اضافت کی تعریف :
عربی میں اضافت کا لغوی معنیٰ لگاؤ، نسبت، تعلق ہے۔ اصطلاحِ نحو میں اس سے مراد ʼایک اسم کا دوسرے اسم کی طرف نسبت کرنا' ہے۔ جس کی نسبت کی جائے اسے مضاف اور جس کی طرف نسبت کی جائے، اسے مضاف الیہ کہتے ہیں۔ اردو میں مضاف الیہ پہلے اور فارسی و عربی میں مضاف پہلے آتا ہے۔
اردو کی مثال : زید کا قلم۔ اس مثال میں "قلم" کی نسبت "زید" کی طرف کی جا رہی ہے لہذا "زید" مضاف الیہ ہے اور "قلم" مضاف، "کا" علامتِ اضافت یا حرفِ اضافت ہے۔
فارسی کی مثال : بانگِ درا۔ "بانگ" کی نسبت "درا" کی طرف ہے لہذا بانگ "مضاف" اور "درا" مضاف الیہ ہوا۔
عربی کی مثال : نور السمٰوات (آسمانوں کا نور)۔ "نور" کی نسبت "سماوات" کی طرف ہے۔ لہٰذا "نور" مضاف اور "سماوات" مضاف الیہ۔
مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان جہاں ملکیت، ظرف و مظروف اور معنوی یک بستگی کا رشتہ ہوتا ہے وہیں تشبیہ اور استعارے کا تعلق بھی ہوتا ہے۔ دونوں اسماء کے مابین یہ لگاؤ معنوی توسیع کے علاوہ الفاظ سے ایک نئے خاندان کی پیدائش کا آلۂ کار بھی ہوتا ہے جو سلسلۂ معانی کی تشکیل میں اپنی دلچسپ اور پرلطف خدمات سے زبان میں تنوُّع اور عمقِ معنیٰ پیدا کرتا ہے۔ بقول عابد علی عابد : ترکیب کا منصب یہ ہے کہ وہ سلسلہ ہاے خیال کو جوڑ کر جدت پیدا کرے یا اختصار سے کلام کی جان بن جائے……. دقیق معانی کے لیے ترکیب کی ضرورت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔
مضاف اور مضاف الیہ کی تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے اضافت کی دو قسمیں ہیں :
اضافتِ مستوی :
وہ فارسی ترکیبِ اضافی جس میں مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں ہو۔ مثلاً : طائرِ سدرہ، بانگِ درا، صبحِ روشن، تابِ خورشید وغیرہ
اضافتِ مستوی کی دو قسمیں ہیں :
کسرۂ اضافت کے اظہار کے ساتھ : مثلاً : شبِ ہجر، آہِ رسا، سوزِ دروں وغیرہ
کسرۂ اضافت کے رفع کرنے کے ساتھ : مثلاً : ولی عہد، صاحب خانہ، سرمایہ وغیرہ
اضافتِ مستوی کی یہی قسم فکّ اضافت کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اضافتِ مقلوبی :
وہ فارسی ترکیبِ اضافی جس میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں ہو۔ اس صورت میں کسرۂ اضافت ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً : جہاں پناہ، علم دوست، جان دشمن وغیرہ
میر تقی میرؔ کا شعر ہے :
شہر کی سی رہی رونق اسی کے جیتے جی
مر گیا قیس جو تھا خانہ خدا وادی کا
خدا خانہ اصل میں خداے خانہ تھا۔ غلبۂ اسمیت کی بنا پر اضافت بالقلب سے خانہ خدا ہوا۔
۔۔۔۔
ترکیبِ فارسی میں اضافت کی تین علامات ہیں :
✴️ کسرۂ اضافت کے ساتھ اضافت۔ مثلاً : جامِ جمشید، خاکِ صحرا
✴️ ہمزہ کے ساتھ اضافت۔ جامۂ احرام، کعبۂ جاں، جلوۂ طور
✴️ ے (یاء) کے ساتھ اضافت (بعض ہاے مہموز کے ساتھ لکھتے ہیں لیکن بغیر ہمزہ مطلق ے کے ساتھ ہی درست ہے)۔ مثلاً : شناساے حق، داناے راز
اضافت کی ان تینوں علامات کو بقولِ عصمت جاوید "صرفیۂ اضافت" کہا جا سکتا ہے۔ یہ علامتیں اصلاً فارسی ترکیب کی ہیں اور عربی سے ماخوذ ہیں۔
