“ماوٗنٹ ایورسٹ دنیا میں سب سے اونچی ہے چوٹی اور سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہے۔”
دلائل و منطق، لچھے دار الفاظ، بلند آواز میں چیخ و پکار یا پھر طنز و مزاح جتنا بھی کر لیں، اس جملے کے ٹھیک یا غلط ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آج اگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو لوگ حیرت کا اظہار کریں گے لیکن ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ فیکٹ کا لفظ دنیا کی کسی لغت میں شامل نہیں ہوا تھا۔
فیکٹ کے لفظ کا قریب قریب ترجمہ اردو میں سچائی یا حقیقت کے طور پر شاید کیا جا سکے لیکن یہ اس کے اصل معنی نہیں۔ لاطینی، یونانی یا کسی بھی قدیم زبان میں اس کا ہم معنی لفظ نہیں پایا جاتا۔ یہ لفظ خود انگریزی میں پرانا نہیں۔ یہ شروع میں قانون اور انصاف کے نظام میں استعمال ہوتا تھا۔ قدرتی دنیا کو سمجھنے کے لئے اس کا زیادہ استعمال اٹھارہویں صدی میں نظر آنا شروع ہوا۔ پھر اس قسم کے جملے مقبول ہونا شروع ہوئے، “فیکٹ بڑی ضدی شے ہیں”۔ “فیکٹ دلائل سے کہیں زیادہ وزنی ہیں”۔ “ایک فیکٹ تمام فکشن کا بیڑا غرق کر دیتا ہے”۔
قرونِ وسطیٰ میں مناظرے عام تھے۔ یہ تصور تھا کہ بحث و مباحثہ، دلائل و منظق سے ہی دنیا کو سمجھا جا سکتا ہے۔ سائنسی انقلاب نے قدرتی دنیا کو جاننے کے لئے فلسفیوں کے اس طریقے کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ ذخیرہ الفاظ میں اس لفظ کا اضافہ بدلتی دنیا کے اس دور کی پیداوار ہے۔
فیکٹ اور سائنس کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ سائنس کا خام مال ہیں۔ یہ سچ یا جھوٹ نہیں ہوتے۔ یہ بس ہوتے ہیں۔ ان کو جانا جا سکتا جانچا جا سکتا ہے۔ ان کا تعلق کسی کے ذاتی تجربے سے نہیں۔
ماونٹ ایورسٹ کی دریافت کا سفر لمبا ہے۔ 1855 میں حکومتِ برطانیہ کی طرف سے کئے گئے ٹرگنومیٹرک سروے میں اس کی اونچائی پہلی بار نکالی گئی۔ اس سروے میں اس کی اونچائی 29002 فٹ نکلی۔ اس کو پیک 15 کا نام دیا گیا۔ اس سے دس برس بعد رائل جیوگرافک سوسائٹی نے اس کا نام ماوٗنٹ ایورسٹ رکھا۔ یہ کہنا کہ ماوٗنٹ ایورسٹ کی چوٹی برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس چوٹی کی دریافت، پیمائش کے طریقے اور نام سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہمارے لئے بروٹ فیکٹ ہے لیکن اس تک پہنچے پہنچے تصورات اور دریافت کے سفر کو عرصہ لگا تھا۔ یہ سب عمل بس پس منظر میں ہی ہے۔ اس تمام سفر کو ایک فقرے میں سمیٹا جا سکتا ہے۔
آج 29 مارچ 2019 ہے۔ یہ فیکٹ ہے جس پر گریگورین کیلنڈر اپنانے والے اتفاق رکھتے ہیں (جولین کیلنڈر میں آج 17 مارچ ہے)۔ 1 جنوری سے 24 مارچ 1752 دنیا کے کیلنڈر میں موجود نہیں کیونکہ اس وقت دنیا کا کیلنڈر بدلا گیا تھا اور اس پر سب نے اتفاق کر لیا۔ جولین کیلنڈر سے گریگورین پر منتقل ہوتے وقت گیارہ دن غائب ہو گئے تھے۔ اس کو فیکٹ ماننے کے لئے ان تمام بنیادی چیزوں کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
یہ گھر میری ملکیت ہے یا پھر یہ ایک ہزار روپے کا نوٹ ہے۔ یہ فیکٹ ہے کیونکہ اداراتی طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
