یکم دسمبر 1904 لائل پور کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ جڑانوالہ کی ایک اضافی آبادی تھی جسے انتظامی طور پر جھنگ کی تحصیل بنایا گیا تھا وہی لائل پور آج ڈویژن بن چکا ہے اور پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔
15 نومبر 1904ء کو گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوا کہ لیفٹیننٹ گورنر کے حکم پر یکم دسمبر 1904ء سے جھنگ کی تحصیل لائل پور، سمندری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو یکجا کرتے ہوئے ایک نئے ضلعے لائل پور کا قیام عمل میں لایا جائے
اس موقع پہ فیصل آباد کی مختصر تاریخ پیش خدمت ہے۔
فیصل آباد پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے، جس کا سابق نام لائل پور تھا۔01 ستمبر 1977ء کو اسے سعودی عرب کے سابق بادشاہ شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد کا نام دیا گیا۔ اپنے دیہاتی تمدن کی وجہ سے ایک وقت تک اسے ایشیاکا سب سے بڑا گاؤں کہا جاتا تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم شہر بن کر نمودار ہوا اور اب اسے کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دنیا کے عظیم قوال و موسیقار نصرت فتح علی خان کا تعلق اسی شہر سے تھا
شہر فیصل آباد کی تاریخ صرف ایک صدی پرانی ہے۔ آج سے کم و بیش 100 سال پہلے جھاڑیوں پر مشتمل یہ علاقہ مویشی پالنے والوں کا گڑھ تھا۔1892ء میں اسے جھنگ اور گوگیرہ برانچ نامی نہروں سے سیراب کیا جاتا تھا۔ 1895ء میں یہاں پہلا رہائشی علاقہ تعمیر ہوا، جس کا بنیادی مقصد یہاں ایک منڈی قائم کرنا تھا۔ ان دنوں شاہدرہ سےشورکوٹ اور سانگلہ ہل سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مابین واقع اس علاقے کو ساندل بار کہا جاتا تھا۔ یہ علاقہ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان میں واقع دوآبہ رچنا کا اہم حصہ ہے۔لائلپور شہر کے قیام سے پہلے یہاں پکا ماڑی نامی قدیم رہائشی علاقہ موجود تھا، جسے آج کل پکی ماڑی کہا جاتا ہے اور وہ موجودہ طارق آباد کے نواح میں واقع ہے۔ یہ علاقہ لوئر چناب کالونی کا مرکز قرار پایا اور بعد ازاں اسے بلدیہ کا درجہ دے دیا گیا۔
موجودہ ضلع فیصل آباد انیسویں صدی کے اوائل میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ جھنگ سے لاہور جانے والے کارواں یہاں پڑاؤ کرتے۔ اس زمانے کے انگریز سیاح اسے ایک شہر بنانا چاہتے تھے۔ اوائل دور میں اسے چناب کینال کالونی کہا جاتا تھا، جسے بعد میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل سر جیمز بی لائل کے نام پر لائلپور کہا جانے لگا۔
1896ء میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال سے کچھ علاقہ الگ کر کے اس پر مشتمل لائلپور تحصیل قائم ہوئی جسے انتظام و انصرام کے لیے ضلع جھنگ میں شامل کر دیا گیا۔
1902ء میں اس کی آبادی 4 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔
14 نومبر 1903ء کو گھنٹہ گھر کی تعمیر کا آغاز ہوا اور وہ 1905ء میں مکمل ہوا۔
15 نومبر 1904ء کو گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوا کہ لیفٹیننٹ گورنر کے حکم پر یکم دسمبر 1904ء سے جھنگ کی تحصیل لائل پور، سمندری اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو یکجا کرتے ہوئے ایک نئے ضلعے لائل پور کا قیام عمل میں لایا جائے۔
1906ء میں لائلپور کے ضلعی ہیڈکوارٹر نے باقاعدہ کام شروع کیا۔ یہی وہ دور تھا جب اس کی آبادی سرکلر روڈ سے باہر نکلنے لگی۔
