اگر اس ملک میں
ایک نزار قابانی ہوتا
تو وہ پھر ایک نظم لکھتا
’’فہمیدہ کے بالوں میں بارہ پھول‘‘
وہ لکھتا:
’’وہ زیادہ خوبصورت تھی
یا
زیادہ خطرناک؟
اس کا فیصلہ تاریخ بھی نہیں کرسکتی!
وہ چین سموکر عورت
اور وہ خوبصورت اور خطرناک شاعرہ!
کتنی ویرانی تھی اس کی آنکھوں میں
مگر اس نے کوئی اداس نظم نہیں لکھی!
کتنے خوبصورت تھے اس کے وہ ہاتھ
جن سے لکھتی تھی وہ خطرناک شاعری
کتنے پیاسے تھے اس کے وہ ہونٹ
جن میں دبا کر وہ سگرٹ سلگاتی تھی!
کتنے خوبصورت تھے اس کے بال
آخری عمر تک!
وہ ایک مکمل عورت
اور ایک نا مکمل علامت تھی
ایک انقلاب کی
آؤ ! اور اس کے لیے
ایک آنسو بہاؤ!
ایک آنسو صرف ایک آنسو
اس چشم پرنم کے لیے
ایک عورت کے لیے
ایک تہذیب کے لیے
اور ایک مشعل کے لیے
جو دھرتی کے دل میں
بھڑکتی رہے گی!
کیا وہ عورت تھی؟
ہاں ! وہ ایک عورت تھی!
انقلاب کے دن کی تتلی
اور انقلاب کے راتوں کا
ایک ننہا منا سا جگنو
جو ہم نے شرمندہ ہاتھوں سے
مغموم دل کے ساتھ
مدفون کیا!
خواب کیا ہیں؟
اور حقیقت کیا ہے؟
وہ ان دونوں کے درمیاں
کاجل کی لکیر تھی
وہ جو اک انقلابی عورت
وہ جو ایک فقیر تھی
اس کے لیے
وہ ہاتھ اٹھائیں
’’ہاں! جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہاں! جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت ؛ کوئی خدا یاد نہیں!‘‘
وہ ایسی تھی
جیسے ’’جل بن مچھلی‘‘
وہ ایسی تھی
جیسے ’’مندر میں دیا‘‘
اکیلا اور اداس!
وہ پیار تھی
پاگل پن تھی
وہ خواب تھی
اور حقیقت بھی!
وہ فن تھی
اور فن سے زیادہ
وہ فکر تھی
وہ تنہا تھی
اور ایک منتشر ہجوم تھی!
آئیں!
اور اس عورت کا سوگ منائیں
جس کی کمر آخر تک پتلی تھی!
وہ عورت جو ایک دیس تھی
ایک دھرتی تھی
ایک وطن تھی
اور ایک پرچم بھی تھی!
وہ عورت ایک قبیلہ تھی
وہ عورت ایک قوم تھی
وہ عورت ایک قبلہ تھی
وہ عورت ایک سفر تھی
وہ عورت ایک قیام تھی!
کتنا بر ا ہے
اس دھرتی کا
ایک ردم میں چلنا
جب وہ نہیں ہے!
وہ نہیں ہے
تیرہ ربیع الاول کا اداس چاند
اس کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے
اور چپدہ ربیع الاول کا چاند
اس کی قبر سے لپٹ کر روتا ہے!
وہ جو اک خواب تھی
وہ جو اک خیال تھی
وہ جو اک انسان تھی
وہ جو اک نادان تھی!
وہ اب کہیں نظر نہیں آئے گی
سوائے سپنوں کے!
وہ اک سپنا تھی
وہ سپنا اپنا
کب بنے گا؟
وادی سندھ کے لیے
یہ اک سوال ہے؟