فیض اور اُن کے معاشرے میں بنیادی تعلق اختلاف اور عناد کا ہے۔ اُنھوں نے مزدوروں، کسانوں اور عام آدمیوں کی طرف سے بات کی ہو تو وہ مزدور، کسان اور عام آدمی رُوس کے رہے ہوں گے، پاکستان کے تو نہیں ہو سکتے تھے۔ یہاں عوام نے ۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات میں سوشلزم کو رد کر دیا۔ اُنہیں زبردستی اُس طرف ہانکنا اگر دوستانہ رویہ کہلائے تو ویسی بات ہو گی جیسے اسکول کے کئی بچے ’’نیکی‘‘ کرنے کے لیے اُس بڑھیا کو سڑک پار کروائیں جو سڑک پار کرنا نہیں چاہتی!
فیض جو نظریہ پیش کرتے تھے عوام اُسے پہلے ہی رد کر چکے تھے اور عوام نے جس چیز کو قبول کیا وہ فیض کو قبول نہیں تھی۔ پاکستان کے بارے میں اُن کا خیال تھا، ’’وہ انتظار تھا جس کا،یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ (نظم ’صبحِ آزادی‘ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد لکھی گئی یعنی یہ بعد میں پیدا ہونے والی کسی مایوسی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ عوام کے فیصلے سے بنیادی اختلاف کا اظہار تھی)۔ وجہ یہ نہ تھی کہ فیض ملک دشمن رہے ہوں۔دراصل اُنھوں نے معاشرے کے بارے میں جو نظریات اپنائے وہ یہی بتاتے تھے کہ عوام کا شعور اعتماد کے قابل نہیں ہوتا، اُنہیں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی اور وہ اپنی مرضی سے نظامِ زندگی منتخب کرنے کا حق نہیں رکھتے:
پبلک کا ذہن تو اُن چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے جو آپ اُن کو دکھاتے ہیں۔ اِس سے خاص طرح کی کنڈیشننگ ہو جاتی ہے۔ اِس کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک خاص طرح کا ردِ عمل پیدا ہوتا ہے۔ (متاعِ لوح و قلم، ص۲۵۰)
فیض پوری نیک نیتی کے ساتھ سمجھتے تھے کہ اُن کا کام اُس جراح جیسا ہے جسے ایک دیوانے کی فصد کھولنی ہے۔ممکن ہے اِس معاملے میں وہ درست اور عوام غلط رہے ہوں مگر دو باتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا:
۱- فیض اور پاکستانی عوام کے درمیان نظریاتی اختلاف موجود تھا
۲- فیض کی نظر میں عوام صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے
ہر ادیب کو حق ہے کہ وہ عوام کی رائے کا احترام نہ کرے، یہ حق فیض کو بھی حاصل تھا اور اُنھوں نے عمر بھر اِستعمال کیا۔ اُن کی شاعری کی افادیت یہی ہے کہ تجزیہ کرنے پر معلوم ہو سکتا ہے کہ معاشرے کی اکثریت کو حق ِ خوداِرادی سے محروم کرنے والے ادیب کا کرب اور مشکلات، سوز و ساز اور ہجر و وصال کیسے ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسے ادیب کا پہلا مسئلہ یہ ہو گا کہ اُس کے انفس اور آفاق میں تعلق ٹوٹ جائے گا یعنی اپنی باطنی کیفیات کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق سامعین سے نہ کروا سکے گا (جدید مغربی ادب میں یہ رویہ غالباً بودلئر کے ساتھ پوری طرح کھل کر سامنے آیا اور میتھو آرنلڈ نے اِسے ایک نظریے میں تبدیل کیا مگر یہ دونوں صرف حوالے ہیں ورنہ ’’یہ بھی ہیں، ایسے کئی اور مضمون ہوں گے‘‘) ۔ادبِ عالیہ کا دعویٰ رکھنے والے ادیبوں کو یہ مسئلہ پیش آ سکتا ہے کہ اپنے ہی نظریات پر بھروسہ کرنا پڑے اور ناظرین سے مدد نہ لے سکیں کیونکہ ادبِ عالیہ کا مطلب یہی ہے کہ عام قاری کی رائے اعتبار کے قابل نہیں۔
چنانچہ فیض کا کفر خدا کا نہیں بلکہ انسان کا انکار ہے (پنجابی نظم جس میں ’’ربیا سچّیا‘‘ کو مخاطب کر کے خلافت ِ آدم پر طنز کیا گیا)۔ فیض کے یہاں ہر قدم پر احساس ہوتا ہے کہ وہ اور اُن کے چند ہم خیال ہی ’’اہلِ صفا‘‘ ہیں، باقی سب ’’پیرویِ کذب و ریا‘‘ کرنے والے ہیں۔ اِس رویے کی موجودگی میں کم سے کم وہ عشق تو ممکن نہیں جس میں کسی ایک سے لگاؤ سب سے محبت کا اعتراف ہوتا ہے، جیسے قیس کو صرف لیلیٰ سے محبت تھی مگر اُس جذبے کی زد میں صحرا کے چرند و پرند سے لے کر حور، جبرئیل اور خدا سبھی تھے یا جس طرح میر نے کہا، سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق!