گاہے گاہے اٹھنے والی درد کی وہ لہر اب ایک متلاطم دریا کا روپ دھار چکی تھی۔ وہ دریا جو پل میں بپھرتا اور پل میں شانت ہو جاتا۔بپھرتا تو ایسے کہ اس کی سانسوں کا تانا بانا اکھاڑنے کے در پے ہوجاتا اور تھمتاتو یوں جیسے پتھرا کر جامد ہوگیا ہو ۔ درد کی شدت نے اس کے سوچنے کی قوت اور فرصت چھین لی تھی ۔ کائنات اور اس کے نوع بنوع مظاہر اِس وقت اُس کے لئے اپنی معنویت اور موجودگی کھو چکے تھے ۔ کچھ موجود تھا تو وہ ہیلتھ کئیر سینٹر کا یہ کیبن تھا جو لحظہ بہ لحظہ اس کے وجود کو نگلتا جارہاتھا ۔
وقفے وقفے سے جسم میں ایسی اینٹھن اٹھتی کہ وہ ادھ موئی ہو کر ایک طرف لڑھک جاتی ۔ دیر بعد جب آنکھیں کھول کر ذرا سنبھالا لینے کی جد وجہد کرتی تو بدن پہ نقاہت کا ایسا قبضہ ہوتا کہ کوئی عضو ہِل کے نہ دیتا۔ ایک پل کو لگتا جیسے کمر کی ہڈی ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئی ہے اور اگلے لمحے اعضاء رئیسہ ایک ایک کر کے کٹتے اور اندر کسی کھائی میں گرتے محسوس ہوتے۔ اس نے جسم پر ابھری شبنمی پرت کا بار محسوس کیا لیکن کوشش کے باوجود ماتھے سے تری پونچھنے کی سکت نہ جٹا پائی۔ کُولھے کے اوپری حصے میں پھر ایک ٹیس اٹھی اور پورے وجود میں پھیل گئی۔ ضبط کا باندھ توڑ کرایک چیخ نکلی اور دیواروں سے منعکس ہوکر اس کے اپنے مغز سےٹکرائی۔ بے حال ہو کر وہ پھر ایک جانب ڈھے گئی ۔ خودکار میڈیکل بیڈ نے فوراً حرکت میں آکر پھر سے اسے سابقہ اور مطلوبہ پوزیشن پر بحال کر دیا۔
کیبن میں موجود روشنیوں کے تیز شیڈز اس کی آنکھوں میں، اس کی سرخ وسپید جلد میں ،اس کے ذہن میں اور اس کے تخئیل میں چُبھ رہے تھے۔ اور وہ بے بسی کے عالم میں آنکھیں موند ے برداشت کے بوجھ تلے پِسی جاتی تھی۔ درد کی شدت کچھ ڈھیل دیتی تو ہلکے سے وہ آنکھیں کھولتی اور دیکھتی کہ اس کے جسم کا ہر عضو کسی خودکار آلے کی زد پہ ہے ۔ کَوفت سے جھنجلا کر وہ دوبارہ آنکھیں موند لیتی۔ دیواروں میں نصب کیمرے اور سینسرز اَن گِنت زاویوں سے اس کی حرکات و سکنات اور دگرگوں حالت کو ریکارڈ کر رہے تھے ۔ بخار کا اتار چڑھاؤ، اعضا کی کارکردگی، فشارِ خون، ہارمونز کا تناسب، نسوں اور پٹھوں کا تناؤ، اورلمحہ بہ لمحہ بدلتی دیگر جسمانی کیفیات کی رواں معلومات مسلسل متعلقہ سکرینوں پر منعکس ہو رہی تھی۔ جوں ہی کسی سکرین پر کسی غیر متوقع یا قابلِ تشویش صورتِ حال کی الرٹ اُبھرتی ، مستعد عملہ اورمشینری فوراً ہنگامی پوزیشن میں آ جاتے۔
صورتِ حال اس روز بھی ہنگامی ہو گئی تھی جب سال بھر پہلے اسی ہیلتھ کئیر سینٹر کے فیملی پلاننگ سیکشن میں ایک عجیب و غریب درخواست موصول ہوئی تھی۔ سارا اور سمیر نے درخواست فارم مکمل کر کے جوں ہی’ سب مِٹ ‘ کے نشان پر کلک کیا ، ان کے سامنے تیز ی سے الرٹ لائٹ کوندی ۔اور اگلے ہی لمحے متعلقہ سیکشن کی ہرفعال سکرین پر آلارم کا نشان دکھائی دیا تھا۔
“نامناسب درخواست” سکرین پر تنبیہی نوٹ ابھرا تو لمحہ بھر کے لئے وہ دونوں سہم گئے ۔
