فحش مواد دیکھنے کی وجوہات، نقصانات اور سد باب
گزشتہ دنوں پاکستانی نژاد برطانوی شہری عابدہ احمد سے ایک نشست کا اہتمام ہوا۔ اس نشست میں موضوع کے حساب سے کچھ نیا تو نہیں تھا البتہ عابدہ کے تجربے اور ان کے خیالات سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ عابدہ احمد برطانیہ کی پہلی مسلم خاتون ہے جس نے سیکس ایڈکشن کونسلنگ میں تربیت حاصل کی ہے۔ انھوں نے ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز اور انگلش لٹریچر میں ماسٹرز بھی کر رکھی ہے اور اس وقت ”امانہ کونسلنگ“ کے نام سے اپنا ادارہ چلا رہی ہیں۔
ہماری گفتگو زیادہ تر فحش مواد کو دیکھنے کی لت میں مبتلا لوگ اور اس سے بچاؤ کے ارد گرد ہی گھومتی رہی۔ اس پوری گفتگو کو ایک تحریر میں سمیٹنا مشکل ہوگا لہذا اس گفتگو کے کچھ چیدہ چیدہ پوائنٹس پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔
بات چیت کا آغاز نادیہ (نام بدل دیا گیا ہے) نامی بائیس سالہ لڑکی کی کیس اسٹڈی سے ہوا۔ نادیہ کو بارہ سال کی عمر میں ہی انٹرنیٹ میں پورن سائٹس (فحش مواد) تک رسائی ملی۔ اور وہ اب تک اس لت سے خود کو باہر نہیں نکال پائی ہے۔ وہ اس وقت یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ گزشتہ سال عمرہ کی ادائیگی کے بعد وہ مزید پریشانی اور ڈپریشن کا شکار رہی۔ نادیہ اس وقت مشاورتی عمل سے گزر رہی ہے اور دوبارہ ایک عام زندگی میں آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مڈل سیکس یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق 11 سے 16 سال کے درمیان 53 فیصد بچے فحش مواد باقاعدہ دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے 94 فیصد 14 سال تک پہنچتے ہی یہ مواد دیکھ چکے ہوتے ہیں۔
پورن یا فحش مواد کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ انتہائی حیران کن ہے۔ اس وقت پورن انڈسٹری 97 بلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اور اس کی مالیت ایپل، یاہو، گوگل اور نیٹ فلیکس کی مجموعی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔
دنیا میں 50 سے 75 فیصد مرد اور خواتین آن لائن پورن سائٹس کو باقاعدہ دیکھتے ہیں۔ سرچ انجنز کو روزانہ 68 ملین درخواستیں فحش سائٹس تک رسائی کی موصول ہوتی ہیں۔ ان میں سے 25 فیصد لفظ ”پورنوگرافی“ سرچ کرتے ہیں اور اس میں بھی سب سے پہلا لفظ ”Teen“ ہوتا ہے۔ Your Brain On Porn نامی مشہور سائٹ کے مطابق روزانہ بیس ہزار نئے اور منفرد لوگ ان سائٹس کو دیکھتے ہیں۔
ہر سیکنڈ تقریباً 30 ہزار لوگ فحش ویب سائٹس کو دیکھتے ہیں۔ ہر منٹ تقریباً 17 لاکھ سے زیادہ فحش ای میلز بھیجی جاتی ہیں۔ جبکہ صرف امریکہ میں ہر گھنٹے بعد تقریباً دو فحش فلمیں ریلیز ہوتی ہیں۔ پوری دنیامیں فحش مواد یکھنے میں جو دس ممالک سر فہرست ہیں، ان میں سے پہلے چھ ممالک اسلامی ہیں۔ پاکستان کے بعد مصر کا نام آتا ہے۔ مصر کے بعد ایران، مراکش، سعودی عربیہ اور ترکی کا نمبر آتا ہے۔ جہاں بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد دیکھا جاتا ہے۔
سیکس ایڈکشن کی اصطلاح سب سے پہلے اسی کی دہائی میں پیٹرک کارنس کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ انھوں نے اسے غیر محفوظ جنسی طرز عمل کا حصہ قرار دیا۔ اگر یہ رویہ مخفی ہو، خود کے لیے یا دوسروں کے لیے نقصان دہ ہو، دردناک احساسات اور تعلقات سے بچنے کے لیے انجام دیا جائے تو پھر یہ سیکس ایڈکشن ہے۔
ایڈکشن یا کسی لت میں مبتلا ہونے کی دو اقسام ہیں پہلی قسم کیمیائی ہے جس میں ادویات اور شراب وغیرہ جبکہ دوسری قسم رویے کی ہے جس میں فحش مواد دیکھنا اور جوا وغیرہ شامل ہیں۔ فحش مواد کو دیکھنے کی لت میں مبتلا ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے مگر ٹرپل اے انجن کے نام سے تین وجوہات مشہور ہیں جن میں پہلی وجہ با آسانی رسائی، دوسری وجہ کم قیمت میں دستیابی اور آخری وجہ شناخت کا ظاہر نہ ہونا بتایا گیا ہے۔
