اظہار ذات ایک جبلی عنصر ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کی نظر میں نمایاں ہو جائے۔ ادبا و شعرا ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو نازک المزاج اور سلیم طبع ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا خواہش مند ہوتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔ اس کے کلام کی تعریف کی جائے۔ وہ اپنے تخلیقی عمل پر داد کا خواہش مند ہوتا ہے۔اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ سب سے پہلے اپنی کتاب کا دیباچہ یا مقدمہ کسی معتبر شخصیت سے لکھواتا ہے۔ یہ دیباچہ اگر کوئی معروف شخصیت لکھ دے تو صاحب کتاب کے لیے سند کا درجہ ہوتا ہے اور وہ اس پر فخر محسوس کرتا ہے۔
سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ دیباچہ کیا ہے؟ کیامقدمہ اور دیباچہ نگاری میں کوئی فرق ہے؟ کیا ہم پیش لفظ، پیش کلام، تمھید اور تقریظ کو اس زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔اردو ادب میں ان کا مقام کیا ہے؟ ان کی حیثیت کیا ہے؟ ماہرین ادب کے نزدیک ان کی حقیقت کیا ہے؟
دیباچہ:
دیباچہ کے لُغوی معنی رخسار، پیشانی اور آغاز نامہ کے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے prefaceکا لفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ اصطلاحی معنوں میں وہ مضمون یا تبصرہ یا تاثرات ہیں جو کتاب کے شروع میں لکھے جاتے ہیں جس میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے متعلق رائے زنی کی جاتی ہے۔جو زیادہ تر تعریفی و توصیفی ہی ہوتی ہے۔بعض اوقات دیباچہ مصنف خود لکھتا ہے لیکن دوسرے فرد سے لکھوائے گئے دیباچہ کو اہمیت حاصل ہے۔دیباچہ کے بارے میں سیّد قدرت نقوی رقم طراز ہیں:
’’کسی کتاب کا ابتدائیہ عرف عام میں دیباچہ کہلاتا ہے ،جس میں کتاب سے متعلق کچھ امور بطور تعارف لکھے جاتے ہیں۔ کتب کے علاوہ رسالوں یا کتابچوں کے شروع میں بھی اس قسم کی عبارت ہوتی ہے وہ بھی دیباچے ہی کے ذیل میں شمار کی جاتی ہے۔‘‘ ۱؎
مقدمہ:
مقدمہ کے لغوی معنی’’ آگے چلنے والا، آگے جانے والا، فوج کا وہ دستہ یا حصہ جو آگے بھیج دیا جائے، ہراول دستہ، دیباچہ اور تمھید‘‘ ۲؎ کے ہیںجبکہ اصطلاح میں اس کو بھی دیباچہ کے معنوں میں ہی استعمال کیا ہے۔ڈاکٹر گیان چند کے نزدیک اس میں مصنف کی سوانح اور تعارف نیز کتاب کی تنقید ہوتی ہے۔مقدمہ کے بارے میں پروفیسر افتخار شفیع لکھتے ہیں:۔
’’مقدمہ کسی عملی و تحقیقی کتاب کی تکمیل کے بعد تحریر کیا جاتا ہے یہ ہر کتاب کے شروع میں ہوتا ہے۔ مصنف مقدمے میں علمی دیانتداری کے ساتھ اہم نکات بیان کرتا ہے۔ مقدمے میں صرف ضروری امور پر بحث کی جاتی ہے۔ مقدمہ نگار کے پیشِ نظر تفہیم و تحسین کا حصول ہوتا ہے۔ مقدمے میں اکثر وسیع معلومات دی جاتی ہیں۔‘‘ ۳؎
