ابھی کل کی بات ہے مگراِن قصوں کو گویا زمانے ہو گئے ۔ اب تو مہ وسال کے پرندے ہیں جو یادوں کے گھونسلوں میں آبسے ہیں ۔ یہ ۲۰۰۸ کی باتیں ہیں ۔ مَیں اکادمی ادبیات میں نوکری کا بسیرا رکھتا تھا اور دکان وہاں ایک کتابوں کی چلاتا تھا ۔ یہ دکان افتخار عارف صاحب کی ایما پر ادبی کتابوں کی قائم کی گئی تھی اور مجھے اُس کا انچارچ کر رکھا تھا ۔ کتاب گھر میں مَیں نے پاکستان اور ہندوستان کے تمام اردو پبلشروں سے انتخاب قسم کی دس ہزار کے قریب کتابیں جمع کر دی تھیں اور اُنھیں سستے داموں ادب کے قاریوں پر کھول دیا تھا ۔ تب میرا شمار اُن گمنام چھوکروں میں ہوتا تھا جنھیں لوئرکلاس کلرک کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور سوائے باس کے کوئی نہیں جانتا ہوتا۔ مَیں اکادمی بک شاپ پر بیٹھا فقط کتابیں پڑھتا تھا ۔اگر نہ پڑھتا تو وہاں دوسرا کام مکھیاں مارنے کا ہوتا جیسا کہ باقی تمام دفتر مار رہا تھا اور مکھیاں مارنا مجھے اچھا نہیں لگتا ۔ اِس عالم میں ایک بی بی روزانہ مجھ سے ایک کتاب لے جاتی دوسرے دن پڑھ کر وآپس کر جاتی ۔ یہ بی بی فہمیدہ ریاض تھی ۔ اکادمی ادبیات کے رائٹر ہاوس میں ٹھہری ہوئی تھی ۔ اور طویل عرصہ وہیں رُکی رہی کہ اُن دِنوں اُسے اسلام آباد میں ملازمت ملنے کی اُمید تھی ۔ فہمیدہ صاحبہ مجھے سے کوئی بات نہ کرتی ،وہ مجھے محض ایک کلرک سمجھتی تھیں اور مَیں اُن کی عظمت کے آگے دُبکا ہوا تھا اِس لیے آشنائی کی جرات نہ کرتا تھا ۔ وہ فقط کتابوں کی الماریوں سے کوئی کتاب نکال کر کہتیں ، لڑکے،یہ لے جا رہی ہوں ، مَیں ہاں میں سر ہلا دیتا اور وہ اُٹھا کر لے جاتیں ،کبھی کبھار افتخار عارف صاحب کے کمرے میں جا کر گپ شپ لگا لیتیں ورنہ فقط کتاب سے ربط رکھتیں ۔ مَیں بھی اپنی بک شاپ میں بیٹھا کتابیں پڑھتا لیکن جیسے ہی بی بی فہمیدہ صاحبہ کمرے میں داخل ہوتیں ،مَیں کتاب سامنے کی دراز میں ٹھونس دیتا اور اُنھیں دیکھتا ۔ ایک ماہ یہ سلسلہ یونہی چلا ۔ ایک دن کتاب گھر میں داخل ہوئی ،ایک کتاب اُٹھائی اور باہر نکلنے سے پہلے مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔ تم کیا یہاں فارغ بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہو ۔ اِتنی کتابیں پڑی ہیں ، پڑھتے کیوں نہیں؟ دیکھو یہ ایک خزانہ ہے اور خدا نے تجھے موقع دیا ہے مگر تم وہی کلرک کے کلرک بیٹھے ہو ۔ کتابیں پڑھا کرو ۔ مَیں نے کہا جی ضرور پڑھا کروں گا ؟ پھر کہنے لگی ، کیا آپ مجھے جانتے ہو ، مَیں نے کہا ! آپ اِس ملک کی مشہور شاعرہ اور افسانہ نگار فہمیدہ ریاض ہو آپ کا افسانہ جھنو کو چِٹھی ملی ، بہت اچھا لگا مجھے ۔ اِس بات پر وہ تھوڑا سا رُکی اور مجھے غور سے دیکھنے لگی مگر پھر کچھ بولی نہیں اور دروازے سے نکل گئی ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ فہمیدہ ریاض کے ہاتھ میں دنیا زاد کا ایک رسالہ تھا ، وہ پکڑے ہوئے آئی ، اور کہنے لگی ، دیکھو، یہ رسالہ ہے ، یہ ملک کا مشہور رسالہ ہے مَیں بھی اِس میں چھپتی ہوں ۔ اِس بار اِس کے اندر بہت ہی خوبصورت نظمیں چھپی ہیں جو بالکل نئی اور اچھوتی ہیں ۔ یہ کوئی نوجوان علی اکبر ناطق ہے، پنجاب سے ہے ۔ تم بھی اِنھیں پڑھو اور اِس کا پتا معلوم کرو، مَیں نے کہا جی ضرور پتا کرتا ہوں ۔ تب وہ ایک کتاب اُٹھا کر باہر نکلی اور افتخار عارف صاحب کے دفتر میں چلی گئیں ۔ اُنھیں کہنے لگیں، علی اکبر ناطق نامی ایک نوجوان ہے ، اِس دفعہ دنیا زاد کے شمارے میں اُس کی کچھ نظمیں چھپی ہیں ۔ آپ کو کچھ اُس کی خبر ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں سے ہے ۔ افتخار صاحب نے کہا ، بھئی وہ سالا جو بُک شاپ میں بیٹھا سارا دن کتابیں پڑھتا ہے اور دھوپ سینکتا ہے ، وہی تو وہ لونڈا ہے ۔ یہ سُنتے ہی آپا فہمیدہ ریاض میرے پاس آئیں اور آتے ہی مجھے گلے سے لگا لیا ۔ کہنے لگی تم تو بہت میسنے نکلے ہو ۔ کچھ بتایا کیوں نہیں ، مَیں نے کہا آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں ۔ تو جناب یہ میری فہمیدہ ریاض صاحبہ سے پہلی ملاقات کا واقعہ ہے اور کم و بیش اسلام آباد کے سب دوستوں کو اِس کی خبر ہے۔ اُس کے بعد تو یوں ہوا کہ اُنھوں نے اُسی بُک شاپ کو مسکن بنا لیا ، وہ کتاب لے کر جانے کی بجائے وہیں ایک کُرسی پر بیٹھ جاتیں اور پڑھے جاتیں ، پھر مجھ سے اُس کے بارے میں باتیں چیتیں شروع کر دیتیں ۔ مجھ سے میری نئی نظمیں سُنتیں ، اپنی سناتیں ، تب وہ ایک نظم ،تُم کبیر ،، لکھ رہی تھیں ۔ یہ نظم اُن کے جواں مرگ بیٹےکی یاد میں تھی ۔ اِس نظم کو وہ سناتے ہوئے ایسے کسی گہرے سمندر میں ڈوب جاتی اور رقت میں چلی جاتی کہ مجھے اُن پر حواس باختگی کا شُبہ ہونے لگتا ۔ بعض دفعہ اُونچی آواز میں رونے لگتیں ۔ کہتیں ناطق تم جانتے ہو ، اگر کبیر نہ مرتا تو اِس وقت تمھاری عمر کا ہوتا ۔ مَیں اُس وقت اُن سے کتنا ہی چھوٹا ہوں مگر ایک شاعر کی حیثیت سے اُن کے درد سے واقف ضرور تھا ،کہ تب تو میرا چھوٹا بھائی علی اصغر بھی حال ہی میں فوت ہوا تھا ۔ ایک طرح سے باہم درد کے فاصلے ملے ہوئے تھے۔ مَیں گاہے گاہے اُن کے لیے چائے لاتا ، وہ سگریٹ جلا لیتی ، چائے نوش کیے جاتی اور کچھ نہ کچھ پڑھے جاتی ۔ کبھی کبھی بہت اصرار پر بھی کوئی نظم نہ سناتی اور کبھی دس دس نظمیں سنا دیتی ۔ مجھ سے اُن کی ملاقاتوں کا یہ سلسلہ قریب ایک سال جاری رہا ، اور ایسے کہ ہم نے چائے کے علاوہ کھانا بھی اکٹھے کھایا ۔ پھر جب( آج ) کےرسالے میں میرے افسانے چھپے تو وہ مزید مجھ پر مہربان ہوئیں اور( شہابو خلیفہ کا شک) والے افسانے کو بار بار پڑھ کر سناتی اور مجھے داد دیتی ۔ وہ میری نظموں اور شاعری کی اتنی تعریفیں کرنے لگیں کہ کچھ نہ پوچھیے، عین اُسی ڈھب سے کہ جیسے سودا بیچنے والے راہ گیروں کو پکڑ پکڑ کر بتاتے ہیں ، میاں یہ مال اچھا ہے اور دام بھی سستے ہیں لیتے جاو ، اِسی طرح آپا فہمیدہ میرے افسانوں اور نظموں کے بارے میں قارئین کے شانے ہلا ہلا کر بٹھاتی اور کہتی ،دیکھو ،سنو یہ ناطق ہے بہت اچھا لکھا ہے ، اِسے سُنو ۔ اب تو یہ الارم ہو گیا کہ آپا فہمیدہ کی کوئی شے ہم بھی پڑھے بغیر نہیں چھوڑیں گے ،کچھ تو اُن کی نظمیں بدن دریدہ اور پتھر کی زبان والی ہم پہلے ہی پڑھے بیٹھے تھے ۔ تب ہم نے اُن کی تمام کتابیں جہاں کہیں کونوں کھدروں میں ، آج ، دنیا زاد اور جہاں جہاں بسیرے میں تھیں، اُلٹ پلٹ کر پڑھنا شروع کیں ۔ افسانے پڑھے ، مضامین پڑھے ، نظمیں پڑھیں ، اور سب پڑھیں ۔ تب کھُلتا چلاگیا کہ وہ کیسی بستی کی یاد گار بی بی تھیں ، نثر اُن کی باکمال ، نظم اُن کی پُرخیال ، خود وہ با جمال اور ہم ایک نیم دیہاتی لڑکے تھے ۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ مُنڈا اچھا ہے ، زبان کا کیسا ہی بے مہار ہے مگر دل کا اُجلا لعل ہے ۔ عرصہ یوں سمجھیے اب ہماری پُرسش کاری کا کہ ۱۴ سال چلا اور یہ ۱۴ سال گویا ۱۴سو سال پر پھیل گیا تھا ۔ اِس عرصے میں جو کچھ ہمارا اُن کا نصاب چلا وہ تو ہم اُن کے خاکے میں سب لکھیں گے اور کچھ نہ چھوڑیں گے کہ ہم پر اُن کا حق فرض ہے۔ فی الحال کچھ واقعات اُنی کی شخصیت کے عرض کیے دیتے ہیں ۔ یہ واقعات اُن کی بے نیازی ، درد مندی اور خوش ذوقی کے ہیں ، صاف دل کی کہانیاں ہیں جو ہمیں اُن کی طبیعت کے آئنے میں دِکھیں ۔ ایک بار مجھے کہنے لگیں ، ناطق مَیں کراچی سے آ رہی ہوں ، آکسفرڈ کی طرف سے ایک اسائنمنٹ ملی ہے کہ پشتو شاعروں کا کچھ حال احوال لکھوں ، وہ مجھے اِس محنت کا اجر بھی دیں گے ۔ آپ میرے ساتھ پشاور چلیں گے ۔ ہم وہاں دو دن رہیں گے ، چپل کباب کھائیں گے ، پشاور کے شاعروں کو شعر سنائیں گے ،اُن کے سُنیں گے اور لوٹ آئیں گے ۔ مَیں اُن دنوں ایک نوکری کرتا تھا ، اور بہت چھٹیاں کر چکا تھا ، کئی مہینوں بعد ڈیوٹی پر گیا تھا ۔ انتظامیہ میری غیر حاضریوں پر بہت نالاں تھیں یعنی مَیں آفس والوں سے اور آفس مجھ سے بیزار تھا ۔ اب جو آپا فہمیدہ کا یہ پیغام سُنا تو مَیں نے کہا آپا جی آپ اکیلی ہو آئیں ، یہاں مجھے دفتر والوں نے باندھ رکھا ہے، پہلے بہت چھٹیاں کیے بیٹھا ہوں ۔ اب تو وہ نوکری ہی سے نکالیں گے ۔ اب وہ میرا عذر کاہے کو سُننے لگیں ؟ اور کہا، دیکھو! اگر ساتھ نہیں چلو گے تو مجھے ناراض سمجھو ۔ ہم نے کہا ،بی بی آپ ناراض نہ ہوئیے ، آ جایئے ، نوکری جائے جہنم میں ، ہم پشاور تو کیا ،آپ کے ساتھ افغانستان تک چلیں گے ۔ دوسرے دن مَیں نے ڈائریکٹر جنرل ایجوکیشن سے کہا ! میاں ہماری ایک بڑی شاعرہ کراچی سے آ رہی ہے ، ہم اُس کے ساتھ پشاور جا رہے ہیں اور تین دن پھر نہیں آئیں ،بتایئے کیا ارادہ ہے ، وہ صاحب کہنے لگا ، آپ اب کے اگر چھٹی پر گئے تو دوبارہ دفتر نہ آ نا اور استعفیٰ بھیج دیجیے ہم نے کہا بہتر ،نہیں آئیں گے ، اور دوسرے دن آپا فہمیدہ کے ساتھ پشاور نکل گئے ، پوچھنے لگی ، چھُٹی مل گئی تھی؟ مَیں نے کہا اب تو مکمل چھٹی پر ہوں اور سب واقعہ بتادیا ۔ ہنس کر کہنے لگی دیکھو ناطق ، یہ کلرک نہیں سمجھیں گے ،ہم کتنے بڑے لوگ ہیں ،شعر کہتے ہیں دانش پھیلاتے ہیں اور ہوا میں روزی کماتے ہیں ۔ ایسی نوکریاں پھر مل جائیں گی۔ اور دس ہزار اپنی اسائنمنٹ سے آپ کو فنڈ دوں گی ؟ مَیں نے کہا یہ فنڈ ا اللہ آپ کو نصیب کرے ، مَیں حارث خلیق سے نکلوا لوں گا ۔ اب یہ جانیے پشاور کے سفر میں ہم نے چھ بار گاڑی رکوائی ، چائے نوش فرمائی ، تب نوشہرہ سیلاب میں ڈوب چکا تھا ، وہاں ڈوبتوں کو دیکھا اور راستے میں جتنے دوست پڑتے تھے ، اُن سے کباب کھاتے ، ربڑی پیتے ، نظمیں سُنتے اور سناتے سناتے پشاور جا اٹکے ۔ اسلام آباد سے پشاور تک مُلک کے تمام مسائل کے حل بھی نکال لیے ۔ آپا اُن کو ڈائری پر نوٹ کرتی گئیں کہ اِنھیں فیس بک پر لکھوں گی ۔ آپ اُن کی سادگی دیکھیے یعنی فیس بک پر لکھنے سے یہ سب مسائل اپنی اصل تک گویا پہنچ جائیں گے ۔ جب پشاور پہنچے ، وہاں آکسفرڈ کی دکان پر گئے ، اور پشتو اکیڈمی کا اتا پتا لیا ۔ یہاں معاملہ ہی اور تھا ۔ ہوا یہ کہ نہ ہمیں آکسفرڈ کے موجودہ ادارے کے عملے نے پہچانا کہ یہ کیا بیچتے ہیں ۔ اور نہ وہ پروٹوکول جسے ہم اپنا حق سمجھ کر وہاں اُترے تھے ،وہ کچھ بھی نہ ملا؟ فقط ہمارے ہوٹل کا کمرہ دکھا دیا گیا ،بلکہ پہنچا دیا گیا اور بس ،ہم نے نہا دھو کر سفر کی تھکاوٹ دور کی اور شام سے ذرا پہلے پشاور اکیڈمی کی طرف پدھارے ، وہاں قصہ یہ ہوا کہ نہ ہمیں اکیڈمی کے عملے میں سے کوئی شخص جانتا تھا ، اور نہ پشتو کا کو ئی شاعر پہنچانتا تھا ۔ ہم نے اُنھیں نام بتائے تو وہ ایسے دیکھنے لگے جیسے ایلین آئے ہیں ، ایک پشتوشاعر آپا فہمیدہ سے کہنے لگا ،اَم جانتا ہے تم فہمیدہ ہو اور کراچی میں کوئی وزیر شزیر ہو مگر اَم کراچی کبھی نہیں گیا ،تم اپان پون دے دو ،اَم جب وہاں جائے گا تم اپنا پارلیمنٹ میں ہم کو شاعری کا دعوت دینا ،اَم وہاں اپنا شاعری پڑھے گا اوربتائے گا شاعری کیا اوتا ہے، اُس کے بعد آپا نے شاعری پر تو کوئی بات نہیں کی اور صاف صاف کہا ، مجھے یہاں کے کچھ شاعروں کا احوال چاہیے ۔ اُس کا بندوبست کیسے ہو گا ۔ کیونکہ ہم نے اُنھیں انگلش میں چھاپنا ہے ۔ صرف مقامی اور زندہ شاعر یوں ایک گھنٹے کے بیچ جو کچھ آپا فہمیدہ نے اُنھیں کہنا سُننا تھا ،کہا سُنا اور آٹے کے بسکُٹ اور نمک کی چائے پی کر نکل آئے ۔ ہوٹل آتے آپا ہنستے ہوئے کہنے لگی ، ناطق ہم میں کیسی ہوا بھری تھی کہ ہم اپنے زمانے کے سب سے بڑے ادیب ہیں ،شاعر ہیں اور دنیا ہمیں جانتی ہے ، ہم ضیا رجیم کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ دیکھو اِن پٹھانوں نے ہماری کیسی ہوا نکال دی ۔ ہمیں پڑھنا تو کیا ،ہمارا نام تک نہیں سونگھا ، آئندہ اکٹر میں نہ رہنا اور جھُکے جھُکے چلنا ۔ مَیں نے قہمقہ مار کر کہا آپا ، مَیں تو ہوں ابھی کل کا لونڈا ، اصل ہاتھ تو یہ آپ کے ساتھ کر گئے ، کہ جب آپ اپنا نام بتا رہی تھیں، وہ نسوار کی گولیاں بنا رہے تھے اور سیدھی آپ کے دل پر چلا رہے تھے مگر آپ کچھ رنج نہ کیجیے، دیکھیے اِسی پشاور میں آپ کو معجزے دکھاتا ہوں ۔ پشاور میں میرے کچھ دوست تھے ، جو اکثر اکادمی ادبیات کی بک شاپ پر آتے تھے اور میرے مشورے پر کتابیں خرید کے لے جاتے تھے ۔ اُنھیں مَیں نے آپا فہمیدہ ریاض صاحبہ کی کتابیں بھی پڑھا رکھی تھیں ۔ مَیں نے کہا آپا ہم جو آپ کے چاہنے والے بیٹھے ہیں اور آپ کو کیا چاہیے ، پھر یہ کہ شاعر سب جگہ کے ایسے ہی ہوتے ہیں ، یہ تو ایک طرف آپ اور ہم کو پنجاب کے شاعر بھی نہیں پہچانیں گے ۔ البتہ یہاں کچھ میرے دوست ہیں وہ آپ کو بہت چاہتے ہیں ۔ تب میں نے ڈاکٹر شبیر صاحب کو فون کیا اور اُنھیں بتایا ،ہم فہمیدہ آپا کے ساتھ پشاور میں ہیں ، وہ تو یہ سُن کر نہال ہی ہو گئے، بہت خوش خوش دوڑے چلے آئے اور ہمیں پکڑ کر نمک منڈی ہوٹل لے گئے، کھانے کا آرڈر دیا اور پھر آپا فہمیدہ کے ساتھ اُن کی ایک ایک کہانی اور نظم پر بات شروع کر دی ، اُس کے بعد تخلیقی آرٹ پر ۔ آپا اُن کے مطالعہ اور اُن کی زبان سے اپنی نظموں اور افسانوں کے تبصرے سُن کر ایسا خوش ہوئیں کہ کچھ نہ پوچھیے ، تب تو پشاور کی وہ تعریفیں کیں کہ خود مجھے پنجاب بُرا لگنے لگا ۔ دوسرے دن مَیں نے اسحاق وردگ کو بتایا کہ حضور ہم آئے ہوئے ہیں ۔ اسحاق وردگ صاحب ہمارے نہایت عمدہ دوست اور شاعر اور پروفیسر اور کیا کیا ہیں ، بھلے آدمی ہیں ۔ وہ آگئے اور یوں وہ بھی ہمیں اپنی مہمان نوازی میں بہار کرگئے ۔ آپا فہمیدہ اُن سے پشاور کی سیاسی اور سماجی صورت احوال دریافت کرتی رہیں اور جب اُنھوں نے یہاں کی تشویشناک مذہبی صورت گزاری کی تو بہت رنجیدہ ہو گئیں ، کہنے لگیں میاں وردگ ہم بچارے لوگ کیا کر سکتے ہیں سوائے رونے دھونے کے۔ اور جو کچھ لکھتے ہیں وہ ہمی دوچار ادیب خود پڑھ کر ایک دوسرے کا نقارہ پیٹتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ اُسی شام ہم وآپس چلے آئے ،
