پنجاب کی سرزمین ضلع چکوال سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر فیضان فیضی صاحب کی شاعری میں ایسی کشش ہے کہ جسےسن کر سامعین اور ناظرین متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ ان کے خیالات میں انفرادیت اور پختگی ان کی بہت بڑی خوبی ہے اور وہ اپنے بہترین خیالات کے باعث اپنی عمر سے بہت زیادہ بڑے محسوس ہوتے ہیں ۔ وہ تشبیہات اور استعاروں کا استعمال اس مہارت سے کرتے ہیں کہ قارئین، سامعین اور ناظرین ان کے ہر ایک شعر پہ واہ واہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہی ان کی شاعری کا سب سے بڑا کمال ہے ۔ فیضان فیضی صاحب کی شاعری میں توقع سے بڑھ کر خیالات کی پختگی ملتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسے حالات سے گزرے ہیں کہ جیسے وہ اس دشت میں برسوں گزار کر آئے ہیں ۔
فیضی صاحب کا اصل نام فیضان حسین ہے اور ان کے والد صاحب کا نام غلام حسین ہے ۔ وہ 24 جنوری 1996 کو تحصیل و ضلع چکوال کے علاقہ پادشان ،موسی کہوٹ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے مدرسہ تبیان القرآن اسلام آباد سے قرآن حفظ کیا، پرائمری گورنمنٹ سکول سانگ کلاں. مڈل ہائیر سیکنڈری سکول پادشاہان اور میٹرک.ایف اے پرائیویٹ راولپنڈی بورڈ سے کیا جبکہ بی اے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں . ٹیکسٹائل انڈسٹری میں دو سال سے کوالٹی آبزرور کی جاب سے وابستہ ہیں اور مطالعے کا بے حد شوق رکھتے ہیں ۔ فیضان حسین نے
2018 میں موزوں شعر کہنا شروع کیا. شعری ذوق تھا اور جن دوستوں کے پاس بیٹھتے تھے ان کی محفل میں شاعری زیادہ چلتی تھی ۔ان پر اس ادبی ماحول کا اثر ہوا یہاں سے انہوں نے شاعری کی ابتدا کی اور خواجہ غلام الثقلین صاحب سے شاعری میں اصلاح لینے لگے اور انہوں نے فیضان فیضی کا قلمی نام اختیار کیا ۔
پرانی روایت کے مشاعروں کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق کی روشنی میں مشاعروں کی روایت کا جاری رہنا بہت خوش آئند ہے لیکن آج کل آن لائن اور زوم مشاعروں سے کچھ خاص فوائد حاصل نہیں ہو پا رہے. سنجیدہ لوگ ان چیزوں سے دور اور لاتعلق رہتے ہیں. یہ مشاعرے صرف اور صرف تعلق کی بنیاد پر رکھے جا رہے یا شہرت کے حصول کے لیے نہ کہ ادب کے فروغ کے لئے. فیضی صاحب
کبھی کبھار پرانی روایت کے مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں ۔ ملازمت کی مصروفیات کے باعث مشاعروں میں زیادہ تر شریک ہونے سے قاصر رہتے ہیں ۔
فیضان فیضی صاحب کے پسندیدہ شعراء میں معراج فیض آبادی، فیض احمد فیض اور احمد فراز ہیں جبکہ اس وقت لکھنے والوں میں اختر عثمان ، عقیل ملک،دلاور علی آزر، اپنے شہر چکوال سے مدثر عباس ،خمار میرزادہ، اور نئے کہنے والے دوستوں میں فائق ترابی، عاجز کمال رانا، سبحان خالد، حماد سرور شامل ہیں ۔ان کے خیال میں
شعر و شاعری انسان کی محبت سے انسانیت کی محبت سکھانے کا ایک ذریعہ ہے. وہ اپنی شاعری کے ذریعے دو چیزیں سامنے لانا چاہتےہیں ایک محبت اور دوسری اصلاح ۔ فیضان فیضی صاحب کی شاعری سے کچھ منتخب اشعار اور نمونہ کلام پیش خدمت ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشعار
زندگی جیسے کہ بوسیدہ مکاں گاؤں کا
رات دن ایسے کہ دیواروں سے گرتی مٹی
خدا کرے کہ تمہارا بھی کوئی یوسف ہو
خدا کرے تمہیں اس کی قمیص تک نہ ملے
درد سینے میں تری یاد سے اے جانِ غزل
ایسا اٹھتا ہے کہ اٹھنے بھی نہیں دیتا ہے
یار جس شخص نے ماں باپ کو جاتے دیکھا
وہ کسی اور کے جانے پہ کہاں روے گا.
غزل
یوں ہے ترے خیال سے اشعار کا وجود
جیسے ہے اینٹ، اینٹ سے دیوار کا وجود
تخلیق یوں تو حکم سے کن کے ہوئ، مگر
تزئین کائنات ہے سرکار ص کا وجود
قربت کے اک حصار نے گھیرا تو یوں لگا
جیسے بہشت میں ہو گنہ گار کا وجود
پرکار کا وجود ہے نقطے کا یہ نشان
نقطے کا یہ نشان ہے پرکار کا وجود
ہے آپ کے خیال میں سانسیں مری رواں
دیوار سے ہے سایہ ء دیوار کا وجود
تکیے تلے سمیٹ کے رکھتا ہوں خام خواب
بُنتا ہوں روز رات کو دو چار کا وجود
فیضان دیکھ سکتی نہیں ہے ہر ایک آنکھ
ابہام میں رکھا ہوا آثار کا وجود
فیضان فیضی
غزل
گھر سے نکلوں تو مجھے باپ دعا دیتا ہے
میری منزل کی لگن اور بڑھا دیتا ہے
میرا ایمان ہے جب آپ اسے دیکھتے ہیں
عکس آئینے کی توقیر بڑھا دیتا ہے
کوئی کیا جانے ہے کیا طرزِ اسیری اس کی
شام ہوتے ہی پرندوں کو اڑا دیتا ہے
اس کی باتوں میں وہ تاثیر ہوا کرتی ہے
بات کرتا ہے تو ہر بات بھلا دیتا ہے
بیٹھ جاتا ہے مرے پاس وہ آ کر اکثر
اور پھر اپنے تعاقب میں لگا دیتا ہے
یونہی دستار اچھالی نہیں جاتی فیضان
یہ زمانہ ہے خطاؤں کی سزا دیتا ہے
فیضان فیضی
غزل
آنکھ سے دور بہت دور ہدف رکھا ہے
خوف پھر اپنے ہی پہلو کی طرف رکھا ہے
کیسے ڈر جائیں گے انجام کی خبریں سن کر
خود کو آغاز سے جب تیغ بکف رکھا ہے
مان لی جائے گی اب بات قبیلے میں مری
میرے کرتے میں ذرا تیز کلف رکھا ہے
میری خوش بختئ تقدیر کوئی دیکھے تو
پا بہ زنجیر، مگر ہاتھ میں دف رکھا ہے
شعر گوئی سے کبھی باز نہیں آ سکتا
میرے مالک نے طبیعت میں شغف رکھا ہے
میں یہ چاہوں تو مجھےساتھ میں رکھ لے ایسے
جیسے خوشبو نے کسی پھول کو لف رکھا ہے
کون سی بات نے ممتاز کیا ہے سب سے
"اشرف الخلق میں احساسِ شرف رکھا ہے"
فیضان فیضی