آپریشن ٹیبل پر مریض اپنے ہاتھ میں رعشے کے علاج کے لئے دماغ کا آپریشن کروا رہا ہے۔ نیوروسرجن نے لمبی اور پتلی تاریں (الیکٹروڈز) اس کے دماغ میں داخل کر دی ہیں۔ اس پر معمولی سا کرنٹ داخل کر کے مریض کے نیورون میں ہونے والی ایکٹیویٹی کے پیٹرن کو ایڈجسٹ کیا جا سکے گا اور رعشہ کم کیا جا سکے گا۔
الیکٹروڈز کے داخل ہونے نے ایک نیورون میں ہونے والی ایکٹویٹی کی نگرانی کا موقع دیا ہے۔ نیورون ایک دوسرے سے برقی سپائک کے ذریعے بات کرتے ہیں جو ایکشن پوٹینشل کہلاتا ہے۔ یہ سگنل بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ سرجن اور محققین ان کو آڈیو سپیکر سے گزارتے ہیں۔ اس طرح وولٹیج میں معمولی سی تبدیلی (ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہونے والی ایک وولٹ کے دسویں حصے کی تبدیلی) ان سپیکرز پر “ٹِک” کی آواز کی صورت میں سنائی دیتی ہے۔
جب یہ الیکٹروڈ دماغ کے مختلف حصوں میں داخل ہوتے ہیں تو ایک تربیت یافتہ سننے والا، دماغ کے ان حصوں کے ایکٹیویٹی کے پیٹرنز کو پہچان سکتا ہے۔ کچھ جگہوں پر آوازیں “ٹِک، ٹِک، ٹک” کی آوازیں جبکہ کچھ جگہوں پر ان سے بہت مختلف۔ “ٹک، ٹکاٹک، ٹوک، ٹک”۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ دنیا میں کہیں پر موجود چند لوگوں کی باتوں کو چھپ کر سن رہے ہوں۔ دنیا کے اس متنوع کلچر میں وہ لوگ جن کے پاس کرنے کے اپنے اپنے کام ہیں۔ ہر ایک کی باتیں، اپنے لہجے اور اپنی زبانیں ہیں۔
میں اس آپریشن روم میں بطور محقق موجود ہوں۔ میرے کولیگ، جو نیوروسرجن ہیں، وہ آپریشن کر رہے ہیں جبکہ میرا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ دماغ فیصلے کیسے لیتا ہے۔ میں نے مریض کو کچھ کام کرنے کو کہا۔ بولنے، پڑھنے، دیکھنے اور فیصلے لینے جیسے کام۔ اس سے میں یہ جان سکوں گا کہ نیورونز کی کس قسم کی ایکٹیویٹی کس کام کے لئے ہوتی ہے۔ دماغ میں تکلیف محسوس کرنے کے ریسپٹر نہیں ہوتے۔ اس لئے اس آپریشن کے لئے مریض کو بے ہوش کرنے کی ضرورت نہیں۔ مریض اس دوران جاگ رہا ہے۔ میں نے اس کو یہ تصویر دیکھنے کو کہا۔ میری ریکارڈنگ جاری تھی۔
میں نے اس کو وہ تصویر دکھائی جو پوسٹ کے ساتھ لگی ہے۔ اس تصویر کو اگر ایک طریقے سے دیکھا جائے تو نوجوان خاتون نظر آتی ہیں جو دوسری طرف منہ موڑے ہوئے ہیں، جبکہ ایک اور طرح سے دیکھا جائے تو ایک بوڑھی خاتون ہیں جو بائیں اور نیچے کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ اس تصویر کو دونوں طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ (اس کو پرسپچوئل بائی سٹیبیلیٹی کہا جاتا ہے)۔ اس کو غور سے دیکھتے رہیں تو ایک ورژن نظر آئے گا، پھر دوسرا، پھر پہلا، پھر دوسرا۔ اہم چیز یہ ہے کہ سکرین پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہو رہا۔ جب مریض اس کو دیکھ کر کہتا ہے کہ وہ بوڑھی خاتون کو دیکھ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تبدیلی دماغ کے اندر آ رہی ہے۔
