نومبر کی بیسویں تاریخ بہت سے حوالوں سے اہم قرار پائی۔ احمد ندیم قاسمی کا یوم ولادت بیس نومبر کو منایا جاتا رہا ہے لیکن جب بیس نومبر انیس سو چوراسی کو فیض صاحب کا انتقال ہوا تو احمد ندیم قاسمی صاحب اسی دن اسی تاریخ کو اپنی سالگرہ کے حوالے سے منعقد کی جانے والی تقاریب کی مشاورت یا منصوبہ بندی سے گریزاں نظر آئے۔ احمد ندیم قاسمی برملا کہا کرتے تھے کہ فیض صاحب کی وفات تو یوم سوگ کے طور پر منانا چاہیے اور میں اپنے تمام محبان سے گزارش کروں گا کہ میری سالگرہ کی تقاریب کا اہتمام کرنے سے گریز کریں لیکن پھر پروفیسر غلام جیلانی اصغر ، سید فخرالدین بلے ، خالد احمد ، جاوید احمد قریشی ، مسعود اشعر اور انتظار حسین جیسے مقربین احمد ندیم قاسمی کی خدمات حاصل کی گئیں اور قاسمی صاحب کو راضی کرلیا گیا لیکن بہر طور یہ ایک دشوار گزار مرحلہ تھا۔
فیض احمد فیض نے بریگیڈیئر صدیق سالک کی خواہش کے احترام میں سید فخرالدین بلے سے ذاتی طور پر گزارش کی تھی کہ آپ کی اعلی ظرفی اور عفو و درگزر کے حوالے سے مثالیں دی جاتی ہیں۔ آپ کی مزاحمتی بلکہ تمام تر شاعری کے مداح ہیں ہم سب بھی اور صدیق سالک بھی ، احمد ندیم قاسمی صاحب بھی اور حبیب جالب ، فارغ بخاری اور محمد طفیل بھی۔ بلے صاحب آپ کا ہمارا بہت پرانا ساتھ ہے۔ دیرینہ مراسم ہیں۔ اگر صدیق سالک نے مجبور نہ کیا ہوتا تو میں آپ کو اس حوالے سے زحمت ہی نہ دیتا۔ آپ سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ آپ حکومت کی جانب سے جو آپ کی جبری ریٹائرمینٹ کا فیصلہ واپس لیے جانے کے نوٹیفیکیشن کے ساتھ جو حکومت کا معافی نامہ ہے اسے قبول فرمالیجے اور ایک مرتبہ پھر سے اپنے سرکاری منصب کو سنبھال لیجے میرا مان رہ جائے گا۔ اور واقعی سید فخرالدین بلے نے فیض احمد فیض کے مان کو نہیں توڑا اور نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کا معافی نامہ قبول کر کے جوائننگ دے دی۔
وہ ایک شخص جو حالات کی پناہ میں ہے
یہ جان لے کہ ہر اک شخص کی نگاہ میں ہے
سید فخرالدین بلے نے تو یہ شعر اپنے عہد کے بد ترین آمر ضیا الحق کی شان میں کہا تھا لیکن ہم یہی شعر ابوالمنافقین کی باقیات کی نذر کرتے ہیں۔ وہی مذہب کارڈ ، وہی خود کو متقین کا امام سمجھنے کا بخار اور وہی اقتدار کو طول دینے کے لیے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کہنے کی روش۔
وہی مذہبی اقدار کی پامالی ، میرٹ اور قانون کی دھجیاں اڑانے کی روایت کی پاسداری کا رحجان۔
سانحۂ ساہیوال اس وقت کی ریاست مدینہ کے امیر کے دور میں پیش آیا تھا۔ وہ معصوم ، سہمے ہوئے اور خوفزدہ یتیم بچے کہ جن کی آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں آج بھی یہی کہہ رہی ہیں کہ ہم دیکھیں گے۔ ہر وہ بے گناہ اور معصوم اور فرض شناس کہ جو تکبر کے نشے میں سرشار حکمران کی منافقانہ حکمرانی کے دور میں لقمۂ اجل بنا ، شہید ہوا ، اور مار ڈالا گیا اس کے یتیم اور بے گناہ پسماندگان کا ایمان ہے کہ ہم دیکھیں گے۔ ان مظلومین میں ان معصوم پولیس والوں کے اہل خانہ بھی شامل ہیں کہ جو ڈیوٹی نبھا رہے تھے۔ اور لبیک لبیک کی صداؤں میں مبینہ طور پر ان کو مار ڈالا گیا۔ اور مار ڈالنے کے بعد امر بالمعروف نے بحثیت امیر ریاست مدینہ کیا اقدامات کیے بشمول خفیہ معاہدے کے بمعہ خفیہ معاہدے کے ہر ہر اقدام کو فتح مبین قرار دیا خود سلیکٹڈ نے بھی اور درباری ملاؤں نے بھی۔ سب نے ہی دیکھا مگر ہم دیکھیں گے۔ نسلہ ٹاور کے بےدخل کیے جانے والے بے گناہ مظلوم مکین پہلے سے بھی جانتے تھے اور بعد میں بھی جان گئے کہ ان کے بے گھر ، بے در ہونے کا سہرا مبینہ غیر قانونی بنی گالہ (جسے محض سترہ لاکھ کا جرمانہ کرکے قانونی قرار دیا گیا) کے مکین اور مالک کے سوا کوئی نہیں۔ عقدہ اس وقت کھلا جب اس مکین نے معزول ہونے کے بعد صدر مملکت کو سمری بھجوائی اور اس میں سابق منصف اعلی گلزار کا نام بطور نگران وزیراعظم کے تجویز کیا۔ نسلہ ٹاور کے مظلوم اور بے گھر کیے جانے والے معصوم مکین کہ جن کی آنکھوں کے سامنے تمام تر قانونی تقاضے بالائے طاق رکھ کر نسلہ ٹاور کو منہدم کیا گیا ان کی آہوں اور سسکیوں سے بھی یہی آواز آرہی ہے کہ ہم دیکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے۔
اب ملاحظہ فرمائیے فیض صاحب کی شاہکار نظم ۔ ہم دیکھیں گے۔ اور اس ولولہ انگیز نظم سے جڑے چند مذید واقعات۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے
سال 2022 کے آغاز سے ہی ملک کی غیر یقینی سیاسی صورت حال میں عدلیہ کے فقیدالمثال طرز انصاف نے ایک تاریخ رقم کی ہے ۔ اسٹیبلشمینٹ اور عدالت عظمی کے غیر جانبدار رویوں اور حکمت عملی اور جمہوریت بہترین انتقام ہے کی اصطلاح کے داعی سابق صدر جناب آصف علی زرداری نے مثبت اقدامات کے ذریعے ثابت کیا کہ ان کی قیادت میں سابقہ متحدہ حزب اختلاف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر کسی بھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ کھپے کھپے پاکستان کھپے کے داعی آصف علی زرداری نے ثابت کیا کہ سیاسی بصیرت میں ان کا ثانی نہیں ۔ اور یہ کہ آصف علی زرداری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا کہ اقتدار کی ان کو حاجت نہیں بلکہ وہ ایک بصیرت افروز بادشاہ گر ہیں ۔ تاریخی دن 10 اپریل کہ جو یوم دستور پاکستان بھی ہے اور حسن اتفاق سے اسی تاریح کو دختر مشرق ۔ شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو نے آمر اعظم ۔ جابر اعظم ابوالمنافقین ضیا ٕ الحق جیسے بدترین باطل کے خلاف اور تحریک بحالی جمہوریت کا آغاز کیا ۔ اسی تاریخی اور تاریخ ساز دن ضیا ٕ الحق کے روحانی مرید اور پیروکار سلیکٹڈ عمران نیازی اور ان کی آمرانہ طرز حکومت کو تاریخی اور فقیدالمثال شکست فاش دی ۔ 10 اپریل یوم دستور پاکستان کے طور پر بھی اور یوم نجات ابوالمنافقین کے طور پر بھی ۔ یوم فتح دستور کے طور پر بھی اور یوم بحالی ٕجمہوریت کے طور پر بھی ایک تاریخ ساز دن ثابت ہوا۔
ممتاز کیلی گرافر۔ شاعر ۔دانشور اور سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری محمد حنیف رامے کے ہمراہ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر اپنے بتاۓ ہوۓ وقت پر پہنچیں۔ ان کے پہنچتے ہی ہماری ذمہ داریاں شروع ہوچکی تھیں ۔ ہم فوری طور پر ملک معراج خالد صاحب اور ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کو لینے کےلیے روانہ ہوگۓ ۔ جب دونوں اصحاب کو پِک کرلیا تو ہم نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے پوچھا کہ انکل ہم پہلے آپ کو ڈراپ کردیں اور دوبارہ آکر باباجی شیخ رشید صاحب کو پک کرلیں یا ابھی جاتے ہوۓ ہی انہیں ساتھ ہی لےچلیں ۔ ملک معراج خالد صاحب اور مبشر حسن صاحب نے فرمایا کہ دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی جاتے ہوۓ راستے میں ہی اچھرہ رکتے ہوۓ انہیں پک کرلیں ۔ قصہ مختصر ہم تینوں اصحاب کو لے کر شادمان میں واقع بلے ہاٶس پہنچے ۔ شہزاد احمد صاحب کو ہم نے پہلے ہی فون پر مطلع کردیا تھا کہ مہمانان گرامی پہنچ چکے ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب نے والد گرامی کو مخاطب فرمایا ۔ بلے صاحب آپ کے صاحبزادے سے ہم نے پوچھا کہ کہ آپ دس منٹ دیں تو ہم مکمل نہ سہی کچھ تھوڑا بہت کھا کر آپ کے ساتھ چلیں تو صاحبزادے نے کہا نہیں اس بات کی تو اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ باباجانی اور دیگر احباب منتظر ہونگے ۔ اور کھانے کےلیے آپ کا ہی انتظار ہورہا ہوگا ۔ ابو جان نے یہ سن کر کہا بالکل ٹھیک کیا ۔ آج کی دعوت خاص کا مقصد ہی مل بیٹھنا تھا۔ آج برسوں بعد ہم سب کو ایک ساتھ مل بیٹھنے کا موقع میسر آیا ہے اور اس کےلیے ہم محترمہ صدیقہ بیگم کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے حنیف رامے صاحب کو قابو کرلیا ۔ بس پانچ سات منٹ میں اشفاق احمد صاحب اور بانو قدسیہ صاحبہ پہنچنے والے ہیں۔ یہ فرما کر والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے صاحب نے ہمیں آواز دے کر کہا کہ صدیقہ بیگم نے یہاں اکٹھے ہوکر کس وقت روانہ ہونے کی تاکید کی تھی ۔ مہم نے عرض کیا کہ ساڑھے دس تک کی مہلت ہے ہمارے پاس اور ساڑھے دس بجنے میں ابھی ڈیڑھ گھنہ باقی ہے اور آپ تمام معزز مہمانان گرامی سے گزارش ہے کہ کھانا چن دیا گیا ہے اور بانو آپا اور اشفاق احمد خاں صاحب تشریف لاچکے ہیں ۔ تشریف مذید گفتگو ٹیبل پر دوران کھانا جاری رہے گی۔ کھانے کے دوران اور بعد گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ قہوہ اور چاۓ کافی کا دور چلا ۔ تمام احباب نے اپنی اپنی حسین یادوں کو بیان کیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اور چوہدری محمد حنیف رامے صاحب نے اپنی بہت سی یادوں میں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے اپنے روابط اور مراسم کے حوالے دیتے ہوۓ فرمایا کہ فخرالدین بلے صاحب نے بھی جمہوریت پسند ہونے کی بھاری قیمت ادا کی اور بھٹو صاحب سے قریبی اور دوستانہ مراسم کے باعث بلے صاحب ضیا ٕ الحق کے منتقمانہ اقدامات کا نشانہ بھی بنے۔ اشفاق احمد خاں صاحب نے جنرل ضیا ٕ الحق کے بہت سے جابرانہ اقدامات کو موضوع بنایا اور سید فخرالدین بلے صاحب کی جبری سبکدوشی پر بھی بات کی۔ ڈاکٹر مبشر حسن ۔ ملک معراج خالد ۔ اشفاق احمد اور حنیف رامے کے ساتھ ساتھ صدیقہ بیگم نے سید فخرالدین بلے کی مزاحمتی شاعری کے تذکرے میں ڈسپلن۔ اور پتنگ جیسی متعدد نظموں اور غزلیات کے حوالے بھی دیۓ۔ ٹھیک ساڑھے دس بجے تمام مہمانان گرامی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو لیکر اواری ہوٹل کے لیے روانہ ہوگۓ اور ہم صدیقہ بیگم کے ہمراہ روانہ ہوۓ۔ اواری ہوٹل کا ہال سینکڑوں معززین شہر سے بھرا ہوا تھا۔ اسٹیج سے قریب ترین کرسیوں کی پہلی قطار ان معزز مہمانوں کےلیے پہلے سے ہی ریزروڈ تھی۔ لیکن ہم ۔ شہزاد احمد اور صدیقہ بیگم نے کرسیوں کے بجاۓ اسٹیج کے ساتھ بچھی چانیوں پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ غزل کی ممتاز گلوکارہ محترمہ اقبال بانو نے اپنے اعزاز میں منعقدہ موسیقی کی اس محفل میں بھرپور انداز میں اپنے فن کا مظاہرہ ۔ اور فیض احمد فیض کی شاہکار نظم ہم دیکھیں گے سے ہی محفل کا آغاز کیا اور صبح ساڑھے چار بجے اسی شاہکار نظم پر محفل کا اختتام فرمایا ۔
فیض احمد فیض کی شاہکار نظم کے حوالے سے اور بھی بہت سے واقعات ہیں ۔
