فیصل آباد کی ہمہ جہت پہچان صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر پروفیسر ریاض احمد قادری
علم وادب کے سرچشمۂ فیض ۔۔۔ایک انجمن اور بُلْبُلِ ہَزار داسْتاں
صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر پروفیسر ریاض احمد قادری
ازقلم۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم۔
سابق پرنسپل گورنمنٹ گریجویٹ کالج سمن آباد فیصل آباد۔
💥دنیا والے فیصل آباد کو ایک بے جان اور بے فیض گھنٹہ گھر کے حوالے سے جانتے ہیں۔۔مگر اہل علم و ادب کے علاوہ شائد ہی کسی کو خبر ہو کہ یہاں دو گھٹہ گھر ہیں۔
یہاں کا دوسرا گھنٹہ گھر نہ تو بے روح و جان ہے،نہ بے فیض۔
جیسے فیصل آباد شہر کے سب راستے شہر کے وسط میں موجود گھنٹہ گھر کی جانب کھلتے ہیں،اور متلاشیانِ روزگار اس کی جانب رخ کرتے ہیں،
بالکل اسی طرح علم،ادب،شعر ،شعور ،قلم و کتاب کے متلاشی اور طالب و جویان گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد کی خاک چھانتے ہیں ،جہاں علم وادب کا بڑا نام اور فیصل آباد کی ہمہ جہت پہچان جناب پروفیسر ریاض احمد قادری علم وادب کے سرچشمۂ فیض بنے پائے جاتے ہیں۔
میں ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کی طرح قلم کا دَھنی ہوں ،نہ پروفیسر ڈاکر کاشف نعمانی کی طرح طلیق اللسان ،نہ عالی وقار ڈاکٹر شبیر قادری کی طرح تحقیق و جستجو کا اعتبار و وقار کہ جناب ریاض قادری کے فضائل علم وادب پر کلام کی جرأت کرسکوں،نہ میرا مبلغ علم اتنا ہے،نہ فرد شناسی اور قدر افزائی کی کسی معمولی صلاحیت سے متصف کہ نابغہ روزگار شخصیت پر حرف زنی کروں۔
محض ایک ادنیٰ سا سرکاری انتظامی ملازم کہ جو اس سعادت و افتخار سے مشرف ہوا کہ جناب پروفیسر ریاض احمد قادری کے ساتھ سوا پانچ سال گزار سکے ۔
یوں تو فیصل آباد کا آسمان علم وادب دمکتی چمکتی کہکشاؤں سے بھرا پڑا ہے۔
جناب ڈاکٹر ریاض مجید، جناب پروفیسر طاہر صدیقی،جناب زاہد سرفراز زاہد،جناب ڈاکٹر طارق ہاشمی،جناب ڈاکٹر محمود رضا سید،جناب ڈاکٹر سعید احمد،جناب ڈاکٹر شبیر قادری ، جناب ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ، جناب ڈاکٹر افضل حمید،جناب ڈاکٹر کاشف نعمانی ،جناب ڈاکٹر رؤف بھٹی ،جناب ڈاکٹر جمیل اصغر، جناب ڈاکٹر آصف اعوان،جناب ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس ،جناب ڈاکٹر عمر حیات انصاری،جناب ڈاکٹر حامد بن جمیل، اور بے شمار اہل علم وادب ،اہل دانش،اہل فکر و درد اس آسمان ادب کی کہکشاوں کے دُبّ اکبر ہیں۔
مگر
ممدوحِ مکرم۔جناب ریاض قادری کی شخصیت ہی جدا ہے۔ مجھے اپنے سوا پانچ سالہ قیام گورنمنٹ کالج سمن آباد کے دوران اس عظیم نابغۂ عصر سے رفاقت کا شرف حاصل رہا۔
