کسی بھی سماجی مظہر کی طرح فحاشی کی بھی کوئی ایسی تعریف متعین کرنا ممکن نہیں جس پر دنیا کی جملہ اقوام کا اتفاق ہوسکے۔ بلکہ ایک ہی علاقے یا ملک میں مختلف طبقات اور ثقافتی گروہوں کے نزدیک بھی اس کا مفہوم الگ الگ ہوگا۔اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو نہ صرف دیہات اور شہر کے باسیوں کی تفہیم مختلف ہوگی بلکہ شہر میں موجود الیٹ، مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی تفہیم میں بھی بہت نمایاں اختلاف دیکھا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنی اپنی کلاس میں بھی لوگ ایک دوسرے سے مختلف رائے کے حامل ہوں گے۔ اور یہ فرق ان کے رہن سہن، روزمرہ کی گفتگو اور لباس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مڈل کلاس ایک عمدہ مثال بن سکتی ہے۔ اس کلاس میں لباس اور سوچ کے حوالے سے کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ مڈل کلاس میں جہاں ایک طرف چادر یا سکارف والی خواتین پائی جاتی ہیں وہیں جدید تراش خراش والا لباس پہنے اور زلفوں کو لہراتی خواتین بھی ملیں گی۔ یہ صورتحال اپر مڈل کلاس سے لوئر مڈل کلاس تک میں عام دیکھنے کو ملتی ہے۔ رہن سہن اور لباس کا یہی فرق اس کلاس کے افراد کے تصورِ فحاشی میں بھی منعکس ہوتا ہے۔
اگرچہ مذہبی ذہن کے افراد کو فحاشی کے مظہر کے بارے میں سب سے زیادہ حساس سمجھا جاتا ہے مگر ان کی سوچ سے بھی فحاشی کی کوئی یکساں تعریف اخذ کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ حضرات تو ابھی تک یہ طے نہیں کرپائے کہ عورت کے پردے کی حدود و قیود کیا ہیں اور نہ ہی آج تک یہ قرآن و احادیث سے کوئی یکساں معیار اخذ کرپائے ہیں۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اب تک خود علماء کے درمیان ہونے والے اختلافی مباحث ختم ہوچکے ہوتے۔ ایک طرف آرتھوڈاکس گروہ ہیں جن کے نزدیک پردے کی شرائط اتنی کڑی ہیں کہ عورت کے ہاتھ اور پاؤں بھی ستر میں شامل ہیں اور دوسری طرف جدید تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملا کر چلنے والے خاندان بھی ہیں جن کے ہاں خواتین کا گھر سے باہر نکلنا، مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، ملازمت کرنا اور ضروری کاموں کے سلسلے میں اجنبی مردوں سے بات چیت کرنا کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔یقیناً ایسی خواتین کو پردے کی سختی سے پابندی کرنے والی خواتین کی جانب سے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
الہامی مذاہب کے پیروکاروں میں عمومی طور پر عورت اور فحاشی کو لازم و ملزوم خیال کیا جاتا ہے۔ یعنی جہاں عورت ہوگی وہیں فحاشی کا امکان بھی پیدا ہوجائے گا۔ اس سوچ کے پیچھے آدم اور حوا کی کہانی کھڑی ہے جس کے مطابق اولین مرد کو عورت کی وجہ سے بہشت بدر ہونا پڑا۔ حالانکہ اس کہانی کے مطابق شیطان کے بہکانے سے پہلے دونوں بہشت میں عریاں گھومتے تھے۔ جب انہیں شیطان کے بہکانے کے بعد برہنگی کا احساس ہوا تو انہوں نے انجیر کے پتوں سے اپنے سطر ڈھانپے۔ تو گویا فحاشی کی وجہ آدم و حّوا کی عریانی نہیں بلکہ وہ ذہنی تبدیلی تھی جو شیطان کے بہکانے کے بعد پیدا ہوئی۔ فحاشی کے بارے میں ہماری زُودحسی کو سمجھنے کے لیے یہ بات ایک بلیغ اشارہ ہے۔