آپا فہمیدہ اسلام آباد میں آتی تو اُس کے رہنے کے تین ٹھکانے ہوتے ، اکادمی رائٹر ہاوس ، حارث خلیق کا گھر اور تیسرا عورت فانڈیشن کا آفس۔ رضا رومی کے ساتھ اُن کی محبت شدید تھی اور بے تکلفی کی نوید تھی ۔ اِن تینوں جگھوں پر میرا اُن سے نبھاہ چلتا تھا ۔ ایک بار جب وہ عورت فاونڈیشن میں ٹھہری تھی اورمیری پہلی نظموں کی کتاب بے یقین بستیوں میں چھپنے چلی تھی ،تب وہ ایف سیون اسلام آباد میں عورت فاونڈیشن کے آفس میں ٹھہری تھی ، مجھے اُنھوں نے بلالیا ، کہنے لگیں ، ایک کام کرو، یہ کچن پڑا ہے ،تم چاول بناو اور مَیں تمھاری کتاب کا دیباچہ لکھتی ہوں ، دیکھتے ہیں کون اچھا کام کرے گا ۔ مَیں نے کہا آپا مسئلہ یہ ہے کہ چاول تو مَیں جتنے بھی اچھے بناوں گا ،وہ آج یہیں ختم ہو جائیں گے اور دیباچہ آپ کا مدتوں رہے گا ۔ ہنس کر بولی ، ناطق کاش یہ بات ہمارے حکمران سمجھ لیں کہ اُن کا روزانہ کا کھایا پیا روزانہ ختم ہو جاتا ہے ، اُن کے اپنے پیٹ کو یاد نہیں رہتا ،کیا کھایا تھا کیا، پیا تھا اور اُس کا کیا لطف تھا ؟ اور کتاب مدتوں رہتی ہے ، کاش یہ سوچ لیں کہ کھانے پینے کی بجائے کتابیں پڑھیں اور لکھیں تاکہ اِن کی کوئی شے بچ جائے ۔ مَیں نے محسوس کیا ،وہ ہنستے ہنستے اچانک غمگین باتیں شروع کر دیتی تھیں ۔ الغرض اُنھوں نے دیباچہ لکھنا شروع کیا اور مَیں نے چاول بنائے ، یقین جانیے دونوں کام برابر وقت میں ہوئے ۔ اِدھر اُنھوں نے قلم ہاتھ سے رکھا ، اِدھر مَیں نے چاولوں کی پلیٹ اُن کے سامنے رکھ دی ۔ بس پھر وہ کھاتی جاتی تھیں اور تعریفیں کیے جاتی تھیں اور مَیں بھی اُن کا لکھا ہوا دیباچہ پڑھتا جاتا تھا اور چاول کھاتا جاتا تھا اور خوش ہوا جاتا تھا ۔ وہ یہاں ایک مہینہ رہیں اور آپ یقین جانیے کم از کم دس دن کھانا مَیں نے پکایا ہو گا ۔ ایک دفعہ کا اور قصہ سُن لیں ، سب جانتے ہیں مَیں نے آئی ایٹ اسلام آباد میں بُک شاپ بنا رکھی تھی ۔ اِس کا سب منافع دوستوں یاروں کے چائے پانی میں جاتا تھا اور کرایہ بھی کبھی ایک ادا کر دیتا اور کبھی دوسرا ، یعنی بیٹھنے کا محل سمجھ لیں ۔ پیسے ویسے تب خاک نہیں ہوتے تھے ۔ وہاں روز ملنے والوں میں منظر نقوی ، اشفاق عامر ، زیف سید ، اختر عثمان ، ڈاکٹر درویش ، فرخ ندیم ، حسن نقوی ، عابد خورشید ، شیراز حیدر،قاسم یعقوب اور دوسرے کئی دوست موجود رہتے تھے ۔ ایک دن آپا فہمیدہ کا فون آیا ، ناطق مَیں کراچی سے جہاز پر بیٹھ گئی ہوں ، دوپہر کا کھانا ابھی آپ کے پاس آ کر کھانا ہے ، شاپ پر ہی رہنا ۔ اُس دن اللہ جانتا ہے ، میرے پاس ایک روپیہ نہیں تھا ۔ ادریس بابر وہیں تھا ۔ مَیں نے ادریس سے کہا ، آپا فہمیدہ آ رہی ہیں ، اور وہ کھانا یہیں سے کھائیں گی ۔ اُس نے کہا پیسے تو آج ہمارے پاس نہیں ہیں ، دال ساگ اُنھیں کھلانا مناسب نہیں اور گوشت کے پیسے نہیں اور سامنے والے ہوٹل کا مالک بے اعتبار بہت ہے ۔ اب ایک بجلی کا سا کوندہ میرے دماغ میں لپکا ، مَیں نے کہا کچھ فکر کی بات نہیں ، پاکستان سٹیٹ بنک جب ہمارے پاس ہے تو پیسوں کی فکر کاہے کو؟ ، مَیں نے اشفاق عامر کو فون مارا کہ فوراً پیسے لے کر پہنچو، لیجیے وہ ایک گھنٹے میں آ موجود ہوئے ، اُنھیں حقیقت حال بتائی ، اور دوسرے ہی گھنٹے فہمیدہ آپا ایک خاتون کے ساتھ تشریف لے آئیں ۔ تب ہم چھ سات لوگوں نے اُن کا استقبال کیا ۔ اور بہترین قسم کا ماحضر حاضر کیا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے کافی تعریف کی کہ بہت عمدہ تھا ، تب بہت سیاسی غیر سیاسی باتیں شروع کر دیں ۔ آخر میں شاعری کا دور چلا ، جب اشفاق عامر صاحب کے شعر سُنانے کی باری آئی تو مَیں نے کہا ، آپا جی دیکھیے اِن کے شعروں پر آپ نے زیادہ داد دینی ہے ، کیونکہ ابھی جو کھانا آپ کھا کر بیٹھی ہیں ، وہ اِنھی کی جیب سے نکلا ہے ۔ آپا فہمیدہ ایک دم قہقہ مار کے ہنسیں اور بولیں ! ناطق مَیں بھی کہوں آج آلو گوبھی کی بجائے مٹن کہاں سے آ گیا ، مَیں تو اپنے آپ کو دال چاول کے لیے تیار کر کے لائی تھی ؟ چلیے اشفاق صاحب آپ شعر سنانا شروع کریں ، مَیں داد شروع کرتی ہوں پھر کچھ نہ پوچھیے وہ محفل کیسی زعفران ہوئی ۔ اور شام تک ہم وہیں بیٹھا کیے اور وقت روشنی کی رفتار سے نکل گیا ۔
ایک اور قصہ دلچپ سُنیں ۔ اسلام آباد میں ایک بائسویں سکیل کا بڑا افسر تھا ، اسلام آباد میں ایف سکس میں رہتا تھا ۔ میرے افسانے نظمیں بھی پڑھتا رہتا تھا وہ صاحب اِن کا بڑا فین تھا ۔ اُس نے مجھے کہا ، ناطق صاحب آپ فہمیدہ صاحبہ سے ہماری ایک ملاقات کروا دیں ، مَیں نے کہا بھئی کیوں نہیں اب جب آئیں گی تو ہم مل بیٹھیں گے ۔ پھر کچھ ہی دن بعد وہ آگئیں ۔ مَیں نے آپا فہمیدہ سے کہا ایک صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، وہ تیار ہو گئیں ، ہم نے اُس افسر کو وقت دے دیا ۔ اب یہاں ایک نیا حادثہ یہ ہوا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر بم دھماکا ہو گیا ۔ اِس بات کا ہمیں بہت صدمہ ہوا ۔ ا،س کی مذمت میں ہم نے دوسرے دن سُپر مارکیٹ میں احتجاج کرنا طے کیا ۔ اِدھر وہ آفیسر صاحب ہمیں فون پر فون کیے جائیں ، مَیں نے آپا فہمیدہ سے کہا ایسے کرتے ہیں ، ایک گھنٹہ اِن کے پاس بیٹھ کر وہاں چلے جائیں گے ، وہ کہنے لگیں ،ہرگز نہیں ملنا ۔ یہ سب افسر اصل میں کرپٹ قسم کے کلرک ہوتے ہیں ۔ اِنھی کم بختوں کی وجہ سے تو ہم پر ایسی ایسی قیامتیں اُتر رہی ہیں ۔ چلو وہیں سُپر مارکیٹ چلیں ۔ جیسے ہی ہم اُدھر گئے تو اُن صاحب کا پھر فون آ گیا اوروعدہ خلافی کا الزام دینے لگا ، اب مَیں نے کہا بھائی آپ سے ملنے سے زیادہ احتجاج اہم ہے ، ہم کل مل لیں گے ۔ وہ بہت چٹک کر بولا ،پھر کل میرے پاس وقت نہیں آپ سے ملنے کا ۔ اب تو مجھے ایسا غصہ آیا کہ کچھ نہ پوچھیں ، مَیں نے کہا بھائی آپ کے پاس وقت ہونے نہ ہونے سے ہمیں کیا لینا دینا ، بی بی آپ سے نہیں ملنا چاہتی ، بس ختم ۔ ہم نے کونسا آپ کے ماتحت کلرک لگنا ہے ۔ اور بھائی اُس کے بعد آج تک اُس صاحب کے ساتھ مَیں خود نہیں ملا ۔ ۔ اب یہاں احتجاج کی سُنیے ۔ ہزارہ والوں کے علاوہ مَیں ، آپا فہمیدہ ،حارث خلیق ، ادریس ، اور دیگر کئی لوگ وہاں موجود تھے ، ہم نظمیں پڑھ رہے تھے ، نعرے لگا رہے تھے اور طالبان اور سپاہِ صحابہ کو کوس رہے تھے کہ اتنے میں عاشئہ صدیقہ آگئی ۔ وہ لاوڈ سپیکر پر بات کرنے لگی تو مَیں نے آپا سے کہا اِسے بات مت کرنے دو یہ اصل میں جعلی ایکٹیوسٹ ہے اور کنفیوزڈ ہے اور سپاہِ صحابہ کی ساتھی ہے ۔ آپا فہمیدہ نے مجھے ڈانٹا اور کہا نے کرنے دو ، تم ہمیشہ بد گمان رہتے ہو اور اُس کے بعد اُسے سپیکر تھما دیا ۔ اب جیسے ہی عائشہ صدیقہ کے ہاتھ میں سپیکر آیا ، اُس نے اپنی عجیب و غریب تھیوریاں دینا شروع کر دیں اور برابر سپاہِ صحابہ کو بھی مظلوم بنانے لگی ۔ اور سارا ملبہ ایران انقلاب پرڈالنا شروع کر دیا ۔ اب فہمیدہ سُنتے ہی ہکا بکا رہ گئیں ، میری طرف دیکھنے لگیں ، اور کہنے لگیں ، جلدی اِس سے لاوڈ سپیکر لے لو ، ا،س کا تو کوئی اور ہی ایجنڈہ ہے ۔ تب ہم نے جلدی سے اُس کے ہاتھ سے سپیکر لے لیا ۔ یہ احتجاج جاری تھا ۔ اور عصر کا وقت ہو چکا تھا آپا کہنے لگیں کچھ چائے وائے نہ پی لی جائے ۔ مَیں دیکھ رہا تھا کہ پچھلے ۳ گھنٹے سے جماعتِ اسلامی کے کچھ لوگ دور ہی دور ہمارے احتجاج کر دیکھ رہے تھے مگر قریب نہ آ رہے تھے۔ مَیں نے آپا فہمیدہ اور حارث خلیق سے کہا، دیکھیں جیسے ہی ہم چائے پینے گئے یہاں جماعتِ اسلامی والے آ جائیں گے اور اپنی تصویریں کھنچوا کر اِس احتجاج کو اپنے نام کروا جائیں گے ،لہذا بہتر یہ ہے کہ ہم یہاں سے نہ جائیں ۔ میری بات کو سب نے رد کر دیا ۔ تب ہم سب ایک ہوٹل میں آ بیٹھے، چائے پی کر اور کھانا کھا کر جیسے ہی وآپس گئے، ہمیں خبر ہوئی کہ یہاں حاجی اسلم اورلیاقت بلوچ اور سراج الحق آئے تھے ، اپنے ساتھ اخباری لوگوں کو لائے تھے ، دومنٹ بیٹھے ، فوٹو کھنچوائے اور نکل گئے ہیں ۔ فہمیدہ آپا پھر افسردہ ہو گئیں ، دوسرے دن کے تمام اخباروں میں ہزارہ پر دھماکوں کے خلاف سُپر مارکیٹ میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے احتجاج کی خبریں اور فرنٹ پر اُن کی دھرنا دیے ہوئے فوٹویں لگی تھی ، باقی کسی کا کوئی ذکر تک نہ تھا ۔
جاری ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...