کالج میں موصوف کے ذمے بنیادی طور پر کالج کی ادبی تقریبات و معاملات کی نگرانی اور انعقاد تھا۔بلکہ۔ہر وہ کام جو دوسرا کوئی رفیق کار کرنے سے معذرت کرلے۔
ریاض قادری صاحب تقریبات کا انعقاد کرواتے،بچوں کو مختلف مقابلوں کی تربیت دیتے،تیاری کرواتے،ٹیمیں لے کر شہر اور بیرون شہر جاتے اور انعامات لے کر ہی واپس آتے۔
بورڈ کے مقابلے ہوں یا یونیورسٹی کے،کالجز کے ہوں یا حکومت کے مختلف اداروں کے ۔۔قادری صاحب کالج کے پاس وہ سکہ تھا،جو کھرا بھی تھا اور ہر جگہ چلتا بھی خوب تھا ۔
بلاشبہ تقریر، مباحثہ ،مذاکرہ، کوئز، مشاعرہ کوئی ایونٹ ہو،قادری صاحب بآسانی مینیج کرلیتے ۔۔
ریاض قادری صاحب کی گاڑی اور جیب ایسے سکوں سے بھری رہتی کہ ہر محفل،ہر شہر ،ہر ادارے میں بھرپور محفل بن اور سج جاتی۔
قادری صاحب وسیع المطالعہ تو ہیں ہی،وسیع المشرب بھی ہیں،وسیع الظرف بھی اور وسیع الفکر وشعور بھی، ردیف قافیہ،متنوع موضوعات ، مختلف خیالات اور تراکیب و الفاظ تو ان کی چھاگل سے عروض و قوافی کی چھلنیوں سے گزر کر مطر غزیر کی طرح جب چاہیں ،جہاں چاہیں ،نثر میں چاہیں یا نظم میں، برسنے اور چھلکنے کی یوں صلاحیت رکھتے ہیں کہ نہ ان کی چھاگل خشک ہوتی ہے،نہ قلم سوکھتا ہے،نہ الفاظ کی شدت و حدت کم پڑتی ہے۔
سنا ہے، کہیں شادی ہو،برات یا دولہا کے آنے میں دیر ہو تو دو تین سہرے اور غزلیں بسہولت لکھ دی جاتی ہیں،تنہائی ہو یا نہ ہو ،بس کاغذ اور قلم ہونا چاہیئے ۔
اسی طرح جنازگاہ میں بھی جنازے کی آمد میں تأخیر بھلے ہو ،ان پر الہام شعر و سخن کا نزول ہورہا ہوتا ہے۔
ان پر نزول شعر کا کوئی وقت مقرر ہے،نہ جگہ۔
ایک بار میں نے کلاس کے روسٹرم پرکھڑے انہیں شعروں کو کاغذ پر احاطۂ ضبط میں لاتے بچشم خود دیکھا اور دیکھتا ہی رہا۔۔اور دوسری بار دوسال قبل پھالیہ کی دوسری اہل قلم کانفرنس کے دوسرے دن کی ٹھنڈی صبح کو نماز فجر کے بعد دیکھا،جب سب نمازی اہل قلم بقایا نیند پوری کرنے بستروں پر دراز تھے،تو قادری صاحب شعر نظم۔کر رہے تھے ،پھر انہیں لاہور یا کراچی کے کسی رسالے کو نیٹ کے ذریعے سنانے اور لکھوانے لگے۔
جناب ریاض قادری اردو اور پنجابی کے مسلمہ قومی شاعر ہیں۔
صدارتی ایوارڈ۔ یافتہ ہیں۔نعت ان کا اصل اور اختصاصی میدان ہے۔ خادم نعت کا لقب بھی پایا ہے ،اور ایوارڈز تو ہزاروں ملے ہیں ملک بھر سے۔
قادری صاحب کی ادبی قدر و قیمت اور وقعت میرا نہ موضوع ہے ،نہ مجھ بے ادب و بے شعور کی اتنی تاب کہ بات کرسکوں۔
میرا میدان کار تو انتظامی اور تدریسی معاملات ہیں۔ اگرچہ قادری صاحب کی جلالتِ ادبی کے سامنے میرے یہ اختیار بھی کند اور جائزہ نظریں محدود ہیں،
