"ساندل بار "پنجاب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی سی حیثیت رکھتا ہے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پنجاب کی ،قیام پاکستان سے پہلے دوسرے شہروں کی نسبت فیصل آباد کا خطہ کچھ زیادہ ہی بنجر اور ویران کہلاتا تھا ۔۔یہ علاقہ " ساندل بار " اور " سانڈل بار " کے نام سے مشہور ٹھا ۔ پنجاب سے ہجرت کر کے آئے ہوئے کسانوں، محنت کشوں اور زمینداروں نے ساندل بار کے ویرانے کو سر سبز اور ہرے بھرے کھیتوں میں تبدیل کر دیا ۔آج سے کم از کم ایک سو بیس سال پہلے یہ علاقہ جنگلوں پر پھیلا ہوا ٹھا ۔اس علاقہ کو " سند بار " بھی کہا جاتا ہے ۔دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان پھیلا ہوا یہ علاقہ کاشتکاری کے قابل نہیں ہوتا تھا اس لیے یہاں آئے ہوئے لوگوں نے اپنے خون پسینے کے ساتھ اس علاقے کو ہریالی کے قابل بنایا ۔۔
فیصل آباد کا قیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغل حکمران اکبر کے دور حکومت میں دہلی کے نزدیک رہنے والے لوگ اپنے اختلاف کی وجہ سے بہت سے گروپوں میں تقسیم تھے، ان میں بہت سارے لوگ اپنی ریاستوں کے مالک بنے ہوئے تھے،اکبر بادشاہ نے ان سرکشوں کو اپنی تلوار سے فتح کرلیا۔ یہ لوگ مغل فوجوں کا مقابلہ نہ کرسکے وہ جنگلوں اور ویرانوں میں جا کر چھپ گئے ،ان لوگوں نے جنگل آباد کیے اور حضرت بابا نور شاہ ولی کے دربار کے قریب ایک چھوٹی سی بستی آباد کر لی ، یہ علاقہ چونکہ ویران اور بنجر تھا اس لئے ڈاکوؤں اور چوروں نے اس کو اپنی پناہ گاہ بنا لی۔۔1857ء کی جنگ سے فارغ ہو کر انگریزوں نے اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے ،راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے بعد انگریزوں نے نئی آبادیوں کی طرف رخ کر لیا اس وقت یہ علاقہ "ساندل بار "کے نام سے مشہور تھا ۔1870ء اور 1880ء کے درمیان خشک سالی اور قحط کی وجہ سے کسان بغاوتوں نے ہندوستان کے سارے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔89-1880ء کے دوران کسانوں کو زبردستی میدانی علاقوں میں منتقل کردیا گیا رسمی طور پر تو انہیں زمینوں کا مالک بنایا گیا ۔۔
محمد اسلم آتش کاشمیری اپنے ایک مضمون "لائل پور سے فیصل آباد تک" میں کاشتکاروں کو آباد کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
" لدھیانہ ، سیالکوٹ ،ہوشیار پور اور امرتسر سے کاشتکاروں کو لا کر یہاں انھیں -150 روپیہ فی ایكڑ سے زمین دی گئی۔""
حقیقت میں ان کسانوں کی حثییت غلاموں سے بھی بدتر تھی، یہ صرف ایک برآمدی اجناس ہی کاشت کر سکتے ٹھے ،_جس کی قیمت بہت کم مقرر ہوتی تھی ۔ان کو پانی کے استعمال پر بھاری لگان ادا کرنا پڑتا ٹھا ۔حکام کی اجازت کے بغیر یہ اپنی رہائش تبدیل کرنے کے مجاز نہ ٹھے ، ان علاقوں میں بے زمین کاشت کاروں کی محنت کے استحصال کے ذریعے یہاں کیسے شہر آباد کیے گئے۔۔ پروفیسر اشفاق بخاری اپنی تصنیف "چناب کلب" میں لکھتے ہیں۔
" ایک عجوبہ روزگار نہری نظام کو عملی شکل دینے کے لیے لائل پور میں زمینوں میں چناب کالونی کے نام سے پہلی آبادی قائم کی۔ گئی ، یہ کینال کالونی پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز براڈ وڈ لائل کے نام سے منسوب ہوئی ۔۔لائل کے ساتھ ہندوستان میں بولی جانے والی پراکرت کے لفظ " پور "کو شامل کیے جانے کے بعد لائل پور نامی بستی ضلع جھنگ تشکیل دی گئی ۔"
تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فیصل آباد کا آغاز " پکی ماڑی "( نور شاہ ولی) سے ہوا ، پکی ماڑی کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ملک اشفاق اپنی کتاب " لائل پور کی مختصر تاریخ " میں لکھتے ہیں ۔۔
" پکی ماڑی کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ ایک شخص نے چنیوٹ سے پکی ماڑی سے پکی اینٹیں منگوا کر وہاں دو منزلہ مکان بنا رکھا ٹھا ۔جس کو لوگ پکی ماڑی کہتے ٹھے ۔۔شام کے وقت گرمی بہت زیادہ تھی _ ایک شام صاحب بہادر تحصیلدار کو ساتھ لے کر دور تک سیر کے لیے نکل گئے ۔صاحب بہادر سے تحصیلدار نے کہا کیوں نہ یہاں ایک شہر آباد کیا جائے ۔۔،صاحب بہادر نے کہا میں گورنر صاحب سے بات کروں گا۔ پھر اگلی صبح ڈی سی صاحب رات بھر بسر کرکے لاہور چلے گئے ۔"
یہاں خانابدوش اور پنجاب سے ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں ۔"1885ء کے دور میں" ساندل بار کا علاقہ جنگ میں شامل تھا ،اس حوالے سے ساندل بار میں جنگ شہر کو بڑا شہر سمجھا جاتا تھا ۔ساندل بار کے مشرقی علاقے کا واحد مقام" پکی ماڑی" دریائے چناب سے تقریبا 21 میل دور ہے ۔۔یہاں حضرت بابا نور شاہ ولی کا دربار ہے۔۔ دور دراز کے علاقوں سے لوگ یہاں آکر منتیں اور مرادیں مانگتے اور سکون محسوس کرتے ہیں۔۔صرف"پکی ماڑی" ایک ایسی جگہ تھی جہاں انسانی آبادی تھی ۔۔ورنہ سارا علاقہ جنگلوں پر پھیلا ہوا ٹھا ۔۔آہستہ آہستہ انگریز انجینئروں نے "پکی ماڑی" سے ایک میل دور اس جنگل میں رہ کر اس جنگل کی کٹائی شروع کر دی ۔۔۔ سیالکوٹ، لدھیانہ، جالندھر اور ہوشیار پور سے کسانوں اور کاشتکاروں کو بلوایا گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ علاقہ آبادی کے قابل ہوگیا ۔انگریز افسروں کی رہائش کے بارے میں پروفیسر اشفاق بخاری لکھتے ہیں۔
"کلب کی تعمیر لائل پور شہر بسائے جانے سے قبل چناب کالونی( موجودہ نہری کالونی بالمقابل اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے نام سے کرمچی رنگ کی اینٹوں سے بنی رہائش گاہوں اور دفتروں کے چند کمروں پر مشتمل تیار کی جاچکی تھی، یہ محض پہلا پڑاؤ تھا-"
سر جیمز کے نام پر بنائے جانے والے قصبہ 1896ء میں معرض وجود میں آیا ،اس قصبہ کو پوپم ینگ ( سی آئی ای) نے ایک مربع فٹ میں ڈیزائن کیا۔۔۔ آٹھ بازار تعمیر کیے اور ایک شاندار گھنٹہ گھر بنایا تقریبا ایک سو دس ایکڑ چار مربع فٹ کے پھیلاؤ میں جنوب مشرق اور شمال مشرق کی جانب آٹھ بازار اور ایک چوک ترتیب دیا۔ بحثیت ٤٣٢٢٢٥ لاکھ روپے میں زیادہ تر جگہیں قصبہ اور کچھ اس کے اردگرد کے پھیلاؤ میں بیچی گئیں ۔۔۔
فیصل آباد کا حدود اربعہ اور محل وقوع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں کوئی چیز جا کر ختم ہوتی ہے اس کو حد کہتے ہیں ،کسی جگہ کا حال بیان کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے چاروں طرف کون سی چیز ، جگہ واقع ہے کیوں کہ اس سے اس جگہ کا پتہ چلتا ہے ،اسی بیان کو حدود اربعہ کہتے ہیں ، جس کے معنی ہیں ، چاروں حدیں ، مثال کے طور پر ضلع فیصل آباد کا حال بیان کرنے سے پہلے بتایا جائے کہ اس کے شمال میں ضلع جھنگ مشرق میں ضلع شیخوپورہ اور دریائے راوی مغرب میں جھنگ اور ملتان کا کچھ حصہ ہے۔۔
طول و عرض ،شکل اور رقبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد ضلع کی زمین بہت لمبی چوڑی ہے جس کی زیادہ لمبی مشرق کی طرف سانگلہ ہل سے لے کر شورکوٹ تک جو مغرب کی طرف ہے ۔92 میل ہے اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی شمال سے جنوب تک یعنی نہر جھنگ برانچ سے بچیکی تک 60میل ہے۔۔نقشہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضلع کی شکل تکونی ہے ، ضلع فیصل آباد کا کل رقبہ 100 مربعہ میل ہے ۔۔
سطح زمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع فیصل آباد کی سطح ہموار ہے ۔۔
ڈھلان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع فیصل آباد اور جنوبی حد کے ساتھ دریائے راوی اور شمال مشرق سے جنوب مغرب کی طرف بہتا ہے اور جو نہریں اس ضلع کو سیراب کرتی ہیں وہ بھی شمال مشرق سے جنوب کو بہتی ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضلع کی ڈھلان شمال مشرق سے جنوب مغرب کو ہے ۔۔
۔
چناب کالونی سے لائل پور تک کا سفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائل پور کا قیام 1877ء میں عمل میں آیا ۔۔ساندل بار کے اس علاقے کو " چناب کالونی " کہا جاتا تھا ، اور یہ راوی اور چناب کے دریاؤں کے درمیان دوآبہ رچنا کےکے علاقہ ساندل بار میں واقع ہے اس کالونی کا زیادہ تر حصہ ضلع جھنگ میں موجود ہے لیکن اس میں گوجرانوالہ ضلع کی نئی تحصیل خانقاہ ڈوگراں کا تقریبا نصف حصہ تحصیل حافظ آباد کے چار موضعات اور لاہور ضلع کی تحصیل شرقپور کے 9 موضعات بھی شامل ہیں۔۔چناب کالونی میں لفظ " چناب " کے بارے میں پروفیسر اشفاق بخاری لکھتے ہیں
" چناب ہندو کلاسیک میں دریائے چناب کا قدیم نام چندرا بھاگا ہے سکندر اعظم کے حملہ کے وقت چناب کا نام "Akesiness" تھا ۔"
اٹھارہ سو پچاسی تک سانگلہ ہل سے شورکوٹ روڈ تک سرکاری زمین غیر آباد جنگلی جھاڑیوں پر مشتمل تھی اور ساندل بار کہلاتی تھی ہر بابا نور شاہ ولی کے دربار کے قریب پکا ماڑی کچی بستی تھی۔
فیصل آباد ، آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا تیسرا اور پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ ضلع، فیصل آباد، سمندری، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ اور چک جھمرہ کی پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔
اس ضلع کے شمال میں حافظ آباد اور شیخوپورہ، مشرق میں ننکانہ اور ساہیوال، جنوب میں ساہیوال اوکاڑہ، مغرب میں جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع واقع ہیں۔ ماضی میں یہاں بے آب و گیاہ تھا اور ہرسُو جنگل پھیلے ہوئے تھے۔
کہیں کہیں دیہاتی زندگی کے آثار تھے۔ جن کے باسیوں کو جانگلی کہا جاتا تھا۔ اِسے ساندل بار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ساندل بار کی تہذیبی اور معاشرتی روایات اگرچہ اپنے پس منظرمیں ہزاروں برس کی طویل تاریخ رکھتی ہیں لیکن ایک صدی پہلے تک اس ضلع کا شمار برصغیر پاک و ہند کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا تھا۔ ساندل بار کی وجہ تسمیہ کے متعلق تین مختلف روایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دُلاّ بھٹی کے دادا کا نام بجلی خان عرف ساندل تھا، دوسری شاہکوٹ کی پہاڑیوں کے ڈاکو سردار کا نام بھی ساندل تھا اور تیسری یہ کہ جنگل کے چوہڑوں کے سردار کا نام چوہڑ خان عر ف ساندل تھا۔ ان تین میں سے کسی ایک کے نام پر یہ علاقہ ساندل بار مشہور ہوا۔
۱۸۸۵ء میں لیفٹیننٹ گورنر مسٹر جیمس لائل نے لاہور سے جھنگ شہر کی طرف سفر کرتے ہوئے تحصیل چنیوٹ میں شامل ساندل بار کے بے آباد مگر سرسبز و شاداب علاقے میں پکی ماڑی کے ایک گاؤں میں پڑاؤ کیا۔ ایک نوجوان انگریز انجینئر کیپٹن نیگ شھی اس کے ساتھ تھا۔ جیمس لائل نے پکی ماڑی میں چند روز کے قیام کے د وران گھوڑوں پر سوار ہو کر پکی ماڑی کے چاروں اطراف کئی کئی میل تک سفر کر کے اس علاقے کو دیکھا۔
کنوؤں کا پانی چکھ کر دیکھا۔ کئی کئی میل کے فاصلے پر مقامی لوگوں نے کچے مکانوں پر مشتمل اپنے گھر تعمیر کر رکھے تھے۔ جیمس لائل نے ساندل بار کے اس علاقے کو زرخیزی کے باعث اس کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس غرض سے پکی ماڑی سے جنوب مغرب کی طرف تھوڑے فاصلے پر نئے شہر کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ شہر کی تعمیر سے پہلے نہر رکھ برانچ کی تعمیر کا آغاز ہوا۔
دیہات بندی اور سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ سانگلہ ہل سے شور کوٹ تک ریلوے لائن بچھانے کا اہتمام ہوا اور اس طرح دیہات بندی اور مختلف دیہات میں مشرقی پنجاب کے د یہات سے لوگوں کو زرعی رقبوں کی الاٹمنٹ کے منصوبے پر کام ہوتا رہا۔ سب سے پہلے ۱۸۹۰ء میں جنگل کی کٹائی کرکے موجودہ گھنٹہ گھر کی جگہ کنواں بنایا گیا اور اسلامی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق شہر کی بنیاد رکھی گئی اور ۱۸۹۲ء میں نہر لوئر چناب کی تکمیل کے بعد بندوبست کا آغاز ہوا۔
۱۸۹۵ء میں ریلوے کا آغاز ہوا۔ ۱۸۹۹ء میں ٹوبہ ٹیگ سنگھ اور ۱۹۰۰ء میں خانیوال تک اسے ملا دیا گیا۔ ۱۸۹۶ء میں کہ جب شہر کی کچھ آبادیاں بھی معرضِ وجود میں آ چکی تھیں اور دفاتر بھی بن چکے تھے تو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز بی لائل نے چک ۲۱۲ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کی چار ایکڑ زمین کو لائل پور کا نام دیا گیا۔ لائل پور کے کالونائزیشن آفیسر سر کیپٹن پونام ینگ نے یونین جیک کی طرز پر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کا نقشہ لائلپور کے لیے بنایا۔
۱۸۹۷ءمیں قیصری دروازے کی تعمیر ہوئی۔ یہ دروازہ لالہ موہن لعل خلف بہاری لعل نے ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر تعمیر کروایا تھا۔ قیصری گیٹ سے تقریباً ایک سو پچاس فٹ کے فاصلے پر گو مٹی تعمیر کی گئی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کئی سالوں تک یہ گومٹی مسافر خانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کے اطراف میں ’’برکت دریائے چنا ںدی‘‘ کے الفاظ درج ہیں۔ لائلپور کے آٹھ بازار اور ان آٹھ بازاروں کے دامن میں رہائشی مکانات ۱۸۹۸ء تک تعمیر کے مراحل میں تھے۔
ان بازاروں کے عین وسط میں گھنٹہ گھر تعمیر ہوا۔ اس کا افتتاح ۱۴ نومبر ۱۹۰۳ء کو سر چارلس رواز گورنر پنجاب نے کیا۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے حکومت نے زمینداروں پر دو ٹکے کے حساب سے ٹیکس عائد کیا تھا۔ اس پر کل چالیس ہزار روپے خرچ ہوا تھا۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر انگریزی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ اس کے چاروں طرف ریل بازار، جھنگ بازار، کچہری بازار، چنیوٹ بازار، بھوانہ بازار، امین پور بازار، منٹگمری بازار اور کارخانہ بازار تعمیر ہوئے۔ ان آٹھ بازاروں میں سے چار کُشادہ اور چار ذرا تنگ ہیں۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر تاج محل آگرہ بنانے والے معماروں کے خاندان کے ایک شخص گلاب خان کی نگرانی میں ہوئی۔ گھڑیال بمبئی کے ایک گھڑی ساز نے فراہم کیا تھا۔ شہر کا ڈیزائن ڈسمنڈ ینگ نے بنایا مگر ڈیزائن کو اصل صورت سر گنگا رام نے دی۔ پہلی بستی ڈگلس پورہ تھی ۔ لائلپور کو ۱۸۹۹ ء میں درجہ دوم کی میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا۔ ۱۹۰۴ء میں اس کو میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔
کمیٹی کی حدود ۱۹۱۶۰ ایکڑ اراضی ، شہر کی آبادی ۹ ہزار اور ایک اینگلو ورنیکلر سکول تھا۔ اس وقت لائلپور تحصیل کی حیثیت سے ضلع جھنگ میں شامل تھا۔ ۱۹۰۶ء میں اسے ضلع کا درجہ دے کر سمندری ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لائلپور کی تحصیلیں شامل کی گئیں جبکہ جڑانوالہ کو سب تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ بعد ازاں جڑانوالہ کو بھی تحصیل کا درجہ حاصل ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ٹوبہ ٹیک سنگھ ۱۹۷۹ء میں ضلع بنا دیا گیا تو ضلع لائلپور کی حدود کم ہو گئیں۔
ضلع کی بیس لاکھ ایکڑ اراضی بحساب کسان ایک مربع کاشتکار چار پانچ مربع اور زمیندار چھ سے بیس مربع تک تقسیم کی گئی۔ شہری اراضی ایک روپیہ فی مرلہ تک فروخت کی گئی۔ شہر میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کیلئے ۱۹۰۶ء میں زرعی کالج کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ کالج کی عمارت ۱۹۰۹ء میں مکمل ہوئی جس کو پنجاب ایگریکلچرل کالج اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا نام دیا گیا اور بعد میں ۱۹۶۱ء میں اسے مغربی پاکستان زرعی یونیورسٹی اور ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے قیام کی صورت میں زرعی تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ۱۹۱۰ء میں یہاں پرائمری سکول قائم ہوا جو آج کل ایم سی ہائی سکول علامہ اقبال ٹاؤن ہے۔
۱۹۱۱ء میں لائلپور کی آبادی ۱۱ ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور یہاں ۱۱ جننگ فیکٹریز تھیں۔ ۱۹۱۲ء میں کارونیشن لائبریری کا قیام ہوا جو موجودہ علامہ اقبال لائبریری ہے۔۱۹۳۴ء میں طلباء و طالبات کے کالجز وجود میں آئے۔ ۱۹۳۳ء میں لڑکوں کے کالج اور ۱۹۳۸ء میں لڑکیوں کے کالج کو ڈگری کا درجہ حاصل ہوا۔ اب لڑکوں کا کالج یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں جتنے سکھ اور ہندو آباد تھے، یہ سب نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے اور ان کی جگہ جالندھر، ہوشیار پور اور امرتسر وغیرہ کے علاقوں سے مسلمان آ کر آباد ہوئے۔ یوں شہر اور علاقے کی تہذیب و ثقافت نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جناح کالونی کی جگہ میلہ منڈی مویشیاں کے لیے مخصوص تھی۔ اسے ۱۹۵۰ء کے عشرے میں سمندری روڈ پر موجودہ علاقہ اقبال کالونی والی جگہ پر منتقل کیا گیا اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں اس سے آگے موجودہ بائی پاس کے پہلو میں منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد غلہ مندی کو کارخانہ بازار اور ریل بازار کے درمیان سے ڈجکوٹ روڈ پر منتقل کر دیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت شہر کی آبادی آٹھ بازاروں سے باہر سنت پورہ، پرتاب نگر، ہرچرن پورہ، گورونانک پورہ، ماڈل ٹاؤن اور پکی ماڑی کے عقب میں طارق آباد کی کالونیوں تک پھیل چکی تھی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نہر رکھ برانچ کے دوسری طرف پیپلز کالونی اور دیگر رہائشی علاقے تعمیر ہونا شروع ہو گئے۔ غلام محمد آباد ، سمن آباد، ڈی ٹائپ کالونی، رضا آباد، افغان آباد، ایوب کالونی اور ناظم آباد کے رہائشی منصوبے ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں تعمیر ہوئے۔ بعدازاں مدینہ ٹائون اور پیپلز کالونی کی رہائشی کالونیاں تعمیر ہوئیں۔ گلستان کالونی، گلفشاں کالونی، ملت ٹاؤن وغیرہ کی تعمیر سے شہر کا دامن چاروں اطراف میں کئی کئی میل تک پھیلا گلبرگ ، جناح کالونی ،رضا آباد ، مدینہ ٹاؤن ، خیابان کالونی ،آفیسرز کالونی، پیپلز کالونی ،بٹالہ کالونی،محمدی کالونی،طارق آباد، چباں، گلستان کالونی ،تاج کالونی، مائی دی جوگی،بولے دی جھگی ، منصورہ آباد، گلشن کالونی، سِدھوپورہ، خالد آباد، جناح کالونی، شاداب کالونی، شیخ کالونی، گلفشاں کالونی ، راجہ کالونی، ماڈل ٹاؤن، علامہ اقبال کالونی، ملت کالونی ، عبداللہ پور، مسلم ٹاؤن، سوساں، لاثانی ٹاؤن ،طارق آباد، اسلام نگر، گل بہار، شالیمار پارک، نعمت کالونیز ،رچناٹائون اور النجف کالونی وغیرہ اس کی اہم رہائشی بستیاں ہیں۔۔ نئی کالونیوں میں ایڈن نام سے کئی کالونیاں ، ریاض الجنہ کالونی ، گلشن مدینہ ، ستارہ سپنا سٹی ، ستارہ گولڈن سٹی ،الرحیم ٹاون ،واپڈا سٹی ، ٹیک کالونی ،ڈاکٹر سٹی ،لاثانی کالونی ، سہگل سٹی ، چناب گارڈن، کلیم شہید کالونی کے علاوہ فیصل آباد سےنکلنے والی چاروں بڑی جی -ٹی روڈز پر بے شمار کالونیوں کے جال بچھ چکے ہیں ۔۔
۱۹۷۷ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید کئے گئے تو حکومت پاکستان نے اظہار یکجہتی کیلئے شہر کا نام لائلپور سے تبدیل کرکے فیصل آباد رکھ دیا۔ ۱۹۸۱ء میں اسے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا اور اس میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور جھنگ کے اضلاع شامل کئے گئے۔ ۲۰۰۰ ء میں نئے ضلعی نظام کے قیام کے ساتھ ہی ڈویژنز ختم کر دی گئیں۔ ۲۰۰۸ء میں ایک بار پھر ڈویژنوں کو بحال کر دیا گیا تو فیصل آباد ڈویژن بھی دوبارہ قائم ہو گئی۔ ۱۹۵۹ء میں یہاں ٹیکسٹائل کالج اور اقبال اسٹیڈیم تعمیر ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں ملت کالج اور ایئرپورٹ بنے۔