دیباچہ و مقدمہ سے پہلے اس مقصد کے لیے ایک اور اصطلاح ’’تقریظ‘‘ استعمال کی جاتی تھی جو اب متروک ہو چکی ہے۔ ’’تقریظ کسی ادب پارے کی خیالی انداز میں تعریف و تحسین ہے۔‘‘ ۴؎ بنیادی طور پر تقریظ کا تعلق دو یا دو سے زائد کلام سخن کو انصاف کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ان کے درمیان تمیز کرنا اور کسی ایک کو اعلیٰ مرتبے پر فائز کرنا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ صرف ایک کتاب کے شروع میں لکھا جانے لگا تو تقابل کے بجائے ایک ہی کتاب کے محاسن پر تبصرہ ہونے لگا۔ یوں دیباچہ یا مقدمہ تقریظ کی ترقی یافتہ صورت بنی۔تقریظ کے بارے میں پروفیسر افتخار شفیع لکھتے ہیں:۔
’’عرب معاشرے میں شعرا کے قصیدے سننے کے بعد ان کا موازنہ کرنے کا رواج تھا۔ مختلف اہل فن مشاعرے کے بعد شاعری کا تقابل کر کے اپنی رائے دیتے تھے اس کو تقریظ کہا جاتاتھا۔ گزشتہ صدی کے پہلے نصف میں اکثر اردو کتابوں کی تقریظ ملتی ہے۔ موجودہ دور میں اس کے متروک ہونے کا سبب تنقیدی مضامین میں موجود محاسن و مصائب کا اظہار ہے۔ تقریظ کی جگہ اب دیباچہ اور پیش لفظ نے لے لی ہے۔‘‘۵؎
دیباچہ، مقدمہ اور پیش لفظ میں کیا فرق ہے اس ضمن میں احمد ندیم قاسمی کی رائے سے مکمل طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ وہ ان میں کسی قسم کی تفریق کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’دیباچہ ، مقدمہ ، تمھید ، پیش کلام، پیش لفظ، تعارف وغیرہ کے درمیان کسی قسم کا کوئی فرق کم سے کم اردو کی کتابوں کی حد تک روا نہیں رکھا گیا، یہ لکھنے والے پر موقوف ہے کہ کتاب یا مصنف کے بارے میں وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کا کیا عنوان رکھتا ہے۔‘‘ ۶؎
مندرجہ بالا اقتباس، دیگر تعریفوں اور مطالعاتی مشاہدے سے قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دیباچہ اور مقدمہ ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں چاہے اس کو کوئی بھی نام دے دیں۔
کیا مقدمہ یا دیباچہ نگاری ایک صنف ادب ہے؟:
اردو ادب نے اپنی قلیل عمر میں شاعری اور نثر ہر دو میں بے شمار اصناف ادب کو جنم دیا۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر زبان و ادب کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔تقریظ سر زمین عرب سے سر زمین ہند تک دیباچہ و مقدمہ نگاری کی صورت میں اردو ادب میں مروج ہے ۔ فضلی کی ’’کربل کتھا‘‘ میں اس کے آثار ملتے ہیں جہاں مقدمہ کے ضمن میں لکھا ہے:۔
’’ہیں اس مقدمے میں احادیث رونے کی
ان پر عمل کرے جو ہوبے شک نہال ہے‘‘ ۷؎
مولانا الطاف حسین حالی کا ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘ جو اردو ادب میں تنقید کا منبہ ہے حقیقت میں کتاب کا ’’مقدمہ‘‘ ہی لکھا گیا۔مولانا عبدالحق کا اس بارے کافی کام ہے ۔وہ مقدمات کے حوالے سے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔مقدمہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:۔
’’مقدمہ نگاری اک فن ضرور ہے۔ اس کے کچھ بنیادی اصول بھی ہیں۔ ان اصولوں کا اس میں خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ بعض لوازم و عناصر کے مجموعی امتزاج سے اس فن کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے اور لوازم و عناصر ہر صورت اس میں پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔‘‘۸؎
