ایگزیکٹو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل عدلیہ کے اختیارات اور جوڈیشل ایکٹو ازم کے حوالے سے بحث زوروں پر ہے۔ ہمارے ہاں جوڈیشل ایکٹوازم یعنی اعلیٰ عدالتوں کے فعال انداز میں مفاد عامہ کے تحت مختلف واقعات کے ازخود نوٹس لینے اوران کی تیز رفتار سماعت کے حوالے سے ایک حلقہ تحفظات رکھتا ہے۔ اس جوڈیشل ایکٹوازم کے حامی بھی کم نہیں، جن کے پاس اپنے دلائل اور مختلف ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔یہ بحثیں سابق چیف جسٹس افتخارچودھری کے دور میں عروج پر پہنچ گئی تھیں،ان دنوں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف زرداری صدر پاکستان تھے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے پر بڑے تلملاتے اور نت نئے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ پیپلزپارٹی والے افتخار چودھری صاحب سے کسی بھی صورت میں جان چھڑانا چاہتے تھے۔وفاقی آئینی سپریم کورٹ کی تجویز اسی لئے سامنے آئی ، یعنی دو سپریم کورٹ تشکیل پائیں، ایک صرف آئینی نوعیت کے کیسز سنے جبکہ دوسری سپریم کورٹ روٹین کے معاملات دیکھے۔ اس طرح دو چیف جسٹس آف پاکستان بنانے پڑتے۔یہ بیل منڈھے نہ چڑھ پائی اور زرداری حکومت نے اسی تلملاہٹ اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ اپنے پانچ سال پورے کئے ، وزیراعظم گیلانی تو سوئس عدالتوں کو خط نہ لکھنے کی پاداش میںاپنے عہدے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ مزے کی بات ہے کہ اس تمام عرصے میں میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن اس جوڈیشل ایکٹوازم کی حامی رہی۔ن لیگی رہنما اور کارکن ہمیشہ افتخار چودھری کی حمایت کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی تنقید کو ناروا اور غلط قرار دیتے رہے۔میمو گیٹ کیس میں میاں نواز شریف خود کالا کوٹ پہن کرعدالت پہنچ گئے اور خود کو ایک طرح سے وکیل قرار دیا۔صحافتی حلقوں میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ یہ کیس عدالت میں لے جانے کے لئے میاںصاحب سے پہلے عمران خان کو ”پیش “کیا گیا ، مگر خان صاحب نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ ترنت ملک سے باہر بھی چلے گئے تاکہ دباﺅ نہ ڈالا جا سکے۔ میاں نواز شریف آج میمو گیٹ والی اپنی غلطی پر پچھتاتے ہیں۔ ممکن ہے انہیں تاریخ کو ریورس کرنے کا اختیار ملے تو وہ میمو گیٹ کیس کو عدالت لے کر نہ جائیں۔ ویسے تو اگر یہ افسانوی سا اختیار مل جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ افتخار چودھری صاحب کی بحالی کی کوشش بھی نہ کریں اور زرداری صاحب کے ہم نوا بن جائیں۔ خیر ایسا تو صرف سٹار پلس کے ڈراموں میں ہوسکتا ہے، عملی زندگی میںاپنے ہر فیصلے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