۱۹۷۳ء میں پنجاب میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۴ء میں چیمبر آف کامرس اور پنجاب بیوریج کمپنی، ۱۹۷۵ء میں زرعی ترقیاتی کارپوریشن بینک اور ۱۹۷۶ء ایف ڈی اے اور واسا کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۸۰ء میں پاکستان ٹیلی ویژن ری براڈ کاسٹنگ کا آغاز ہوا۔ ۱۹۸۳ء میں شہر کی آبادی ۱۵ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ آج یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ زرعی یونیورسٹی ، نیاب ، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ، بنجی اور فاریسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ گٹ والا کی وجہ سے اسے سائنس سٹی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی یارن مارکیٹ ایشیاء کی سب سے بڑی یارن مارکیٹ ہے۔ضلع بھر میں تقریبا ۴۰۰ سے زائد بڑے صنعتی کارخانے کام کر رہے ہیں۔ جن میں زیادہ تر سوتی کپڑے کے کارخانے ہیں۔ صنعت و تجارت کے لحاظ سے بھی فیصل آباد ملک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں دو درجن کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے تھے جن کی تعداد ۱۹۴۸ء میں ۴۳ ہو گئی۔ اب صنعتی یونٹوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔کپڑے کی صنعت کے علاوہ آٹے، پٹ سن، بناسپتی گھی، خوردنی تیل، مشروبات، شکر، پلائی ووڈ، چپ بورڈ، مصنوعی کھاد، ہوزری، نشاستہ، گلو کوز، آرٹ سلک، ٹیکسٹائل مشینری، زرعی آلات اور کلاک تیار کرنے کے بہت سے کارخانے ہیں۔
صابن سازی کی صنعت بھی خاصی عروج پر ہے۔فیصل آباد کو قائد اعظم محمد علی جناح کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہے۔ قائد اعظم ۱۹۴۳ء میں تحریکِ پاکستان کے دوران یہاں تشریف لائے تھے اور دھوبی گھاٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب فرمایا تھا۔ ۱۹۵۱ ء میں فیصل آباد کی آبادی ایک لاکھ ۷۹ ہزار تھی۔ ۱۹۶۱ء میں چار لاکھ ۲۵ ہزار، ۱۹۷۲ء میں آٹھ لاکھ ۲۳ ہزار اور ۱۹۹۱ء میں گیارہ لاکھ چار ہزار تھی۔
فیصل آباد میں شعری روایت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد میں ادبی اور شعری روایت آغاز سے اب تک کم و بیش 100 سال سے زیادہ کو محیط ہے ۔پرانے اخبارات رسائل اور انجمنوں سے مل جانے والی قرارداد کے ذریعے سے یہاں کا جو شعری منظرنامہ مرتب ہوتا ہے ،اس میں نون -م راشد پہلے بڑے شاعر ہیں ۔جنہوں نے بیس کی دہائی میں گورنمنٹ کالج لائلپور سے ایف – اے کا امتحان پاس کیا تھا ۔۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے اسی کالج سے تعلیم حاصل کی تھی ۔
1940ء کے قریب محی الدین خلوت اور عبدالحق کامل نے اپنے اپنے انداز میں شعری روایت کو آگے بڑھایا ، قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بہت سارے ایسے شاعر سامنے آتی ہیں جنہوں نے اس شعری منظر نامے میں اپنی اپنی خداداد صلاحیتوں سے رنگ بھرے ہیں ۔
مقامی شاعروں میں خلیق قریشی اور منظور احمد منظور دو بڑے نام ہیں۔۔منظور احمد منظور ہمہ جہت فن کار تھے ۔انھوں نے شاعری میں ایک عرصے تک اردو غزل نظم کی تخلیق کی آبیاری میں حصہ لیا ۔۔منظور احمد منظور کا روشن دماغ روشنی اور زندگی کی گواہی بن کر" دیر و حرم" اور د"یدہ بینا" کی صورت ہم سے مکالمہ کر رہا ہے ۔۔
خلیق قریشی کا اصل نام غلام رسول تھا وہ 14 اگست 1916ء میں موضع لنگیاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔آپ نے اپنے آپ کو ہم جہت شخصیت کے طور پر منوایا ۔۔خلیق قریشی بیک وقت شاعر، ادیب ،صحافی، خطیب اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بانی پاکستان کے جان نثار تھے۔۔تحریک پاکستان، تشکیل پاکستان اور تکمیل پاکستان ان کی زندگی کا مطمح نظر رہا ۔۔"سر دوش ہوا "(نظمیں ) ، "برگ سدرہ " (نعتیں)،" نقش کف پا "(غزلیں )ان کی قادر الکلامی کا ثبوت ہیں ۔۔۔۔
۔ہجرت کے بعد یہاں آنے والے شہروں میں م- حسن لطیفی ،حافظ لدھیانوی، حزیں لدھیانوی ، فیض جھنجھانوی اور دوسرے شعرا تھے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے یہاں مقیم ہوگئے اور تا دم آخر یہیں رہے ۔ساٹھ کی دہائی میں اردو نظم اور غزل کی تازہ کاری کی ایک لہر نے جنم لیا ،جس میں افضل احسن رندھاوا نذیرناجی اور فاروق حسن کے نام نمایاں ہیں۔ ان کےبعد اقبال سروش اور تنویر جیلانی اورکچھ بعد میں عدیم ہاشمی کے نام سامنے آتے ہیں ۔۔۔۔فیصل آباد کی شعری روایت میں شاعرات کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ان شاعرات میںعزیز انجم حیدر روبینہ شوکت ڈاکٹر آنسہ احمد سعیداعوان، ڈاکٹر ناہید رفعت یاسمین، ساجدہ ہاشمی ،کنیز اسحاق ،ثمینہ رئیس نشیب ، رضیہ عثمانی ، گلفام نقوی ، میمونہ روحی اور محترمہ سمیرا کے نام نمایاں ہیں یہ وہ شاعرات ہیں جن کے شعری مجموعے چھپ چکے ہیں ۔۔۔۔