۔۔۔۔
ترکیبِ اردو میں اضافت کے لیے 9 علامات ہیں :
کا، کی، کے، را، ری، رے، نا، نی، نے
✴️ پہلی تین علامتیں (کا، کی، کے) اسم اور ضمیرِ غائب کے ساتھ آتی ہیں۔ جیسے :
الماس کا گھر، اس کا مکان، ان کا فرمان
احمد کی کتاب، اس کی جیب، ان کی گاڑی
سلیم کے احباب، اس کے دوست، ان کے امام
✴️ درمیانی تین علامتیں (را، ری، رے) ضمیرِ متکلم اور مخاطَب سے مختص ہیں۔ مثلاً :
میرا ہاتھ، میری گھڑی، میرے چاہنے والے
ہمارا گھر، ہماری گاڑی، ہمارے علاقے
تیرا کان، تیری ناک، تیرے ہونٹ
تمھارا سر، تمھاری بہن، تمھارے والدین
✴️ آخری تین علامتیں (نا، نی، نے) "آپ" سے متعلق ہوتی ہیں جو مخفف ہو کر "اَپ" ہو جاتا ہے۔ جیسے :
اپنا منہ، اپنی چیز، اپنے دوست
(سرِ دست "ترکیبِ اردو میں اضافت کی علامات" لکھ دی ہیں ورنہ اس مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں)
۔۔۔۔
فکّ اضافت کی تشریح
فکّ (کاف کی شَد کے ساتھ) آزاد کرنا، اٹھا دینا، چھڑانا (Redeeming)، آزاد کرنا، کھولنا، ڈھیلا کرنا (Unloosing) وغیرہ
اصطلاح میں فکّ اضافت سے مراد ʼجملہ میں کم از کم دو الفاظ کی باہمی ترکیب کو رفع کر دینا' ہے۔ یعنی ترکیب کی قید سے جملے کو ڈھیلا کر دینا۔ ترکیب چاہے توصیفی ہو یا اضافی، دونوں صورتوں میں فکّ اضافت کا محل بن سکتی ہے۔
شعری حیثیت
فکّ اضافت کوئی باضابطہ لسانی قاعدہ نہیں بلکہ زبان کی توسیع اور ضرورتِ بیان کی خاطر زبان شناس شعرا اسے عمل میں لاتے ہیں۔ اس صورت میں مضاف پر کسرۂ اضافت نہیں لاتے لیکن یاد رہے کہ اضافت کا نہ لانا قیاسی نہیں سماعی ہے۔ بعض الفاظ پر غلبۂ اِسمیّت، کثرتِ استعمال یا ضرورتِ شعری سے مضاف پر کسرۂ اضافت نہیں ذکر کیا جاتا۔
غلبۂ اِسمیّت کی مثالیں : صاحب خانہ، ولی عہد، سرمایہ وغیرہ
کثرتِ استعمال کی مثالیں : سرانگشت، غیر حاضر، غیر مستعمل، غیر مشروط، غیر رسمی (فارسی دان "غیر" کو مضاف کی صورت میں اضافت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
ضرورتِ شعری کی مثال : قطرہ عرق، اصل میں قطرۂ عرق تھا۔ غالبؔ کا شعر ہے :
بد گمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا
غالبؔ کے اس شعر میں صرف ضرورتِ شعری کے تحت فکّ اضافت ہوا ہے، ورنہ بظاہر کوئی اور وجہ نہیں
یہاں ضمنی طور پر یہ عرض کردوں کہ ضرورتِ شعری (Poetic Licence) شاعر کا عجز نہیں بلکہ سہولت اور رخصت کا استعمال ہے۔ اسی لیے میں "ضرورت" کی بجائے "مختارات" کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔ یعنی "ضرورتِ شعری" کے بجائے "مختاراتِ شعری" لکھنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ ضرورتِ شعری کے جواز کے ساتھ جو نکتہ یا خیال پیش کیا جاتا ہے، اسے دوسرے پیرائے میں بیان کرنا محال ہوتا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عجز ہے۔ مثلاً ابو الاعجاز حفیظ صدیقی "کشاف تنقیدی اصطلاحات" میں لکھتے ہیں کہ "ضرورتِ شعری کی آڑ لے کر قاری سے خصوصی رعایت کی طلب دراصل عجز کا اظہار ہے"۔
