اصل نام_فیض احمد
تخلص_فیض
تاریخ پیداٸش_١٣ فروری ١٩١١
تاریخ وفات_٢٠ نومبر ١٩٨٤
فیض کی شاعری زبانوں، سرحدوں، نظریوں، عقیدوں کی حدود توڑ کر ان کی حیات میں ہی عالمگیر شہرت پا چکی تھی۔١٩٦٢ میں فیض کو لینن امن انعام دیا،١٩٧٦ ،١٩٩٠ میں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز، ٢٠١١ کو ”فیض کا سال“ قرار دیا۔ ان کی حیات میں نوبل امن انعام کے لٸے بھی نامزد کیا گیا
نقش فریادی، دستِ صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادٸ سینا، شام شہر یاراں، میرے دل میرے مسافر کے علاوہ نثر میں میزان، صلیبیں میرے دریچے میں، متاع لوح و قلم شامل ہیں۔ ”جاگو سویرا“ ”دور ہے سکھ کا گاٶں“ کے گیت بھی لکھے۔
فیض نے انقلابی نظموں ،حسن و عشق کے دلنواز گیتوں، جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں عہد نو کے انسان کے ضمیر کا اظہار کیا۔غناٸت و رجاٸت سےبھرپور لہجہ میں انسانی خوابوں،حقیقتوں،امیدوں،نامرادیوں کی کشاکش کو انوکھے استعاروں اور اچھوتی تشبیات اپناتے ہوۓنۓ دبستان شاعری کی بنیاد رکھی۔ان کی غزلوں میں نۓ لب و لہجہ کےعلاوہ تازہ افکار اور خاص ولولہ موجود ہے مگر وہ زندگی کی الجھنوں،تلخیوں کا سامنا کرتے ہوےنہ بغاوت پر اترتے ہیں اور نہ تلخ نعرے بلند کتے ہیں۔اقبال نے اسلام کو انقلابی مذہب جانااور اسلام بذریعہ اسلام کانعرہ لگایا مگر فیض نے کیمیونزم کو انقلابی راستہ سمجھا۔فیض اقبال کے استاد میر حسن کے شاگردرہے انھیں یوسف سلیم چشتی سے پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا،وہ غالب و اقبال کے بعد اردو ادب کی مضبوط آواز بن کر ابھرے۔ اس زمانے میں جوش واحسان رومانوی تحریک کے تحت تصوراتی جنت کی تعمیر میں مصروف تھے جبکہ ادبی روایت کوجگر،اصغر،حسرت،داغ نے کندھا دے رکھا تھا۔نظم نگاری کے بھیس میں اختر الایمان، ن۔م راشد، میرا جی اپنی بانسری بجا رہے تھے۔
فیض نے صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی اہلیہ رشیدہ جہاں کے زیر اثر مارکسزم کا مطالعہ کیااور ترقی پسند تحریک میں شامل ہوے ترقی پسند تحریک میں شامل ہونے کے بعد مصاٸب و آلام کے پہاڑ برداشت کٸے مگر نظریات پر اٹل رہےاور اظہار کے لیۓ غزل کا پیراٸیہ اختیار کیا۔ بقول ثاقب رزمی”ایک پختہ کار ترقی پسند شاعر ہونے کی حیثیت سے اپنی شاعری کو خطیبانہ اور انقلابی راۓ زنی سے بچایا“ فیض کا اصل تخلیقی عمل یہ ہے انھوں نےمواد اور ہیت کی دوٸ کو ختم کیا ڈاکڑ عبدالغنی ”رومان اور انقلاب کی کشمکش کے معاملے میں فیض کا شعور تاملات اور ترددات کی آماجگاہ ہے وہ ہنوز فیصلہ نہیں کر پاتے کہ ان کی صحیح سمت کیا ہے جسم کے دلآویز خطوط یا زمانے کے دکھ“
مقام فیض کوٸ راہ میں جچا ہی نہیں جو کوۓیار سے نکلے تو سوۓ دار چلے
وطن سے محبت کا اظہار ایسے کیا جیسے کوٸ اپنے محبوب سے کرتا ہے
ترے ہونٹوں کے پھولوںکی چاہت میں ہم
دار کی ٹہنی پہ وارے گۓ
ترے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گۓ
اپنی آزادانہ اظہار خیال کی روش کی پاداش میں جوانی کے ماہ وسال دار و رسن کا مزہ چکھنے میں گزار دیے
اور غدار وطن بھی کہلاۓ
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں،کبھی رسوا سر بازار
وہ پھول اور تلوار کے ساتھ چشم و لب کی کاٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں،
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار و ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
زبان لفاظی و مبالغہ سےمبرا ہےاور جدید اور فیض کی شاعری کو جدید ذہن جدید حوالے سے اور قدیم ذہن کلاسیکی رکھ رکھاٶ پا لیتے ہیں،اسی وجہ سے فیض ماضی،حال، مستقبل تینوں زمانوں پر بیک وقت محیط نظر آتا ہے ،
بجھا جو روزن زنداں تو دل نے سمجھا ہے
کہ تری مانگ ستاروں سے بھر گٸ ہوگ