فیصل آباد میں حمد اور نعت گو شعراء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد اس صنف کے حوالے سے اپنا ایک خاص مقام اور اعتبار رکھتا ہے۔یہ فیصل آباد کی خوش نصیبی ہے کہ اس میں حافظ لدھیانوی، صائم چشتی، ریاض مجید ، حافظ محمّد حسین حافظ، رشید ہادی ، عبدالستار نیازی اور محمد امین علی شاہ نقوی جیسے بلند پایہ حمد اور نعت گو شعرا نے نعت کے مقام اور فروغ میں تاریخ ساز کام کیا ۔۔اور اردو زبان کی نعتیہ شاعری میں معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے نمایاں اضافے کیے ۔۔فیصل آباد کے جدید نعت گو شعرا نے موجود روایت کو اور آگے بڑھایا۔۔فیصل آباد میں بڑی تعداد میں شاعر ہیں ،جو بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرتے رہتے ہیں ۔۔باقاعدہ نعتیہ مجموعوں کے ساتھ ساتھ دیگر نظم اور غزل کے مجموعوںمیں بھی حمد و نعت ملتی ہیں ۔۔
پاکستان کے فیصل آباد شہر میں بڑی تعداد میں نعتیں لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں ۔۔فیصل آباد کے اسی اعزاز اور سعادت کے پیش نظر اس شہر کو "شہر نعت" بھی کہا جاتا ہے۔۔نعت لکھنے کے حوالے سے جس قدر فیصل آباد نے حصہ ڈالا ہے ۔وہ شاید ہی کسی اور شہر نے ڈالا ہو ۔۔فیصل آباد میں جن صاحب کتب نعت گو شعرا نے کثرت سے نعتیں لکھیں ۔۔ان میں منظور احمد منظور ،سید محمد امین علی شاہ نقوی ،کاوش زیدی ،غلام رسول خلیق قریشی ،سید مسرور الحسن مسرور بدایونی ،عبدالستار نیازی ،ریاض احمد پرواز ،آصف بشیر چشتی ،ڈاکٹر ریاض مجید ،سکندر ایاز سید ،زاہد فخری ،عظمت اللہ خان ،بشیر احمد قادری ،اختر سدیدی ،رشید ہادی ،حکیم رمضان اطہر ، محمّد طاہر صدیقی ،میاں منیر احمد منیر ،محمد سلیم حرم ،احمد شہباز خاور ،عبدالعزیز صابری عالی، محمود احمد مفتی ،ریاض احمد قادری ،محمد مسعود اختر ،ڈاکٹر محمد فاروق بھٹی ،پروفیسر سلیم قمر ،قمر الزمان قمر قادری ،فقیر مصطفی امیر نواز ،خان منیر احمد خاور ،نور محمّد نور کپور تھلوی ،افضل خاکسار ،حافظ محمد حسین حافظ ،بسمل شمسی ،،شاہد کوثری ،افضل کوٹلوی ،محمد سرور قمر قادری کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔یہ وہ نعت گو ہیں جن کے نعتیہ مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں ۔۔(ان کے علاوہ افضال احمد انور اور کوثر علی نعت میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں لیکن ان کا کوئی مجموعہ تا دم تحریر منظر عام پر نہیں آیا ہے)
فیصل آباد کے نظم گو اور غزل گو صاحب کتب شعراء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد میں ادبی اور شعری روایت کا آغاز اب سے کم و بیش 100 سال سے زیادہ کو محیط ہے ۔پرانے اخبارات، رسائل اور انجمنوں کی ملنے والی روداد کے ذریعے سے یہاں کا جو منظر نامہ مرتب ہوتا ہے۔۔اس میں ن۔ میم راشد پہلے بڑے شاعر ہیں۔انھوں نے گورنمنٹ کالج لائلپور سے اپنی شاعری کا آغاز کیا ۔۔۔مقامی شاعروں میں خلیق قریشی اور منظور احمد منظور دو بڑے نام ہیں ۔۔۔فیصل آباد میں نظم اور غزل کے صاحب کتب شعراء میں آس لدھیانوی ، احسن زیدی ،احمد ریاض ،اخلاق حیدرآبادی ،اختر سدیدی ،ارشد جاوید ،اشرف یوسفی ،اصغر علی بلوچ ،اصغر علی تبسم ،اصغر یگانہ ،افتخار نسیم ، افضل احسن رندھاوا ،انجم سلیمی ، انجم آرا زیدی ،،انور محمود خالد ،پلیز فاطمہ صدیقی ،تنویر جیلانی ،ثمینہ رئیس نشیب ،ثنا اللہ ظہیر، ڈاکٹر جانباز احمد مخفی،حزیں لدھیانوی،خالد عباس بابر ، خاور جیلانی ، خاور زیدی ، ڈاکٹر خرم الطاف ،خلیق قریشی ، رابعہ سرفراز ، رفعت ہاشمی ،ڈاکٹر ریاض مجید ، ساجدہ ہاشمی ، حکیم ساحر قدوائی ،سکندر ایاز سید ، سلیم بیتاب ، شازیہ کنول ،شاہد کوثری ،ڈاکٹر شاہدہ یوسف ، شمیم ظفر رانا ، شہزاد بیگ ، شہزادہ حسن ،طاہر صدیقی ،عابد جمیل عابد ،عامر سلیم بیتاب ،عبداللہ کامل دہلوی ،عدنان سرفراز ، ندیم ہاشمی ، عزیز انجم حیدر ،عنایت اللہ عاجز ،فیض جھنجھانوی ،کاشف نعمانی ،کائنات احمد ،کنیز اسحاق، گلفام نقوی ،محمد اسلم پروانہ ،محمد اشرف خان اشرف ، محمد افسر ساجد ، محمد رفیق شاہد ،محمد ثاقب رضا ،،محمود ثنا ،سید مسرور بدایونی ،مقصود وفا ،منصف ہاشمی ،منظر مفتی ،منظور احمد منظور ،نادر جاجوی ،ناز فاطمہ ،ناصر نظامی ،نذر جاوید ،نصرت صدیقی ،نعیم ثاقب ، نور محمّد نور کپور تھلوی ،واصل ہاشمی ، اشرف اشعری ، محمود رضا سید ،وحید احمد ،یعقوب مظہر گل کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔۔فیصل آباد میں اردو شاعری کی روایت کے ان اہم اور نمائندہ شعراء کا حوالا دیا گیا ہے۔۔ جنھوں نے فیصل آباد میں اردو نظم اور غزل کی روایت کے آغاز ،فروغ اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا اور اردو نظم اور غزل کی روایت سے منسلک رہتے ہوئے اس کے تسلسل کو برقرار رکھا اور اس میں منفرد اور توانا اضافے بھی کیے ۔۔۔اور اپنے مجموعے بھی چھپوائے ۔۔