لیکن پھر فوراًاپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے دونوں نے تقریباً بیک وقت اپنے اپنے کمپیوٹر پر اجاگر ‘ایڈِٹ باکس’ کو بند کر کے دوبارہ ‘سب مِٹ’ پہ کلک کر دیا۔
” ممکنہ طور پرقابلِ گرفت مواد” اس بار سکرین پر عیاں ہونے والی وارننگ لائٹ زیادہ سرخ تھی۔ دونوں نے مضبوط ارادے کے ساتھ ایک بار پھر درخواست واپس لینے یا کوئی تبدیلی کرنے کی بجائے فارم سب مٹ کرنے کا آپشن دبا دیا۔
اور پھر چشم زدن میں یہ خبر ہیلتھ کئیر سینٹر کی چار دیواری سے نکل کرپورے شہر کے حافظے کا حصہ ہو گئی کہ ایک انسانی جوڑے نے اپنا بچہ آپ اپنے جسم سے پیدا کرنے کے لئے انتظامیہ سےاجازت طلب کی ہے۔
روبوز اور انسان ہر دو کی رسمی اور غیر رسمی نشستوں میں اگلے کئی دنوں تک گفتگو کا سب سے بڑا موضوع یہی بنا رہا کہ آیا اس جوڑے کی یہ عجیب و غریب درخواست منظور ہو گی یا نہیں !؟ اور ہونی چاہئے یا نہیں !؟ اور اگر اسے مطلوبہ اجازت مل جاتی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے!؟
انسان اور اکثر جانوروں کے بچوں کی تخلیق کا رائج طریقہ یہ تھا کہ فرٹیلائیزیشن سے لیکر ابتدائی پرورش تک سارے مراحل پوری احتیاط، درستگی اورتحفظ کے ساتھ لیب میں سرانجام دیے جاتےتھے۔ اس عمل کے دوران کسی بھی مرحلے میں انسان کی جسمانی شمولیت درکار نہیں ہوتی تھی۔ ۔ اولاد کے خواہش مند کسی قریبی لیبارٹری یا ہیلتھ کئیر سینٹر میں رجسٹریشن کروا کر کسی بھی وقت اپنی مرضی کا ، طے شدہ خصوصیات کا حامل بچہ حاصل کر سکتے تھے ۔ اس کے لئے انھیں اپنی درخواست کے ساتھ مطلوبہ خصائل کی تفصیلات کا مکمل خاکہ ،لیب میں پیش کرنا ہوتا تھا ۔جنس، رنگ،قد، نین نقوش اور دیگر مطلوبہ خصوصیات میں سے کتنی ہو بہو دستیاب ہوں گی اور کتنے پہلووں پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا اس کا دارومدار جینیاتی ذخائر میں موجود مواد اورامیدوار والدین کی قوت خرید پر منحصر ہوتا تھا۔ بچے کی تخلیق عموماً مرکزی جینیاتی بینکس میں دستیاب بیضے اور سپرم سے ہی عملائی جاتی تھی لیکن جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے معمولی یا مکمل رد و بدل کی سہولت بھی مطالبے پر تقریباً ہر جگہ دستیاب تھی۔ مقامی جین پول میں مطلوبہ خصوصیات والے کروموسوم کی عدم موجودگی کی صورت میں دوسری جگہوں سے منگوائے جانے پر آنے والے اضافی خرچے کا بوجھ البتہ گراہک والدین کو سہنا ہوتا تھا۔ تمام بالغ شہری ہر پانچ سال میں ایک بار اپنا تولیدی م مادہ بینک میں ڈپازٹ کروانے کے لئے قانوناً پابند تھے ۔ ایسے والدین جو یہ چاہتے تھے کہ ان کی مجوزہ اولاد صرف اور صرف ان کے جنسی مواد سے تشکیل دی جائے انھیں اس کے لئے اضافی ٹیسٹس سے گزرنا پڑتا تھا تاکہ یہ یقینی کر لیا جائے کہ ان کے کرومسومز پوری طرح صحت مند اور جینیاتی نقائص سے پاک ہیں۔ کلوننگ سوائے کچھ مخصوص صنعنی یا تجارتی مصارف کے لگ بھگ متروک ہو چکی تھی۔ اولاد کے حصول کے لئے تو اس کا استعمال بالکل ممنوع تھا۔ ایسے افراد جو اولاد کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے تھے انھیں کچھ دوسری اضافی خدمات اور خانہ پریوں کے بعد اس کا بھی اختیار مل جاتا تھا۔
