دروغ بر گردن راوی کہ ایک محفل میں منیر نیازی نے کہا کہ میرے پاس ایک بری خبر ہے اور وہ یہ کہ یہ ملک اب ایسے نہیں چل سکتا ۔راوی کے مطابق فیض احمد فیض بھی اس محفل میں موجود تھے انہوں نے یہ بات سنی اور برجستہ کہا کہ میرے پاس اس سے بھی بڑی بری خبر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔فیض صاحب کی خبر درست تھی یہ ملک ماضی کی طرح ہی چل رہا ہے ۔ اگر گستاخی معاف ہو تو عرض ہے کہ اب تو دوڑ رہا ہے ۔سرپٹ دوڑ رہا ہے اس قدر تیز کہ گزشتہ دنوں اپنی رفتار کی بدولت وہ ریڈ لائن بھی پار کرگیا جو کئی دہائیوں سے شدت پسندوں کے لیئے حد فاصل تھی ۔
فی الوقت وطن عزیزکا سیاسی منظر نامہ دیکھ کر واصف علی واصف کی بات یاد آرہی ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا کہ چائے پیو گے تو اس نے ہاں میں جواب دیا۔واصف صاحب نے مہمان کو جب پریشان دیکھا تو پریشانی کی وجہ دریافت کی جس پر مہمان نے کہا کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں اس پر واصف صاحب نے اس سے دو سوال پوچھے اور بنیادی طورپر یہ دو سوال ایسے ہیں جو موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں پوری قوم سے کیئے جانے چاہیں ۔واصف صاحب نے پوچھا کہ کیا یہ حالات تمہاری وجہ سے خراب ہوئے ہیں تو مہمان نے کہا کہ نہیں پھر دوسرا سوال پوچھا کہ کیا تم ان حالات کو ٹھیک کرسکتے ہو اس پر بھی مہمان کا جواب نہیں میں تھا۔جس پرواصف صاحب نے کہا کہ فیر چاہ پی واصف صاحب کی بات تو ٹھیک تھی ملک کے حالات نا تو ہماری وجہ سے خراب ہوئے ہیں اور ناہی ہم ٹھیک کرسکتے ہیں ۔یہ تو ملک کی سیاسی اشرافیہ کی اقتدار کی جنگ ہے ۔طاقت کے ایوانوں میں باری لینے میوزیکل چیئر کا کھیل جاری ہے۔سیاست کے نام پر جمہوریت کے نام پر بنیادی حقوق کے نام پر ہم نے جتھوں کو جذباتی ہی کیا ہے ان کے سیاسی اور فکری شعور کو بہتر نہیں کیا۔جو آیا جہاں سے آیا اس نے ایک نیا تجربہ کیا اور پوری قوم کو اس تجربےکی بھینٹ چڑھا دیا۔کس کے سامنے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں۔ ہماری بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ جس عطار کے لونڈے کے سبب ہم بیمار رہتے ہیں اس سے ہی دوائی کی امید رکھتے ہیں کہ شفا ہوگی ۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور ہم نے بھی سات دھائیوں میں جمہوریت کے نام پر پیچھے کا ہی سفر کیا ہے باوجود خواہش کے آگے نہیں بڑھ پارہے ۔یا پر شائد بڑھنا ہی نہیں چاہتے ۔آگے بڑھنے کے لیئے محنت کرنی پڑتی ہے اپنے معروض کو بدلنا پڑتا ہے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئندہ کے لیئے بہتر حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے ۔کیا کوئی انکار کرسکے گا اس بات سے کہ ہم ایک ہی طرح کی غلطیاں بار بار دہراے جارہے ہیں ۔کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ ہم یہ غلطیاں کرنا کب چھوڑ دیں گے ۔اپنی اصلاح کب کریں گے ۔اپنی زات سے بڑھ کر ملک وقوم کے لیئے کب سوچیں گے ۔
کوئی بھی سوچنے کے لیئے تیار نہیں کوئی بھی کچھ بہتر کرنے کو تیار نہیں ہے ۔سب اس کو ایسے ہی چلانا چاہتے ہیں جیسے پہلے سے چلا آرہاہے ۔اگر سب کچھ پہلے کی طرح ہی چلنا ہے تو پھر یہ انتخابات کا ڈھونگ کیسا یہ عوام سے محبت کی لفاظی کیسی یہ ترقی کے نام پر جھوٹ کب تک ۔۔
سب سے پہلے پاکستان ، جمہوریت بہترین انتقام ہے ، ترقی یافتہ پاکستان ، دو نہیں ایک پاکستان اور پتہ نہی مزید کتنے نعرے سننے کو ملیں گے سوال یہ ہے کہ ان سب کے باوجود کیا عوام کی حالت زار بدلی ہے ۔کیا عام آدمی کے اچھے دن آگئے ہیں۔اس حکمران اشرافیہ کو دیکھیں اور خود سے سوال کریں اگر زرا سا بھی سچ اپنے اندر باقی ہے تو جواب مل جائے گا۔میری بات وہی ہے جو حبیب جالب نے کہی تھی کہ پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے ،، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے ۔
ستم نہیں تو اور کیا ہے کہ ایبڈو سے شروع ہونے والا سلسلہ نیب تک آپہنچا مگر ملک سے نا تو کرپشن ختم ہوئی اور نا ہی کرپٹ عناصر ختم ہوئے ۔ان قوانین میں کوئی ابہام ہے یا پھر کرپشن ہماری سماجی زندگی کا جزو لازم بن چکی ہے جس کی وجہ سے انسداد بدعنوانی کا ہر قانون غیر موثر ثابت ہورہا ہے ۔کچھ تو ہے ناں جو غلط ہے اور کیا اب بھی اس کا وقت نہیں آیا کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ یہ غلط کیا ہے اس کو کیسے ٹھیک کیا جائے گا۔
ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حکمرانی کبھی بھی عام آدمی کا مسلئہ نہیں رہا ۔حکمرانی سیاسی اشرافیہ کا مسلئہ ہے عام آدمی کو تو دو وقت کی روٹی کی فکر ہوتی ہے بیمار ہوجائے تو دوائی اور روزگار کی ضرورت ہوتی ہے ۔دستیاب معاشی حالات میں عام آدمی نا تو دو وقت کی روٹی کھا سکتا ہے نا ہی بہتر علاج کرا سکتا ہے اور ناہی روزگار کے مواقع میسر ہیں ۔اس سب کے باجود بوئے سلطانی ہے کہ سر سے نہیں جارہی ۔بائیس کروڑ بھوکے ننگے اور امداد کے منتظر لوگوں پر حکمرانی کا جنون ایسا ہے کہ باولے ہوئے جاتے ہیں ۔
بیٹھ جاو سب باری باری بیٹھ جاو تخت پر کر لوشوق حکمرانی پورا اور بن جاو زمین پر خدا ۔ مگر کچھ عوام کے لیئے بھی کرلو ، کب تک یہ کہا جائے گا کہ سابق حکمران چور تھے ملکی خزانہ خالی ہے اور مشکل فیصلے کرنے ہوں گے عوام کو بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔کیوں ہر پانچ سال بعد یہی باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔کوئی ایک تو اچھا کرجائے کسی ایک کے تن پر تو لباس ہو کیوں اس حمام میں سب ایک جیسے ہیں ۔خیر دل کے پھپھولے پھوڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے واصف صاحب کی طرح آپ بھی چاہ پیو کیونکہ فیض صاحب کے مطابق ملک ایسے ہی چلتا رہے گا
تحریر: ملک سراج احمد
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...