فیصل آباد میں افسانہ نگاری کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانوی ادب جو مذہبی ادب کے بعد اس دور کا محبوب ترین موضوع ہے اپنی ایک الگ اور وسیع دنیا رکھتا ہے ۔ ۔اس میں پہلی بات یہ ہے کہ تبلیغ اسلام کا جذبہ اکثر بیشتر داستانوں اور افسانوں میں ایک مرکزی خیال رکھتا ہے۔۔افسانوں کے اہم اور بنیادی کردار ہمیشہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے علمبردار ہوتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی خاطر مصائب برداشت کرتے اور آزمائش سے گزرتے ہیں۔۔ افسانہ جدید ہو یا قدیم اردو میں لکھا گیا ہو یا کسی اور زبان میں، انسانی نفسیات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔
فیصل آباد کے جدید افسانہ نگاروں میں بھی شدید رد عمل اس وقت ہوا جب ترقی پسند تحریک کے دوران بے رحم حقیقت نگاری، مقصدیت کو مبالغہ آمیزی کی حد تک شامل کر دیا گیا۔چنانچہ جدید افسانہ نگاروں نے ادب میں کلیہ پرستی ،نعرے بازی اور ادب کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی کھل کر مخالفت کی۔1960ء کی دہائی میں اردو افسانہ نے موضوع رجحان کے اعتبار سے ایک بڑی کروٹ لی ۔درحقیقت اس تبدیلی کا بنیادی تعلق تہذیبی زندگی کی شکست و ریخت اور پرانی اقدار کے بوسیدہ ڈھانچے کا منہدم ہونا تھاکہ عصری زندگی بدلتی ہوئی ہیں تنی ترجیحات میں شعور و آگہی کے کئی روزن کھول دیے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور سماجی حالات میں تبدیلی آئی۔
فیصل آباد کے افسانہ نگاروں کے ہاں زبان و بیان کے نت نئے تجربے، فن کے ارتقا و تکمیل کے امکانات کا پتہ دیتے ہیں ۔ان کے ہاں ایک منفرد اور غیر روایتی اسلوب کو اپنانے کا میلان نظر آتا ہے۔۔ علی اختر، پرویز انجم ، اخلاق حیدرآبادی ،جاوید اقبال اور گلزار ملک کے ہاں ہر طرف بکھرے ہوئے موضوعات کی پرچھائیاں کرداروں ، مکالموں اور مناظر کی صورت میں ترتیب پا کر کہانی کا روپ دھار لیتی ہیں،لیکن ان میں فکر اور نظریہ کی مہک میں ابھی مقبول ہے جو کہانی کو افسانہ نگاروں کی نمائندگی اور ہمیشگی کا ضامن بنا دیتی ہے ۔۔
فیصل آباد کے افسانہ نگاروں اور ان کے افسانوی مجموعہ میں علی اختر کے " کرب کی دہلیز"، "بول ری گڑیا" ، آؤ درختوں پہ نام لکھیں"، "تیرا دھیان رہتا ہے"۔۔۔جاوید اقبال کے "تنہا چاند اور ساری راتیں"، "شام آشنا"، "خواب موسم" اور "آدھے درد کی شام "۔۔اخلاق حیدرآبادی کا "ادھوری تحریر"،گلزار ملک کے "آزادی کے لیے ایک مزدور کی موت"، "آگ "،"اندھوں کی بستی میں محبت"۔۔رفعت یاسمین کا با "بات سے بات "۔۔طاہرہ اقبال کے" سنگ بستہ"، "ریخت" اور "گنجی بار"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان میں جن سماجی معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پر قلم اٹھایا گیا ہے وہ سب اس عہد کے مسائل ہیں ان کے کردار انہی عوامل و عؤاقب کے بیچ زندگی گزارتے ہوئے ہماری آنکھوں دیکھے ہوئے کردار ہیں ۔۔" زندگی " ماضی حال اور مستقبل کی کڑیوں میں محصور ان کوئی نفسیاتی پیچیدگی پیدا کیے بغیر انہوں نے ٹھوس زندگی کی واضح کی کوشش کی ہے ۔۔فنی اور تکنیکی کمزوریوں سے قطع نظر ان کے ہاں مشاہدہ کی وسعت نے روز مرہ کی زندگی کے معمولی واقعہ سے مواد لے کر اختصار کے ساتھ کہانی میں سمو دیا ہے ۔۔۔فیصل آباد میں بھی جدید افسانے نے سیاسی معاشی معاشرتی جنسی اور نفسیاتی زاویوں کو بالکل نئے پیرہن عطا کر دیے۔۔۔
فیصل آباد میں ناول نگاری کا جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصل آباد میں لکھے گا ناول اردو ناول نگاری کی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ فیصل آباد کے ناول نگاروں نے اردو ادب میں لکھے جانے والے ناولوں میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ نہ صرف فیصل آباد کی علمی و ادبی روایت کا حصہ ہیں بلکہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کا باعث بھی بنے ہیں ۔ناول انگریزی کا لفظ ہے۔ ناول اور قصے میں بڑا فرق ہے ۔۔نام لسی بہت سے کام لیے گئے ہیں اس کے ذریعہ طنز کئے گئے ہیں وعظ و نصیحت کے دفتر کھولے گئے ہیں سیاسی مسائل حل کیے گئے ہیں۔ علمی مباحث بیان کئے گئے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد تفریح ہے۔ناول زندگی کی تصویر بھی ہے اور تفسیر بھی ،خواب بھی ہے جوانی کی تعبیر بھی اور سب سے بڑھ کر تنقید بھی ہےناول نگار زندگی کے چہرے سے نقاب اٹھاتا ہے ۔ زندگی کو دیکھنے کے بعد اسے دوسروں کو دکھانا بھی ناول نگار کا فرض ہے ۔ناول میں زندگی کے مختلف تجربات اور مناظر ہوتے ہیں ۔۔ناول لکھنے کے لیے بڑی پختگی اور پڑھے لکھے ہوئے شعور کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔فیصل آباد کے اہم ناول نگاروں میں بتول فاطمہ کا " برگ گل "، کلیسا سے کعبہ تک " ،سیمیں کرن کا ناول "خوشبو ہے تو بکھر جائے گی"،طاہرہ اقبال کے ناول "گراں "، عبداللہ حسین کے ناول " اداس نسلیں"،نادار لوگ "،"رات "،باگھ "، قید "، واپسی کا سفر "،،۔۔۔