فہم الوسطیہ
ہر معاملے میں انتہا کی سوچ رکھنا اور انتہا کا رویہ اپنانا، دنیا میں ایک عام سی روش بن چکی ہے۔ کسی کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی معاملات کو "تازہ ترین" خبر کے انداز میں چونکا دینے والا بنا کر پیش کرنا اب ایک عموم بن چکا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے عام ہونے سے جہاں آخر الذکر پر بھانت بھانت کے فوری تبصرے دستیاب ہیں وہاں میں سٹریم میڈیا بھی مسابقت کی دوڑ میں نہ صرف معیار برقرار نہیں رکھ پا رہا بلکہ مختلف میڈیا ہاؤسز میں رقابت کا عنصر بھی شامل ہو چکا ہے۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ اچھے بھلے دانشمند تا حتٰی دانشور افراد بھی عمومی ذرائع ابلاغ پر 24 گھنٹے ہونے والی گفتگووں کے ذریعے کی جانے والی آراء سازی کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب سے امریکہ میں ایک غیرسیاست مدار شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ غیر متوقع طور پر جیتے ہیں، اس کے بعد تو ان کے خلاف مین سٹریم میڈیا نے ایک طوفان کھڑا کیا ہو ہے۔ بلاشبہ ان کے اپنے رویے اور بیانات بھی غیر سیاسی اور بہت حد تک غیر ذمہ دارانہ ہیں لیکن ہارنے والے ڈیموکریٹس کے حامی چینلوں اور دیگر ذرائع ابلاغ عامہ نے ان کو نیچا دکھانے پر کمر باندھی ہوئی ہے۔
میڈیا کو بات کرنے کی خاطر بلکہ اگر درست کہا جائے اپنا کاروبار جاری رکھے جانے کے لیے جس میں آمدنی اور منافع کا بڑا ذریعہ پروگراموں کے بیچ میں دکھائے جانے والے اشتہارات ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق کثیرالقومی کارپوریشنوں کی مصنوعات سے متعلق ہوتے ہیں، کچھ نہ کچھ لازمی کہنا ہوتا ہے۔ آج سب جانتے ہیں کہ دنیا میں کاروبار اور سیاست سے وابستہ ہر معاملے کو اٹھانے یا دبانے میں انہیں کارپوریشنوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ نہ صرف عالمی معاملات بلکہ ہر ملک کے میڈیا میں بڑی خبر بنائے جانے کے سلسلے میں بالواسطہ یا بالواسطہ انہیں کا حصہ ہوتا ہے جو دنیا اور دنیا کے ملکوں میں دولت کو اپنی کنڈلی تلے دبائے بیٹھے ہیں۔
دولت کے دباؤ کے تحت کام کرنے والے میڈیا ہاؤسز اور ان سے وابستہ صحافی، پریزنٹر اور اینکر پرسن حضرات جس کو چاہیں ابلیس بنا کر پیش کریں اور جس کو چاہیں پارسا بنا کر۔ ان کے نزدیک ہر رہنما بلعم باعور ہے جس کی سالہا سال کی تپسیا کو لمحے میں پامال کیا جا سکتا ہے۔ مگر عالمی سیاستدان کٹھ پتلی نہیں بن سکتے۔ انہوں نے بہت کچھ ایسا کہنا ہوتا ہے جو انہوں نے کرنا نہیں ہوتا اور بہت کچھ ایسا کرنا ہوتا ہے جس کے بارے میں انہوں نے کہنا نہیں ہوتا۔
گذشتہ دنوں سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں میں نے ترکی کے صدر جناب طیب اردوگان کے بارے میں امیرالمومنین کا لقب پڑھا اور روس کے صدر جناب ولادیمیر پوتن کے نام کے ساتھ زار کا لاحقہ لگا دیکھا۔ اسی طرح ٹرمپ، اردوگان اور پوتن کو ایک ہی بریکٹ میں باہم بھی پایا۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ بات وہی ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایسے ہو چکے ہیں کہ جو ہمیں بار بار سنایا اور پڑھایا جاتا ہے، ہم نہ صرف اس پر یقین کر لیتے ہیں بلکہ اس کا پرچار بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان ہی دنوں مجھ سے ایک بہت باخبر، سنجیدہ اور بڑے صحافی نے پوچھا کہ "یہ بتائیے کہ پوتن دنیا کا امیر ترین آدمی کیسے بن گیا؟" میں بھنا کر رہ گیا اور ان کو بتایا کہ جناب یہ پروپیگنڈہ ہے ویسے ہی جیسے کچھ اخباروں میں خبر یوں لگائی جاتی ہے،" مریم نواز شریف کے بیگ سے کیا نکلا، آپ جانیں گے تو آپ چکرا کر رہ جائیں گے"، جب اس خبر کو کھول کر پڑھا جاتا ہے تو اس میں مرا ہوا چوہا بھی نہیں نکلتا۔ کسی کے پاس اگر پوتن کی ثروت سے متعلق ثبوت ہیں تو اسے چاہیے کہ وہ انہیں پیش کرے۔ ابھی تک تو ژولین اسانج بھی ایسا کرنے سے قاصر رہا ہے۔
