آج پھر وہ اسکول سے مار کھا کر آیا تھا، اس کی ماں نے شکل دیکھتے ہی پہچان لیا، اور پوچھا، اس نے بتایا کہ آج پھر فہد نے اسے مارا ہے، ماں نے اس کا منہ دھلاتے ہوئے کہا
۔۔آخر اس فہد کو مسئلہ کیاہے؟ روز تیسرے دن تمہیں مارتاہے، وہ بھی بلا وجہ ۔۔؟
۔۔ پتہ نہیں بس بلا وجہ ہی بریک ٹائم میں آکر مارنا شروع کر دیتا ہے، اور ہنستا ہنستا چلا جاتا ہے، لڑکے تو کہتے ہیں کہ اسے تمہاری نام نہاد امن پسندی نے جرأت دلائی ہوئی ہے، اسے پتہ ہے کہ تم نے تو اسے مارنا نہیں، تو اپنی من مانی کرتا ہے۔
۔۔ ہاں بیٹے مار پیٹ کرنا تو بری بات ہے نا ۔ ۔
۔۔ تو کیا میں اسی طرح مارکھاتا رہوں گا؟
۔۔ تمہیں چاہئے اس کی شایت کلاس ٹیچر سے کرو۔ ۔
۔۔ کتنی بار تو کی ہے امی ۔ ۔ وہ کچھ بھی نہیں کرتی ۔ ۔
۔۔ سوشل ورکر آنٹی سے شکایت کرو۔ ۔
۔۔ ہنھ ۔ ۔ اس نے کیا کرنا ہے، وہ تو سنا ہے کہ شرارتی بچوں کو سزا دینے کی بجائے اور بھی زیادہ پیار کرتی ہے۔ ۔
۔۔ یہ اس کا طریقہء کار ہے بیٹے۔ ۔
۔۔ ناکام طریقہ ہے یہ تو۔ ۔
۔۔ نہیں بیٹے، بہت سوں پر کامیاب بھی ہے ۔ ۔ تم پرنسپل صاحبہ سے بات کر کے دیکھ لو ۔ ۔
۔۔ کچھ فائدہ نہیں امی، کسی سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ۔ خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ ۔
جمال کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے والدین کچھ زیادہ ہی پڑھے لکھے تھے، جو کہ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے چاہ رہے تھے، اوپر سے قانون اندھا، ایسے حالات میں انصاف کہاں سے ملے؟ یہ سوچ سوچ کر وہ پاگل ہوا جا رہا تھا، آخر اسے ایک دن خیال آیا کہ سعید کو کوئی نہیں مارتا، اس نے سوچا کیوں نا اس سے اس بات کا راز معلوم کیا جائے، پھر اس نے اس سے پوچھ ہی لیا ۔ ۔
۔۔ تمہیں کیوں کوئی بھی شرارتی لڑکا نہیں مارتا؟
اس نے ہنس کر جواب دیا۔ ۔
۔۔ ہر لڑکے کو پتہ ہے کہ اس نے مجھے ایک مکہ مارا تو دو کھا لے گا ۔ ۔
۔۔ تمہیں قانون سے ڈر نہیں لگتا؟
۔۔ میں کیوں ڈروں قانون سے؟ میں خود تو کسی پر زیادتی نہیں کرتا، جب کوئی مجھ پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو منہ توڑ جواب دیتا ہوں، بس ۔ ۔
۔۔ شکایت کیوں نہیں کرتے ؟
۔۔ کس سے کروں ؟ تم نے کر کے نہیں دیکھی؟ کوئی فائدہ ہوا؟
۔۔ پھر بھی، قانون کی پاسداری تو فرض ہے نا۔ ۔
۔۔ اچھا تو قانون کیا کہتا ہے؟ اگر مجھے کوئی مارے تو کیا کروں ؟ اپنا دفاع نہ کروں ؟
۔۔ نہیں بلکہ قانون سے مدد لو۔ ۔ شکایت کرو۔ ۔ اگر ہر کوئی اپنا بدلہ خود لینا شروع کر دے گا تو یہ دنیا تو جنگل بن جائے گی نا ۔ ۔
۔۔ ہاہاہا تو پہلے کیا جنگل نہیں ہے؟
۔۔ دیکھو ۔ ۔ ۔
۔۔ مجھے مت دکھاو، تم خود دیکھو خود کو، ہر روز لڑکیوں کی طرح مار کھا کر بغیر بدلہ لئے گھر چلے جاتے ہو، اگلے دن اس سے بھی زیادہ مار کھاتے ہو، کیا بزدلی ہے یار، ذرا دکھاو ایک دن کہ تم بھی ایک مرد ہو، اسے بھی مارو تاکہ آئندہ تمہیں مارنے سے پہلے دس دفعہ سوچے ۔ ۔
۔۔ میری امی منع کرتی ہیں یار، ابا بھی ناراض ہوجائینگے ۔ ۔