دوران گفتگو ایک سوال مجھے تنگ کر رہی تھی میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح میری سوال کی وجہ گفتگو کی روانی میں خلل پڑے یا بات کسی اور سمت چلی جائے۔ موقع ملتے ہی سوال داغ دیا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ہمارا دماغ اس لت کو اپنا لیتا ہے؟ عابدہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا اور اپنے مخصوص برطانوی انگریزی لہجے میں بولنے لگی۔ لا متناہی انوکھا پن، ڈوپامین (دماغ میں پایا جانے والا مرکب جو عصبی ترسیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے) کا متحرک رہنا جو بھوک کی کفیت پیدا کرے۔ اکثر اوقات یہ فحش مواد ڈوپامین کو اس حد تک متحرک کر دیتا ہے کہ اس سے احساس ہونے لگتا ہے کہ اس سے زیادہ خوشی تو کہیں اور مل ہی نہیں سکتی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی شرم کے ساتھ منشیات کا استعمال بھی کیا جائے تو یہ دردناک جذبات سے فرار ہونے کی خواہش میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی اور بھی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اور انھوں نے بہت ساری مثالوں کا سہارا بھی لیا جو اس سوال کے جواب کو سمجھنے میں کافی معاون تھیں۔
ساتھ بیٹھا ایک ساتھی اس پوری گفتگو کو انتہائی انہماک سے سن رہا تھا آخر وہ بھی ایک سوال کی صورت میں بول ہی پڑا۔ کہ ایک شخص اگر تنہائی میں اپنے لیپ ٹاپ یا موبائل میں یہ مواد دیکھ رہا ہے تو اس سے کسی کو تکلیف کیوں ہو جاتی ہے؟ میرے حساب سے اس کے کوئی خطرناک نتائج تو نہیں بنتے؟ اس سوال کو سن کر عابدہ احمد کچھ دیر تک خاموش رہی اور کہنے لگی کہ ہماری آج کی گفتگو کا نچوڑ بھی آپ کے اس سوال میں پوشیدہ ہے۔ برطانیہ کی نیو کاسل یونیورسٹی کے محقیقین کے مطابق ورچوؤل ریلیٹی (مجازی حقیقت) کی وجہ سے اب فحش مواد دیکھنے والا صرف اُسے علیحدہ سامع کے طور پر دیکھ ہی نہیں رہا ہوتا ہے بلکہ وہ خود اس کا مرکزی کردار بھی بن جاتا ہے۔ یوں حقیقت اور تصوراتی دنیا کے درمیان فرق کم رہ جاتا ہے اور آپس کے تعلقات خراب ہونے اور نقصان دہ رویے کی حوصلہ افزائی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق اب جتنا بھی فحش مواد انٹرنیٹ پر اپلوڈ کیا جاتا ہے اس میں جارحیت دکھائی جا رہی ہے اور اس جارحیت کا ارتکاب کرنے والے زیادہ تر مرد ہی ہوتے ہیں۔ اور حیران کن طور پر جارحیت کے بعد نشانہ بننے والی عورت جارحیت پر مبنی جنسی تعلق سے لطف اندوز ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور ایسے مناظر بلا شبہ معاشرے میں جارحیت اور تشدد کو فروغ دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے ایسی تحقیقات بھی ہیں کہ فحش مواد کے جنسی تشدد کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب تک کی تحقیقات کے بعد ریسرچرز کا یہ بھی خیال ہے کہ مردوں کی سٹریاٹیم (دماغ کا ایک حصہ جو لذت کا احساس دلاتا ہے) کثرت سے فحش مواد دیکھنے سے سکڑتی ہے۔
فحش مواد کے عادی لوگوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ خاتون کے ساتھ بات چیت کرنے کے بجائے انھیں اکثر جنسی تسکین پہنچانے والے ایک شے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس سے جنسی جذبات، صبر، یادداشت اور توجہ کی کمی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ اور ساتھ زنا، طلاق، تشدد اور خودکشی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
اکثر جو کچھ ان فحش مواد میں دکھایا جاتا ہے وہ ضروری نہیں کہ حقیقی زندگی میں بھی ہو کچھ لوگ اس حقیقت کو سمجھے بغیر اپنی حقیقی جنسی زندگی کو بے معنی سمجھتے ہیں یا پھر اس میں خود ہی کوئی خامی و غلطی کا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں۔
ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ جو لوگ فحش مواد دیکھتے ہیں ان کے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات ہوتے ہیں۔ ان کے معاشقے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور رقم ادا کرکے کسی کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرنے کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ بات بھی حقیقت ہے کہ فحش مواد کے منفی اثرات کا انحصار اس بات پر ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی انسان اس کا استعمال کس طرح کرتا ہے۔
اب ہم سب کے ذہنوں میں جو سوال پیدا ہو رہا تھا اسے عابدہ احمد نے بھانپ لیا اور کہنے لگی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس صورت حال سے باہر کیسے نکلا جائے۔ ان کے مطابق اس کے تین درجے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس کا سامنا کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ انکار کرنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ لڑا یا مقابلہ کیا جائے۔
فحش مواد دیکھنے کی عادت میں مبتلا لوگ بہت ساری جگہوں سے مدد لے سکتے ہیں۔ انھیں مشاورتی اداروں سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے بہت سارے اچھے اداروں کا مواد آن لائن بھی موجود ہے جس سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ گھر میں اگر یہ خوف ہو کہ کم عمر بچے ایسے مواد تک رسائی حاصل نہ کریں اس کے لیے فلٹرز انسٹال کیے جا سکتے ہیں۔ دماغ، جسم اور روح میں توازن برقرار رکھتے ہوئے اپنے اندرونی اقدار اور توانائیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ مل کر اپنے موجودہ وسائل کو دیکھتے ہوئے ایک خوبصورت معیار زندگی کا خاکہ کھینچ لیں اس میں کسی سے متاثر ہونے کی ہر گز کوشش نہ کریں۔ مثبت جنسی تعلقات کو سمجھیں۔ دین اور دنیا کو بہتر طریقے سے چلائیں اور ایک کی وجہ سے دوسرے کو مکمل سائیڈ لائن نہ ہونے دیں۔ اپنے توقعات کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔
نیشنل ہیلتھ سروس برطانیہ نے جنسی نشے اور منشیات کے نشے کو ایک جیسے قراردے کر کہا ہے کہ اس بیماری والے بغیر کسی کنٹرول کے فحش مواد دیکھنے کی عادت میں مبتلا ہوسکتے ہیں جس کے بارے وہ سوچتے ہیں کہ یہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔
ایک سوال جو اس گفتگو کے درمیان میں پوچھا گیا تھا اسے میں اس تحریر کے آخر میں لکھ رہا ہوں۔ سوال یہ تھا کہ والدین کیا کریں؟ اس سوال کے کچھ جواب تو اوپر آ چکے ہیں۔ عابدہ احمد اس بارے میں مزید کہتی ہیں کہ پہلی اور اہم بات یہی ہے کہ والدین اور بچے آپس میں کھل کر بات چیت کریں۔ خاص کار بچوں کو یہ حوصلہ دیا جائے کہ جو بھی بات یا چیز انھیں اجنبی یا ناگوار لگے اس کا ذکر اسی وقت اپنے والدین کے ساتھ کر سکیں۔ معاشرے کے حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے جنسی تعلیم کو سمجھ سکیں۔ بچے جن سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں یا جو ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں ان پر ہمیشہ نظر رکھیں۔ ٹی وی دیکھنے، نیٹ پر بیٹھنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے کے وقت کو محدود کر دیں۔ اور اس کا عملی مظاہرہ والدین کو خود ہی کرنا ہوگا۔
بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی نظر رکھیں۔ یہ ضرور دیکھے کہ وہ کس عمر کے لوگوں کے ساتھ دوستی کر رہے ہیں اور اپنے سوشل میڈیا میں کس طرح کا مواد اپلوڈ کر رہے ہیں۔ اور ضرورت کے مطابق اس حوالے سے ان کی تربیت اور رہنمائی بھی کریں۔ انھیں اس بات کی وضاحت کریں کہ حددود میں رہنا کیوں ضروری ہے اور اگر نہ رہا جائے تو کس طرح کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“