موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ ورانہ تعلیم ہے ۔ ہروہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس نے فنی مہارت حاصل کی ہے۔ کسی ملک میں فنی ماہرین کی تعداد جس قدر زیادہ ہو وہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ پاکستان میں فنی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ دوسرے ممالک کی نسبت یہاں فنی تعلیم کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔چینی زبان میں ایک مثال ہے کہ’’ آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ‘‘۔ اس سے وہ خودکفیل ہوگا۔ٹیکنیکل سکل یعنی ہنر ہی وہ کنجی ہے جو کسی بھی فرد کے لیے امکانات کے لا تعداد دروازے کھول دیتی ہے۔فطری طریقے پر اپنی پوشیدہ صلاحیّتوں کی پرورش کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اندر پرورش اور ترقی کی ضرورت کو محسوس کرے ۔ یورپی ممالک نے برسوں پہلے یہ حل ڈھونڈ لیا تھا اس لیے وہ معاشی تر قّی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ ہم نے اسے نظر انداز کئے رکھا اس لیے بہت پیچھے رہ گئے۔کئی دہائیوں تک یہ اہم ترین شعبہ حکومتوں اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل رہا اور غلط ترجیحات کے باعث ملک بیروزگاری اور غربت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ فرمان ہے کہ ’’میں کڑیل جوان کو دیکھتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے اور جب مجھے کہا جائے کہ اس کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے ‘‘۔نیزحضرت محمد ﷺنے لکڑیاں جمع کر کے بیچنے کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر قرار دیا۔ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں نوجوان بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لے کر مختلف سرکاری وغیر سرکاری اداروں کے چکر کاٹنا شروع کردیتے ہیں مگر ہر طرف سے انھیں مایوس کن جواب ملتا ہے۔اتنے بڑی افرادی قوّت کو اگر ہم قابلِ تجارت ہنر فراہم کرسکیں تو یہ ہمارے پاس سونے اور تیل سے کہیں بڑا سرمایہ ہے۔اوراگرانہیں وہ ہنر فراہم نہ کرسکے جو انہیں روزگار کمانے کے قابل بنادے تو بیکاری اور فرسٹریشن انہیں جرائم یا دہشت گردی کی طرف دھکیل دے گی۔ہمارے ہا ں ٹیکنیکل اور ووکیشنل شعبے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں رہی۔ صنعت کا ہر سیکٹر غیر ہنرمند لیبر فورس کا رونا رو رہا ہے۔ پیداواری صلاحیّت بڑھانے کے لیے ہر فیلڈ میں ہنرمندی اور مہارت کی ضرورت ہے یعنی زراعت،تعمیرات،سولر انرجی، صحت، آئی ٹی سے لے کر بیوٹیشن اور کْکنگ وغیرہ تک۔ بلاشبہ مقابلے کے اس دور میں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے توفنّی تعلیم و تربیّت کے بغیرممکن ہی نہیں۔پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا ء الحق جاپان کے سرکاری دورے پر گئے انکی حیرت انگیز ترقی سے متاثر ہو کر انہوں نے جاپانیوں سے اس ترقی کا راز دریافت کیا جاپان کے ترجمان نے بتایا کہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے دوران کسی وقت چند جاپانی چین اور جاپان کے درمیان ساڑھے پانچ سو کلو میٹر سمندری سفر کر کے چین پہنچے۔ چین کے فنی ماہراستادوں سے ہنر کی نزاکتیں، باریکیاں اور نفاست سیکھی جدید ٹیکنالوجی مغرب سے حاصل کی۔دونوں کے امتزاج سے ہنر مندی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے۔
نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں اور کسی بھی قوم میں نوجوانوں کو قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دماغی و جسمانی لحاظ سے باقی عمر کے طبقوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمت ،جذبہ، ذہانت، قوت ودیگر صلاحیتیں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ یہ کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔
کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔ لیکن ان کی ایک بڑی تعداد نوکری اور روزگار سے محروم ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی تمام تر سوچوں کا محور و مرکز معاش کا حصول ہے۔ پورے معاشرے پر روز گار کے مناسب ذرائع مہیا کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تا کہ نوجوان نسل کو خود اپنے اور معاشرے کیلئے مفید فرد بنایا جا سکے۔فنی تعلیم کے شعبے کے فروغ اور آگہی کیلئے ایک طویل المدت اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ محض ایک بورڈ تشکیل دینے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ جدید دور کے تقاضوں اورمارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کیلئے ٹھوس و جامع اقدامات کرے۔ اس ضمن میں مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے جو نجی و سرکاری اداروں کے تعاون سے فنی تعلیم و تربیت کے فروغ کیلئے عملی قدم اٹھائے۔ ہرتربیّت کا معیار بلند کرنے اور اسے بین الاقوامی سطح تک لانے کے لیے عالمی سطح کے سیلبس سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ تربیّت کے پرانے اور دقیانوسی طریقے سے ہٹ کر قابلیت پر مبنی تربیت متعارف کروائی جائے۔ TEVTAسیکٹر میں عالمی سطح کے اداروں کے ساتھ اشتراکِ عمل شروع ہونا چاہئے۔ کیوں کہ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت اسی صورت میں ایک مسابقتی افرادی قوت تشکیل دے سکتی ہے جب وہ صنعتی افرادی قوت کی ڈیمانڈاور ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی محرکات پر بخوبی نظر رکھے۔ قومی سند اس وقت اپنی افادیت کھو دیتی ہے جب اس کا حامل گریجویٹ مطلوبہ ہنرمندی کا معیار نہیں رکھتا۔ پاکستان میں بھی انہیں جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مختلف فنون و شعبہ جات میں تربیت دے کر تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ نوجوان اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں وہ بھی ہاتھ سے کام کرنے کو عیب نہ سمجھیں۔ اورہاتھ سے کام کرنا اللہ تعالیٰ کو اور نبی کریم ؐ کو بہت پسند ہے۔ ملک کی ترقی بہترین فنی تعلیم و تربیت میں پوشیدہ ہے۔وہ نوجوان بیٹے اور بیٹیاں باعث فخر ہیں کہ جنہوں نے اپنے گھر کا بوجھ اٹھانے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔
ہر ملک کی صنعتی ترقی کے لئے ایک ایسی فنی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے جو پیشہ ور انجینئرز ٹیکنیشن اور ماہر کاریگروں پر مشتمل ہو۔۔اس ٹیم کی عمدہ کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ایک پیشہ ور انجینئر ،پانچ ٹیکنیشنز اور بیس ماہر کاریگر شامل ہوں۔انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے پیشہ ور انجینئر اعلیٰ تعلیم و تربیت کے بعد دستیاب ہوتے ہیں۔ٹیکنیشن یا سب انجینئر پولی ٹیکنیک اداروں سے مہیا ہوتے ہیں جبکہ ماہر کاریگروں کی فراہمی کی ذمہ داری گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس ،اپرنٹس شپ ٹریننگ سینٹرز اور گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹس پر عائد ہوتی ہے ۔۔صوبہ پنجاب میں یہاں بہت سے فلاحی ادارے مثلا پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کالج اور گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کام کر رہے ہیں وہاں گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سبی فنی تعلیم کو فروغ دینے کے عمل میں شب و روز مصروف عمل ہیں ۔۔۔۔
