتہ رفتہ کینوس سے اٹھنے والا سیاہ دھواں تصویر کو اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔
اور پھر دفعتا" یہ دھواں رات کی تاریکی میں بدل گیا۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ کچھ دیر بعد جب پچھلے پہر کا چاند طلوع ہوا تو منظر پر ایک درخت کا ظہور ہوا۔
درخت کے خدوخال ایک ادھیڑ عمر عورت سے مشابہہ۔۔۔ بل کھاتی سیفد چھال کی ساڑھی پر پیچ در پیچ شاخوں سے بنے چاندی کی طرح چمکتے سفید گھنگریالے بال جیسے چہرے کی جھریوں سے میچنگ کی گئی ہو۔۔۔ اور۔۔۔ اور ان پر سیفد پتے گویا ساڑھی کے پلو سے سر دھانپا گیا ہو۔
اس خاتونِ نبات کی عمر سے اندازہ ہوتا تھا کہ اسکی جڑیں دھرتی میں بہت گہری اتر چکی ہیں۔
اس کا تنا ایک ادا سے زمین کے ساتھ قدرے مخروطی زاوئے ہر گولائی میں جھکا ہوا۔۔۔ گویا ادھیڑ عمر عورت رات کی خاموشی کا سکون جذب کرتے ہوئے آرام کرسی پر محو خواب ہو۔
کینوس پر پہلی تصویر مکمل ہو چکی تھی۔
میں انگلی بڑھا کر زمین کے کینوس کو اسکے محور پر ہلکا سا گھماتا ہوں تو نیا منظر سامنے آجاتا ہے۔
خاتونِ نبات۔۔۔ خاتونِ نبات اپنی آرام کرسی میں مکمل طور ہر انسانی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ کسی خواب گاہ کا منظر ہے۔
اسکی آرام کرسی کی پیچھے، ایک پلنگ اور پلنگ کی دوسری طرف ایک دیوان دیکھا جا سکتا ہے۔ دیوان سے پرے کچھ فاصلے پر ایک کھڑکی ہے جو نیم تاریک آسمان سے محوِ کلام ہے۔ کھڑکی کے دائیں جانب دیورا پر آوایزں کیلینڈر پر ۹ جولائی کی تاریخ ہے۔
دفعتا" کھڑکی میں ایک سایہ ابھرتا ہے اور دھواں بن کر منظر ہر چھا جاتا ہے اور پھر اچانک تمام کا تمام دھواں سکڑ کر عمر رسیدہ خاتون کے سامنے اکٹھا ہو کر ہیولا سا بن جاتا ہے جو سر سے پائوں تک سیاہ چوغہ پہنے ہوئے ہے۔
خاتون کوشاید دھویں نے بے ہوش کر دیا تھا۔
ہیولے کا ہاتھ جنبش میں آتا ہے۔ وہ جیب سے سیگریٹ نکال کر سلگاتا ہے اور پھر سلگتا سیگریٹ خاتون کی طرف کر کے اسے ایک جھٹکا دیتا ہے، جیسے جادوگر نے منتر پڑھ کر اپنی جادو کی چھڑی گھمائی ہو۔ سیگریٹ سے ایک شعلہ لپک کر خاتون کے بازوئوں اور ٹانگوں سے ایسے لپٹ جاتا ہے جیسے اسے کرسی سے باندھ دیا گیا ہو۔
منظر میں سے گویا روشنی چوس لی گئی ہو۔
ہیولا آگے بڑھ کر خاتون پر جھکتا ہے اور منہ خاتون کے چہرے کے پاس لا کر ایک لمبا اطمنان بھرا سانس کھینچ کر جلتا ہوا سیگریٹ خاتون کے بوڑھے ہاتھ پر مسل دیتا ہے۔ خاتون تکلیف دہ خرخراہٹ کے ساتھ دھیرے سے ہوش میں آتی ہے۔
اس کی نیم باز آنکھیں اور پیلا پڑتا ہوا نحیف چہرہ۔۔۔ بازوئوں اور ٹانگوں سے لپٹا شعلہ دھیرے دھیرے اس کے جسم سے تمام توانائی چوس رہا ہے۔
اس کے چہرے کی جھریوں میں خوف کی بجائے اطمنان ہے اور وہ زیرِ لب تکلیف سے مسکرا رہی ہے۔