عربی میں زیادہ سے زیادہ گیارہ صورتوں میں ضرورتِ شعری کے تحت تصرف کرنا بدونِ مواخذہ جائز ہے۔ کچھ صورتیں عربی و فارسی میں مشترک ہیں۔ (اس کی تفصیل جاننے کے لیے ہمارے مضمون "ضرورتِ شعری – جائز اور شعوری انحراف" کا مطالعہ کیا جائے)
۔۔۔۔
فکّ اضافت کی مثالیں
فارسی ، اردو اور پنجابی نثر میں مقطوع الاضافت الفاظ کی تعداد کم اور شعری مثالیں زیادہ ملتی ہیں۔ ذیل میں اردو اور فارسی اشعار سے مثالیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ دونوں زبانوں کے مزاج، توسیع پسندانہ رویے اور مخصوص لب و لہجے کا تخمینہ لگایا جا سکے۔
✴️ ولی عہد : اصل میں ولیِ عہد یعنی بادشاہ کا جانشین، وارثِ ملک۔ نظامی گنجوی کا شعر ہے کہ :
ببرد و بپرورد و بناختش
پس از ولی عہد خود ساختش
✴️ ولی نعمت : اصل میں ولیِ نعمت، یعنی صاحبِ عطا، پرورش کرنے والا۔ نظامی ہی کا شعر ہے :
زِ بس ناز و نعمت کزو راندہ اند
علی نعمتِ عالمش خواندہ اند
اردو میں سوداؔ کا شعر ہے :
ہاے ایسا غم نہیں اب تک ہوا
میرزا جی کا ولی نعمت ہوا
✴️ بِن : ابن کا مخفف، یعنی بیٹا۔ فارسی میں انوری کا شعر دیکھیں :
گر چرخ کا دریں حرکت ہیچ مقصد است
از خدمتِ محمد بن نصیر احمد است
بدرچاچ کا ایک شعر دیکھیں کہاں بن کو بغیر کسرۂ اضافت برتا ہے :
خدیو عرصۂ عالم محمد شاہ بن تغلق
کہ در بزمِ جہاں داری سکندر زیبدش چاکر
✴️ عاشق سخن : اصل میں عاشقِ سخن، یعنی سخن گوئی گوئی کا دلدادہ۔ فارسی میں کسی شاعر کا مصرع دیکھیں : ع
قابل ثنا ست ہر کہ ثناے تو میکند
✴️ صاحب خانہ : اصل میں صاحبِ خانہ، یعنی گھر کو مالک، میزبان۔ خواجہ میر دردؔ کا شعر ہے :
مدرسہ یا دیر تھا، کعبہ یا بت خانہ تھا
ہم سبھی مہمان تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا
سوداؔ نے اضافت ہے ساتھ باندھا ہے :
ان کے ہوتے جو ابر گھر آیا
صاحبِ خانہ سخت گھبرایا
میر تقی میرؔ نے فکّ اضافت کے ساتھ برتا ہے :
ربط صاحب خانہ سے مطلق بہم پہنچا نہ میرؔ
مدتوں سے ہم حرم میں تھے پہ نامحرم گئے
✴️ میر شکار : اصل میں میرِ شکار یعنی شاہی پرند رکھنے والے ملازموں کا افسر۔ ذوقؔ کا شعر ہے:
موقوف ہے گر دل کا شکار آن و ادا پر
پہلے کچھ ان میر شکاروں سے تو کہیے
✴️ صاحب خبر : اصل میں صاحبِ خبر، یعنی خبر دینے والا۔ نظامی گنجوی کا شعر دیکھیں :
خبر برد صاحب خبر نزد شاہ
کہ مشتِ ستم دیدۂ داد خواہ
✴️ صاحب فراش : اصل میں صاحبِ فراش، یعنی وہ بیمار جو بستر سے لگ گیا ہو۔ استاد ذوقؔ کا شعر ہے کہ :
اٹھے جہان ہی سے جو بستر سے وہ اٹھے
تیرا مریضِ عشق جو صاحب فراش ہے
میرؔ کا شعر دیکھیں :
بے خودی ہے جی چلا جاتا ہے ہوں صاحب فراش
بے خبر اے کاش بالیں پر مری آ جائے وہ
✴️ صاحب جمال : اصل میں صاحبِ جمال ہے، یعنی خوب صورت۔ میر تقی میرؔ کا شعر ہے :
نہیں خالی اثر سے تصفیہ دل کا محبت میں
کہ آئینے کو ربطِ خاص ہے صاحب جمالوں سے
✴️ صاحب جنوں : اصل میں صاحبِ جنوں تھا یعنی جنون والا۔ علامہ اقبال کا قطعہ دیکھیں :
عطا اسلاف کا جذبِ دروں کر
شریکِ زمرۂ لا یحزنوں کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر!