انتہائی سوچ کو یقینی بیان بنا ڈالنا محض عالمی شخصیات اور عالمی معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اپنے نظریے اور رائے کو بھی ہم آخری زاویے تک لے جا کر پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ لبرل ہیں تو آپ انتہائی لبرل ہونے کو ترجیح دیں گے اگر آپ مذہب پر کاربند ہیں تو بنیاد پرستی کی حد کے لیے بھی جواز تراشتے پھریں گے مثلا" جب کہا جاتا ہے کہ انکار میں اقرار پوشیدہ ہو سکتا ہے تو ہم مان کر نہیں دیں گے۔ ہم یہی کہیں گے کہ نہیں انکار کا مطلب تو انکار ہی ہے۔ جب کہ آپ کو عام زندگی میں دونوں رویوں کی موجودگی مل جاتی ہے، انکار میں اقرار بھی پوشیدہ ہوتا ہے اور انکار انکار محض بھی ہوتا ہے۔ اسی بات کو اگر مرد عورت کے تعلقات کے ضمن میں استعمال کیا جائے تو ہمارے لبرل دوست پہلی رائے کو یکسر غلط ثابت کریں گے جبکہ مخالف دوسری کو۔ ایسا نہیں ہوتا کہ چیزیں "سب کچھ یا کچھ بھی نہیں" کے اصول پر ہی ہوتی ہوں۔ سب کچھ نہیں بھی ہوتا اور کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے۔
طیب اردوگان نے شروع سے پاپولزم کا سہارا نہیں لیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اس طریقے کو برتا بھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یقینا" پاپولزم کی بنیاد پر ووٹ لیے لیکن ضروری نہیں کہ وہ پاپولسٹوں کی طرح "کام نکل گیا تو اپنا کام کرو" پرکاربند ہوں۔ بلکہ وہ ایسا کر بھی نہیں پا رہے۔ وہ تو دو بار تارکین وطن سے متعلق اپنی پالیسی پیش کرکے اسے عدالت عالیہ کے ہاتھوں مسترد ہوتے دیکھ چکے ہیں۔ رہے ولادیمیر پوتن تو روس میں ایسی خواہشات ابھی جگہ نہیں پا سکیں جن کو بنیاد بنا کر پاپولزم کا کھیل کھیلا جائے۔ پوتن خالصتا" اپنی مقبولیت کی بنا پر برسر اقتدار آتے ہیں۔ مقبولیت کی وجہ ان کا اپنے کاموں کے ساتھ مخلص ہونا، ایک روایتی روسی مرد کی طرح کہے پر ڈٹ جانا، ایک سخت مزاج حاکم کی حیثیت سے ٹی وی سکرین پر وزراء اور گورنروں کو لتاڑنا یا ان کی حوصلہ افزائی کرنا، عوام میں گھل مل جانا وغیرہ شامل ہیں۔ روس کی تاریخ میں ایسا کوئی حاکم نہیں رہا یا وہ زار تھے عوام سے بیزار یا وہ کمیونسٹ حاکم تھے عوام کے ہمدرد مگر عوام سے بہت دور بلکہ بہت بلند مقام پر جو سامنے نہیں بلکہ نیچے دیکھا کرتے تھے۔
نیدرلینڈ میں اردوگان کے وزراء کو عام جلسے کرنے سے روکنا جس پر اردوگان کی نیدرلینڈ کے خلاف رنجش کے ڈانڈے پوتن اردوگان ہمدستی کے ساتھ جوڑنا ایسے ہی ہے جیسے گول سوراخ میں چوکور لکڑی فٹ کرنا۔ اردوگان کو خلیفہ امیرالمومنین بنا کر پیش کرنا ان کی قوم پرستی کا ٹھٹھا اڑائے جانا ہوگا اور پوتن کو زار بنا کر پیش کرنا ان کی شخصیت کو داغدار کیے جانے کی سعی کرنا۔ یہ دونوں عمل ان دونوں سربراہان کے اپنے اپنے ملکوں میں یکسر نامعلوم رہیں گے اور یہ القاب باہر کے ملکوں میں موجود لوگوں تک محدود۔ ٹرمپ تو خیر ان دونوں سے بالکل ہی اور طرح کے ہیں۔
اردوگان کی مجبوری ہے کہ وہ نیدرلینڈ میں موجود اپنے بڑے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کی خاطر پاپولسٹ سرگرمی کا سہارا لیں۔ نیدرلینڈ کے اپنے قانون ہیں جن کے تحت وہ غیر ملکی سیاست دانوں کو اپنے ہاں ان کی سیاست سرعام نہیں کرنے دے سکتے۔ اردوگان بھی یہ بات جانتے ہیں لیکن ان کا برہمی کا اظہار کرکے اپنے ہم وطن افراد کی حمایت حاصل کرنا ان کی سیاست کا حصہ ہے۔
پوتن کی اردوگان کے ساتھ یگانگت دونوں ملکوں کے حق میں جاتی ہے۔حال ہی میں ماسکو میں ہونے والی سالانہ ٹورزم ایکسپو میں نرکی کے لوگ خوش تھے کہ چلو گذشتہ برس کی مقاربت سے روسی سیاحوں کے نہ آنے سے جو نقصان ہوا اس برس اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ روس خوش ہے کہ ترکی نے روس سے ضد میزائیل نظام خریدنے کا معاہدہ کر لیا ہے ساتھ ہی تیل گیس پائپ لائن کے وہ منصوبے پھر شروع ہوں گے جو انجماد کا شکار ہوچکے تھے۔ چنانچہ تجزیوں اور آراء میں درمیان کا راستہ اپنانا درست ہوتا ہے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“