فنی تعلیم کے میدان میں پاکستان کے مانچسٹر فیصل آباد میں گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ دیگر ٹیکنیکل اداروں کے ساتھ ساتھ افرادی قوت جیسی اہم قومی ضرورت کے فروغ میں شب و روز کوشاں ہے اور ہر سال وطن عزیز کو سینکڑوں کی تعداد میں ماہر کاریگر اور افرادی قوت مہیا کرتا ہے ۔۔ یہ قدیم فنی ادارہ انڈسٹریل اسکول سے ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تک کے طویل سفر سے لے کر تاحال وطن عزیز کو وافر مقدار میں کاریگر اور پیشہ ورانہ افراد مہیا کر کے قومی آمدنی میں اضافہ کر رہا ہے ۔۔یہ افراد ملک کی ترقی میں گرانقدر سرمایہ ثابت ہوئے ہیں اور آج بھی اس ادارے سے فارغ التحصیل افراد سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے علاوہ ملوں، فیکٹریوں اور مختلف کے ورکشاپوں کے ساتھ ساتھ ذاتی کاروبار میں بڑی لگن سے کام کرتے ہوئے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر رہے ہیں ۔
گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد ایک قدیم ترین فنی درسگاہ ہے جو بانوے سال سے فروغ تعلیم میں شب و روز مصروف عمل ہے۔۔یہ ادارہ دھوبی گھاٹ نزد اقبال پارک جناح کالونی روڈ پر وسیع و عریض رقبے پر شہر کے عین وسط میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے بالمقابل واقع ہے۔۔اس فنی درسگاہ کا آغاز قیام پاکستان سے قبل 1928ء میں گورنمنٹ انڈسٹریل اسکول کی حیثیت سے ہوا ۔۔قیام پاکستان سے قبل ملک میں صنعتی اور فنی تعلیم برائے نام تھی ۔۔برصغیر پاک و ہند میں غیر ملکی فرمانرواؤں کے زیر تسلط تھا سفید فام برطانوی حکمرانوں نے مقامی طور پر سرکاری ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر صوبے میں چند گورنمنٹ انڈسٹری اسکول قائم کیے جن میں پرائمری پاس یا معمولی تعلیمی قابلیت کے حامل افراد کو فنی تربیت دے کر ٹرنر ،مکینک، ویلڈر الیکٹریشن اور پلمبر وغیرہ تیار کیے جاتے تھے لیکن یہ کاریگر تعلیمی معیار پست اور فنی تعلیم غیر معیاری ہونے کی وجہ سے ملکی صنعت کے لیے چنداں مفید نہیں تھے ۔۔حصول آزادی کے بعد بھی کافی عرصہ تک فنی تعلیم کی طرف وہ توجہ نہ دی گئی جس توجہ کا یہ شعبہ مستحق تھا ۔۔صوبہ پنجاب میں کل 13 گورنمنٹ انڈسٹری اسکول قائم کیے گئے اور ان کا قیام 1928ء میں عمل میں آیا ۔۔یہ تمام سکول محکمہ زراعت حکومت پنجاب کے زیر اہتمام کرتے تھے گورنمنٹ انڈسٹری اسکولوں کو 1964ء میں حکومت پنجاب کی نظامت فنی تعلیم کی تحویل میں دے دیا گیا تاکہ عصری تقاضوں کے مطابق ان کی تنظیم نو کی جا سکے ۔۔1968ء میں نظامت تعلیم نے تنظیم نو کے تحت گورنمنٹ انڈسٹریل سکولوں کا درجہ بڑھا کر ان کو گورنمنٹ ووکیشنل انسٹیٹیوٹس کا نام دیا اور ان میں دو سالہ کورسز کا اجراء کیا گیا۔۔داخلہ کے لئے کم از کم تعلیمی قابلیت مڈل رکھیں گی لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یہ ادارے نظامت فنی تعلیم کی عدم دلچسپی اور بے توجہی کا شکار ہوکر اپنی افادیت کھو بیٹھے ۔۔۔جولائی 1979ء میں گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی انسٹی ٹیوٹس کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے ان اداروں کا کنٹرول افرادی قوت و تربیت حکومت پنجاب کے سپرد کر دیا گیا جس نے ان اداروں کو کنٹرول افرادی قوت و تربیت حکومت پنجاب کے سپرد کر دیا گیا جس نے ان اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے ۔۔۔