بات جوڈیشل ایکٹوازم کی ہو رہی تھی، اس سے کوئی بھی اختلاف یا اس تصور پر تنقید کر سکتا ہے، مگر یاد رہے کہ عدلیہ ہمیشہ کسی خلا میں قدم رکھتی ہے۔ اگر ایگزیکٹو یعنی انتظامیہ اپنا کام اچھے طریقے سے کرے تو کسی دوسرے ادارے کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کا بوجھ بھی اپنے کاندھوں پر لے ۔کسی بھی ریاست کے تین بنیادی ستون مقننہ(پارلیمنٹ)،عدلیہ (جوڈیشری)اور انتظامیہ (ایگزیکٹویا گورنمنٹ) ہیں۔ مقننہ کا کام قانون بنانا، انتظامیہ کا ان پر عمل درآمد کرانا جبکہ عدلیہ کی ذمہ داری قوانین کی تعبیر وتشریح ہے۔ ماڈرن پولیٹیکل سائنس کے ماہرین نے میڈیا کو چوتھا ستون قرار دیا ہے جواظہار رائے کو ممکن اور یقینی بناتا ہے۔ میڈیا واقعات کو غیر جانبداری اور سچائی سے بیان کرتا اور عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض تجزیہ کار مڈل ایسٹ میں عراق، لبیا،یمن وغیرہ کی تباہی کے بعد ریاست کے دو اور غیر رسمی ستون بھی گنواتے ہیں، معیشت اور فوج۔ فوج ویسے تو حکومت کے ماتحت تصور ہوتی ہے، پاکستانی آئین کے مطابق بھی ایسا ہی ہے، مگر جہاں جمہوریت مضبوط نہ ہوپائے یا سیاستدان پرفارم نہ کر سکیں ، وہاں خود بخود فوج کچھ زیادہ سپیس لے لیتی ہے۔ ویسے زمانہ جنگ میں تو امریکہ جیسی سپرپاور اور بھارت جیسی بزعم خود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ میں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس قدر طاقتور ہے کہ منتخب سویلین حکومتیں چاہنے کے باوجود بڑے بنیادی فیصلے نہیں کر پاتیں۔ معیشت جس قدر مضبوط ہوگی، اتنا وہ سماج ایک دوسرے سے جڑا ہوا اور خوشحال ہوگا۔ کمزور معیشت سے جمہوریت اور جمہوری ادارے بھی کمزور پڑ جاتے ہیں۔
ایگزیکٹو کا کردار سب سے اہم ہے، اس نے آئین پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔ وہ انصاف فراہم کرتی ہے۔قوم کو جان ، مال اور عزت کا تحفظ اسی ایگزیکٹو یعنی حکومت نے ممکن بنانا ہے۔ اسی نے قیمتوں پر کنٹرول کا نظام وضع کرنا، جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی اور تیز رفتار انصاف کی فراہمی کے لئے کام کرنا ہے۔اسی ایگزیکٹو یعنی حکومت کی کارکردگی ناپنے کے لئے ماہرین نے پانچ چھ مختلف اصول بنائے ہیں۔ سب سے اہم رول آف لا یعنی قانون کی حکمرانی ہے۔ قانون سے بالاتر کوئی نہیں ، ہر ایک پر قوانین، ضوابط کا اطلاق ہو۔ میرٹوکریسی یعنی میرٹ پر منصب دئیے جائیں۔ نالائق سیاسی وفاداری اور تعلقات کی بنا پر نوازا نہ جائے اور اہل غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے مسترد یانظراندازنہ ہو۔ ٹرانسپرینسی، ہر معاملے میں شفافیت ہو۔ اہم عہدوں پر تقرری، میگا پراجیکٹ، ترقیاتی منصوبوں وغیرہ میں کوئی گڑبڑ یا مشکوک چیز نہ کی جائے۔ اکاﺅنٹیبلٹی یعنی احتساب ایک اور اہم عنصر ہے۔ کرپٹ عناصر کا سختی سے محاسبہ اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ۔آخر میں بڑی اہمیت کا حامل کام ہے نچلی سطح پر عوام کی شمولیت۔ اس مقصد کے لئے دنیا بھر میں بڑے سوچ بچار کے بعد بلدیاتی نظام وضع کیا گیا ،مقامی حکومتوں کی اصطلاح بنائی گئی۔یونین کونسل، تحصیل، ضلع کی سطح پر لوگوں کے مسائل حل ہوں، ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ ہوں اور عام آدمی گلی محلے کی سطح پر اپنے کام کرا سکے۔