جب بھی کسی چیز کے اصول و ضوابط تشکیل پا جاتے ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ اپنی شناخت رکھتی ہے۔اس کی اپنی الگ پہچان ہوتی ہے ۔ ان حقائق کی بنیاد پر دیباچہ نگاری اور مقدمہ نگاری کو صنف ادب ماننا نا گزیر ہے۔
محققین نے اپنے دیباچوں کو مختلف نام دیے۔ نام اور عنوان کوئی بھی ہو مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے۔ اردو کی چند نامور شخصیتوں نے اپنی کتابوں کے دیباچے مختلف ناموں سے لکھے چند مثالیں حسب ذیل ہیں:۔
٭ شفقت رضوی کی ’’اردو کے یورپین شعراء‘‘ کا دیباچہ ’’ایک بات‘‘
٭ ڈاکٹر وحید قریشی کی مرتبہ ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘ کا دیباچہ’’حرف آغاز‘‘
٭ ڈاکٹر شوکت سبزواری کی ’’اردو لسانیات‘‘ کا دیباچہ’’حرف حکایت‘‘
٭ ڈاکٹر سہیل بخاری کی’’ اردو کا روپ‘‘ کا دیباچہ ’’ سب سے پہلے‘‘
٭ ڈاکٹر سیّدعبداللہ کی ’’اشارات تنقید‘‘ کا دیباچہ ’’گزارش‘‘
دیباچہ و مقدمہ نگاری کی اقسام
اردو ادب میں لکھے گئے مقدمات اوردیباچوں کو درجِ ذیل اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔تحقیقی:
ایسے دیباچے جو تحقیق پر مبنی ہوں اور تحقیقی کتابوں کے لیے لکھے گئے ہوں تحقیقی دیباچے یا مقدمے کہلاتے ہیں۔ اس حوالے سے جو نام سامنے آتے ہیں ان میں مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر سید عبداللہ، عابد علی عابد، مشفق خواجہ، خواجہ زکریا، جمیل جالبی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری وغیرہ شامل ہیں۔
۲۔تنقیدی:
تنقید مقدمے یا دیباچے وہ ہیں جو کسی ناقد نے کسی کتاب کی تدوین و ترتیب کے وقت اس کے تجزیے اور تبصرے کے ساتھ کتاب میں شامل کیا ہو۔الطاف حسین حالی کو اس میں اولیت حاصل ہے گو کہ یہ ان کے اپنے دیوان کا حصہ تھا مگر سیر حاصل تبصرے پر مبنی طویل ترین مقدمہ تھا جو بعد میں اپنی انفرادی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔اس کے علاوہ خلیل الرحمن اعظمی کا ’’مقدمہ کلام آتش‘‘ بھی تنقیدی زمرے میں آتا ہے۔
۳۔توصیفی یا تاثراتی:
اس قسم کے دیباچے تقریباً ہر کتاب میں شامل ہوتے ہیں۔ اس میں دیباچہ نگار زیادہ تر کلام کے محاسن کے ساتھ ساتھ مصنف کے لیے توصیفی رائے بھی رکھتا ہے اور اس کے لیے حوصلہ افزائی کے کلمات لکھتا ہے تا کہ اس کا حوصلہ بلند ہو اور مزید مشقِ قلم جاری رہے۔مجید امجد کی دیباچہ نگاری بھی اس زمرے میں آتی ہے۔
مجید امجد کی دیباچہ نگاری
فنکار کے فن کی قدر اس کے چلے جانے کے بعد کرنے کی رسم بہت پرانی ہے۔ کئی مثالیں سامنے رکھی جا سکتی ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کو شاعروں کی صف سے ہی باہر نکال دیا گیا تھا اور ایک وقت ایسا آیا کہ اُسے جدید نظم کا بانی مان لیا گیا۔ مجید امجد بھی شاید انھی حالات میں سے گزرے ہیں۔ مجید امجد پر وزیر آغا اور مظفر سید نے مضامین لکھ کر ان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مجید امجد کی وفات کے بعد اس کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔ خواجہ محمد زکریا، یحییٰ امجد، افتخار جالب، انیس ناگی، جعفر شیرازی اور عبدالرشید کے مضامین کے بعد کئی دیگر ناقدین اور اہل قلم نے بھی مجید امجد پر قلم اٹھائے۔