تاہم قادری صاحب اپنی وضع قطع سے حقیقی “پروفیسر ” لگتے ہیں،
نجانے شعور و شاعری اور ادب کے اتنے تگڑے جرثومے ان میں کہاں سے آگئے۔۔یقینا یہ پرانے وقتوں کے بھلے پروفیسر ہیں جو علم و ادب سے خود کو مربوط رکھتے ہیں۔اور اس میں عمریں کھپاتے اور یوں علم ،شعور اور تجربے کے ساتھ سرد و گرم چشیدگی اور زمانے کے نشیب وفراز کی بھٹی میں ایک عرصہ جھونک کر خود کو کندن بنانے کے صبر آزما عمل کشید سے گزار کر “پروفیسر” بناتے ہیں اور انکساری سے کہلانے میں شرماتے ہیں ۔
اب جدید زمانہ ہے
ادھر اپ نے ایم۔اے کیا۔کوئی پرائیویٹ سکول یا اکیڈیمی جوائن کی،اور خود کو پروفیسر ۔۔بلکہ۔۔۔سر ۔۔بھی لکھوانا شروع کردیا۔
پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوا،کورس ورک بھی شروع نہ ہوا کہ “ڈاکٹر” کا لاحقہ لگالیا،
مدرسے کے وسطی سالوں میں پہنچے،آبائی مسجد۔ و مکتب سنبھالتے ہی ” مفتی ” ,”علامہ “اور “فضیلۃ الشیخ” کے علاوہ کئی القاب و آداب سے متصف و مشرف ہو گئے۔۔
یہ قصہ اور نوحہ تو بہت طویل ہے،جس کا یقینا یہ محل ہے ،نہ مقام۔
پروفیسر صاحب کی تدریس و نتائج کے بارے میں تو مجھے کچھ علم نہیں۔۔جو جاننا اور نظر رکھنا میری بنیادی ذمے داری تھی،البتہ سوا پانچ سالوں میں مجھے اس حوالے سے کوئی شکایت بھی موصول نہیں ہوئی،جو اس بات کی علامت تھی کہ” سب ٹھیک” ہے۔
بمثل
“no news is good news.
لیکن یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی ،نہ میں اس کی توجیہہ جان سکا کہ انگریزی زبان وادب کا استاد ۔۔۔اردو اور پنجابی ادب کی جملہ اصناف شعر و نثر پر کیسے قادر وغالب و متمکن ہوا۔
یقیناً یہ عطاء رب کریم ہی کہی جاسکتی ہے کہ دو نہیں تین، مخالف (سمت اور مزاج کے اعتبار سے) زبانوں میں بیک وقت طبع آزمائی اور قدرت کلام و بیان کی بھرپور صلاحیت اور اپنا سکہ منوانے کی اہلیت جو پروفیسر ریاض قادری صاحب کو ملی،کم ہی کسی دوسرے کے نصیب میں آئی۔
قادری صاحب فنا فی الأدب والشعر ہیں۔
ان کے تدریسی و تحقیقی کارناموں کا سراغ تو کالج کے پرنسپل کو بھی نہیں ملتا، اہل علم وادب کو کہاں سے ملے گا! البتہ ان کے ادبی کارناموں کا ایک زمانہ شاہد و راوی ہے ۔جس سے گورنمنٹ کالج سمن آباد کی شہرت و نیک نامی کو دوام ملا ہے
ریاض قادری صاحب دامت برکاتہ
کی بہت سی برکتوں سے مَیں کالج کی پرنسپلی کے دوران رفاقت کے علاوہ بھی فیض یاب ہوا۔وہ چند بار میرے گھر بھی تشریف لائے۔اور اس تشریف آوری کا بنیادی مقصد مجھ” بے یار و مددگار” کو وسیلۂ سفر فراہم کرنا ،یعنی اپنی گاڑی پر کالج سے گھر ڈراپ کرنا تھا ۔