جب مریض نے اس تصویر میں نوجوان خاتون کو دیکھنا شروع کیا یا بوڑھی خاتون کو، تو یہ دماغ کا لیا گیا ایک فیصلہ تھا۔ فیصلے کا شعوری ہونا ضروری نہیں۔ لیا جانے والا یہ فیصلہ بصری سسٹم کا ہے اور اس فیصلے کا مکینزم شعور سے پوشیدہ ہے۔ دماغ، تھیوری میں، ایک ہی وقت میں اس تصویر میں بوڑھی اور نوجوان خاتون کو دیکھ سکتا ہے لیکن حقیقتا دماغ ایسا نہیں کرتا۔ دماغ غیرواضح دنیا میں انتخاب کرتا رہتا ہے۔ یہ انتخاب ان چیزوں کو واضح کر دیتے ہیں۔ ایسا کر لینے سے دنیا کی دھند چھٹ جاتی ہے۔ دماغ اس انتخاب کو بدل بھی سکتا ہے۔ بار بار بدل لیتا ہے۔ یہ انتخاب بدلنے پر باہر کی حقیقت نہ بدلنے کے باوجود بھی بدل جاتی ہے۔ (دھند اندر کی چھٹتی ہے، باہر کی نہیں)۔ دماغ کا اصل اور بڑا فنکشن مبہم چیزوں کو غیرمبہم کرنا ہے۔ یہ انتخاب ایک فیصلہ ہے۔ اس تصویر کی دو خواتین اس کی مثال ہیں۔
جب مریض کے دماغ نے فیصلہ لیا کہ یہ نوجوان خاتون ہیں، اس وقت میں نیورونز کی چھوٹی سی تعداد کی باتیں سن سکتا تھا۔ کچھ اپنی ایکٹیویٹی کا ریٹ بڑھا رہے تھے۔ “ٹک، ٹک، ٹک، ٹک، ٹک”۔ کچھ سست پڑ رہے تھے، “ٹک،۔۔۔۔۔۔، ٹک،۔۔۔۔۔۔۔۔ٹک”۔ فیصلہ ہمیشہ رفتار کم یا آہستہ کرنے سے نہیں ہوتا۔ کئی بار نیورونز اپنا پیٹرن بڑے باریک طریقے سے تبدیل کرتے ہیں۔ اپنی رفتار بدلے بغیر کہیں پر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں؛ کہیں پر بے قاعدہ ہو جاتے ہیں۔
جن نیوروز کی میں جاسوسی کر رہا ہوں، یہ خود سے نظر کے سسٹم کی اس تبدیلی کے ذمہ دار نہیں۔ یہ فیصلہ اربوں دوسرے نیورونز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ دماغ کے بڑے حصے پر لیا گیا ہے۔ جن تبدیلیوں کا میں مشاہدہ کر رہا ہوں، یہ دماغ کے بڑے حصے پر بدلتے پیٹرن کا عکس ہیں۔ جب ایک پیٹرن دوسرے سے جیت گیا، تو مریض کا دماغ ایک فیصلہ لے چکا تھا۔
دماغ روزانہ ہزاروں فیصلے لیتا ہے۔ آپ کی زندگی کے تجربے کو تشکیل دیتا ہے۔ کیا پہننا ہے، کس کو فون کرنا ہے، کس سے بات کرنی ہے، کسی کہ کہی بات کا کیا مطلب نکالنا ہے، جواب دینا ہے یا خاموش رہ جانا ہے، کب چلے جانا ہے، چھوڑ دینا ہے۔ فیصلے جو ہر عمل اور ہر سوچ کے پیچھے ہیں۔ جو میں ہوں اور جو آپ ہیں اور جو بھی کر رہے ہیں، یہ دماغ میں جاری مسلسل جنگوں کا نتیجہ ہے جو زندگی کے ہر لمحے جاری ہیں۔
اگر آپ کو کبھی یہ سننے کا موقع ملے تو ایسا ناممکن ہے کہ یہ آوازیں آپ پر گہرا اثر نہ چھوڑیں۔ انسانی تاریخ کے کئے گئے ہر فیصلے کی آوازیں ایسی ہی رہی ہیں۔ ہر شادی کا پیغام، ہر جنگ کا اعلان، تخیل کی ہر چھلانگ، ہر مشن کا آغاز، ہمدردی کا ہر فعل، ہر جھوٹ، ہر نیا بریک تھرو، زندگی سنوارنے یا اس کو تہہ وبالا کر دینے والا فیصلے، معاشروں کے نازک مراحل پر کئے گئے ایکشن۔ یہ سب یہیں پر ہوا ہے۔ کھوپڑی کی تاریکی میں۔ بایئولوجیکل خلیوں میں ہونے والی ایکٹیویٹی کے انہی پیٹرنز کی وجہ سے۔ سپیکر میں ہوتی بھنبھناہٹ، یہ ان فیصلوں کی آوازیں ہیں۔
یہ اس کتاب سے لیا گیا ہے
Brain: The Story of You