جی کرتا ہے پاوں کے نیچے مسلی کچلی حیات کو کھینچ کر کھڑا کر دوں لیکن اس ادھ مری خواہش کو کون تکمیل کی حدِناممکن تک لے چلے، انگلی پکڑ کر چلنے والے کبھی راستہ نہیں دیکھتے وہ صرف انگلی دیکھتے ہیں، یہ سب سوچیں اس کے دماغ میں آرا چلا رہی تھیں اور لکڑی کی طرح خیالوں کے کٹنے کی مزاحمتی چیخیں کانوں کے پردے پر بمباری کر رہی تھیں اسے سب ازبر تھا ناگاساکی اور ہیرو شیما ۔
اس کے دونوں پر اسی دوران دولخت ہوئے دولخت کیوں نہ ہوتے کیونکہ وہ تخت نشین لوگوں کی تخت نشینی میں حائل تھے اس کے بخت اچھے تھے ورنہ اب کون اس کی آہ و زاریاں سنتا ۔
پاوں تلے تڑپنا تو اس کا حق تھا پیدائشی حق ،اس مصیبت سے رخصت مل بھی جاتی تو آسماں پر شکروں کے غول گول میز کانفرنس کے انعقاد میں محوِپرواز نظر آتے اور اس سے اگلی فضائی نکڑ پر معدوم ہوتی پرجاتی یعنی کرگس اپنے مزموم ارادوں کی پرچھایاں زمین پر پھراتے نظر آتے، پہلے پیڑ پھر اس پہ ٹیکا لگنے والی بات ،یہ سوچ کر اس کا درد کچھ کم ہوا۔ اس کے دماغ میں اچانک جھماکا ہوا کسی طریقے یہاں سے بچ کے سرحد پار نکلا جائے لیکن ہزاروں گنوں کی تڑ تڑاہٹ نے اس کے اس خیال کے پڑخچے اڑا دیے ،یہاں انسان محفوظ نہیں میری کیا مجال! یہ سوچتے ہی اس کی مزاحمت کی سوچ زیرو ڈگری پر پہنچ گئی۔ اب اس نے کسمسانا بھی چھوڑ دیا ، اب اسے درد بھی نہیں ہوتا ،اب اس نے گھونسلہ بھی یہیں بنا لیا ہے اور انڈے دے کر اسے سینے کی اجازت بھی لے لی ہے۔ کیا اڑان کی خواہش کیا پرواز کی جستجو ، جان ہے تو جہان ہے بھائی صاب!
****
گل زمان گل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...