قادری صاحب نے دوسرے آنریبل کولیگز کی طرح میرے گھر کی سادہ اور c گریڈ کی ٹائلیں اور دروازے کھڑکیاں اور صوفے کرسیاں نہیں چیک کیں ،بلکہ میری مطالعہ گاہ کو مرکزِ نگاہ بنایا ،کیمرہ نکالا اور کھٹاکھٹ تصویریں اور وڈیوز بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کردیں۔
ریاض قادری صاحب کا ذکر ہو اور ان کی گاڑی اور ڈرائیونگ کے ساتھ کیمرے کا ذکر نہ ہو ،ممکن
کسی زمانے میں ریاض قادری صاحب کے پاس شائد مہران گاڑی تھی،پھر ایک دن نئی نویلی چمکتی لچکتی کلٹس گاڑی زیرِ تصرّف آگئی ۔
چند ہی سالوں میں قادری صاحب نے مجھ جیسے “بے کاروں” کو ڈھو ڈھو کر اسے “چنگ چی” بنادیا۔
کتابیں ،رسالے،بکھرے ہوئے کاغذات اور مسلسل اسفارِ قریبہ و بعیدہ ،عاجلہ و آجلہ کے
مستقل نشانات اس کی صبحوں،شاموں اور گردش لیل و نہار کی کہانیاں سناتے ہوئے گاڑی میں بیٹھنے والے کو اپنی جگہ خود بنانے کی دعوت دیتے ہیں
“اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے”
گذشتہ سے پیوستہ سال مجھے نومبر میں عالی قدر ڈاکٹر افضل حمید اور ممتاز نعت گو شاعر جناب زاہد سرفراز زاہد کے ہمراہ جناب ریاض قادری صاحب کی گاڑی اور سیاقت میں پھالیہ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں دوسری اہل قلم کانفرنس میں شرکت کے لیئے سفر کا موقعہ ملا،تو اس گاڑی کی حالت زار کے قریب سے مشاہدے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔
اس سفر کے دوران بے شمار علمی نکات و فکاہات کے ساتھ دونوں اصحابِ نو سے تعارف اور قادری صاحب کی سائقانہ برق رفتاریوں( سپیڈوں) کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ بھی ملا۔اس سفر میں پیچھے بیٹھے دونوں دانشوروں نے نظم شعر و سفر کا محاذ سنبھالا اور مجھ جاہل کو اگلی نشست پر بٹھا کر قادری صاحب کو “سنبھالنے ” رکھنےپر لگادیا۔
اس شرط پر کہ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ۔۔۔
یعنی اپنی مدد آپ کے تحت مجھے اس طویل سفر میں خود کو بھی جگانا پڑا اور جناب قادری صاحب کو بھی جگائے رکھنا پڑا۔البتہ سالم انٹر چینج سے اتر کر پھالیہ تک کے مسلسل اور گہرے کھڈوں نے ہمیں جگایا ہی نہیں،ہمارے سارے طبق روشن کردیئے۔
اس سفر میں میرے دو اشکال دور ہوئے ۔
ایک۔۔۔۔تو یہ کہ اتنے تحرک اور تکلف و تکلیف و تحملِ(گاڑی میں اٹھانے) اہل علم و دانش کے باوجود گاڑی آخر اتنی رواں اور set کیسے ہے۔۔قادری صاحب کو اس کی تکنیکی دیکھ بھال کا وقت کیسے اور کب ملتا ہے ۔
تو اندازہ ہوا کہ جب انہیں نثری اور نظمی تخلیقات کی تسوید و تبییض کی ضرورت درپیش ہوتی ہے تو وہ مکینک کے پاس چلے جاتے ہیں،وہ” اپنا” اور یہ “اپنا” کام کرلیتے ہیں ۔
گاڑی بھی اوور ہال ہوجاتی ہے اور قادری صاحب بھی تخلیقی عمل۔سے فارغ ہوجاتے ہیں
دوسرا۔۔۔