"یو – این- اے" کے ذیلی ادارے " بین الاقوامی تنظیم محنت " (آئی ایل او) کے مالی تعاون سے نہ صرف ہر ادارے میں کروڑوں روپے کی زر کثیر سے جدید ترین مشینری طلباء کی ٹیکنیکل ٹریننگ کے لیے نصب کی گئی بلکہ محکمہ کے ڈویلپمنٹ سیل میں پاکستانی اور جرمن ماہرین کی فنی تعلیم کے باہمی اشتراک سے سائنسی بنیادوں پر تیار کردہ کورسز کا اجراء بھی کیا گیا ۔جس کی وجہ سے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کے تن مردہ میں زندگی کی نئی روح گردش کرنے لگی۔
جون 1999ء میں ان اداروں کو ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (TEVTA) کی تحویل میں دے کر اس کا چارج انڈسٹریز اینڈ منرل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کردیا گیا ۔۔ان اداروں کی تنظیم نو کرتے ہوئے پنجاب بھر کے نظامت افرادی قوت و تربیت کے تحت چلنے والے اداروں گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز، گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس اور گورنمنٹ ووکیشنل سنٹرز کے مختلف ناموں کو بدل کر ایک ہی نام گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے منسوب کردیا گیا اور ان اداروں کا انتظامی کنٹرول انڈسٹریز اینڈ منرل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کردیا گیا ۔۔۔گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد میں مڈل اور میٹرک پاس طلباء کو جدید فنی تعلیم سے روشناس کروایا جاتا ہے ۔ادارہ کی ورکشاپ کو جدید مشینری اور آلات سے آراستہ کیا گیا ہے ۔۔ اس وقت انسٹیٹیوٹ کے جن شعبہ جات میں تربیت دی جاتی ہے وہ حسب ذیل ہیں ۔
الیکٹرونکس ایپلیکیشن، سول ڈرافٹسمین ،مکینیکل ڈرافٹسمین، الیکٹریکل، مشینیسٹ، ویلڈنگ ، ایچ وی اے سی آر ،چائنیز لینگویج کورسز اور کمپیوٹر سے متعلقہ متعدد کورسز کروائے جاتے ہیں ۔۔۔
اس وقت گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد میں طلباء کے رجحان اور دلچسپی کی وجہ سے یہ کورسز دو شفٹوں میں منقسم ہیں ۔۔پہلی شفٹ میں ٹریننگ کی مدت دو سال ہے اور یہ ٹریننگ صبح کے اوقات میں دی جاتی ہے جبکہ دوسری شفٹ میں رہنے کی مدت ایک سال ہے اور یہ شام کے اوقات میں چلائی جاتی ہے تاکہ مختلف صنعتوں اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والے افراد فارغ اوقات میں اپنی فنی استعداد میں حسب منشا اضافہ کر سکیں ۔۔۔۔قبل ازیں میں گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد میں تمام کورسز کی مدت ایک سال تھی لیکن 1985 ء میں کورسز کی مدت بڑھا کر دو سال کر دی گئی تا کہ ٹرینی زیادہ سے زیادہ مہارت حاصل کر سکیں ۔۔۔
فیصل آباد ایک سال تھی اور مانچسٹر شہر ہونے کی وجہ سے یہاں پر لوگوں کا فنی تعلیم کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر فروری 1999ء میں گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد میں دونوں شفٹوں کے طلباء کی مختلف شعبوں میں نششتوں کی تعداد بڑھا دی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبا فنی تعلیم سے بہرہ ور ہو کر ملک عزیز کو افرادی قوت مہیا کر سکیں ۔۔۔۔۔۔۔
گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد کے تربیت یافتہ ماہر کاریگر اندرون ملک میں نہایت اعتماد کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں علاوہ ازیں بیرون ملک خصوصاً مشرق وسطیٰ میں اپنی بہترین کارکردگی کا عملی مظاہرہ کرکے پاکستان کے لیے زرکثیر کما رہے ہیں ۔۔یہ قدیم فنی ادارہ اپنے تعلیمی ماحول اعلی نظم و نسق اور داخلوں کے سلسلے میں امیدواروں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث پنجاب کے دیگر اداروں میں نمایاں کردار ہے ۔۔جو اپنی عمدہ کارکردگی بہترین صلاحیت کے حامل اساتذہ کی موجودگی اور مثالی ماحول کے باعث اطراف واکناف میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...