ایسے میں سارا اور اس کے شوہر سمیر کی یہ خواہش کہ وہ اپنا بچہ کی پیدائش کے لئے اپنا ذاتی جسم استعمال میں لائیں، عجیب و غریب تو تھی ہی اسے انتہائی احمقانہ بھی سمجھا گیا۔
” اٹکل پچوں طریقے سے ہونے والی فرٹیلائزیشن اور اس کے نتیجے میں بننے والا بچہ کیا جینیاتی نقائص سے پاک ہو گا؟” یہ سوال کئی مذاکروں میں زیرِ بحث رہا ۔
“ہمیں عہدِ عتیق میں نہیں مستقبل میں جانا ہو گا، اسی میں ترقی کی کلید ہے” ایک اخباری ایڈیٹوریل کا عنوان تھا۔
“کیا موجودہ انسانی جسم اس قدر مشقتیں اٹھا سکنے کا متحمل ہے؟ یا یہ اقدام خود کشی کے مترادف ہے؟” ایک مقامی نیوز پورٹل نے سرخی لگائی۔
“انسان ، جنگلی چوپایوں کے نقشِ قدم پہ!” سنسنی خیز موادکے لئے مشہور ایک ویب پورٹل نے ہوم پیج سجایا۔
ابتدائی رد و کد کے باوجود جب یہ جوڑا اپنی ضد پر اڑا رہا تو انھیں کونسلنگ کے سیشنس سے گزارا گیا۔ سارا کو اس عمل سے منسلک ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا گیا۔سائمو لیشنس کے ذریعے انھیں اس عمل کے تمام مراحل اور ان کی پیچیدگیاں دکھائی گئیں۔ اس مقصد سے خصوصی طور تیار کی گئی ایک فلم بھی سارا کو دکھائی گئی جس میں ایک ماں نو ماہ کی طویل مدت ہوش ربا اذیت سے گزرتی ہے اور بالآخر ایک لاغر سے بچے کو جنم دے کر اپنی جان کی بازی بھی ہار جاتی ہے۔ پرانے دستاویزی ریکارڈ اور اعدا و شمار کی مدد سے سمجھایا گیا کہ اپنے جسم کو تولیدی مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جانا جان لیوا ہو سکتا ہے ۔لیکن ان کے ارادے میں قطعاً کوئی تبدیلی نہ آئی۔دونوں کی برین سکیننگ کی گئی تاکہ معلوم ہو سکے کہ انھیں کہیں کوئی ذہنی یا نفسیاتی عارضہ تو لاحق نہیں۔
متعلقہ شعبہ جب انھیں اپنی درخواست واپس لینے پر راضی نہ کر سکا تو اس معاملے کو جمہوری طرز پر نِپٹانے کا فیصلہ لیا گیا ۔ ایکسپرٹس اور عوام کی رائے رکارڈ کی گئی ۔معاملے کے مختلف پہلووں پر غور وخوض کے لئے ورکشاپس کا انعقادکیا گیا۔انتظامیہ کی جانب سے ایک ریفرینڈم بھی کروایا گیا جس میں انسانوں کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں کے ماہرین روبوز اور کچھ تحقیقاتی مراکز کےتکنیکی عملے کو بھی رائے دینے کا برابر حق دیا گیا تھا۔ ماہرین کا ایک طبقہ اس سارے معاملے کو مصنوعی ذہانت اور روبو کلچر کے غلبے کے خلاف پنپتے احتجاجی رجحان کے ساتھ بھی جوڑ رہا تھا ۔ حتمی فیصلہ ٹاؤن کی مرکزی میڈیکل کونسل کو کرنا تھا جس کی گورننگ باڈی میں انسانوں کی تعداد اور قدر کچھ زیادہ تھی ۔
تین ماہ کی طویل مدت کے بعد جب سارا اور سمیر کی درخواست کچھ شرائط کے ساتھ قبول کر لی گئی تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ اس رات ان کے فلیٹ اورجسم و جاں میں مسلسل چراغاں رہا ۔
ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے اٹا انتالیس ہفتوں کا یہ طویل اور تھکا دینے والا سفر سارا نے محض اس فنتاسی کے سہارے تکمیل کو پہنچایا تھا جو ایک روز حقیقت کی صورت لے کر اس کی جھولی میں گرنے والی تھی۔ اس دوران وہ پوری طرح عہدِ وُسطیٰ کی کسی رومانٹک ماں کے رول میں ڈھل چکی تھی ۔ اپنے مضبوط ارادوں اور ممکنہ خطرات سے متعلق پیشگی آگاہی کےباوجودعملاً جب اس کا سامنا اس دشوار گزار وادی کی ہیبت ناکیوں سے ہوا تو وہ اس قدر ہراساں ہو گئی تھی کہ ایک بار تو پچھتاوے اور بے وقوفی کے بھاری احساس تلے دب کر وہ اپنا ارادہ ترک کرنے کے کگار تک پہنچ گئی تھی ۔ لیکن پھر سمیر کے ساتھ نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور وہ آگے بڑھتی گئی۔ اور اب اس پڑاؤ تک آ پہنچی تھی جہاں زندگی اپنی بقا کی تلاش میں مری جاتی تھی۔
اس کا بدن شل تھا اور ذہن ماؤف ۔ ماضی، حال،مستقبل، ساری منصوبہ بندی، سارےخواب، فنتاسی، نو ماہ کی پر تعیش اذیت، ا امیدبھری جدو جہد، سب کچھ اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا۔ اس کے ایک جانب اس کے ماضی کا لاشہ بے حس و حرکت پڑا تھا اور دوری طرف مستقبل کا بے جان ڈھانچہ اور وہ حال کے اژدہے کے جبڑوں میں پھنسی کسمسا رہی تھی جہاں سے آگے پیچھے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔
کم وبیش گھنٹہ بھر کے اس عرصے میں سیکڑوں بار اس کا وجود حیات و ممات کے دو متضاد لیکن لازم و ملزوم پاٹوں میں لخت لخت ہوا تھا۔کلاک کے مطابق بھلے ہی یہ وقت منٹوں اور ثانیوں کے حساب سے کٹاہو لیکن اس کے بھیتر کئی یگ گزر چکے تھے۔
طبی اعتبار سے اگرچہ ہر چیز نارمل چل رہی تھی۔تمام ا قداری اور مقداری سائمولیشنز میں مطلوبہ یکسانیت موجود تھی ، لیکن پھر بھی اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس ہونے کی وجہ سے تمام ڈاکٹرز، منتظمین ، روباکٹرز اور عوام ہلکی سی تشویش اور بے یقینی کا شکار تھے۔ سب کی نظریں سارا کی پل پل متغیر صورتِ حال کو درشاتی سکرینوں پہ جمی تھیں۔
بے بسی کی تصویر بنی وہ لگاتارپیڑھا کے سمندر میں ہچکولے کھائے جا رہی تھی ۔
یک بارگی اسے لگا جیسے کسی نے کسی بہت اونچے پہاڑ کی چوٹی تک لے جا کر ا سے نیچے گہری کھائی میں پھینک دیا ہو۔ لمحہ بھر کے لئے جیسے سب کچھ شانت ہو گیا ! اس کا وجود، اس کی سانسیں، اس کی دھڑکنیں،درد کا احساس ۔۔۔سب موقوف! کائنات گویا یک لخت بھڑک کر بجھ گئی ہو! ۔پھر اچانک ایک چیخ ابھری ۔۔۔شاید اس کے اپنے اندر سے ۔۔۔یا شایدکہیں باہر سے۔۔۔ اس کو اندازہ نہیں ہوا ،البتہ اس کا،اپنے زندہ ہونے کا یقین لوٹ آیا۔ تسکین کے ایک سائے نے، ہلکے سے، اس کے پورے وجود کو ڈھانپ لیا۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔ کسی نے تسکین کا وہ برہنہ سایہ اس کے عریاں سینے کے ساتھ چمٹا رکھا تھا۔
اوگزیٹوسین کا اچھال اس کے جسم میں اس قدر بڑھ گیا تھا کہ ساری سکرین ہری دکھائی پڑ رہی تھی۔ اگلے چند لمحوں میں فیملی پلاننگ سیکشن میں اپنا بچہ آ پ پیدا کرنے کی اجازت کے لئے ایک ارب سے زاید درخواستیں موصول ہو چکی تھیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...