فحاشی کا تعلق درحقیقت شر سے جوڑا گیا ہے۔یوں فحاشی کی بجائے لفظ شر استعمال کیا جائے گا تاکہ دیگر شر بھی سمجھے جا سکیں۔ قصہ مختصر کر لیں تو یوں کر لیں کہ خیرو شر کا مرکز کہاں ہے یا کون سی چیز ہے؟
خیر و شر کے کئی مرکز بیان کیے جاتے ہیں مثلا
1- خیر و شر دماغ میں ہے ۔ جو اس نظریے کو مانتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ فحاشی دماغ میں ہے بالخصوص مرد کے دماغ میں۔
2- فحاشی مرد کی آنکھوں میں ہے ۔دراصل اس کا کلی اصول یہ ہے کہ خیر و شر اور جمالیات کا تعلق انسان کی آنکھوں سے ہے۔
3-دماغ بوقت پیدائش خالی سلیٹ یا پیپر کی مانند ہے۔ اس نظریے کے مطابق غور کیا جائے تو بوقت پیدائش انسان ،خیر و شر کا مرکز دماغ میں نہیں ہے ۔یوں اس نظریے کے مطابق فحاشی کا مرکز دماغ نہیں ۔دماغ سے خارج میں کہیں اس کا مرکز ہے۔
4-معاشرہ انسان کو بناتا ہے۔ اس اصول کے مطابق خیر و شر کا مرکز معاشرہ ہے نہ کہ دماغ انسان۔یوں فحاشی معاشرے میں ہے۔
5- انسان معاشرہ و ماحول بناتا ہے ۔ یوں یہاں معاشرہ و ماحول انسان کے دماغ کی کارستانی ہے لہذا معاشرے میں موجود ہر خیر و شر انسان کے دماغ کے مرہون منت ہے اور دماغ انسان ہی فحاشی کا مرکز ہے۔
6-انسان کچھ جبلتوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے ۔خیر و شر انہی جبلتوں کی وجہ سے ہے ۔لہذا فحاشی کا مرکز یہ جبلتیں ہیں۔
بہرحال خالصتا عقلی لحاظ سے خیر و شر کے نظریات محض تین چیزوں میں عموماً بیان کیے گئے ہیں ۔حالانکہ اور بھی بنائے جا سکتے ہیں۔وہ تین چیزیں یہ ہیں ۔
دماغ میں
آنکھوں میں
خارج از دماغ اور آنکھوں سے
دماغ تک حسیات معلومات فراہم نہ کریں تو دماغ کسی کام کا نہیں لیکن کسی فلاسفر نے بڑی مغز ماری کے بعد کہا تھا کہ عقل محض پھر بھی روح، عالم مطلق اور خدا کے کانسپٹ پر مشتمل رہتی ہے ۔ ( مجھے اس بات سے اختلاف ہے) ۔
بہرحال غور کریں کہ دماغ تک اگر معلومات جو حسوں کے ذریعے پہنچتی ہے وہ نہ ہو تو دماغ کسی کام کا نہیں ۔ لہذا فحاشی کا مرکز کسی بھی مرد اور عورت کا دماغ نہیں۔
معلومات انسان کے دماغ کے بغیر ماحول و معاشرہ یا خارج از دماغ انسان ممکن نہیں ۔لہذا خارج از دماغ فحاشی موجود ہی نہیں۔
یوں فحاشی نہ دماغ نہ خارج از دماغ انسان میں موجود ہے ۔اس لیے انسان کا دماغ فحاشی کا خالق نہیں اور خارج از دماغ انسان فحاشی نہیں تو خارج از دماغ کوئی بھی چیز فحاشی مراد شر نہیں۔
باقی آنکھوں کے کھلے یا بند ہونے سے وہ چیز جو ہے ہی نہیں ،نظر نہیں آ سکتی ۔اس لیے کوئی یہ کہے کہ فحاشی انسان کی آنکھوں میں ہے تو یہ التباس ہے ،حقیقت نہیں۔
فحاشی کہیں بھی نہیں محض ایک لفظ ہے جس کو بدنام کیا گیا ہے۔