شہر اور بیرون شہر کے ہر مشاعرے اور ادبی تقریبات میں ہمہ وقت ،بلکہ ہمہ جہت مصروف رہنے کے بعد آخر سوتے کب ہیں ۔جب کہ میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ سحر خیز بھی ہیں ۔رات کے آخری اور صبح کے پہلے پہر ان پر اپنی تخلیقات کے نشر وابلاغ اور دوسروں کی تحریروں پر نقد کم،تعریف و توصیف زیادہ کی مصروفیت سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔۔کہ۔یہ ہم جیسوں کی پوسٹیں اِسی وقت دیکھتے اور بقدر علمی جُثّہ تبصرہ بھی فرمانا فرضِ عین گردانتے ہیں
تو عقدہ اس سفر میں ہی حل ہوا کہ یہ اپنی نیند ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ اور کلچ پر پاؤں رکھ کر پوری کرلیتے ہیں ۔ اور اگر ساتھ بیٹھا شخص قادری صاحب سے بے نیاز ہوجائے تو خود اپنی نیند بھی مستقلاً پوری کرسکے گا۔لہذا قادری صاحب کے ساتھ سفر کرتے ہوئے اس سفر جگے کا اہتمام لازم اور باعث زندگی ہوگا۔
قادری صاحب مرد خلیق ہیں ۔
اس طرح کہ ان کے اردگرد ہجومِ محبان و عاشقان رہتا ہے ۔۔شہر کے ادباء و شعراء ان کی گاڑی میں،کمرے میں،سیرت ہال میں،سیمینار روم میں،فیکلٹی لاؤنج میں، ہرجگہ انہیں گھیرے ہوتے ہیں اور طلبہ و طالبات ان کی راہ میں آنکھیں بچھائے توجہ کے منتظر رہتے ہیں۔
قادری صاحب کے ساتھ کوئی کالج آئے یا ملنے پہنچے۔۔یہ ممکن نہیں کہ قادری صاحب اسے ہنستے ،کھلکھلاتے نہ ملیں،چائے نہ پلائیں،کیمرہ نہ نکالیں اور ایک ہی منظر کی بیسیوں تصویریں بغیر بتائے نہ اتاریں ۔اور یہ بھی محالاتِ زمانہ میں سے ہی ہوگا ،اگر یہ ساری تصویریں فیس بک پر موجود اپنے چھ سات اکاونٹس پر نہ لگائیں ۔ان کی تشفّی تب بھی نہیں ہوتی ،جب تک وہ سارا ذخیرۂ تصاویر سیکڑوں عقیدت مندوں کو ٹیگ نہ کردیں۔
یہ بہت کم اکیلے دکھائی دیتے ہیں۔اور اگر اکیلے ہوں بھی تو ان کی سنجیدگی اور ماتھے کی شکنیں بتارہی ہوتی ہیں کہ یہ چلتے چلتے یا بیٹھے نیند لے رہے ہیں یا نزول شعر کی کیفیتوں سے گزر رہے ہیں ۔
” ہر لحظہ ہے مؤمن کی ،نئی شان،نئی آن ”
قادری صاحب کے چار شخصیتی عناصر قلم ، کیمرہ ، ادیب اور مائیک ۔۔۔وہ عناصر ترکیبی ہیں،جن میں ان کی علمی،ادبی اور فنّی جان مُقیّد ہے۔
اوّل تو ان میں سے کبھی کچھ مفقود نہیں ہوتا،اگر ہو تو قادری صاحب شدید الجھن کا شکار رہتے ہیں ۔
قلم ۔۔تو ان کے پاس بیک وقت کئی ہوتے ہیں،کپڑوں اور گاڑی میں سے کہیں نہ ملے ۔۔جو ممکن نہیں۔۔۔تو سامع و ہم نشین کی میز و جیب کے قلم پر ان کی” نظر “بھی ہوتی ہے اور حق بھی مقدم و مسلم ہوتا ہے۔کہ وہ اہلِ علم بھی ہیں اور بجا طور پر اہلِ قلم بھی۔
اور قلم بغیر علم و شعور کے وہی گُل کِھلاتا ہے،جو مجھ جیسے بے فیض و علم سے” کِھلوا” اور ” کُھلوا” رہا ہے۔!
