دراصل امریکہ میں مقیم تین پاکستانی سہیلیوں نے صرف 2 ہفتے میں "فئیر اینڈ لولی" والوں سے یہ منوالیا تھا کہ صرف گورا رنگ خوب صورتی نہیں ہوتا اور فئیر کے لفظ میں نسلی تعصب ہے۔
کمپنی کو ماننا پڑا کہ وہ ’فیئر‘ ’وائٹ‘ اور ’لائٹ‘ جیسے لفظوں کا استعمال بند کردے گی۔ ان کی جگہ ایسے لفظ استعمال کیے جائیں گے جن سے نسلی تعصب نہ جھلکتا ہو۔ اسی باعثِ انہیں ’فیئر اینڈ لولی‘ کریم کا نام" گلو اینڈ لولی" رکھنا پڑا ہے۔
امریکہ میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں چلنے والی ’Black lives matter‘ یعنی ’سیاہ فاموں کی زندگیاں بھی اہم ہیں‘ تحریک ہر شعبے پر اثرانداز ہوئی ۔ سفید فام برتری کے خلاف شدید رد عمل پر گندمی رنگت والوں نے بھی سوچا۔
ہیوسٹن میں مقیم انعم چندانی نے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں رہنے والی اپنی دو سہیلیوں حرا ہاشمی اور ماروی احمد سے رابطہ کیا اور باہمی مشورے سے انہیں احساس ہوا کہ سفید رنگت کی برتری کو بڑھاوا دینے میں رنگت گوری کرنے والی کریموں خاص کر ’فیئر اینڈ لولی‘ کا بہت عمل دخل ہے۔ گہری رنگت کے خلاف تعصب سے خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی متاثر ہوتے ہیں۔
9 جون 2020 کو انہوں نے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ فیئر اینڈ لولی اور گورے پن کی تشہیر کرنے والی دوسری مصنوعات پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے۔
یونی لیور کے سی ای او کے نام لکھی اس پٹیشن میں انعم، حرا اور ماروی نے کہا کہ ’فیئر اینڈ لولی‘ کے اشتہاروں میں گہری رنگت رکھنے والے افراد کو احساس کمتری اور اعتماد کی کمی کا شکار دکھایا جاتا رہا ہے اور لوگوں کو یہ باور کروایا جاتا رہا ہے کہ دنیا میں کامیابی کے لیے، یہاں تک کے اچھا جیون ساتھی پانے کے لیے، رنگت کا گورا ہونا ضروری ہے۔ فیئر اینڈ لولی گہری رنگت کے بارے میں کمتری کا احساس جگانے اور رنگت کی بنیاد پر تفریق کی حوصلہ افزائی کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
15 دنوں میں 94 ملکوں کے13 ہزار سے زیادہ افراد نے اس پٹیشن کی حمایت کی جس میں شوبز سے تعلق رکھنے والی اور دوسری کئی نامور شخصیات شامل ہیں۔اس پٹیشن کو دنیا کے کئی نامور جریدوں نے بھی سپورٹ کیا اور دو ہفتے کے اندر فئیر اینڈ لولی کریم بنانے والی کمپنی یونی لیور کو اپنی مصنوعات سے رنگت کی سفیدی اور گورے پن جیسے کئی لفظوں کا استعمال بند کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