الحمرا کمپلکس لاہور کے سبزہ زار میں ماڈرن مزاج کی نوجوان لڑکیوں اور ماڈرن لباس میں ملبوس لڑکوں کے ہجوم میں ایک مضمحل اور بظاہر اکتائے ہوئے بوڑھے شخص سے ملاقات ہو گئی جن کا قیافہ ہو بہو فیض احمد فیض سے ملتا جلتا تھا۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ یہ ان کے کوئی ہم شکل ہیں لیکن انہیں اپنی جانب متوجہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھا کہ جناب آپ کون ہیں؟ وہ بولے،" میاں ہر جانب قد سے کہیں بڑی ہماری تصاویر لگی ہیں پھر بھی بوچھ رہے ہو کہ میں کون ہوں"۔
میں ارواح سے خائف ہوں لیکن یہ فیض احمد فیض جیسے شریف النفس شاعر کی روح تھی، اس لیے ڈرنا بے معنی تھا۔ لوگ ان کے جسم کے بیچ سے گذرے جا رہے تھے اور وہ لوگوں کے ابدان میں سے۔
ویسے بھی لوگوں کے اژدہام میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں تھی البتہ گھبراہٹ کی بات یہ تھی کہ وہ میرے علاوہ کسی اور کو دکھائی نہیں دے رہے تھے تاہم میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ جناب آپ سے متعلق تین روزہ اتنا بڑا فیسٹیول منایا جا رہا ہے۔ ایک ہی وقت میں تین ہالوں، ایک گیلری اور ایک ادبی بیٹھک میں آپ اور آپ کی شاعری سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں، بحثیں کی جا رہی ہیں، آپ کاکلام گایا جا رہا ہے اور آپ بالکل بھی خوش دکھائی نہیں دیتے بلکہ ناراحت لگتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
کہنے لگے،" میاں ہم نے تو کبھی اپنے طور پر خود کو نمایاں کرنے کا سوچا نہ تھا۔ یہ بٹیا سلیمہ ہاشمی کو نجانے کیا سوجھی کہ بات کا بتنگڑ بنانے پر تل گئی۔ بات اس کی حد تک رہتی تو شاید علم و ادب سے متعلق لوگ ہی اس تقریب میں شامل ہوتے مگر نئی نسل کے برخوردار عدیل ہاشمی نے اپنی مستند رائے دے ڈالی کہ گلوبلائزیشن کا عہد ہے۔ نانا آئکون تو اپنے زمانے میں ہی بن چکے تھے۔ اب اس آئکون کو کنزیومر پراڈکٹ بنا لینا چاہیے۔ واضح رہے کہ ہمیں تو ان اصطلاحات سے شناسائی بھی نہیں تھی بس نواسے کی زبانی پتہ چلی ہیں"۔
بھلا منیزہ جیسی دنیا دار ماں اپنے فطین بیٹے کی کہی بات کو کیسے رد کر سکتی تھی؟ وہ رضامند ہو گئی اور اس نے معصوم سلیمہ کو ورغلا لیا۔ بیچاری سلیمہ نے اپنی شیریں بیانی سے اسٹیبلشمنٹ کو باور کرا دیا کہ انقلاب ونقلاب تو آنے سے رہا، ہم بس نئی جنریشن میں ان کا "ریوولیوشن ٹرینڈ" ایک سافٹ انداز میں متعارف کروائیں گے۔ اشرافیہ کے بچے بنیاد پرستی سے نالاں ہیں۔ ان کا دل بہل جائے گا، ساتھ ہی ان کا کتھارسس بھی ہو جائے گا۔ افسر شاہی کو بات اچھی لگی چنانچہ مان گئی۔
