یہ 1973ء کے اکتوبر کا وسط تھا جب میں کراچی سے ٹرین کے ذریعے 26 گھنٹے کا تھکا دینے والا سفر طے کرکے اسلام آباد یونیورسٹی (جو اب قائداعظم یونیورسٹی کے نام سے جانی جاتی ہے) کے شعبہ طبیعات میں پہنچا۔ جب میں نے اپنا سامان صدر شعبہ کے دفتر کے سامنے رکھا تو دیکھا کہ روشن آنکھوں والا ایک طویل قامت اور وجیہہ آدمی مجھے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے تیز نارنجی رنگ کی چی گویرا ٹی شرٹ اور شوخ سبز رنگ کی پتلون پہن رکھی تھی۔ اس کی طویل داڑھی کی لمبایٔ اگرچہ میری داڑھی سے کم تھی مگر وہ بھی میری طرح بے ترتیب اور بکھری ہوئی تھی۔ ہماری گفتگو شروع ہوگئی۔ میری عمر اس وقت محض تئیس سال تھی اور میں ابھی ابھی ایم آئی ٹی (MIT) سے فارغ التحصیل ہو کر بطور لیکچرر شعبہ طبیعات پہنچا تھا جبکہ وہ پچھلے پانچ سال سے اسی شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھا۔ یہ گفتگو عمر بھر کی دوستی کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔ عبدالحمید نیئر نے بھی اس وقت داڑھی رکھی ہوئی تھی جسکی وجہ سے ہم تینوں ‘شعبہ طبیعات کے صوفیوں’ کے نام سے مشہور ہوئے۔ چھتیس سال بعد جب فہیم حسین نے مثانے کے کینسر سے زندگی کی بازی ہاری تو ہمارا غم بیان سے باہر تھا۔
بطور ایک انقلابی، انسان دوست اور سائنسدان، فہیم حسین گویا ساٹھ کی دہائی کے سیاسی و سماجی خمیر کی مجسم صورت تھا۔ 1966ء میں امپیریئل کالج، لندن سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ دنیا میں کہیں بھی شاندار نوکری کر سکتا تھا۔ ایک ایسے شعبے میں جہاں بڑے ناموں کی کافی اہمیت ہے، اس نے مشہور طبیعات دان پی ٹٰی میتھیوز کے ماتحت اس شعبے میں کام کیا تھا جس کے سربراہ اس سے بھی زیادہ معروف ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد اس نے دو سال یونیورسٹی آف شکاگو میں گزارے جہاں اسے دنیا کے بہترین طبیعات دانوں کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ یہیں اس کا واسطہ ویت نام جنگ مخالف تحریک اور اس وقت کی مارکسی خیالات کی طاقتور لہر سے بھی پڑا۔ عشروں بعد بھی وہ خود کو "کلاسکی یا غیر متبدل مارکسی” کہا کرتا تھا۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں جنگ مخالف عوامی مظاہروں میں شرکت سے اسکا اخلاقی شعور مزید بلند ہوأ اور اس میں طبیعات کے علاوہ اور بھی کچھ کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی۔ لہذا ہم خیال جین سٹینفلز، جس سے اسکی ملاقات شکاگو میں ہی ہوئی تھی، سے شادی کے بعد اس نے پاکستان لوٹنے کا فیصلہ کیا۔
فہیم اور جین کی جوڑی شاندار ثابت ہوئی۔ وہ دونوں اس وقت کے اہم ترین سیاسی مقاصد میں پوری طرح مگن تھے اور یوں لگتا تھا کہ ان میں نہ ختم ہونے والے انقلابی توانائی موجود ہے۔ میری ملاقات سے بہت پہلے وہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف پاکستانی افواج کی [مبینہ] کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے تھے۔ فہیم بتایا کرتا تھا کہ اس جدوجہد میں بہت تنہائی تھی۔ ماؤ کے چین سے متاثر بہت سے مارکسی اس معاملے کو آزادی کی کسی مقبول جدوجہد کی بجائے عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔ بایٔں بازو کے کچھ لوگوں نے تو فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے [مبینہ] قتل عام کی حمایت بھی کی۔
بنگلہ دیش کے ایک حقیقت بن جانے کے بعد معاملات آگے بڑھ چکے تھے۔ بھٹو کے سوشلزم اور غرباء کے لیے انصاف کے نعروں سے ملک کے تمام شہروں میں ٹریڈ یونینوں کی تحریکیں شروع ہو گئی تھیں۔ تاہم جلد ہی ان میں سے بہت سی تحاریک مزدوروں کی ترقی کی بجائے انہیں قابو میں رکھنے کی تنظیموں میں تبدیل ہوگئیں۔ تاہم کچھ حقیقتاً آزاد تنظیمیں بھی تھیں جیسے کہ راولپنڈی کی پیپلز لیبر فیڈریشن(PLF) نامی ٹریڈ یونین جس نے بھٹو کی لفاظی کی حقیقت جان لی تھی۔ ستر کی دہائی کے شروع میں جین اور فہیم اس تنظیم کے بااثر افراد میں سے تھے جو بعض اوقات اس کے معتوب رہنماؤں کی حفاظت اور انکے چھپنے کا بندوبست بھی کیا کرتے تھے۔ اقبال بالی، جسکا 2009 کے وسط میں انتقال ہوا ہے، بڑی وضاحت سے ان دنوں کے قصے بیان کیا کرتا تھا۔