قلم ، علم اور نظم ونثر سب ہی ریاض قادری صاحب کی جاگیر ہیں ۔اور وہ انہیں استعمال کرنے کا فنّ خوب جانتے ہیں۔خلوص،محبت اور اہلیت نے ان کے قلم اور رشحات ِقلم کو دوام بخش رکھا ہے۔ اور ہر سطح کی خوب پذیرائی سے نوازا ہے ۔
قادری صاحب کا کیمرہ ان کے موبائل کی صورت ان کی جیب میں ہوتا ہے اور ادیب وشاعر بھی ان کے جلو میں ۔
رہا مائیک ۔۔۔تو اس کی صوتی خوشبو قادری صاحب کو اس کے پاس پہنچا ہی دیتی ہے۔
یہ چاروں عناصر ہوں اور تصویر+ تصویریں نہ اتریں ممکن ہی نہیں۔
اور جنگل میں مور ناچا ۔۔کس نے دیکھا۔۔۔!
قادری صاحب جنگل۔،بیابان ،شہر،ہجوم ،جلوت ،خلوت ہر جگہ اپنے قلم،آواز، شعر،نظم و نثر کا جادو جگا کر تصویریں بناکر مناظر،مواقع اور افراد کواَمر بھی کرتے ہیں۔
قادری صاحب ۔۔ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔
قادری صاحب ۔۔۔کو کسی نے غصے میں تو دیکھا نہیں۔
قادری صاحب۔۔۔ ہمہ دم
مسکراتے،کھلکھلاتے ،ہنستے،ہنساتے رہتے ہیں۔
قادری صاحب۔۔۔۔ ادیبوں ،شاعروں کی خوب تواضع کرتے ہیں۔
قادری صاحب۔۔۔ شہر اور بیرون شہر کی ہر محفلِ نعت کے صدر مجلس،مہمان خصوصی یا نقیب ہوتے ہیں۔
قادری صاحب ۔۔۔ہر قومی ،سرکاری تقریبات جو کمشنر آفس میں منعقد ہوں ۔۔اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ کمپیئرنگ کے فرائض ادا کرتے ہیں۔
قادری صاحب ۔۔ ریڈیو پاکستان کے ادبی پروگراموں کی آن ،بان اور شان ہیں
قادری صاحب ۔۔گورنمنٹ کالج سمن آباد کے میگزین ۔۔القمر۔۔کے ایڈیٹر ہیں ۔
قادری صاحب۔۔۔کالج کے ہر ریٹائر ہونے والے آنریبل پروفیسر صاحب کی مدح سرائی میں ایک معلوماتی ،تحقیقی اور جذباتی مضمون تحریر کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔جو شخصیت نگاری میں ایک نئی جہت کی بنیاد بنیں گے۔
قادری صاحب ۔۔کو لوگ پی ایچ ڈی کیئے بغیر “ڈاکٹر” قرار دیتے ہیں،یہ ان کی وسعت علم اور متنوع تحقیقی اور ادبی خدمات کو خراج تحسین ہے۔۔
ان کی شخصیت کی بے شمار جہتیں ہیں،جن پر کئی تحقیقی مقالات لکھے جاسکتے ہیں۔
قادری صاحب ۔۔وہ جوہر آب دار۔۔ہیں جن کی تعریف و توصیف کی ضرورت ہے،نہ قدر شناسی کی احتیاج۔۔وہ ایسا چمکتا دمکتا ادبی،علمی ستارہ ہیں جس کی ضو پاشیوں سے ایک عالَم منور ہے۔
قادری صاحب ۔۔ایسے رفیق کار ہیں جن کی رفاقت پر فخر کیا جاسکتا ہے اور کالج میں جن کا وجود باعث اعزاز و افتخار ہے اور ادبی حلقوں میں جن کا نام۔ہی کافی ۔۔بلکہ۔سَنَد ہے۔
فیصل آباد کے ایک بڑے نامور محقق اور ادیب جناب ڈاکٹر اظہار احمد گلزار کے یہ کلمات میرے مضمون کا ۔۔تَتِمّۂ کلام اور خِتامُ المِسک۔۔ ہے۔