مجید امجد کی شاعری پر تو بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جائے گا مگر مجید امجد کا ایک اہم پہلو ابھی تشنگی کا شکار ہے۔وہ پہلو مجید امجد کی نثر ہے۔مجید امجد شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ان کی نثر میں بھی وہی نغمہ سرائی ہے جو ان کی نظم میں ہے۔اگرچہ مجید امجد کی شاعری میں سنجیدگی، افسردگی، غمگینی اور آدم بیزاری پائی جاتی ہے تاہم وہ عام زندگی میں ایسے انسان نہیں تھے۔ وہ ہنس مکھ اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کے ہم عصر و ہم نواجن میں بشیر احمد بشیر، جعفر شیرازی اور مراتب اختر وغیرہ شامل تھے، نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ مجید امجد کم گو ضرور تھے مگر دوستوں میں گھل مل جاتے صرف اپنی عائلی زندگی کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کا رُخ تبدیل کر دیتے تھے۔
مجید امجد کچھ عرصہ جھنگ سے نکلنے والے ’’ہفتہ روزہ عروج‘‘ سے منسلک رہے۔ اس دوران انھوں نے عروج کے اداریوں کے علاوہ تاریخی اور تنقیدی مضامین اور بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ اپنے ہم عصر شعرا کی کتابوں کے دیباچے اور ان کے بارے میں اپنے تاثرات بھی لکھے۔ امجد کے ان تبصروں اور دیباچوں میں تاثراتی تنقید کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ مجید امجد کی نثر نگاری کے حوالے سے حکمت ادیب لکھتے ہیں:۔
’’وہ(مجید امجد) بحیثیت نثر نگار بھی بلند مقام رکھتا ہے۔ اس نے اعلیٰ درجہ کے افسانے اور ڈرامے لکھے اور انگریزی ادب کے شہ پاروں کا سلیس ترجمہ بھی کیا۔ بہت ہی یادگار دیباچے اور تبصرے تحریر کیے۔ اس کے تنقیدی مضامین بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس نے اپنی رائے کا اظہار روایتی تنقیدنگاری سے ہٹ کر کیا ہے۔ اس کی وجہ بھی اس کی روایت شکنی ہے۔ اس نے جہاں شاعری میں ہیئتی تجربات کیے ہیں وہاں نثر میں بھی اپنا ایک مختلف انداز اپنایا ہے۔‘‘۹؎
تنقید کے حوالے سے مجید امجد کے اعلیٰ پائے کے مضامین ملتے ہیںجن میں ’’کیا موجودہ ادب رو بہ زوال ہے؟‘‘، مصطفیٰ زیدی کی نظمیں‘‘، ناصر شہزاد پر لکھا گیا مضمون’’طوفانوں میں اک موج‘‘ اور شہزاد احمد کی نظم’’بلیک آئوٹ کی پہلی رات‘‘ قابل ذکر ہیں۔مجید امجد کے کیے گئے تراجم میں ’’دربار خداوندی میں‘‘، شاعر کا انجام‘‘ اور’’ لالہ فام زارینہ‘‘ اہم ہیں۔
مجید امجد نے جب کسی کتاب کا پیش نامہ یا دیباچہ لکھا تو سچائی، ایمانداری ، خوش اسلوبی اور سچے دل سے لکھا۔مجید امجد نے جن حضرات کی کتابوں کے دیباچے لکھے ان کا تعلق کسی نہ کسی طور مجید امجد سے گہرا اور قریبی تعلق رہا۔ان دیباچوں میں انھوں نے ایسے سوالات بھی اٹھائے جو ادب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ان کے دیباچے فکرو شعور رکھتے ہیں بالعموم عام قاری کے لیے اور بالخصوص ادباو شعرا کے لیے۔ان کے لکھے گئے دیباچوں میں کسی ناول یا افسانے کا منظر نظر آتا ہے۔ اس منظر نگاری کے دوران وہ جزیات کے بہترین نمونے پیش کرتے ہیں کہ شائستگی، نرمی، حلاوت اور روانی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ شیر افضل جعفری کی کتاب’’سانولے من بھانولے‘‘ کا دیباچہ ’’حرفِ اول‘‘ سے یہ نثر پارہ دیکھیے:۔
’’دریائے چناب کے کناروں پر جھنگ دیس کی بستیاں، کھیت، میدان، وادیاں، اور ٹیلے یہاں کی ہیریں اور رانجھے، سوہنیاں اور ماہیوال، کنواریاں اور سہاگنیں، جیالے گبھرو اور متوالے چرواہے۔ یہاں کی ساری دنیا اس کی نظروں میں مناظر اور اشخاص کی دنیا نہ تھی۔ یہ بستیاں صرف اینٹوں گارے کا ڈھیر نہ تھیں۔ یہ وادیاں صرف کونپلوں اور ڈالیوں کے فردوس نہ تھے۔ یہ لوگ صرف گوشت پوست کے ڈھانچے نہ تھے۔ بلکہ یہ سب مظاہر ایک قدیم و لطیف روایت کے آئینے تھے۔ اس روایت کے اولین سرچشمے کسی بیرونی سلسلے میں نہیں پھوٹے تھے۔ بلکہ ان کے سوتے، ماضی نہفتہ کے کسی گہرے گمبھیر زمانے میں، لوگوں کے دلوں سے اور لوگوں کے کردار سے ابھرے تھے۔ اس روایت کا فسانہ کسی کتاب پر مسطر نہیں تھا بلکہ اس کی تحریر کالی کالی بدلیوں کے پلوئوں پر لکھی ہوئی تھی۔ اس میکانکی دور کے ربط و ضبط کے اندر کون ہے جو بدلیوں کی سلوٹوں سے سطریں اور برستی پھہار کی بوندیوں سے حروف اخذ کر سکے۔‘‘۱۰؎
اس نثر پارے میں مجید امجد نے کئی صدیوں پر محیط کئی کہانیوں کو بیان کر دیا۔ ان کی الفاظ سازی نے تاریخ کے کئی رازوں کا پردہ فاش کیا ہے۔ محبت کی لازوال داستانوں کی یاد تازہ کی ہے۔مجید امجد کی نثر میں وہ لطف پایا جاتا ہے کہ یاس کے لمحات پر بھی ادبِ لطیف کا گمان ہوتا ہے۔
ایک شاعر شعری کیفیت سے کیسے گزرتا ہے؟ خیالات و جذبات کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کے لیے کن حالات سے دو چار ہوتا ہے۔ کیا شعر صرف الفاظ کی ترکیب و ترتیب کا نام ہے؟ ہرگز نہیں۔ شعری شعور کے پس منظر میں جذبات ، خیالات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے جو عمدہ شاعری تخلیق کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ اسی صورت حال کی آگہی کے لیے مجید امجدلکھتے ہیں:۔
’’شاعر جب تک اُس آگہی کو جو ایک احساسِ فنا کے زیرِ سایہ باقی ہے اپنے شعروں میں نہ ڈھال سکے اُس وقت تک لفظ بے معنی اور صدائیں کھوکھلی آوازیں ہیں۔ شاعر کا مسئلہ یہ ہے کہ زمانے نے اپنے پرُ اسرار ذریعوں ذریعوں سے اور اپنے لامنتہی واسطوں سے اس کو کیا دیا ، علم و عرفان کے چشمے بہتے بہتے کس موڑ پر کتنے پھیلائو کے ساتھ اس کی روح سے ٹکرایے، ماضی و حال کے آئینہ خانے کے اندر کس زاویے سے سحرو شام کے ہیولے ، اس کی نظروں کے سامنے عکس انداز ہوئے۔ پیچیدہ حقیقتوں اور بھیانک بھیدوں کی کتنی گرہیں اس کے ذہن کی گرفت میں کھُل کر بکھریں پھر ان اَبدی امانتوںکا یہ بوجھ اُٹھا کر جب وہ چلا تو اس کے شخصی تجربات اور انفرادی جذبات کی تشکیل کس طور سے ہوئی ان تاثرات اور واردات کی شدت میں احساسِ فنا کی درد انگیز لہرکس حد تک اُس کے دل کی دھڑکنوں کو نغمہ ریز کر سکی، کیا کیا قالب تھے جن میں یہ نغمے مجسم ہوئے۔ کس وضع کے حروف و الفاظ تھے۔ جن سے یہ نغمے مرتب ہوئے۔ کس منزل پہ یہ شعر کی دنیا بسی اور کتنی گہرائی کے ساتھ شاعر کا شعور کائنات کے بھیدوں ، الجھنوں، اور کشمکشوں کو بیان کر سکا۔ جب تک ان ظلمتوں اور اندھیروں کے اندر کوئی سفر نہ کر سکے اس وقت تک شعر کے مقصد اور منتہا کو پا نہیں سکتا۔‘‘ ۱۱؎
ایک شاعر کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے کلام کو سنیں اور داد دیں مگر اس مشینی دور میں کسی کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے جبکہ کے اس کے برعکس ایسے حضرات بھی گزرے ہیں جو اس خودنمائی سے دور بھاگتے ہیں ۔ مجید امجد بھی ایسے ہی ایک شاعر تھے جو تنہائی کو پسند کرتے اورزیادہ گم سم رہنا پسند کرتے مگر پھر بھی وہ دبی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’آج کل کے لکھنے والے مسلسل اس کاوش میں محو ہیں کہ لوگ انھیں پڑھیں، لوگ انھیں سنیں۔ لوگ انھیں چاہیں۔ لوگ ان کے گلے میں ہار، ان کے دامنوں میں زرو مال اور ان کے سروں پر تاج و اکلیل سجائیں اور اس غرض کے لیے شعر کو ہر اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو شعر کا مقصد نہیں ہے پھر بھی دنیا ہے کہ بے تعلق ہے۔ رسائل، مشاعرے، ریڈیو، مطبوعات، انجمنیں اور اسی طرح کے اور بیسوں ذرائع شاعروں کو حاصل ہیں اور وہ سب ایک سے ایک بڑھ کر ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ پھر بھی لوگ ہیں کہ متاثر نہیں ہوتے ، زمانہ ہے کہ کان نہیں دھرتا۔ سڑکوں پر گھروں میں، دفتروں اور کار گاہوں میں، ہزاروں الجھنیںہیں جن کی کشائش میں شعروں کا کوئی دخل نہیں ۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شعر میں کیا دھرا ہے۔۔ یہ صورتِ حال بڑی پریشان کن ہے۔‘‘ ۱۲؎
مجید امجد نے اسلامی تفکر، حضور اکرم ﷺ کی محبت و عقیدت او حضور اکرم ﷺکی مدحت سرائی کے حوالے سے بھی دلکش اور منفرد انداز میں لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’قرآن کریم ،نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مختلف واقعات کے متعلق اور حضور ﷺ کی ذات اقدس اور حسنہ کے متعلق، بیان خدا وندی کا ایک ضابطہ ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس ساری کائنات کی تخلیق کا مقصد ہی نبی اکرم ﷺ کا ظہور پُر نور ہے۔ اس دنیا میں اگر کوئی چیز زندہ ہے ، باقی ہے اگر کوئی چیز اصل حیات اور غایت مقصود ہے تو وہ حضور ﷺکی تعلیمات ہیں۔ ‘‘ ۱۳؎
مجید امجد نے سردار تخت سنگھ کی کتاب’’خلش احساس‘‘ کا دیباچہ لکھا، اس کتاب پر ہندوستان میں اسے دس ہزار کا انعام ملا۔ جس کے متعلق اردو کے معروف انفرادیت کے حامل شاعر ناصر شہزاد لکھتے ہیں:
’’ایک بار انھوں (سردارتخت سنگھ) نے مجھے (ناصر شہزاد کو) اپنے ایک خط میں لکھا کہ مجھے گورنمنٹ آف مشرقی پنجاب (انڈیا) نے دس ہزار کا انعام دیا ہے۔ ’خلشِ احساس‘ پر اور اس انعام کا محرک و ماخذمجید امجد کا لکھا ہوا دیباچہ ہے۔‘‘ ۱۴؎
