جو حضرات فیس بک پر جنسِ مخالف بن کر انجوائے کر رہے ہیں اِن کی پروفائل پکچر میں ہمیشہ انتہائی خوبصورت لڑکی کی تصویر ہوتی ہے ۔ ان کے نام روشنی‘ جلوہ‘ مدھو‘ سوہنی‘ اُجالا‘ دُعا‘ سویٹی ٹائپ ہوتے ہیں۔جبکہ اِن کی فرینڈ لسٹ ’پرنس ‘ لکی‘ سونو ٹائپ کے مردانہ ناموں سے بھری ہوتی ہے۔فرینڈز میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکے ہوتے ہیں ‘ کچھ لڑکیاں بھی ہوتی ہیں لیکن اُن کے عقب میں بھی مونچھیں جھانک رہی ہوتی ہیں ۔ اِن کے سٹیٹس زیادہ تر پھولوں والی تصاویر یا رومانٹک مناظر پر مشتمل ہوتے ہیں۔فلپائنی اور رشئین لڑکیاں بھی اِن کی لسٹ میں ایڈ ہوتی ہیں۔ یہ اپنے زنانہ اکاؤنٹ صرف شیئرنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں یا اپنے اصلی اکاؤنٹ پر والہانہ داد دینے کے لیے۔ پچھلے دنوں میٹرک پاس ایک صاحب نے اپنا لکھا ہوا ‘ بلکہ کہا ہوا‘ بلکہ بنایا ہوا‘ بلکہ گھڑا ہوا شعر پوسٹ کیا ۔ ’’تم نے تو دوستی ہی چھوڑ دی ظالم۔۔۔ہمارے پاس بھلا خود کشی کے علاوہ اور کون سا راستہ بچا تھا؟‘‘۔شعر پراُن کے کچھ اصلی دوستوں کے کمنٹس آئے جن کے مطابق موصوف میر تقی میر کے رنگ میں لکھتے ہیں اورفیض احمد فیض کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ایک کمنٹ کسی ’’ساحرہ‘‘ کا تھا جنہوں نے لکھا’’تمہارا لکھا ہوا ایک ایک لفظ میں سنبھال کر رکھتی ہوں‘ زندگی میں تمہاری یادوں کے سوا اب کچھ باقی نہیں رہا‘ پلیز ایک بار میرے میسج کا جواب تو دے دو‘‘۔ساحرہ کے اکاؤنٹ پر جاکر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ ایک ڈاکٹر ہے‘ لندن میں رہتی ہے اورنت نئی قیمتی گاڑیوں کی شوقین ہے۔ موصوفہ کو فاسٹ فوڈ اور انگلش میوزک بہت پسند ہے۔ تاہم اُن کی فرینڈ لسٹ میں ہر وہ پچیس سالہ لڑکا ایڈ تھا جس نے سرخ دل والی ڈی پی لگارکھی تھی یا قبلہ بندوق پکڑ کر سٹوڈیو میں کھڑے تھے۔’’شاعر صاحب‘‘ کی پچھلی پوسٹیں دیکھیں تو پتا چلا کہ اُن کے ہر سٹیٹس پر ’ساحرہ‘ ایسا کمنٹ دیتی ہے کہ پڑھنے والوں کا کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے۔
فیک آئی ڈی بنانے والے حضرات عموماً خواتین سے گفتگو کا چسکا لینے کے لیے عورت بن جاتے ہیں۔ یہ جب اِن باکس میں کسی اصلی خاتون سے گفتگو کرتے ہیں تو دس منٹ بعد ہی اِن کا مردانہ پن ظاہر ہونے لگتاہے جب یہ بے دھیانی میں سوال پوچھ بیٹھتے ہیں کہ ’’تمہیں کس قسم کے مرد پسند ہیں؟‘‘۔ہماری ایک کولیگ بتا رہی تھیں کہ اُن کے پاس ’’شکیلہ‘‘ نامی ایک خاتون نے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی جو عمومی انداز میں انہوں نے قبول کرلی۔کچھ دنوں بعد شکیلہ نے اِن باکس میں اُن سے سلام دُعا شروع کردی۔ چھوٹے موٹے میسجز کا سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن شکیلہ کہنے لگی’’میڈم !کل آپ کو میسج کیا تھا لیکن آپ نے بہت لیٹ جواب دیا، خیریت تھی؟‘‘۔ کولیگ نے معذرت کی اور بتایا کہ میری گاڑی خراب ہوگئی تھی ‘ انجن اچانک بہت زیادہ گرم ہورہا تھا اس لیے میں پریشان رہی اور دفتر بھی نہیں جاسکی۔‘‘ شکیلہ کا شاندار جواب آیا’’اوہ! میڈم ہوسکتا ہے ریڈی ایٹر لیک کررہا ہو یا فین خراب ہو‘ آپ احتیاطاً ہیڈ گیس کٹ بھی چیک کروالیں‘‘۔یہ پڑھتے ہی کولیگ کو ہلکا سا غش پڑا‘ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور پوری توجہ سے اِن باکس میں لکھا’’آپ کے خیال میں کون سا مکینک بہتر رہے گا؟‘‘۔ جواب آیا’’پیکھے وال موڑ پر اُستاد آصف کی ورکشاپ چلی جائیں‘ بہت اچھا بندہ ہے‘ انتہائی نیک‘ پرہیز گار‘ ایماندار اور خیال رکھنے والا ہے‘ بلال گنج کے سارے لوگ بھی اس کی تعریف کرتے ہیں۔۔۔‘‘