“ایک محتاط اندازے کے مطابق ۔۔۔۔۔آج تک گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد میں جس استاد کو سب سے زیادہ پزیرائی ملی ہے وہ محترم ریاض احمد قادری ہیں۔۔۔۔لیکچرر ہو یا ایسوسی ایٹ پروفیسر ۔۔۔ان کو عہدے سے کوئی غرض نہیں۔۔۔وہ اپنے ادبی اور تدریسی کام میں جس اخلاص اور محبت سے جڑے رہتے ہیں ۔اس کی مثال نہیں ملتی ۔۔۔۔ان کو اپنے زرق برق لباس سے دوسروں کو مرعوب کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ ان کا بے مثل کام اور انتھک جدوجہد ہی دوسروں کو اپنی محبت کا اسیر کر لیتی ہے ۔۔۔۔ان کے فن آگاہ اور تدریسی خدمات کے معترف لوگ ان کی سادگی ، منکسر المزاجی اور سماجی خادم ہونے کو بہت پسند کرتے ہیں ۔ ۔اسی لیے وہ ہر پڑھے لکھے طبقے کے علاوہ سماجی، رفاہی ، دینی ، ادبی اور ثقافتی پروگراموں کے لیے ہر جگہ روح رواں نظر آتے ہیں ۔۔۔۔ریاض احمد قادری’ ان شخصیات میں سے ہیں’ ادب جن کے رگ و ریشے میں رچا بسا ہے۔ رگ و ریشے میں گردش کرتا ہوا پنجابی ، اردو اور انگریزی ادب ریاض احمد قادری کو تحقیق و تنقید، تشریح و ترجمہ۔ تصنیف و تالیف، تدوین وترتیب ، تجزیہ اور شعرگوئی میں ہمہ وقت مصروف کار رکھتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ اپنے قلم کی گردش سے پنجابی اور اردو ادب کے دامن کو تقریباً درجنوں قیمتی کتب کے سرمایہ سے مالا مال کرچکے ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر درج ذیل تصانیف و تالیفات شامل ہیں ۔
1۔ نکہت نعت 8۔ زرنعت
2۔ تصور سبز گنبد دا 9 زر مدحت
3۔ ہمارے قائد اعظم، 10۔ زرعقیدت
4۔سلام اے شاعر مشرق۔ 11۔آزادی کے چاند ستارے
5۔ کلیاں چاند ستارے 12۔نغماتِ وطن
6۔جگمگ جگمگ چاند ستارے۔13۔نکہت طیبہ
7۔ عقیدت دے پھل14۔تصور کملی والے دا
۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اظہار احمد گلزار مزید لکھتے ہیں کہ ریاض احمد قادری کا رخش قلم ہے کہ بے تکان دوڑ رہا ہے۔ انھوں نے ادب کی بہت ساری جہات میں ادبی معرکے سر کئے ہیں۔۔پنجابی ، اردو یا انگریزی ادب کا کوئی پہلو ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے ۔۔وہ نہ صرف پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد کا فخر ہیں بلکہ پاکستان کے ایک نامور سپوت اور “لیونگ لیجنڈ ” کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔”
۔۔۔۔۔۔ ممتاز ادیب و دانشور احسان رانا ان کی شخصیت کو عالمی ادب کے ایک دائرۃ المعارف سے تعبیر کرتے ہیں جن کی فقید المثال علمی و ادبی کامرانیوں اور متنوع تخلیقی تجربات سے نہ ْصرف اردو بل کہ پنجابی ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور س ہفت اختر ،زیرک ،فعال اور مستعد ادیب کی قومی خدمات سے اہلِ وطن خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر ہو گئے ۔ محترم احسان رانا مزید لکھتے ہیں۔ کہ “پروفیسر ریاض احمد قادری اپنی ذات میں انجمن اور بلبل ھزار داستاں ہیں۔۔وہ خود بھی روشن ضمیر’ روشن دماغ ہیں اور نور افشاں قلم کےشہسوار بھی ہیں”۔۔
اللہ کرے! ریاض قادری ۔۔تم جیو ہزاروں سال ۔۔۔۔۔”
(تمام شد)