بہت جلد میں بھی بایٔں بازو کے کارکنوں کے اس چھوٹے سے گروہ میں شامل ہوگیا جو رہنمائی کیلئے اس جوڑے کی طرف دیکھتا تھا۔ ہم نے پی ایل ایف کے زیر اہتمام خود اپنی تعلیم اور صنعتی مزدوروں میں اپنے پیغام کو پھیلانے کیلئے اسٹڈی گروپس بنائے۔ مجھ سمیت کئی کارکنوں نے دور دراز کے دیہات میں بھی کام شروع کردیا۔ ہمارے گروپ کا ایک مقصد بھٹو کے ذریعے دوبارہ طاقتور ہونے والی فوج کے خلاف لڑنے والے بلوچ قوم پرستوں کیلئے امداد جمع کرنا بھی ہوتا تھا۔ ہمارا خواب پاکستان میں اشتراکی انقلاب لانا تھا۔
یہ سب 1979ء میں بھٹو کی پھانسی اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کی بغاوت کے مستحکم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ پاکستان کا تاریک عہد بس شروع ہی ہوا تھا۔ اگرچہ اپنے آخری دنوں میں بچاؤ کی شدید خواہش میں بھٹو حکومت بھی جابرانہ اور متشددانہ ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد جو ہونے والا تھا اس کے مقابلے میں پھر بھی بہت نرم تھی۔چونکہ اختلافِ راۓ کی اجازت نہ تھی لہٰذا اپنی کارروائیوں کو زیرِ زمین منتقل کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ 3 نومبر 1981ء کو ہمارے تین رفقاء پکڑے گئے، جیل بھیج دیے گئے اور تشدد کا نشانہ بنے۔ جمیل عمر جو کمپوٹر سائنس کا لیکچرر اور "رنگ لیڈر” تھا اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، طارق احسن اور محمد سلیم پابند سلاسل ہوئے اور انکی پیشہ ورانہ زندگی کو تباہ کیا گیا۔ ان کا جرم "جمہوری پاکستان” نامی ایک چار صفحاتی مجلے کی زیرِ زمین اشاعت میں شمولیت تھی جس میں فوجی حکومت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ضیاء الحق نے پی ٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے ان اساتذہ کی گرفتاری میں شامل افراد کو مبارک باد پیش کی اور قائد اعظم یونیورسٹی سے "سیاست کے ناسور کے خاتمے” کا وعدہ کیا۔
اگرچہ فہیم "جمہوری پاکستان” کی اشاعت میں براہ راست ملوث نہیں تھا لیکن ہمیں معلوم تھا کہ خفیہ ادارے اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ وہ چھپ سکتا تھا لیکن اپنی مخصوص بے خوفی کے ساتھ اس نے مغوی اساتذہ کا پتا لگانے اور انہیں رہا کروانے کی پوری کوشش کی۔ طارق احسن نے مجھے بعد میں کینیڈا سے لکھا کہ "ان پرآشوب برسوں میں اس کی حمایت ہمارے اعزہ و اقرباء کیلئے ایک انمول سہارا تھی”۔
لیکن اس تھکا دینے والے جدوجہد کے اثرات بالآخر ظاہر ہو کر رہے۔ اسّی کے عشرے کے وسط تک فہیم اداسی اور بے کیفی کی حالت میں آچکا تھا۔ پاکستان کے بنجر تعلیمی ماحول میں رہتے ہوئے وہ کوئی ڈھنگ کی تحقیقات شائع کرنے کے قابل نہ تھا۔ جبر و استبداد کے ماحول میں سیاسی طور پر بھی کوئی قابل ذکر کام کرنے کا امکان کم ہی تھا۔ ذاتی زندگی میں بھی معاملات خراب ہورہے تھے اور جین کے ساتھ اسکی شادی خاتمے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ بالآخر ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی اور جین واپس امریکہ لوٹ گئی۔ فہیم کی حوصلہ افزائی پر اس نے سکول کے بچوں کیلئے پاکستان کی تاریخ پر کتابیں لکھی تھیں جو آج بھی بکتی اور استعمال ہوتی ہیں۔ فہیم نے قائد اعظم یونیورسٹی کو 1989ء میں رسمی طور پر چھوڑا لیکن تعلیمی اور سیاسی معاملات میں اس کی شمولیت اس سے ڈیڑھ دو سال قبل ہی ختم ہوچکی تھی۔
زندگی کے اس نشیب سے فہیم نے دوبارہ بلندی کا سفر شروع کیا۔ پہلے جرمنی اور بعد میں دیگر جگہوں پر اپنے کام میں اس نے اپنی مکمل توجہ اپنے پیشے پر مرکوز کی اور جدید طبیعات میں خاصا درک پیدا کیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے، جنہیں تب تک طبیعات میں نوبیل انعام مل چکا تھا، فہیم کو اٹلی میں مرکز برائے نظری طبیعات کا مستقبل رکن بننے کی دعوت دی (جو اس نے قبول کرلی)۔ پھر 2004ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک وہ وہیں رہا۔ اس مقام تک پہنچنا کوئی چھوٹی بات نہ تھی کیونکہ نظری طبیعات کا شعبہ مشکل ہونے اور مقابلے کی شدید فضا کے باعث بدنام ہے۔ فہیم اس کے سب سے مشکل میدان یعنی سپر سٹرنگ تھیوری پر پرچہ شائع کرنے والا پہلا پاکستانی تھا۔