سوشل میڈیا پر لڑکی بن کر فیک آئی ڈی بنانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی مرد برقع پہن کر بازار میں گھومتا پھرے۔ایسے مرد اس لیے بھی فیک آئی ڈی بناتے ہیں تاکہ ’’شریکوں‘‘ کو حسد محسوس ہو۔اس مقصد کے لیے یہ اکثر اِن باکس والے سارے کمنٹس پوسٹ کے نیچے ہی لکھتے چلے جاتے ہیں مثلاً پہلے ساحرہ کے اکاؤنٹ سے جاکرلکھتے ہیں کہ ’’تم نے کل فون نہیں کیا‘‘۔۔۔پھر اپنے اکاؤنٹ سے جواب دیتے ہیں’’سوری ! میں موبائل اپنے شوروم میں ہی بھول گیا تھا‘‘۔ایسے مرد عموماً لیپ ٹاپ سے خاتون بن کر لاگ اِن ہوتے ہیں اور موبائل میں اپنے اصلی مردانہ اکاؤنٹ سے۔ آپ کو اکثر اِن کے دونوں اکاؤنٹ ایکٹو ملیں گے۔ یہ پھنستے تب ہیں جب کسی اصلی لڑکی سے ان کی بات ہورہی ہوتی ہے اوروہ ان سے کپڑوں کے بارے میں پوچھتی ہے کہ ’’ساحرہ یہ بتاؤ کہ ثناء سفیناز کے متعلق کیا کہتی ہو؟‘‘۔۔۔اور یہ بوکھلا کر لکھ دیتے ہیں’’ثناء نے تو مجھے اَن فرینڈ کر دیا ہے‘ سفینہ البتہ جواب نہیں دے رہی۔‘‘
فیک آئی ڈی کا یہ کام صرف مردہی نہیں کرتے‘کئی خواتین بھی مردانگی پر اُتری ہوئی ہیں۔ اِ ن کے مردانہ اکاؤنٹ میں عموماًکسی ڈاکٹر یا پائلٹ کی تصویر ہوتی ہے لیکن صرف ایک ہی ہوتی ہے۔ یہ ڈاکٹر یا پائلٹ کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ تصویر اپ لوڈ نہیں کرتا‘ اس کی کوئی ایکٹیویٹی نظر نہیں آتی ۔ حیرت انگیزطور پر فرینڈز لسٹ میں کوئی ایک بھی ڈاکٹر یا پائلٹ اس کے دوستوں میں شامل نہیں ہوتا۔عا م طور پر اس کا سٹیٹس کسی وظیفے سے متعلق ہوتاہے یا اشفاق احمد صاحب کا کوئی قول کاپی کیا ہوتاہے۔خواتین جب فیک آئی ڈی بناتی ہیں توبھرپور کوشش کرتی ہیں کہ پتا نہ چل پائے کہ یہ ایک خاتون کی آئی ڈی ہے تاہم عادتوں پر کسے کنٹرول ہے۔ اِن کے لائکس چیک کریں توپتا چلتا ہے کہ ’’نیاز شفیع‘ ‘ نامی یہ صاحب جیولری کے بہت شوقین ہیں اورشادی کے غراروں پر بھی اِن کی گہری نظر ہے۔شفیع صاحب کے پسندیدہ ٹی وی پروگرامز پر نظر ڈالیں تو بادشاہوں اور بہوؤں والے سارے ڈرامے اِنہیں عزیز ہوتے ہیں۔
ایسی خواتین مرد بن کرسٹیٹس اپ ڈیٹ کریں تو اکثر وہاں بھی اِن کا ازلی ٹریڈ مارک ظاہر ہوجاتاہے مثلاً ’’صبح سے بخار‘ زکام اور فلو۔۔۔اُفففف توبہ ہے‘‘۔ایسے زنانہ شفیع صاحب لاکھ کوشش کرلیں لیکن اندر کی عورت باہر نکل ہی آتی ہے۔ ایسی ہی ایک مردانہ آئی ڈی بنانے والی خاتون نے پچھلے دنوں سٹیٹس لکھا’’آؤچ۔۔۔دروازے میں انگلی آگئی۔‘‘ نقلی مرد بننے والی خواتین چاہنے کے باوجود بھی مردانہ سٹائل میں بات کرنے سے قاصر رہتی ہیں‘ ان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ’ارتھ‘ کی بلاغت کا کیا عالم ہے۔یہ مرد بن کر کسی مرد سے گفتگو کر رہی ہوں اور وہ آگے سے پوچھ لے کہ شفیع صاحب آپ کو سنوکر پسند ہے؟ تو یہ فوراًبات سمجھے بغیر پورے اعتماد سے لکھ دیتی ہیں’’ہاں بیس سال تک میں بھی سموکر تھا‘ لیکن اب چھوڑ دی ہے‘‘۔
یہ چونکہ مرد بنی ہوئی ہوتی ہیں لیکن اصل میں عورت ہوتی ہیں لہذا کسی حضرت سے بات کرتے وقت بھی مرد کو ہی ظالم قرار دیتی ہیں۔میرے دوست کے ساتھ ایسی ہی ایک خاتون مرد بن کر ایڈ تھیں۔ ایک دن گفتگو میں ایسا جملہ کہا کہ بیڑاہی غرق ہوگیا۔ دوست نے کسی بات کے جواب میں پوچھا کہ’’ شفیع صاحب آپ کے کتنے بچے ہیں؟ ‘‘ جواب آیا’’کوئی بھی نہیں کیونکہ میری شادی کامیاب نہیں ہوسکی۔‘‘ دوست نے افسوس کا اظہار کیا ’’اوہ تو کیا طلاق دے دی؟‘‘۔شفیع صاحب نے فوراً تصحیح کی ’’نہیں طلاق نہیں دی، میں نے خود ہی خلع لے لی تھی۔۔۔‘‘
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...