مشرقی معاشروں کے باشندوں کی جنسی حساسیت جہاں کہ عورت کو ملفوف رکھنے پر ضد کی حد تک زور دیا جاتا ہے، حد سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ جبکہ وہ مغربی معاشرے جہاں ساحلوں پر مختصر ترین لباس میں دھوپ سینکنے کا چلن عام ہے، وہاں کوئی شاذ ہی کسی دوسرے کو نظر بھر کے دیکھتا ہوگا۔ ہمارے ہاں تو ایسے حضرات بھی ہیں جنہیں پسٹن کی حرکت اور قلم دان میں بھی فحاشی دکھائی دے جاتی ہے۔ ہاتھ اور پاؤں انسانی جسم کے وہ اعضاء ہیں جو کوئی بھی کام کرتے ہوئے سب سے زیادہ استعمال میں آتے ہیں اور یہ ستر میں بھی شامل نہیں ہیں۔ ہاں البتہ کسی سماج میں اگر انہیں بھی ملفوف رکھنے کے اخلاقی ضابطوں کا نفاذ کردیا جائے تو یقیناً وہاں کے مردوں کی جنسی خواہش عورتوں کے ہاتھ اور پاؤں دیکھ کربھی انگیخت ہوجائے گی۔ اور اسے کسی صورت صحت مند رویہ نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارے ہاں جو کلاسیکل شاعری تھی اس میں محبوب کی کمر (جس میں پیٹ بھی شامل ہے) کی نزاکت کا بے جا حد تک تذکرہ ملتا ہے اور شاعر حضرات اس پہ ریشہ ختمی دکھائی دیتے ہیں۔ اب صورت یہ ہے کہ ہندوستانی فلموں نے کمر کے بارے میں ہماری حساسیت کو بہت حد تک نارمل کردیا ہے۔ مقبول شاعر جون ایلیا نے تو اپنی شاعری میں پیالۂ ناف کی اصطلاح بھی کئی جگہ برتی ہے۔ معلوم نہیں یہ اصطلاح عورت کی قربت سے محروم مردوں کے صبرکا کیا کیا امتحان نہیں لیتی ہوگی۔
پینٹنگ اور سکلپچر میں نیوڈ اور پورن کی اصطلاحیں مروج ہیں۔ نیوڈ سے مراد ایسی بے لباسی ہے جو جذبات میں ہیجان پیدا نہ کرے اور پورن ایسی پینٹنگ، سکیچ یا سکلپچر ہے جو دیکھنے والے کے جنسی جذبات کو انگیخت کرے بھلے اس میں لباس کا مکمل اہتمام ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ کوئی بھی ایسی سوسائٹی جہاں جسموں کو بے جا طور پر چھپانے کا چلن ہوگا وہاں فحاشی کا احساس چھوت کی بیماری طرح پھیل جاتا ہے۔بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ بظاہر عورتیں پردے میں ملفوف ہوتی ہیں مگر مرد انہیں کسی نہ کسی صورت عریاں دیکھنے کی خواہش میں مبتلا رہتے ہیں۔ بلکہ وہ اپنا تصور اس انتہا تک لے جاتے ہیں کہ اپنے تئیں دیکھ بھی لیتے ہیں۔
فحاشی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس کا تعلق اگرچہ عورت سے جوڑا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ مرد کی سوچ سے مخصوص ہے۔ ہم اسے مردوں کی سیکوئل فرسڑیشن کا پیمانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عورت جتنی زیادہ ملفوف اور مردوں کے لیے اجنبی ہوگی ان کی جنسی خواہش اسی قدر زُود حس ہوتی چلی جائے گی۔ اور جنسی حساسیت کی یہی کیفیت سوسائٹی میں فحاشی کا پیمانہ ٹھہرے گی۔ فحاشی اور چھپانے کا عمل لازم و ملزوم ہیں۔مغرب کے لوگ ایک کھلی اور آزاد زندگی جیتے ہیں۔ کم و بیش ہر جگہ مرد اور عوریں مل جل کر کام کرتے ہیں۔ وہاں کسی نوجوان لڑکی یا ادھیڑ عمر کی عورت کو اپنی حفاظت کے جھوٹے احساس کے لیے نقاب اوڑھنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے کی انگلی تھام کر باہر نہیں نکلنا پڑتا، جبکہ ہمارے ہاں یہ منظر روزمرہ کا حصہ ہے۔ وہاں اپنی جنسی خواہش کو چھپانے اور جھوٹ بولنے کا چلن نہیں۔ انہیں کوئی خاتون اچھی لگے تو بڑی آسانی سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا وہ ان کی دوست بننا پسند کرے گی۔ اگر وہ انکار کردے تو برا نہیں مناتے اور نہ ہی ہماری طرح ان کا گھر تک پیچھا کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہاں سبھی دودھ کے دُھلے ہیں مگر کوئی بھی سوسائٹی اپنے اجتماعی اور عمومی رویوں سے ہی پہچانی جاتی ہے۔ ان کے ہاں فحش ہونے کا مطلب کسی دوسرے کے جنسی جذبات کو زبردستی انگیخت کرنا ہے۔ وہاں لوگ اکثر میلوں ٹھیلوں میں برہنہ شامل ہوتے ہیں مگر نہ تو کوئی اوئی اللہ کی آواز بلند ہوتی ہے اور نہ کوئی اُف اُف کی گردان کرتا دکھائی دیتا ہے۔کئی مواقع پر خواتین بے لباسی کو احتجاجی مظاہرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں مگر شائد ہی کوئی ہو جو اِن واقعات کوایک احتجاج سے زیادہ اہمیت دیتا ہو۔ ہمارے ہاں تو ٹیلی ویژن پر ٹینس کھیلتی ہوئی گوری خواتین کو بھی جنسی مزے کے لیے دیکھا جاتا ہے۔ خواتین کی ریسلنگ ذوق و شوق سے دیکھنے میں بھی یہی راز پنہاں ہے۔ اگر فحاشی کا تعلق سماجی تربیت سے بننے والی سوچ کی بجائے کم لباسی یا برہنگی سے ہوتا توسب سے زیادہ مغربی ممالک اور افریقہ کے برہنہ اور نیم برہنہ قبائل اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہوتے۔ مگر ان قبائل کی خواتین تو برہنہ ہونے کے باوجود اتنے اعتماد سے چل پھر رہی ہوتی ہیں کہ ہماری سرتاپا لپٹی خواتین میں اس اعتماد کا عشرِعشیر بھی نہیں پایا جاتا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ فحش سوچ کا تعلق خاص طور پر مردوں سے ہے نہ کہ عورتوں سے، تو یہ بات کچھ غلط نہیں ہوگی۔اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مرد ایک ایسا وجود ہے جو دیکھنے کو عام دستیاب ہے، جو کسی برقعے میں ملفوف نہیں پھرتا۔ اس کا نیم برہنہ پایا جانا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور یہ مناظر ہمارے دیہات میں عام ہیں جہاں شدید گرمی میں مرد صرف دھوتی پہننے کا تکلف بھی بمشکل کرتے ہیں اور کئی بار تو اسے بھی لنگوٹ میں بدل لیتے ہیں۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ کوئی شے بار بار دکھائی دے تو تجسس اور دلچسپی کھو کر بالکل عام سی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔
اگر ہم یوں کہیں کہ فحاشی دراصل وصل سے محرومی کا شاخسانہ ہے اور وہ بھی خاص طور پہ مرد کے لیے، توکچھ غلط نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جن سوسائٹیوں میں دو افراد کی آزادی سے ملنے والے وصل کے مواقع بداخلاقی بلکہ حرام کاری کا درجہ رکھتے ہوں، وہاں معمولی سی عریانی یا برہنگی بھی فحاشی کے شدید احساس میں ڈھل جاتی ہے جبکہ مغربی معاشرت میں یہ بیمار احساس قدرے ناپید ہے۔غور کیا جائے تو فحاشی فحاشی کا شور مچانے والے افراد ہی عریانی کے سب سے زیادہ دلدادہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر بڑے متشرع اور شریف دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے ذہن ہمہ وقت عورتوں کے بارے میں غلیظ جنسی خیالات سے بھرے رہتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے گٹر کی طرح ابل پڑتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بیجا باپردگی اور فحش سوچ کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو بالکل غلط نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...