جب ایگزیکٹو ایسا نہ کرپائے، اسمبلیاں اپنے ہی منتخب کردہ وزیراعظم، وزراعلیٰ کو گڈ گورننس کے لئے مجبور نہ کر پائیں تو ایسے میں جو خلا پیدا ہوگا، اس میں کسی نے کسی نے قدم رکھنا ہے۔ جب عوامی مسائل حد سے بڑھ جائے، میرٹ کی دھجیاں اڑا دی جائیں ، اپنے من پسند لوگ پرکشش عہدوں پر فائز کر دئیے جائیں ، تب اس تباہ حال صورتحال کو سنبھالنے کے لئے کوئی توآئے گا۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کے کسی بیان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ انہوں نے جو کام کئے ، ان سے عام آدمی کو ریلیف مل رہا ہے۔ کئی ایسے کام ہیں جو ان کے کرنے کے نہیں ہیں، مگر انہیں مجبوراً کرنے پڑ رہے ہیں۔وائس چانسلرز کی تقرری کے معاملات دیکھنا ظاہر ہے عدالت کی ذمہ داری نہیں، لیکن اگرصوبائی حکومتیں اس کام کے لئے نمائشی قسم کی سرچ کمیٹیاں بنائیں، پہلے سے طے ہو کہ کسے لگانا ہے تو لوگ ریلیف کے لئے سپریم کورٹ ہی کی طرف دیکھیں گے۔ پنجاب میںصاف پانی سمیت پچاس سے زائدپرائیویٹ کمپنیوں کے نام پر جو بدترین لوٹ مار ہوئی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ گریڈ اٹھارہ کے افسروں کو چودہ ، سولہ، سترہ لاکھ لاکھ معاوضوں پر لگا دیا گیا، صوبائی وزیروں کی بیویوں اور بھائی، بہنوں تک کو ان کمپنیوں کا حصہ بنایا جائے، تب کوئی ان کا کیسے دفاع کر سکتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم کے ہم اس لئے حامی بنے کہ اپنی آنکھوں سے منتخب حکومتوں کو تباہی مچاتے، اصول وضوابط کے پرخچے اڑاتے دیکھ رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے پنجاب کی گورننس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ۔ چودھری پرویز الٰہی بھی اوسط درجے یا کچھ زیادہ اہلیت کے وزیراعلیٰ تھے، مگر خادم پنجاب کی کارکردگی دیکھ کر چودھری صاحب بہت بہتر لگنے لگتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر کو خادم پنجاب نے صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلط کئے رکھا، حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے آنجناب سے پنجاب یونیورسٹی کو محفوظ بنایا۔ یہی حال کئی اور یونیورسٹیوں کا ہے۔ ادھر اہم ہسپتالوں کے متعدد ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس کے تقرر بھی نہیں ہو پا رہے۔ دراصل یہ میاں شہباز شریف کا مخصوص سٹائل ہے کہ کسی اہل اور دیانت دار شخص کو میرٹ پر تعینات کرنے کے بجائے اس سیٹ پرجونیئر، کم صلاحیت رکھنے والاافسر قائم مقام کی حیثیت سے لگادیتے ہیں ، جو برسوں تک وہیں پر کام کرتا رہتا اور صلہ میں خادم پنجاب سے ذاتی وفاداری نبھاتا ہے۔ یہ وہ حربے اور تکنیکس ہیں جن کی وجہ سے ن لیگ کی قیادت پر سیاسی مافیا ہونے کا الزام لگتا ہے۔ تب ن لیگی وفادار لکھاری اور ان کے پرجوش حامی برہم ہوتے ہیں۔غصہ کرنے کے بجائے انہیں اپنی قیادت پر اخلاقی دباﺅ ڈالنا چاہیے کہ وہ قوانین کی پابندی کرتے ہوئے پرفارم کریں۔ جب ایگزیکٹو کام کرے اور خلا موجود نہ ہو تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ کوئی چاہے ، تب بھی اس کے لئے گنجائش موجود نہیں رہتی۔ مین سٹریم میڈیااور سوشل میڈیا پرعدلیہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانے کے بجائے تمام تر توجہ پرفارمنس پر دینی چاہیے۔ اگرچہ بہت نقصان ہوچکا ہے، مگر کچھ نہ کچھ تلافی ممکن ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