مجید امجد کی نثر نگاری کو دیکھا جائے تو جھنگ سے نکلنے والے’’عروج‘‘ کے لیے لکھے گئے اداریے، مختلف کتابوں کے دیباچے اور مقدمے، تنقیدی مضامین ، فکاحی کالم، تبصرے و تجزیے اور بچوں کے لیے تحریریں ملتی ہیں۔ہم مقدموں اور دیباچوں میں شیر افضل جعفریؔ کی کتاب’’سانولے من بھانولے‘‘ کا ’’حرفِ اوّل‘‘، کبیرانورؔ جعفری کی کتاب’’لب سرخ‘‘ کا ’’پیش لفظ‘‘اور ’’حدیث کربلا‘‘ کا ’’حرف اوّل‘‘، ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب’’شام اور سائے‘‘ کا ’’نردبان‘‘، جعفرؔشیرازی کی کتاب ’’ہوا کے رنگ‘‘ کا مقدمہ، اشرفؔ قدسی کی کتاب’’آہنگ وطن‘‘ کا ’’پیش لفظ‘‘، بشیر احمد بشیرؔ کی کتاب ’’قوسِ خیال‘‘کا’’ پیش لفظ‘‘، سیّد منظور احمد مہجور کی کتاب’’بام عرش‘‘ کا ’’الاستدراک‘‘ اور مولوی محمدعمرؔ کی کتاب ’’بیاض عمر‘‘ کا ’’حرف اول‘‘ شامل ہیں۔دیگر مضامین میں ’’میں کیوں لکھتا ہوں‘‘، ’’کیا موجودہ ادب رو بہ زوال ہے؟‘‘، مصطفی زیدی کی نظمیں‘‘، ’’ناصر شہزاد کے حوالے سے’’طوفانوں میں موج‘‘، ’’اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘، ’’کچھ تخت سنگھ کے بارے میں‘‘ اور کئی دیگر اہم مضامین شامل ہیں۔مجید امجد نے بچوں کے لیے بھی تراجم اور طبع آزمائی کی ہے۔ اہم تحریروں میں ’’جھوٹ موٹ موت‘‘، ’’نہر سویز کی تاریخ‘‘ اور’’دربار خداوندی‘‘ شامل ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ قدرت نقوی، سیّد، دیباچہ ایک صنف سخن (مضمون)،مشمولہ: ماہنامہ قومی زبان،کراچی،اکتوبر ۱۹۸۱ء
۲۔ وارث سر ہندی، علمی اردو لغت،علمی کتاب خانہ، لاہور، ۱۹۷۲ء
۳۔ محمدافتخار شفیع، اصنافِ نثر، کتاب سرائے، لاہور،۲۰۱۲ء،ص:۱۶۲
۴۔ عبداللہ، ڈاکٹر،سیّد،مشمولہ:ادبی اصطلاحات(پروفیسر انور جمال)،نیشنل بک فائونڈیشن، اسلام آباد،۲۰۱۲ء، ص:۷۳
۵۔ محمدافتخار شفیع، اصنافِ نثر،ص:۱۵۲
۶۔ احمد ندیم قاسمی، خط، مشمولہ: اردو ادب میں مقدمہ نگاری کی روایت(ارم سلیم)، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۸ء،ص:۱۹
۷۔ محمد احسان الحق (مرتب)، کربل کتھا، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور،س۔ن، ص:۳۴
۸۔ عبادت بریلوی،ڈاکٹر، مقدمات عبد الحق(اضافہ شدہ ایڈیشن)، اردو مرکز، لاہور، ۱۹۶۴ء،ص:۸۶
۹۔ حکمت ادیب، مجید امجد ایک مطالعہ،جھنگ ادبی اکیڈمی، جھنگ، ۱۹۹۴ء، ص:۵۸۲
۱۰۔ مجید امجد ،حرف اول(دیباچہ)،مشمولہ: مجید امجد ایک مطالعہ(مرتب:حکمت ادیب)،ص:۵۸۸
۱۱۔ مجید امجد،پیش لفظ (مضمون)، مشمولہ:قوسِ خیال، بشیر احمد بشیر، مکتبہ فنون، لاہور، ۱۹۷۶ء،ص:۱۴۔۱۵
۱۲۔ مجید امجد،مراتب اخترکی غزلیں(مضمون)،مشمولہ:گنجِ گفتار، مراتب اختر،ادارہ صوتِ ہادی، اوکاڑہ،۲۰۰۱ء،ص:۱۴
۱۳۔ مجید امجد، استدراک (دیباچہ) بام عرش،سیدمنظور احمد مہجور، ماورا پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۲ء،ص:۱۰
۱۴۔ ناصر شہزاد، کون دیس گئیو، الحمد پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص:۳۳
_____________
“