1908ء میں یہاں پنجاب زرعی کالج اور خالصہ اسکول کا آغاز ہوا، جو بعد ازاں بالترتیب جامعہ زرعیہ فیصل آباد جو زرعی یونیورسٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اور خالصہ کالج کی صورت میں ترقی کر گئے۔ خالصہ کالج آج بھی جڑانوالہ روڈ پر میونسپل ڈگری کالج کے نام سے موجود ہے۔
1909ء میں ٹاؤن کمیٹی کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر کو پہلا چیئرمین قرار دیا گیا۔
1910ء میں پنجاب کے نہری نظام کی قدیم ترین اور مشہورنہر لوئر چناب تعمیر ہوئی۔
1920ء میں سرکلر روڈ سے باہر پہلا باقاعدہ رہائشی علاقہ ڈگلس پورہ قائم ہوا۔
1930ء میں یہاں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔
1934ء میں مشہورِ زمانہ لائلپور کاٹن ملز قائم ہوئی۔
1942ء قائد اعظم محمد علی جناح فیصل آباد تشریف لائے اور انہوں نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈمیں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
3 مارچ 1947ء کو قیام پاکستان کا اصولی فیصلہ اور لائلپور کی پاکستان میں شمولیت بارے خبر ملنے پر لائلپور کے مسلمانوں نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور مٹھایاں بانٹیں۔
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا، جس کے باعث شہر کا رقبہ بھی وسعت اختیار کر گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت شہر کا رقبہ صرف 3 مربع میل تھا، جو اب 10 مربع میل سے زیادہ ہو چکا ہے۔ بہت سے نئے رہائشی علاقے بھی قائم ہوئے، جن میں پیپلزکالونی اور غلام محمدآباد جیسے بڑے علاقے بھی شامل ہیں۔
1977ء میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لائلپور کو میونسپلٹی سے ترقی دے کر میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا۔
1982ء میں اسے ضلع فیصل آباد، ضلع جھنگ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ پر مشتمل ڈویژنل صدر مقام قرار دیا گیا۔
2005ء میں یہاں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام لاگو کیا گیا۔
فیصل آباد کی اہم خصوصیت شہر کا مرکز ہے، جو ایک ایسے مستطیل رقبے پر مشتمل ہے، جس کے اندر جمع اور ضرب کی اوپر تلے شکلوں نے اسے 8 حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کے درمیان میں، جہاں آ کر آٹھوں سڑکیں آپس میں ملتی ہیں، مشہورِ زمانہ گھنٹہ گھر کھڑا ہے۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر ملنے والی آٹھوں سڑکیں شہر کے 8 اہم بازار ہیں، جن کی وجہ سے اسے آٹھ بازاروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر سے شروع ہو کر بیرونی طرف پھیلتے ہوئے بازار اس جگہ کو برطانوی پرچم کی شکل دیتے ہیں، جو سر جیمزلائل نے اپنے ملک کی یادگار کے طور پر یہاں چھوڑا ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کا فیصلہ ڈپٹی کمشنرجھنگ کیپٹن بیک (Capt Beke) نے کیا اور اس کا سنگ بنیاد 14 نومبر 1903ء کو سر جیمز لائل نے رکھا۔ جس جگہ کو گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے منتخب کیا گیا وہاں لائلپور شہر کی تعمیر کے وقت سے ایک کنواں موجود تھا۔ اس کنوئیں کو سرگودھا روڈ پر واقع چک رام دیوالی سے لائی گئی مٹی سے اچھی طرح بھر دیا گیا۔ یونہی گھنٹہ گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر 50 کلومیٹر کی دوری پر واقع سانگلہ ہل نامی پہاڑی سے لایا گیا۔
1906ء کے اوائل میں گھنٹہ گھر کی تعمیر کا کام گلاب خان کی زیرنگرانی مکمل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ گلاب خان کا تعلق اسی خاندان سے تھا، جس نےبھارت میں آگرہ کے مقام پر تاج محل تعمیر کیا تھا۔ گھنٹہ گھر 40 ہزار روپے کی لاگت سے 2 سال کے عرصے میں تعمیر ہوا۔ اس کی تکمیل پر ایک تقریب کا انعقاد ہوا، جس کے مہمانِ خصوصی اس وقت کے مالیاتی کمشنر پنجاب مسٹر لوئیس تھے۔
