فیس بک کےادب تک
———————
جو رسالے ایک ایک کرکے سکتیؑ حالات کے سامنے دم توڑ گےؑ وہ تھے جو ادب اور شاعری سے معشرے میں فکری ہم آہنگی اوراعلیٰ انسانی قدروں کے عالمی شعورکو فروغ دے سکتے تھے۔ شاید یہی ان کا جرم گردانا گیا۔ سقراط کا جرم صرف سچ بولنا نہیں تھا وہ کہتا تھا اسے پھیلاو۔ تو اسے زہر پینا پڑا۔ آپ کی ریاست آج بھی سچ بولنے کی سزا دیتی ہے ان کی جگہ ڈایؑجسٹ لاےؑ گےؑ ۔ڈایؑجسٹ کا مطلب ہے ہاضمہ ۔۔ وہ تحریر جس کو عام ادمی کا ذہہن کسی فکری مشقت کے بغیر ہضم کرلے۔ اس میں صرف تفریح تھی۔ مقصدیت کا فقدان تھا۔ ادب کی اعلیٰ اقدار اور زبان و بیان کی تربیت کرنے والے رسالے بند ہوگےؑ۔
کمرشل فکشن نے فلم کی طرح ناا اسودہ خواب دکھانے کیلۓ ٹی وی تک رسایؑ حاصل کرلی ۔ وہاں صارف اہم تھا، صارف عورت تھی۔ مرد کماتا تھا عورت خرچ کرتی تھی ، طبعا" خوب پرست عورت کو اس کے خواب دے دےؑ گےؑ۔ہیروییؑن جیسا عشق دھوم دھام کی شادی ۔۔ عالی شان خوابوں کا محل۔۔بیش قیمت ملبوس اور زیور۔۔ احمق فرمانبردار شوہر۔۔ سسرالی طاقتوں کی شکست۔۔مرد فاتح ہے۔۔ رشتہ دیکھے نہ احترام جانے اور عاشق ہوجاےؑ ۔پورن ففلموں میں بھی پرفارمر۔ ایکشن میں بھی فاتح۔ بالادستی کا نقیب۔۔ وہ ٹی وی ڈراما نہیں دیکھتا۔ خبریں اور تجزیہ اس لےؑ دیکھتا ہے کہ ذہنی بالادستی کا یقین بھی قایم رہے
اب ادب عالیہ لکھنے پڑھنے والوں کیلےؑ تسکین ذوق اور بقا کا نیا زریعہ کتابی سلسلے ہوگےؑ۔۔ تین چار ماہ میں کچھ افسانے۔ تحقیقی مقالے اور شاعری مل ہی جاتی تھی۔ لکھنے والا بھی تو مجبور تھا کہ کسے پڑھواےؑ اور کیسے ۔۔شوقین ناشر ایڈیٹر نے طباعتی لاگت پوری کی اور پرچے چند بکے ورنہ لکھنے والوں میں اعزازی تقسیم ہو گےؑ ۔ عام اسٹال والا تو رکھتا نہیں کیونکہ لاگت بھی بڑھتے بڑھتے 600 سے 800 تک جا پہنچی تھی
ایسے میں فیس بک کا ظہور ہوا۔۔؎ پیو کہ مفت لگادی ہے خون دل کی سبیل۔۔ گراں ہے اب جو مےؑ لالہ فام۔۔۔تو غم کیسا۔۔ لیکن یہ ہنوز طے ہونا باقی ہے کہ اس کے فوایدؑ زیادہ ہیں یا نقصانات۔۔ یہ لکھنے والوں کا ہاییؑد پارک بن گیا ہے۔۔ وہ پبلک ٹرانسپورٹ جس میں اشراف اور عوام ۔۔ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے پونے پر مجبور ہیں۔۔ گنتی کے چند شعرا کی اناپرستی انہیں جلسہؑ عام میں انے سے روکتی ہے ورنہ یہاں کون نہیں۔۔ افسانوں کی درجنوں محفلیں سج گیؑ ہیں۔۔ سنجہدہ موضوعات کی ویب سایؑٹس بھی کامیاب ہیں نو وارد کی تخلیق کو ایڈیٹر ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈال سکتا۔۔پھر بھی وہ شکہ کناں ضرور ہیں کہ سکہ بند ادب کے ٹھیکے دار ان کی حوسلہ شکنی کرتے ہیں۔۔ نہ لکنے ولوں کا کال رہا نہپڑھنے والوں کا۔۔لکھنے والے اورقاری دنیا بھر میں ایک ہی جگہ آگےؑ ہیں۔۔ ادب عالیہ جو گرانی یا نایابی کے سبب دسترس میں نہ رہا تھا پی ڈٌ ایف ایف پر آپ کے نیٹ پر حاجر ہے۔۔مثلا" مکمل قرۃالعین حیدر۔۔۔ دنیا کی ہر لاییؑبری۔۔ پڑھو جتنی ہمت ہے۔ فواید کی نہ حد ہے نہ حساب
تاہم نقصانات کا شمار ہے۔۔۔۔ ۔شاعری کیا ہے ۔ افسانہ کیا اور ناول کیا۔۔ یہ فرق سمجھے اور جانے بغیر سب میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔۔ فحش لکنے والے منٹو بن گےؑ، دو تین کلو کی لو اسٹوری ناول ہوگیؑ۔۔ ماییؑکروف ایجاد ہوا۔۔ سو لفظوں کی کہانی میں ایک نام معتبر ہوا تو دس نے "ایجاد بندہ اگرچہ گندہ" ادب میں تہلکہ خیز تجربہ، نوے ،،پچاس یا دس الفاظ میں افسانہ لکھ کر کیا۔۔خیر۔۔ کسی برے شوق سے یہی اچھا ہے۔۔ شاعری کا احوال لکھتے ہوےؑ ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔۔ہمارے سوشل سیٹ اپ میں شاعر سمجھتا ہے کہ اسکی (—) میں سرخاب کا پر لگ گیا ہے۔۔ ضرور سمجھے۔۔ مگرایک تو طلؐم ہوا غالب و اقبال اور فیض و فراز پر کہ ان سے وہ اشعار منسوب ہوےؑ کہ قانون اجازت دے تو شاید میں ان کفن چور شعرا کا قتل عام کردوں۔۔ دوسرے آزاد شاعری تو پہلے بھی تھی۔۔ اب مادر پدر آزاد شاعری بھی ہوتی ہے۔۔ کچھ ایسے ہیں کہ ایک انڈا روز والی فارمی مرغی کی طرح بس ایک شعر روز کہہ کے داغ دیتے ہیں۔ پوری غزل میں تو بواسیر ہوجاےؑ انہیں۔۔غضب یہ ہے کہ تالیاں پیٹنے والے ؎ ایک ڈھوندو ہزار ملتے ہیں۔۔خصوصا شاعرات کو۔۔ بعض کی پورٹ فولیو پکچر بھی ایسی ہوتی ہے کہ ۔۔۔
میرا خیال ہے کہ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہونے کیلےؑ اتنا کافی ہے۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