سال 1985 میں جنرل ضیا الحق کے فرمان کے تحت عورتوں کے ساڑھی پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔ پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج درج کراتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑھی پہن کر 50,000 سے زیادہ سامعین کے سامنے فیض احمد فیض کی یہ نظم ۔ ہم دیکھیں گے۔ گائی ۔ نظم کے بیچ میں سامعین کی طرف سے انقلاب زندہ باد ۔ جمہوریت زندہ باد اور مردہ باد مردہ باد آمریت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے۔
بعدازاں 1986 میں جلاوطنی ختم کرکے واپس لوٹنے کے بعد بھی محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ نے بھی ایک شاندار تقریب میں جب اقبال بانو نے یہ نظم ۔ ہم دیکھیں گے پیش کی تو بےنظیر بھٹو صاحبہ نے کلیپ کر کر کے اقبال بانو کا خوب ساتھ دیا تھا ۔ ہم اس تقریب میں اپنے جگر جانی سجن بیلی سیدی محسن نقوی صاحب کے ہمراہ گۓ تھے ۔
فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے نے تو ہمسایہ ملک ہندوستان میں ہنگامہ مچا دیا۔ بلکہ وہاں کے انتہا پسندوں نے تو اس نظم میں بھی مذہبی منافرت تلاش کرلی۔ حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کے حملے کے بعد دو روز بعد ہی دسمبر کی سترہویں تاریخ کو آئی آئی ٹی کانپور کے طلبہ نے ایک پر امن احتجاجی ریلی نکالی تھی، جہاں معروف انقلابی اور جمہوریت پسند شاعر بلکہ مزاحمتی شاعری کے بے تاج بادشاہ فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے پڑھی گئی تھی۔ بعد ازاں اس حوالے سے ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر منیندر آگروال نے شکایت درج کرائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ طلبہ فیض کی نظم ہم دیکھیں گے پڑھ رہے ہیں۔ اس نظم کو “ہندو مخالف” بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کی شکایت میں نظم میں سب بت اٹھوائے جائیں گے اور بس نام رہے گا اللہ کا والے بند پر اعتراض کیا گیا ہے۔ بس پھر کیا تھا ہنگامے قابو میں آنے کے بجائے پھیلتے ہی چلے گئے اور شر پسند عناصر کی جانب سے محض اس نظم کی بنیاد پر ان ہنگاموں کو مذہبی منافرت کا رنگ دینے کی کوشش بہت حد تک تو نہیں البتہ کسی حد تک ہی کامیاب ہوسکی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران یہ وضاحت بھی سامنے آئی کہ فیض احمد فیض صاحب نے یہ نظم پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کہ جسے عدالتی قتل بھی کہا جاتا ہے ، کے بعد اور بد ترین عہد آمریت کے دوسرے برس کے دوران لکھی تھی۔
فیض احمد فیض پکستان کے عالمی شہرت کے حامل تخلیقکاروں میں سر فہرست شمار کیے جاتے ہیں۔ میں ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی اور مسعود اشعر صاحب والد گرامی کے پاس آۓ بیٹھے تھے کہ اچانک بڑے بھیا سید انجم معین بلے صاحب وارد ہوۓ اور فرمایا کہ فیض انکل ( فیض احمد فیض صاحب) تشریف لاۓ ہیں۔ یہ سنتے ہی تمام اصحاب کے چہرے کھل اٹھے اور سب کے سب فیض صاحب کا استقبال کرنے اٹھ کھڑے ہوۓ۔ ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت کی تشریف آوری ہورہی ہے۔ ایسے ان گنت واقعات ہیں جنہیں ہمارے بچپن کے یادگار واقعات کا نام دیا جاسکتا ہے۔ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا یہ شعر بصد تعظیم اور خلوص فیض احمد فیض صاحب کی نذر کرتا ہوں۔
الفاظ و صوت و رنگ و نگارش کی شکل میں
زندہ ہیں لوگ ، آج بھی مرنے کے باوجود