ہیولا اپنا منہ عورت کے کان کے پاس لاتا ہے جیسے کچھ کہنا چاہ رہا ہو، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولے، اس کا ہاتھ جوغے کے اندر حرکت میں آتا ہے اور ایک خنجر عورت کے جگر سے پار ہو جاتا ہے۔ تکلیف کی شدت سے ایک چیخ اس کے حلق میں ہی دم توڑدیتی ہے۔ البتہ دیکھنے والے یہ مردہ چیخ اس عورت کی جھریوں اور شدتِ قرب سے کھلی آنکھوں میں سن سکتے ہیں۔
ہیولا اسکے بکھرے بالوں پر اپنی ناک رکھ کر جس سرعت سے ایک لمبا اطمنان بھرا سانس اندر کیھنچتا ہے اسی سرعت سے خنجر کو اسے پیٹ میں گھما کر باہر کینچ لیتا ہے۔
زندگی کی سسکیاں سن کر منظر پر سیاہ دھویں کا خاموش قہقہہ رقص کرنےلگتا ہے۔
اور پھر۔۔۔
ہیولا نما شخص اچانک آرام کرسی کو زوردار لات مارتا ہے اور کرسی عورت سمیت الٹ کر گرتی ہے۔ وہ سرعت کے ساتھ کرسی میں بندھی فرش دراز عورت پر اس طرح چڑھ کر بیٹھ جاتا ہے کہ اسکا گھٹنا عورت کے سینے میں پیوست ہے۔
وہ اپنے بائیں ہاتھ سے عورت کا سر بالوں سے پکڑ کر اسکا چہرہ فرش کے متوازی کر دیتا ہے۔
اسی لمحے اسکا دوسرا ہاتھ بجلی کی تیزی سے حرکت میں آتا ہے اور ایک لمحے میں خنجر عورت کی شہہ رگ کاٹ چکا ہوتا ہے۔ منظر پر خرخراہٹوں کی پیلی روشنی اور دھویں کے قہقہے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ سیاہ دھواں تیزی سے سسکیوں سے روشنی چوس لیتا ہے۔
ہیولا کرسی میں بندھی ترپتی ہوئی عورت پر بیٹھا تیزی سے خجر چلا رہا ہے اور عورت کی کٹتی گردن سے نکلتے دھارے فرش پر خونی کہانی تحریر کر رہے ہیں۔ پھر اچانک منظر پر خاموشی جھا جاتی ہے۔ عورت کی غرغراہٹیں بند ہو جاتی ہیں لیکن اسکی خاموشی کو دھاڑتا سنا جا سکتا ہے۔
ہیولا عورت کے اوپر سے اٹھتا ہے۔ اس نے ہاتھ میں خنجر جبکہ دوسرے ہاتھ میں عورت کا تن سے جدا سر بالوں سے پکڑ رکھا ہے جس کی آنکھیں دو ایک بار جھپکنے کے بعد ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتی ہیں۔
عورت کا بے سر کے دھڑ کرسی میں بندھا ابھی تک تڑپ رہا ہے۔
ہیولا دھواں بن کر کھڑکی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔
اچانک میرے سر کی پچھلی طرف ایک عظیم کائناتی حادثہ رونما ہوتا ہے۔ ایک بہت بڑا سیارہ میری دہکتی ہوئی سطح کے ساتھ ٹکرا چکا تھا۔ اس عظیم حادثے کی شاک ویو میرے اندر کی کائنات کے ہر حصے میں محسوس کی گئی۔
اور میں ایک دھماکے سے زمین بوس گیا۔
بے ہوش ہونے سے پہلے میں نے جو آخری آواز سنی وہ میرے باپ کی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا، ”اس کتیا سے تیس سال پہلے جان چھڑائی تھی، اب یہ دوبارہ ہمارے گھر تک آگئی!“
میری بند ہوتی آنکھوں کے سامنے لکڑیوں کے ڈھیر کے ساتھ میرا تازہ تصویری شاہکار جل رہ تھا۔
جلتی ہوئی چھ تصاویر میں سے جو اکلوتی نیم جلی تصویر میری نظروں کے سامنے تھی، اسے دیکھتے ہی میرا دماغ مکمل تاریکی میں کھو گیا۔
میں جل کر راکھ ہو چکا تھا۔
تصویر میں فاطمہ جناح کا تن سے جدا سر فرش پر دیوان کے پائے کے سامنے پڑا تھا۔
پس منظر میں کھڑکی تاریک راستے کی جانب کھلی ہوئی تھی۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1723278967938803/