۔۔ تو پھر ان سے بولو کہ تمہارے بجائے آکر مار کھائیں، جو بھی منع کرے ایسے ہی بولو، ان کو لاجواب کر دو۔ ۔ قانون بناتے پھرتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ بھی قانون ہے کوئی؟ شرپسند لوگ مارتے رہیں، اور نیک دل پٹتے رہیں؟
جمال پھر سوچوں میں گھر گیا، پھر اس کی ماں نے دیکھا کہ ایک دن صبح ہی صبح وہ اپنی سردیوں کی جیکٹ اور دستانے پہن رہا تھا ۔ ۔ ماں نے پوچھا
۔۔ یہ کس لئے؟ سردی تو ختم ہوچکی ہے، تمہیں وہاں گرمی لگے گی، مت پہنو ۔ ۔
۔۔ کبھی کبھی مجھےوہاں کلاس میں سردی محسوس ہوتی ہے امی۔ ۔ اے سی تیز کردیتے ہیں لڑکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔ اچھا ؟ مگر جب گرمی لگے گی تو کیا کروگے؟
۔۔ اتار کر رکھ لوں گا اپنے پاس ۔ ۔
۔۔ ٹھیک ہے مگر گم کردوگے تم ۔ ۔
۔۔ نہیں گم کرتا ماں ۔ ۔
۔۔ چلو ٹھیک ہے ۔ ۔
اس کے بعد وہ مار کھا کر نہیں آیا ۔ ۔ ۔ ماں نے سوچا اب بچے بڑے ہو گئے ہیں، ایک دوسرے کو نہیں مارتے، سمجھدار ہوگئے ہیں، جمال ماڈل سکول سے فارغ ہوکر نئے اسکول میں بڑی کلاس میں چلا گیا جہاں اساتذہ پڑھاتے تھے ۔ ۔ ۔
مگر ایک دن ۔ ۔ ۔
اسے اسکول سے شکایت ملی ۔ ۔ ۔
وہ خود اس کے والد کے ساتھ اس کے اسکول گئی، کافی غورو فکر کیا گیا اس کی حالت پر، وہ شرارتی بچوں کے چنگل میں پھنس چکا تھا، سب نے مل کر اسے سدھارنے کا پلان بنایا ۔ ۔
پھر اس کی شکایت نہیں آئی ۔ ۔ ماں نے اللہ کا شکر کیا کہ بچہ سدھر گیا ہے ۔ ۔
بچہ ایف ایس سی میں پہنچ گیا ۔ ۔ ماں نے اس کی تنہائی کے پیش نظر اس سے رابطہ مضبوط کر لیا تھا ۔ ۔ اب اسے ماں پر اعتماد تھا کہ وہ اس کی بات کو سمجھتی ہے اور اس کے راز کی حفاظت کرے گی ۔ ۔
ایک دن باتوں باتوں میں ماں نے اس سے ایک شرارتی بچی کی حالت پر تبصرہ کیا، اس نے کہا پتہ نہیں کیوں یہ بچے اپنا مستقبل نہیں بناتے، شرارتوں میں اپنا قیمتی وقت برباد کر دیتے ہیں، بعد میں پچھتاتے ہیں، پھر کیا فائدہ ؟
بچے نے کہا ۔ ۔
۔۔ تو بڑوں کا قصور ہے نا ۔ ۔
۔۔ ہیں ؟ وہ کیسے ؟ ماں کو اپنی ساری ڈگریاں، سارا مطالعہ، سب نظریات مع طویل استادی کے تجربے کے بے کار ضائع ہوتا دکھائی دیا ۔ ۔
۔۔ کیسے؟ بچوں کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کیا جاتاہے، بلا وجہ ڈانٹا جاتاہے، تو بچے نے بھی تو اپنا رد عمل ظاہر کرنا ہے نا ۔ ۔
۔۔ تو تم جو شرارتیں کرتے تھے ؟
۔۔ وہ بھی تو رد عمل تھیں، آپ جانتی ہیں میں بچپن میں شر پسند نہیں تھا، نہ ہی میری تربیت ایسی تھی ۔ ۔
۔۔ پھر کیسے باز آئے؟
۔۔ بس سمجھ آگئی، مگر اسکول میں سب کو گھمایا خوب میں نے ۔ ۔
۔۔ واقعی؟
۔۔ آپ کو یاد ہے جس دن میں دستانے اور جیکٹ پہن کر گیا تھا، کہ مجھے سردی لگتی ہے وہاں ؟
۔۔ ہاں یاد ہے اچھی طرح سے ۔ ۔
۔۔ مجھے کوئی سردی نہیں لگتی تھی، جھوٹ بولا تھا آپ سے ۔ ۔
۔۔ پھر کس لئے پہنے تھے وہ ؟
۔۔ اس لڑکے فہد کو خوب پھینٹی لگائی تھی اس دن ۔ ۔
۔۔ اس نے کچھ نہیں کیا؟
۔۔ میں نے اسے موقع ہی نہیں دیا کہ کچھ کرے، اسے لگاتار مارا، بے چارہ جان بچا کر پرنسپل کے کمرے میں گھس گیا ۔ ۔
۔۔ پھر کیا ہوا؟
۔۔ ہونا کیا تھا، مجھے وہاں بلایا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں فہد تھا اور کلاس ٹیچر تھیں، انہوں نے پوچھا ۔ ۔ تم نے اسے مارا؟ میں نے کہا ۔ ۔ جی ، ماراہے ۔ ۔ کیوں ؟ پوچھا گیا ۔ ۔ میں نے بڑی سادگی سے کہا کیونکہ یہ مجھے مارتا تھا ۔ ۔ کلاس ٹیچر نے کہا ۔ ۔