گھنٹہ گھر میں نصب کرنے کے لیے گھڑی بمبئی سے لائی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لائلپور کا گھنٹہ گھر ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو 80 سال قبل فوت ہو چکی تھیں۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر سے پہلے شہر کے آٹھوں بازار مکمل ہو چکے تھے۔
برطانوی پرچم یونین جیک پر مبنی فیصل آباد شہر کا نقشہ اس دور کے ماہرتعمیرات ڈیسمونڈ ینگ (Desmond Yong) نے ڈیزائن کیا، جو درحقیقتسرگنگا رام کی تخلیق تھا، جو اس دور کے مشہورآبادیاتی منصوبہ ساز (town planner) تھے۔
آٹھ بازاروں پر مبنی شہر کا کل رقبہ 110 مربع ایکڑ تھا۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر باہم جڑنے کے علاوہ یہ آٹھوں بازار گول بازار نامی دائرہ شکل کے حامل بازار کی مدد سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یونین جیک کی بیرونی مستطیل آٹھوں بازاروں کے آخری سروں کو بھی سرکلر روڈ کی شکل میں آپس میں ملاتی ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کے وقت اس کے گرد 4 فوارے بنائے گئے تھے، جو کچہری بازار، امیں پور بازار، جھنگ بازار اور کارخانہ بازار کی سمت موجود تھے اور انہیں آٹھوں بازاروں میں سے دیکھا جا سکتا تھا، مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں سے 2 فوارے غائب ہو چکے ہیں۔ اب صرف کچہری بازار اور جھنگ بازار کی سمت والے فوارے قائم ہیں۔
اگرچہ 114 سال گزرنے کے باوجود گھنٹہ گھر کی بیرونی حالت درست حالت میں ہے، تاہم اس کی اندرونی حالت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اگر اس کی مرمت پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو اہل فیصل آباد زلزلے کے کسی چھوٹے جھٹکے سے ایک اہم تاریخی ورثے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
گھنٹہ گھر کی اندرونی سیڑھیوں اور ستونوں کا پلستر ٹوٹنا شروع ہو چکا ہے۔ سیاح اس کی اڑی ہوئی رنگت اور ہر طرف اڑتی ہوئی دھول سے پریشان ہوتے ہیں۔
فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کے گرد قائم 8 بازاروں کے نام اس سمت واقع کسی اہم علاقے کی غمازی کرتے ہیں۔
ریل بازار – سمت بجانب مشرق – اس کی بیرونی سمت ریلوے روڈ واقع ہے، جو ریلوے اسٹیشن کو جا نکلتا ہے۔
کچہری بازار – سمت بجانب شمال مشرق – اس کی بیرونی طرف عدالتیں قائم ہیں۔
چنیوٹ بازار – سمت بجانب شمال – اس طرف ضلع چنیوٹ واقع ہے۔
امیں پور بازار – سمت بجانب شمال مغرب – یہاں سے ایک سڑک امیں پور بنگلہ کی طرف جاتی ہے۔
بھوانہ بازار – سمت بجانب مغرب – اس سمت میں بھوانہ واقع ہے۔
جھنگ بازار – سمت بجانب جنوب مغرب – اس بازار کا رخ جھنگ کی طرف ہے۔
منٹگمری بازار – سمت بجانب جنوب – اس بازار کا نام ساہیوال کے پرانے نام منٹگمری کی وجہ سے رکھا گیا، جو اسی سمت واقع ہے۔
کارخانہ بازار – سمت بجانب جنوب مشرق – اس جانب قدیم دور میں کارخانے قائم تھے، جن میں سے چند ایک اب بھی باقی ہیں۔
گول بازار – یہ بازار مذکورہ بالا آٹھوں بازاروں کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہوئے گزرتا ہے اور اس گول دائرہ نما بازار کے ذریعے وہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
قیام پاکستان کے موقع پر انگریزوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ لائلپور کے آٹھ بازاروں کی صورت میں اپنی شناخت، برطانوی پرچم (یونین جیک) ہمیشہ کے لیے اس خطے میں امر کر کے جا رہے ہیں، جبکہ رد عمل میں یہاں کے باسیوں کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ برطانیہ کے پرچم کو صبح و شام اپنے قدموں تلے روندھتے رہیں گے۔