فیس بک پر مردانہ بڑھکیں مارتے "مردوں" کے نام
(صرف ذہنی بالغوں کے لیے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔
مردانہ (پدرسری) معاشرے میں پلنے بڑھنے والے لڑکوں کو ایک وہم شدت سے لاحق ہو جاتا ہے۔ کہ انسانی معاشرے میں عزت و ذلت کا معیار محض اور محض "شیو لنگ" ہی ہے۔ اس کے اثرات انکی زندگیوں پر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے عطا کردہ اس "عظمت و بڑائی" کی حفاظت کے لیے وہ ہر انتہا پر جانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
انکی اسی کمزوری کا فائدہ سڑکوں پر سانڈے کا تیل بیچتے سوداگر اٹھاتے ہیں اور اپنی روزی کھری کرتے ہیں۔ جنس مخالف (یا موافق) کو متاثر کرنے کے لیے ان کے پاس ایک ہی حربہ ہوتا ہے اور انکے خیال میں اگر وہ اپنی "مردانہ برتری" ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو زندگی کے باقی سارے سال بلی مری ہی رہے گی۔ اور وہ ازدواجی راج سنگھاسن پر بیٹھے مورچھل سے پرسن ہوتے رہیں گے۔ اور "کنیز" انکے لیے دیسی گھی کے حلوے تڑکا تڑکا لاتی رہے گی۔
جبکہ حقیقت ان پر ازدواجی ہما ہمی کے کچھ ہفتے بعد کھلتی ہے۔ بالکل لطیفے کے اس فوجی کرنل کے جوانوں کی طرح۔ جنگ عظیم دوئم میں ایک بٹالین کے کرنل کے بارے مشہور تھا کہ اس کو سخت جوان اور کرخت فوجی جونیرز بہت پسند آتے ہیں کہ وہ صنف نرم کی بجائے صنف کرخت کا ذوق رکھتا ہے۔ جو فوجی جوان بھی کرنل کے خیمے میں بلایا جاتا، وہ واپس آ کر اپنی "مردانہ کارروائی" کا بڑھا چڑھا کر قصہ بیان کرتا۔ اور یار لوگوں کو بتاتا کہ کیسے کرنل ایک نوخیز دوشیزہ کی طرح اس کے قدموں میں آن پڑا۔ ان میں سے ایک نوجوان فوجی بے چینی سے اپنے بلاوے کے انتظار میں تھا کہ ایک دن وہ مبارک ساعت آ ہی گئی۔ فوجی خیمے میں گھسا اور کرنل کو ایسے دیکھنے لگا جیسے ایک "کرخت مرد" دوشیزہ کو دیکھتا ہے۔ تس پر کرنل نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا، دیوار کی طرف منہ کر لو، اس کھیل میں دوشیزہ تم ہو۔ فوج میں چونکہ انکار کی گنجائش نہیں ہوتی، نوجوان نے گھومتے مگر گھگھیاتے ہوئے کہا،تت ۔۔ تو ۔ ۔ تو وہ سب جو جوان باہر بٹالین میں بتاتے ہیں وہ کیا ہے؟ ہا ہا ہا کرنل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، تو تمہارا کیا خیال ہے، تم صبح باہر جا کر کیا بتاؤ گے؟ (لطیفہ ختم ہوا، نہیں سمجھ آیا تو آپ کے لیے نہیں تھا)۔
خیر ہمارے پدرسری لڑکوں پر بھی جب یہ حقیقت کھلتی ہے کہ انکی زندگی میں آنے والے "کرنل" پر کاٹھی ڈالنا مشکل ہے تو "باہر" اپنے دوستوں میں جا کر اپنی مردانگی کے قصے گھڑنا شروع کردیتے ہیں اور یوں سب کو پتہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرے کو کہتا بھی نہیں۔
ایسے ہی "کرنیلی ظلم" کے شکار پدرسری عظمت کے داعی محفلوں میں مردانہ جگتوں سے دوسروں پر واضح کرتے رہتے ہیں کہ ان سے بڑا "مرد" غالباً سورج نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ اور یہ کہ انکو صنف "کرنل" کی رگ رگ چھیڑ کر بجانے میں ملکہ حاصل ہے۔ اسکی ایک واضح مثال سوشل میڈیا جگتوں میں عورت کے حوالے انکے بڑھکیں ہیں جو جگتوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ ہر بات میں یہ یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے مردانگی، جنسیت، شیو لنگ، اور کاما سترا کا جو اپیوگ انہوں نے کر ڈالا ہے، اس کے بعد کسی کے بس کی بات نہیں۔ جبکہ حقیقت میں انکی نصف "رازدار" ، ہم ہنس دیے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا، کی تصویر بنی رہتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“