فیض صاحب کو شاعری کے علاوہ دو کام مرغوب تھے۔۔۔ ایک تدریس اور دوسرا صحافت
1960 کے عشرے کے وسط میں وہ بیکار تھےتوکراچی کے دوستوں بالخصوص ان کی عزیز ترین دوست ڈاکٹر شوکت ہارون نے انہیں تین آفرز بھیجیں۔
انہوں نے شوکت ہارون کے خاندان ( ڈان والےہارون خاندان) کے قائم کردہ عبداللہ ہارون کالج کی پرنسپل شپ کا انتخاب کیا۔۔۔ تدریس اپنا پہلا ہیشہ ہونے کی وجہ سے بھی اور اس لئے بھی کہ یہ کالج کراچی کے غریب ترین علاقے میں قائم کیا گیا تھا۔
آگے کی بات جناب حمید اختر کی زبانی سنیے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ کیسے تھے ہمارے فیض صاحب ۔۔۔
’’کراچی گیا تو فیض سے ملنے ان کے گھر پہنچا۔ اس وقت عبداللہ ہارون ٹرسٹ کی روحِ رواں ڈاکٹر شوکت ہارون اور فیض صاحب کے درمیان زبردست بحث جاری تھی۔
پہلے تو میں سمجھا کہ شاید یہ لوگ فیض کو( عبداللہ ہارون کالج کی پرنسپل شپ کی) کم تنخواہ دے رہے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ ٹرسٹ کی انتظامیہ نے ان کی تنخواہ تین ہزار روپے مقرر کی ہے۔ ڈاکٹر شوکت ہارون انہیں یہی بتانے آئی تھیں۔ فیض نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ تنخواہ بہت زیادہ ہے۔ انہیں صرف اٹھارہ سو روپے ماہوارچاہئیں۔
ڈاکٹر شوکت کے جانے کے بعد میں نے کہا ، انتظامیہ نے قواعد کے مطابق جو مشاہرہ مقرر کیا ہے وہ آپ کو قبول کر لینا چاہئیے۔ کہنے لگے
’’بھائی ، ہم نے حساب لگا لیا ہے، ہماری ضرورتیں اس رقم میں پوری ہو سکتی ہیں۔ باقی پیسے یہ لوگ کسی اور بہتر کام میں لگا سکتے ہیں۔ چنانچہ جتنا عرصہ وہ ( کراچی کی مزدور بستی کے) اس کالج کے پرنسپل رہے یہی تنخواہ وصول کرتے رہے۔
[ فیض صاحب نے مجھے یہ آٹو گراف اسی عبداللہ ہارون کالج کے لیٹر ہیڈ پر دیا ]
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=395563157500221&id=100011396218109
“