۔۔ تم تو اتنے اچھے طالب علم ہو، کیوں اتنا مارا اس بےچارے کو، دیکھو تو کیا حال ہوگیا اس کا، تم کو ترس نہیں آیا؟
۔۔ اب آپ کو اس پر ترس آرہاہے؟ اور جو اسے دو ماہ ہوگئے جب سے اسکول کھلا ہے یہ ہر تیسرے دن مجھے مارتا تھا، کتنی دفعہ میں نے آپ کو بتایا کیا کِیا آپ نے ؟ ذرا سا سمجھا دیا، اور اگلے دن یہ مجھے اور بھی زیادہ مارتا ۔ ۔
پرنسپل نے کہا ۔ ۔
لیکن تمہیں اس طرح سے کسی بچے کو مارنے کی اجازت نہیں ہے، تم میرے پاس آتے ۔ ۔
۔۔ آپ بھول گئیں وہ دن جب میں مار کھا کر آپ کے پاس آیا تھا، کیا کِیا آپ نے؟ میں تو ویسے ہی مار کھاتا رہا ۔ ۔
۔۔ پھر کیا کِیا پرنسپل نے بیٹا ؟
۔۔ وہ اٹھیں ، اس کو اور مارا اور کہا تمہاری یہی سزا ہے، تم پہ کسی کی بات اثر نہیں ہوتا نا ۔ ۔ ہم کتنا منع کرتے ہیں کہ بچوں کو نہ مارو۔ ۔ مگر تم باز نہیں آتے ۔ ۔
۔۔ شکر ہے ۔ ۔ بیٹے ایسے شر پسندی اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔
۔۔ اور اماں، ایف ایس سی میں تو میں نے کمال کر دیا ۔ ۔
۔۔ ہائے وہ کیا کِیا؟
۔۔ ایسے ہی لڑکوں میں جھگڑا ہوگیا تھا، میں نے دلائل دے دے کے سوشل ورکر کو لاجواب کردیا، اس نے ہم سب کو پرنسپل کے کمرے میں بلا لیا، وہاں پہ ہماری میٹنگ ہوئی ۔ ۔ وہ لگا اپنی قابلیت جھاڑنے ۔ ۔ ہم سنتے رہے، پھر ہمیں بولنے کا موقعی دیا گیا، میں نے آغاز ہی ایسے کیا ۔ ۔ تم لوگ یہاں پہ کرتے کیا ہو؟ اس نے کہا ۔ ۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں نے کہا ۔ ۔
۔۔ وہی جو واضح ہے، آخر آپ لوگوں کا رول کیا ہے ؟ کیا اسی قانون نافذ کرنا کہ کوئی بچہ کسی کو مارے تو وہ چپ کر کے مار کھاتا جائے، اسے اپنا دفاع کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے؟؟
۔۔ وہ ہمارے پاس آئے ہم اسے قانون کے حساب سے سزا دیں گے، نہ کہ خود ہی اسے مارنے لگ جاو ۔ ۔
۔۔ وہ تو مسلسل مجھے مارتا جارہا ہے، اور آپ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس شکایت لے کے آوں، وہ آنے کی مہلت دے گا تو ہی آوں گا نا ۔ ۔ کیسے آوں آپ کے پاس؟ مجھے طریقہ بتائیں ۔ ۔ وہ تو مجھے چھوڑ نہیں رہا، آپ تک کیسے پہنچوں ؟ وہ تو مجھے قتل بھی کر سکتا ہے، میری ٹانگ بھی توڑ سکتاہے، کون ذمہ دار ہو گا اس کا؟
۔۔ پھر کیا کہا اس نے بیٹا؟؟
۔۔ کچھ بھی نہیں، سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے، امی آپ لوگ ایسے قانون پہ عمل کروانا چاہتے ہیں جو قابل عمل نہیں ہے ۔ ۔ دوبارہ چیک کریں اس کو، یہ کیا قانون بنایا ہوا ہے؟؟ اور آپ نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے مجھے بتائیں کہ کیا اسلام میں اپنا دفاع جائز نہیں ہے؟
۔۔ کیوں نہیں، یہ حق ہے ہر کسی کا ۔ ۔
۔۔ پھر کیوں اس پر سزا ملتی ہے ۔ ۔
۔۔ مگر بیٹے عدالت میں تو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ جو قتل ہوا وہ دفاع کرتے ہوئے ہوگیا ۔ ۔
۔۔ بس پھر ہوچکا انصاف، اسی لئے کہتاہوں آپ کو قانون دوبارہ چیک کرنا پڑے گا ۔ ۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1743434075923292/
“