مجھے تو یوں لگنے لگا ہے کہ میری شاعری جو عام لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل تھی اب کانونٹ کے ان بچوں تک کو سمجھ آنے لگی ہے جو ہوگا کو "ہوئے گا" بولتے ہیں۔ تم تو وہاں موجود ہی تھے جب حارث خلیق جیسے نستعلیق آدمی نے کہا تھا" حوری آپ کی جانب آتے ہیں" بھلا سامنے بیٹھے شخص کی بھی کوئی جانب ہوتی ہے اور بیٹھے ہوئے شخص کا آنا کیا ہوا بھلا؟ ہم تو یوں بولا کرتے تھے،"حوری آپ سے پوچھیں گے یا حوری آپ سے استفسار ہے"۔ جس کو دیکھو وہ گائی گئی میری نظم " ہم دیکھیں گے" کو سن کر واہ واہ کیے جاتا ہے۔ ہم خود نہ دیکھ سکے تو اس شاعرانہ دروغ گوئی پر لوگوں کا عش عش کر اٹھنا کچھ بھایا نہیں۔ اچھا میاں ہم چلتے ہیں۔ کل پھر اپنے متعلق ہونے والا فیسٹیول دیکھنے آئیں گے۔ اگر تم سے ملاقات ہو گئی تو پھر کچھ اور باتیں کر لیں گے۔ اور ہاں یہ تو تم نے بتایا ہی نہیں کہ تم کون ہو؟ جی میں وہ بدنصیب ہوں جو آپ کے لاہور میں موجود ہوتے لاہور میں مقیم ہونے کے باوجود آپ سے نہ مل پایا تھا جس کا آج تک قلق ہے" فیض احمد فیض میری بات مکمل ہونے سے پہلے تحلیل ہو چکے تھے۔
فیض احمد فیض صاحب ( کی روح) سے کل ہوئی ملاقات کے بعد میں بھول چکا تھا کہ انہوں نے پھر ملاقات کی بات کی تھی۔
آج مجھے کوئی مناسب سواری دستیاب نہ ہو سکی تھی مگر مجھے فیسٹیول میں جانا تو تھا ہی چنانچہ عرصہ دراز کے بعد رکشہ میں سوار ہو کر ہچکولے کھاتا اور جب سڑک پر لگی لوہے کی اینٹوں کی قطار پر سے سواری گذرتی باوجود اس کے کہ رکشہ چلانے والا رفتار بالکل ہی کم کر لیتا تھا، چند شدید جھٹکے کھانے کے بعد الحمرا کمپلکس پہنچ کر وہاں جاری پروگراموں میں شریک ہو گیا تھا۔
شام ہو گئی تھی بلکہ رات کا اندھیرا چھا گیا تھا۔ ایک پنجابی ڈرامے میں لوگوں کے ہجوم کے باعث شرکت سے محروم رہا تھا چنانچہ یونہی گھوم رہا تھا۔ لگا جیسے فیض احمد فیض اچانک میرے سامنے آ گئے تھے۔ سگریٹ پھونکے جا رہے تھے۔ سگریٹ کا گل بڑھا ہوا تھا۔ احتراق ان کی انگلیاں چھونے کو تھا مگر وہ گم سم اور بے نیاز سے تھے۔ میں نے آداب کہتے ہوئے عرض کی کہ سگریٹ پھینک دیجیے۔ یوں لگا جیسے مجھ پر نگاہ ڈالتے ہی ان کے چہرے کی شکنیں کچھ ڈھیلی پڑ گئی تھیں۔ انہوں نے رسان سے سگریٹ فرش پر پھینکا۔ گرد آلود بوٹ کے تلوے سے مسل کر اسے بجھایا پھر مسکراتے ہوئے اپنی شفیق نگاہ مجھ پر ڈالتے ہوئے بولے،" تمہارا انتظار تھا تاکہ تم سے کچھ کہہ کر جی ہلکا کروں"۔ میں نے عرض کی کہ حضور میں تو گھنٹوں سے یہاں موجود ہوں، کہنے لگے،" ایک تو تم نے مجھ سے ملنے سے متعلق اب تک سوچا نہیں تھا۔ دوسرے تم سب کچھ بڑی توجہ سے دیکھ سن رہے تھے۔ تیسرے اب جس جہان کا میں باسی ہوں وہاں کے اصول کے مطابق ہم اندھیرا چھا جانے سے پہلے خود کو عیاں کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔" عرض کی جناب آپ تو آج بھی ملول ہیں۔ جواب میں کہنے لگے،" بھئی ایک تو ہماری شکل ہی ایسی ہے کہ ہم ملول نہ بھی ہوں تو ملول دکھائی دیتے ہیں۔ مسکرا دیں تب بھی اداسی کے خطوط معدوم نہیں ہوتے پر تم درست کہتے ہو، میں ملول ہوں۔ تمہیں بتا دوں کی میں دن بھر تمہارے ساتھ ساتھ رہا تھا۔ تم نے دیکھا کہ آرائش سے عاری ٹینا ثانی بتا رہی تھی کہ وہ میری شاعری کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ برخوردار راشد محمود نے اسے راغب کیا تھا۔ اگر راشد خود شعیب سے شناسا نہ ہوتا تو کیا وہ میرے اشعار پڑھتی، سمجھتی اور گاتی؟ خیر جوت سے جوت جلی یہ اچھی بات ہے۔ تم وہاں سے آٹھ کر نوجوان فلم ساز افراد کی محفل میں چلے گئے تھے۔ فلم سے ہمارا تعلق رہا ہے بلکہ ہم نے تو ایک فلم بنائی بھی تھی لیکن یہ نئی نسل کے فلم ساز بھلا کیا جانیں کہ لیلائے انقلاب کے گھونگھٹ تلے کونسا حسن پوشیدہ ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک تو انقلاب خود ایک بے نقاب لیلٰی ہے جو حسن سے عاری ہے جسے صارفین کے معاشرے کے یہ جوان لوگ سرخی و غازہ سے سجا کر بیچنے کے چلن میں شریک ہونے کے متمنی ہیں۔ خیر چھوڑو وہ نوجوان لوگ ہیں اور رومان پرستی کے کئی پرتو ہوتے ہیں۔
پھر تم فراز قریشی کے ساتھ باتیں کرتے اسی ہال میں بیٹھے رہے تھے۔ ہال میں مجھ سے بھی زیادہ بوڑھا عابد منٹو داخل ہوا تھا جس کے بازو کو ایک نوجوان نے سہارا دیا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر تمہارے ساتھ ساتھ میں بھی اداس ہو گیا تھا۔ البتہ صدا جوان برخوردار اعتزاز نے ہال میں داخل ہو کر میری اداسی کچھ کم کر دی تھی۔ پھر افراسیاب خٹک بھی آ گیا تھا جس کا چہرہ فربہ ہو چکا ہے اور مزید لال بھی۔ ساتھی غوث بخش بزنجو کا فرزند ارجمند حاصل بزنجو آ گیا تھا۔ اس کا باپ تو سرخ و سپید تھا امگر اس کی رنگت تو خاصی گندمی ہے۔ وہ جو سلمان خواجہ اور شفقت محمود نام کے لوگ تھے انہیں میں نہیں جانتا لیکن وہ ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے انہوں نے میری شاعری سے بہت کچھ سیکھا ہو۔ ان کو چھوڑو۔ مجھے ان کے علاوہ باقیوں کی باتوں نے بے حد دکھی کیا۔ کس طرح اشرافیہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے جیسے وہ خود اشرافیہ کا حصہ نہ ہوں۔ اعتزاز، افراسیاب اور حاصل سے شفقت ہی اچھا تھا جس نے اقرار تو کیا کہ وہ خود اشرافیہ کا حصہ ہے۔
کتنے آرام سے لوگوں کے مصائب کا ذکر کر رہے تھے مگر یہ تینوں ان پارٹیوں میں شامل ہیں جو بنیادی طور پر Haves کی پارٹیاں ہیں اور جنہوں نے Have Nots کو غچہ دے کر اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ یا تو ان تینوں کے " فکروعمل" ایک سے نہیں یا ان کی اپنی پارٹیوں میں سنی نہیں جاتی۔ اگر ان کی فکر ویسی ہی ہے جو وہ ظاہر کرتے ہیں تو وہ اپنی پارٹیوں سے جدا کیوں نہیں ہو جاتے؟" پھر خندہ زن ہوئے اور کہا،" تم حیران ہو رہے ہو ناں کہ یہ تو وہ ہے جو تم ان سے سوال کرنا چاہتے تھے۔ ہاں میں نے تمہاری سوچ پڑھ لی تھی اور میں تم سے متفق تھا۔ یہ تینوں اپنے آپ سے بھی سچے نہیں ہیں تو اپنے پیروکاروں کے لیے بھلا خاک سچے ہونگے۔ تم نے دیکھ ہی لیا جب کوئٹہ کے ایک نوجوان نے سوال کیا تھا کہ خاران مکران سے تعلق رکھنے والے حاصل بزنجو بلوچستان میں ڈھائے جانے والے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے رکن اسمبلی کے عہدے سے مستعفی کیوں نہیں ہو جاتے؟ تو حاصل نے خجل ہو کر ہنستے ہوئے جواب ہی گول کر دیا تھا۔ بھلا ہو عزیزی عابد منٹو کا جس نے دل سے بات کی ، سچ بولا اور کہا کہ عوام کے دکھ درد ختم کرنے والی پارٹی ہی وجود نہیں رکھتی اور جس سوشلزم کی بات اعتزاز کر رہا ہے، ان کی پارٹی کا جو ڈھانچہ ہے ویسی پارٹی سوشلزم لا ہی نہیں سکتی تو اعتزاز کیسے خفا ہو کر بولا تھا کہ وہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ سوشلزم پر بحث کی جانی چاہیے۔ ماسوائے بیچارے ضعیف مگر بلند حوصلہ البتہ مایوس عابد منٹو کی باتوں کے باقی سبھوں کی باتوں نے بہت بد دل کیا۔
پھر تم ایک ہجوم کے ساتھ اداکارہ ماہرہ خان کی گفتگو سننے کے لیے ہال نمبر ایک میں داخل ہو گئے۔ نشستوں پر نوجوان قابض ہو گئے تھے۔ تم پریشان کھڑے تھے کہ نوجوان کیا کہتے ہونگے کہ انکل (دادا؟) کو کیا سوجھی کہ گھسے چلے آئے۔ میں نے تمہاری پریشانی اور پشیمانی کو دیکھتے ہوئے سٹیج پر کھڑی منیزہ کے دماغ میں ڈالا اور اس نے اونچی آواز میں یہ کہہ کر کہ کھڑے ہوئے سینئر کو نشست دو تمہیں جگہ دلوا دی۔
جونہی ماہرہ خان داخل ہوئی تو اس کی نازک اندامی اور حسن کو دیکھ کر مجھے بھی ایک لمحے کے لیے یہی لگا کہ اس کی محبت کے سوا دنیا میں اور کوئی دکھ نہیں ہے لیکن عزیزہ نے اپنی متاہل زندگی اور بچے سے متعلق بتا کر یہ سوچ نفی کر دی تھی۔ اچھا بولتی ہے۔ اچھا شرماتی ہے اور سوالوں کے اچھے جواب دیتی ہے۔ مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ اس جوان و حسین اداکارہ کا فیض سے متعلق تقریب سے کیا تعلق تھا؟
بس یہی ناں کہ جو بکتا ہے وہ بیچو۔ یہ سب سپانسرز نے شامل کروایا تھا۔ یہ بھی دن آنے تھے جب سرمایہ داروں کے ادارے مجھ جیسے شاعر کو بیچنے لگیں اور وہ بھی میری بیٹیوں اور نواسے نواسی کی مدد سے۔
تاہم اس سب میں ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ عام لوگوں اور طالبعلموں کو آزادی محسوس کرنے کا تجربہ ہوا۔ لوگ موسیقی اور فنون لطیفہ کے فقدان سے خود کو اس ضمن میں بھوکا سمجھنے لگے ہیں۔ دو روز کے لیے ایک محدود حصے میں سہی، نوجوانوں کو بھڑاس نکالنے کا موقع تو ملا۔ چلو بھئی خدا ان سرمایہ داروں کو بھی خوش رکھے جنہوں نے اس سب میں ہاتھ بٹایا۔ اور ہاں وہ میرا دوست ایوب اولیاء آج تمہارے ساتھ نہیں ہے، خیریت ہے، اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں۔" اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا یوں لگا جیسے فیض صاحب بے کل ہو گئے ہوں، بولے" اچھا بھئی خدا حافظ" اور تحلیل ہو گئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...