✴️ قطرہ آب : اصل میں قطرۂ آب، یعنی پانی کا قطرہ۔ مولانا جامی کا یہ شعر دیکھیں :
توئی کافریدی زِ یک قطرہ آب
گیر ہاے روشن تر اَز آفتاب
۔۔۔۔
ان اشعار کی امثلہ کے بعد چند مثالیں مزید لکھی جاتی ہیں جن میں سات انواع ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن میں فکّ اضافت کا ضابطہ لاگو نہیں ہوا بلکہ یہ مرکبات یونہی وضع ہوئے اور اب تک بولے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے مرکبات میں دونوں الفاظ کے مابین قواعدِ نحو و صرف کا کوئی واضح رشتہ نہیں ہوتا بلکہ زبان کا صحیح ذوق موقع محل کی مناسبت سے ان میں ایک معنوی ربط رکھ کر باقاعدہ رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ ان میں اضافی، توصیفی اور نسبتی سبھی قسم کے مرکبات شامل ہیں۔ اسی لیے میں نے ابتدا میں عرض کر دیا ہے کہ اس طرح کے مرکبات کی یہ بُنت قیاسی نہیں سماعی ہے۔ ان مرکبات کو "فکّ اضافت" کے تحت جمع کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ یہ مرکبات علامتِ اضافت سے عاری ہوتے ہیں۔ بعض تراکیب اپنی اصل بُنت ہی سے یونہی استعمال ہوتی آ رہی ہیں اور بعض میں اہلِ زبان نے تصرف کیا ہے۔ ذیل میں ساتوں انواع کے مرکبات ملاحظہ فرمائیں۔
✴️ دو عربی الفاظ کے مرکبات :
عالی شان، عمر قید، قبول صورت، حاصل مصدر، صدر مقام، قرآن پاک، جامع مسجد
✴️ دو فارسی الفاظ کے مرکبات :
برق رفتار، تنگ دست، شہر بدر، شہر پناہ،
✴️ دو ہندی الفاظ کے مرکبات :
نین سکھ، بیل گاڑی، مکھی چوس، چڑی مار، منہ پھٹ
✴️ ایک عربی اور ایک فارسی لفظ کے مرکبات :
تنگ نظر، دستخط، حرام مغز، نمک حلال، زن مرید، نازک طبع، کور باطن
✴️ ایک عربی اور ایک ہندی لفظ کے مرکبات :
امام باڑا، عجائب گھر، کفن چور، عید ملن، باباے قوم، اللہ رکھا، ادلہ بدلہ، آس امید، حضراتِ لکھنؤ، ذرہ بھر، عقل ڈاڑھ، کھیل تماشا، کھلے عام، مال گاڑی، نصیب جلی
✴️ ایک فارسی اور ایک ہندی لفظ کے مرکبات :
نیک چلن، گلاب جامن، سبزی منڈی، چور دروازہ، کوڑ مغز وغیرہ
✴️ عربی و فارسی و ہندی کے ساتھ ترکی اور انگریزی الفاظ کے مرکبات :
جاسوسی ناول، اکبر روڈ، اوقاف سینٹر، جدید سائنس، خاص نمبر، عید کارڈ، غالب اکیڈمی، صدارتی ایوارڈ، زکوٰۃ فنڈ، امتحان سنٹر، اسلامیہ کالج، نوبل انعام، فلمی دنیا، رضا لائبریری، خلافت پارٹی،
(مندرجہ بالا امثال کی ایک خاصی تعداد ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب "زبان اور اردو زبان" اور ڈاکٹر صابر سنبھلی کی کتاب "شعارِ زبان دانی" سے نقل کی ہے)