منزہ سلیم کے ناول" ادھوری عورت "،۔۔وحید احمد کا ناول " زینو "، مندری والا "، علی اختر کے ناول "پھر ایک تارا ٹوٹا"،بچھڑنا زخم دیتا ہے "،ڈاکٹر صاحب کمال کے ناول "خانم "،عشق جس نے کیا "، ضیاء حسین ضیاء کے ناول " مابین "،دروازہ گل "،محمد اکرام احسان کا ناول "راگنی "،محمد فیاض ماہی کے ناول " گھنگھرو اور کشکول "،کانچ کا مسیحا "،"شیشے کا گھر، پتھر کے لوگ "،میرا عشق فرشتوں جیسا "، محمد فاروق انجم کے ناول" زنجیر "، اور "بلندی " ،گلزار ملک کا ناول "صدی کی آخری محبت"، فیصل آباد کی ناول نگاری کے شعبے میں خوبصورت اضافہ ہیں ۔۔۔ ان تمام ناول نگاروں کا فن زندگی کی طرح جامد نہیں، متحرک ہے ۔اور ان ناول نگاروں کے ہاں مشاہدہ ،تخیل تصور ،فکر اور احساس میں ان کی شخصیت کا بڑا گہرا رنگ ابھرتا ہے۔ ان ناولوں میں ہمیں فنی پختگی کے معیاری نمونے ملتے ہیں ۔ان تمام ناول نگاروں نے عہد جدید کی سچی تصویریں پیش کی ہیں اور فکری آہنگ کے توسط سے معاشرتی حقیقت نگاری کو لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے۔۔
فیصل آباد گو کہ ایک صدی پرانا شہر ہے اور اس کی تہذیبی جڑیں زیادہ گہری اور قدیم نہیں ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے پنجابی شاعری میں سُندر داس عاصی، نند لال پوری اور تیجا سنگھ صابر کے نام نمایاں تھے۔ ان میں سے سندر داس عاصی ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ملک کے وقت لدھیانہ (بھارت) میں منتقل ہو گئے تھے۔ ’’پرلے پار‘‘ کے نام سے آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ نند لال نور پوری ضلع لائلپور (فیصل آباد) کے گاؤں نورپور میں ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئے۔ خالصہ کالج لائلپور میں زیرِتعلیم رہے۔ ادب و انشاء سے طبعی لگاؤ تھا۔ شعر و شاعری، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نویسی کی۔ فلم ’’منگتی‘‘ کی کہانی اور مکالمے ا ور گیت وغیرہ ترتیب دئیے۔ آپ کی تصانیف میں نور پریاں، ونگاں، چنگیاڑے، جیوندا پنجاب اور میرے پنجاب شامل ہیں۔ تیجاسنگھ صابر کا تعلق بھی لائلپور سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے وقت بھارت میں منتقل ہو گئے اور دہلی میں مقیم ہوئے۔
آپ کی تصانیف میں پرچھانویں ، یادگار، پورب دا چانن اور جگدیاں جوتاں وغیرہ شامل ہیں۔مشہور انڈین فلمی گیت کار ساحر لدھیانوی بھی فیصل آباد میں رہے تھے۔فیض جھنجھانوی، رفعت ہاشمی، سعید الفت، صائم چشتی، حزیں لدھیانوی، ثمر فردوسی، جمال الدین، حافظ لدھیانوی، جان جوزف، حامدالوارثی، بخش لائلپوری،حسن نثار ، بری نظامی، علامہ نور بخش توکلی جیسے ادیب اور شاعر بھی فیصل آباد کی دھرتی سے تعلق رکھتے تھے۔موجودہ دور کی جن اہم علمی و ادبی شخصیات کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ ان میں ڈاکٹر محمد باقر، باری علیگ ،سلیم بیتاب ،منظور احمد منظور ، افضل کوٹلوی، اشفاق بخاری ،عظمت اللہ خان ، پروفیسر عصمت اللہ خان ،گلزار ملک ، علی اختر ، حافظ لدھیانوی، ستار طاہر، ظہور عالم شہید، نادر جاجوی ، سید امین علی شاہ نقوی ، اختر سدیدی ، عبیر ابو زری ،سید زیارت حسین جمیل ، شوق عرفانی ، اقبال شیدا ، مسرور بدایونی ، نصرت صدیقی ، افضل احسن رندھاوا، اخلاق حیدر آبادی، اشرف اشعری، نور محمّد نور کپور تھلوی، خلیق قریشی، ظہیر قریشی ، عبد الستار نیازی ، غلام رسول شوق، ڈاکٹر شوکت علی قمر ، پروفیسر مفتی عبد الرؤف ، الیاس مرزا ، احمد شہباز خاور ، ڈاکٹر عبد الشکور ساجد انصاری ، منظر مفتی ، فقیر مصطفیٰ امیر نواز، ڈاکٹر محمد اختر چیمہ، شفقت حسین شفقت، ڈاکٹر محمّد عالم خان، ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، ڈاکٹر خالد عبّاس بابر ، اختر وارثی، زاہد فخری، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر زاہد اشرف ، حاتم بھٹی ، دلشاد احمد چن ،اسیر سوہلوی ، یعقوب سفر ، بیکس بٹالوی ، عبیر ابو زری،ڈاکٹر امداد حسین امداد ،شفقت حسین شفقت ،بدر منیر ڈار ،صدف جالندھری، ڈاکٹر شاہد اشرف، ڈاکٹر شبیر احمد قادری،پروفیسر ریاض احمد قادری، ثناءاللہ ظہیر،اشرف یوسفی، عبد الستار شاہد، محمّد فیاض ماہی ، فاروق انجم ، سلیم شاہد ، کنیز اسحاق ، ڈاکٹر سرور شیخ ،ڈاکٹر اصغر علی بلوچ ، ڈاکٹر سعید احمد ، عابد جمیل عابد ،حکیم رمضان اطہر ، انجم سلیمی ،کاشف نعمانی ، مقصود وفا ،ڈاکٹر حمید محسن ، کوثرعلی ، رانا محمّد گلزار کپور تھلوی ،محمّد اشرف خان شرف،
اقبال عظیمی ، ڈاکٹر افضال احمد انور، مقصود وفا،علی زریون،انجم سلیمی، ڈاکٹرقاسم یعقوب،علامہ ضیا ء حسین ضیاء،ڈاکٹر افضل حمید، ڈاکٹر جمیل اصغر، ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ، پروفیسر عبد الرحمن شاک