جن طریقے سے ہم فیکٹس کو قائم کر لیتے ہیں، وہ ٹیکنالوجیکل اور سوشل پراسس قرونِ وسطیٰ میں موجود نہ تھے۔ ان کے تسلیم کرنے کا تصور نہ تھا۔ ہم تسلیم کر چکے کہ پہاڑوں کی اونچائی سطح سمندر سے ناپی جائے گی۔ ہم تسلیم کر چکے کہ دنیا بھر کی ہر چوٹی کی بلندی سے ہم واقف ہیں اور یہ بھی تسلیم کر لیا کہ ان کی بلندی کی پیمائش کا قابلِ بھروسہ طریقہ موجود ہے۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اتنی بلندی پر چوٹی پر سارا سال برف رہتی ہے۔ (قرونِ وسطیٰ میں اس آئیڈیا کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی بلکہ ایک مقبول خیال کے مطابق سمندر زمین سے زیادہ اونچا تھا جبکہ دنیا کا بڑا حصہ ابھی دریافت ہی نہیں ہوا تھا)۔
مجھے اپنی تاریخِ پیدائش کا علم ہے۔ میرے والدین نے بتایا تھا۔ تعلیمی اسناد پر ہے، پاسپورٹ پر لکھا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس پر ہے۔ کئی طرح کے سرکاری ریکارڈ میں ہے۔ اگر کل سٹروک سے یادداشت چلی بھی جائے تو ان کی وجہ سے یہ پھر بھی محفوظ رہے گا۔ میری جولائی میں پیدائش ایک فیکٹ ہے۔
اگر گلیلیو کی کتاب “دنیا کے دو بڑے نظاموں کے درمیان مکالمہ” کو پڑھا جائے تو اس میں گرتے جسموں کی رفتار کو ناپا نہیں گیا۔ بازو سے پیمائش کا ذکر ہے۔ اس وجہ سے جب ان کی کتاب کو مرسین نے پرکھا تو اپنے بازو کو استعمال کیا۔ نتائج مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ سترہویں صدی میں وہ ٹول موجود نہیں تھے جن کی وجہ سے فیکٹ قائم کئے جا سکتے۔ گلیلیو نے اپنی کتاب ڈرامے کے انداز میں لکھی ہے۔
آج کی دنیا میں ہم مسلسل فیکٹ قائم کر رہے ہیں۔ ڈاک میں بھیجے جانے والے پیکٹ کا وزن کتنے گرام ہے۔ پچھلے مہینے بجلی کے کتنے یونٹ استعمال کئے۔ بینک میں کتنے پیسے ڈالے اور کتنے نکالے۔ شہر کی آبادی کتنی ہے۔
اس جدت لانے میں ایک بڑا کردار ریاستی نظام کا تھا اور معیشت کا۔ ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کا، سٹاک مارکیٹ میں حصص کا کاروبار کرنے والوں کا، نفع اور نقصان کے کھاتے بنانے والوں کا۔ ڈبل انٹری اکاونٹ کیپنگ کا۔ جس پر رائل سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ولیم پیری نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہمارے پاس وہ چیز ہے جو تاریخ میں کسی کے پاس پہلے کبھی نہیں رہی۔ ٹھیک ٹھیک اعداد اور شماریات۔”
ان کو قائم کرنے کا طریقہ ہے۔ یہ کلچرل یا سبجیکٹو نہیں۔ ماوٗنٹ ایورسٹ 1865 پہلے بھی اونچی تھی اور برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس کو ڈھونڈنے، نام رکھنے اور پیمائش کرنے کے سفر میں بس اس کو تسلیم کر لیا گیا۔
اس لفظ کے قانون سے سائنس کی طرف سفر نے نیچرل دنیا کو مناظروں اور مباحثوں کے طریقے سے سمجھنے والے فلسفیوں کو ماضی کا حصہ بنا دیا۔ فلسفہ اور سائنس آگے بڑھ گئے۔
ڈیلا بونا جیسے “سائنسدانوں” کی مقبول کتابیں جن میں لہسن سے مقناطیسیت چلی جاتی تھی، ہیرے کو توڑنے سے پہلے بکری کے خون میں نہلا کر نرم کرنا ضروری تھا، بھیڑیے کی کھال ہلانے سے قریب رکھے بھیڑوں کی ڈرم کے کھال میں خاموشی چھا جاتی تھی؛ ان کا دور اختتام پذیر تھا۔ ڈیلا بونا کے “جادو کے طریقے” جیسی کتاب صرف اب کوئی اس لئے دیکھتا ہے کہ وہ دور بھی تھا جب ان کو بھی پڑھا جاتا تھا۔ یا پھر یہ کہ “لکھتے وقت یہ صاحب کیا واقعی سنجیدہ تھے؟”۔ یہ دور اتنا پرانا نہیں۔