اپنی باغ و بہار شخصیت اور درمندی کی بدولت فہیم جلد ہی آئی سی ٹی پی میں بھی مقبول ہوگیا۔ ادارے کی راہداریاں اس کے قہقہوں سے گونجتی رہتیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس پر انتظامی ذمہ داریاں بھی آن پڑیں اور اس نے وہاں ڈپلومہ پروگرام شروع کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا جس میں تیسری دنیا سے طلبہ کو کئی شعبوں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے داخلہ دیا جاتا ہے۔ اس کی شادی اب سارہ نام کی ایک خوبصورت اور بردباد خاتون سے ہوچکی تھی اور اس کے اطالویوں، پاکستانیوں اور ہندوستانیوں سے اچھے تعلقات تھے۔ فہیم ایک ثقافتی جل تھلیا تھا جس کیلئے اقوام کی بنیاد پر تفریق کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔
پھر اسکی ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچا۔ اب کیا کیا جائے؟ میں نے فہیم کو لکھا کہ قائداعظم یونیورسٹی واپس آجاؤ اور اس نے میری بات مان لی۔ چونکہ اس وقت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں پیسے کی ریل پیل شروع ہوچکی تھی اس لیے پیسے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مگر گندی سیاست اور اپنے علم مخالفت کے ماحول کی وجہ سے قائداعظم یونیورسٹی نے اسے لینے سے انکار کردیا۔ادارے کے بانیان میں سے ایک اور پاکستان کے سب سے ممتاز فعال طبیعات دان کی واپسی روکنے کیلئے عجیب و غریب دلائل دیے گئے۔ تاہم پھر اسے پہلے قومی مرکز برائے طبیعات اسلام آباد اور پھر لاہور یونیورسٹی آف میجنمنٹ سائنسز کے نئے نئے قائم کیے گئے شعبہ سائنس میں لے لیا گیا۔
فہیم کے تفاخر سے پاک رویے اور شرافت کی وجہ سے جلد ہی پورا لمز بھی اس کا گرویدہ ہوگیا۔ پاکستان کے نمایاں ترین طبیعات دانوں میں سے ایک اسد نقوی نے فہیم کی وفات کا سن کر مجھے لکھا کہ "میری فہیم سے شناسائی صرف پانچ برس کے عرصے پر محیط تھی لیکن اس قلیل وقت میں ہی میں اس کا بہت گرویدہ ہوگیا تھا۔ ہماری روح کو چھو لینے والے ایسے خوبصورت انسان کو کھودینے پر ہم سب ہی آج بہت شکستہ ہیں۔”
یقینا فہیم کے بہت سے دوستوں کی جانب سے ابھی اور بھی ایسے ہی نذرانہ ہائے عقیدت پیش کیے جائیں گے۔ اس کی یاد اور خود اپنے آپ کے ساتھ وفادار رہنے کیلئے مجھے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی زندگی کے آخری سالوں میں میرے اور اس کے درمیان کچھ اہم سیاسی معاملات پر اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ میرے نزدیک "کلاسکی یا غیر متبدل مارکسی” ایک ماضی کی شے بن چکا تھا۔ ساٹھ کی دہائی اور اس سے پہلے کے عرصے کی باقیات میں سے ایک ‘ کلاسکی یا غیر متبدل مارکسی’ آج کی اس دنیا میں بے معنی ہوچکا تھا، وہ دنیا جو اتنی زیادہ پیچیدہ ہوچکی ہے جس کا مارکس تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اور نہ ہی میں بائیں بازو کی اس "سامراج مخالفت” کی حمایت کر سکتا تھا جو دراصل رجعت پسند بنیاد پرستی ہی کی حمایت بن کر رہ جاتی ہے۔ لیکن ان چیزوں کو یوں ہی رہنے دیجئے۔ کوئی ضروری تو نہیں کہ دو دوست سب باتوں پر متفق ہی ہوں۔
ہر ایٹم اور ہر زندگی کے لیے موت شدنی اور ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ عدم کی وجود پر حتمی فتح۔ کیا زیست بے معنی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ایک بھرپور زندگی گزارنا، اس کی ہمہ رنگی کا تجربہ کرنا، صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کیلئے جدوجہد کرنا اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا پیار اور احترام جیتنا ۔۔۔ ایسی زندگی واقعی جیے جانے کے قابل ہے۔ فہیم میرے دوست تم جاچکے ہو۔ تم نے اپنا کام خوب کیا، آسودہ رہو۔
تحریر: پروفیسر پرویز امیر علی ہودبھائی
ترجمہ: عاطف حسین